ارم زہراء۔کراچی
وہ کیا امور ہیں جن کی وجہ سے تخلیق کار بقائے دوام کا تاج سجا کر شہرتِ عام کے دربار میں زرنگار مسند پر متمکن نظر آتا ہے، کن خصوصیات کی بناء پر وہ معاصرین سے ممتاز قرار پاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں لا تعداد لکھنے والے رزقِ ہوا ثابت ہوتے ہیں؟
میری نظر میں جتنی بڑی تخلیقی شخصیت ، اتنا ہی بڑا تخلیق کار، اتنا ہی بڑا ثر اور اتنی ہی تاثیر ۔ لیکن اسکے باوجود با صلاحیت تخلیق کاروں کی اکثریت خود کو منوانے میں ناکام رہی ہے جبکہ ایک جریدۂِ عالم پر اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا لیتا ہے۔ اور وہ نام ہے ڈاکٹر سلیم واحد سلیم۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم اپنے قلمی سفر کی ابتداء سے لے کر آخر ی سانس تک مملکتِ شعروسخن کی گلیوں کو اپنے فن کی خوشبو سے مہکاتے رہے۔
میں نے جب ان کی کلیات کا بغور مطالعہ کیا تو جانا کہ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم خاموشی سے اردو اد ب کی بیش بہا خدمات انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے بے حد لگن کے ساتھ اپنے جنوں کی کرشمی سازیوں سے بازار عقل کو روشن کی تدبیریں کی ہیں۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کے کلام میں داخلی اور خارجی رنگوں کی منظر کشی جمالیات کی ایک انوکھی چھب میں ڈھل کر ہمارے احساسات میں حزن و طرب اور نشاط و ملال کے گہرے تاثرات نقش کرتی ہے۔ ان کی شخصیت میں ہنگامہ خیزیاں اس قدر تہہ در تہہ ہیں کہ انکے اندر جھانکتے ہوئے سانسیں بے ترتیب ہونے لگتی ہیں۔ میری بساط ہی کیا میں تو ابھی نو واردانِ شہرِ ادب میں ہوں۔ اسے لئے ابتداء ہی سے اقرار کرتی چلوں میں اپنی مبتدیانہ نظر کی رسائی کے مطابق تاثرات تک محدود ہوں۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم پیدائش کے بعد ۱۱؍ برس تک ایران میں مقیم رہے ۔ اس لئے ان کو فارسی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا جبکہ اردو انگریزی، عربی ،پنجابی، کشمیری اور ہندی انھوں نے ہندوستان آکر سیکھیں۔ چونکہ فارسی آپ کی مادری زبان تھی اس لئے کلیات میں اردو غزلیات کے ساتھ فارسی کلام بھی نمایاں ہے۔ ساتھ ہی عقل کو حیران کردینے والی آپ کو کاوش ’’خیام بنام خیامِ نو‘‘ میں عمر خیام کی رباعیوں کا منظوم اردوترجمہ پڑھا۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے اپنی جدت طرازی اور فنّی مہارت سے عمر خیام کی شعری دنیا میں نئی جان ڈال دی ہے۔علاوہ ازیں آپ کی کاوشوں میں تزکِ جہانگیری و دیگر مشاہیر کی تخلیقات کے ترجمے بھی شامل ہیں جن میں شیکسپئر کے ڈرامے ہیملیٹ کے ایکٹ ۳ منظر ۴، رابرٹ فروسٹ ، ایملی دکنسن، ڈبلو۔ایم ۔ اوڈن، ماؤزے تنگ وغیرہم نظموں و مختلف زبانوں کے گیتوں کے منظوم تراجم شامل ہیں۔
ان کی یہ ہنگامہ زندگی کی آخری سانس تک جاری رہیں۔وہ جہاں اقتدار کے قلعہ کی فصیلوں پر کمند ڈالتے رہے وہیں اپنے محبوب کو لبھانے کے لیے تمام تر مروجہ اور غیر مروجہ ترکیبیں بھی آزماتے رہے۔ ساتھ ہی انقلاب کی لا طبقاتی نظام کی باتیں بھی کرتے رہے جس کا نتیجہ صدر ایوب کے آمرانہ دورِ حکومت کے خلاف معرکۃ الاراء نظم کی اشاعت کی صورت میں موجود ہے۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا اپنے نظریات و افکار، مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف قلمی جہاد ابھی جاری تھا کہ انھوں نے ناقابلِ فراموش آخری تحریر اپنے قدردانوں کے حوالے کر دی۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم رقم طراز ہیں ’’اگر بعض طنز نگاروں کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے کہ بہترین طنز آنسوؤں کے سرچشمے سے ابھرتا ہے تو کہنا بھی غلط نہیں کہ مسرت و سرخوشی کی تندو تیز لہریں غم کے سمندر سے ہی اٹھتی ہیں اور انسان کوشش سے غم کو خوشی میں بدل سکتا ہے۔ میں نے اپنی اسی بات کو سچ کرنے کے لیے عمر خیام کا یہ منظوم ترجمہ کیا ہے اوریہ ترجمہ اگر میری زندگی شاہدوشراب اور مطرب و ساقی سے کوسوں دور ہے۔‘‘ اور پھر اسی کشمکش کے دوران ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک دن اپنے چاہنے والوں کو اپنی پرماجرا یادوں کے انبوہ میں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔
انکی اس خواہش کی تکمیل کا سہرا ان کے صاحبزادہ مسلم سلیم کے سر جاتا ہے کہ چراغ سے چراغ جلنے کی روایت ادب کی ابتدائے آفرینش سے چلی آ رہی ہے۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے عمر خیام کی رباعیات کو اپنی فکری صلاحیت سے نئی تاثیر بخشی ہے جس کی بناء پر عمر خیام کی نہ سمجھ میں آنے والی شاعری کو نئی زندگی مل گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
عمر خیام
نیکی و بدی کہ در نہادِ بشر است
شادی و غمی کہ در قضا وقدر است
با چرغ مکن حوالہ کاندر رہِ عقل
چرغ از تو ہزار بار بیچارہ تر است
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم
نیکی و بدی ہستی کے دو رخ، آئینۂ دل کے اندر ہیں
آئینِ قضا و قدر یہاں کب سعیِ بشر سے باہر ہیں
یہ نکتہِ عقل وصداقت ہے انسان کے بس میں فطرت ہے
تقدیروقضا، تسلیم ورضا، عیاروں کے اپنے چکر ہیں
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا یقیناًیہ تخلیقی کارنامہ ہے۔قاری چاہے کسی بھی درجہ کا ہو اس کے لیے اس منظوم ترجمے کے سحر سے بچنا مشکل ہے۔ اسی طرح اگر میں ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی اردو غزلیات پر روشنی ڈالوں تو انکی شاعری نوجوان نسل کے لیے بے پناہ کشش رکھتی ہے۔
ہمارے لہجے میں گو تلخئِ حیات بھی تھی
مگر نظر میں محبت کی کائنات بھی تھی
حجابِ قربت و دوری اٹھے ہوئے سے تھے
تمھارے ہجر کی راتوں میں ایسی رات بھی تھی
سلگ سلگ کے ترے غم میں جل رہا ہوں میں
فنا کے سانچے میں چپ چاپ ڈھل رہا ہوں میں
کسے یہ ہوش کہ منزل کب آئے گی لیکن
ترے خیال میں گم ہو کے چل رہا ہوں میں
اسلوب کی جمالیات ، صوتی اور معنوی حسن کی حامل نئی دلکش تراکیب اور خیال کی مناسبت سے بحور کا انتخاب ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی شخصیت میں جمال پر مبنی ملتی ہے ان کی غزل بھی اس کا آئین قرار پاتی ہے۔
رخ سے کسی نے پردۂِ حائل ہٹا دیا
اب جز نگاہِ شوق کوئی درمیاں نہیں
مصروف سجدہ ہائے مسلسل ہے کیوں سلیم
یہ جلوہ گاہِ حشر ہے کوئے بتاں نہیں
فریبِ پیہم غرورِ محکم شرستِ سرمایہ دار میں ہے
علاج اس شیطنت کا محنت کشوں کے بھرپور وار میں ہے
یہ آسماں بوس قصر جن میں چراغ جلتے ہیں معصیت کے
مٹا کے رکھ دو انھیں کہ مدت سے وقت اس انتظار میں ہے
اردو، فارسی اور عربی ادب اور لسانیات کے عمیق مطالعے نے ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کو یہ اعجاز بھی عطا ء کیا ہے کہ ان کی تراشیدہ تراکیب بھرپور مفہوم اور تاثیر کے ساتھ قاری کو منتقل ہوتی ہیں۔جب وہ محبوبہ کو رام کرنے کے لیے قلم اٹھاتے ہیں تو ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ موم کی طرح پگھلتے محسوس ہوتے ہیں اور جب وہ ایک باغی کے قالب میں نمودار ہوتے ہیں تو شیخ و برہمن اور ان کے اتحادی اہل حکم کے سروں پر ان کے اشعار گرز بن کر برستے ہیں اور اتنے خوبصورت انداز میں کہ ہر رنگ اورکیفیت میں جمالیاتی عنصر ان کے اشعار میں امڈتا محسوس ہوتا ہے۔
خود فراموشی کی لے میں جب بھی ڈھل جاتا ہے دل
جانے کس جادو سے عکسِ یار بن جاتا ہے دل
کون بتلائے کہاں ہے اب حدِ وصل و فراق
دھڑکنوں میں تیری ہی آواز بن جاتا ہے دل
ابھی نو خیز کلیوں کی طرف نظریں اٹھائی تھیں
ادھر اک گل ادھرکوئی شگوفہ شاخ سے ٹوٹا
سراپا جو لطافت تھی، جو رنگت تھی، جو نکہت تھی
مقدر اپنا کتنی نرم و نازک چیز سےُ پھوٹا
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کے کلام میں ایک ہی رنگ کے اشعار کی کثرت ملتی ہے۔ ان کے الفاظ ایک شوخ ادا کے ساتھ موم کی طرح لوچ دے کر ایک دلکش رنگ اور آہنگ پیدا کرنے میں بھی اپنی مثال آپہیں۔ ان کے اشعار میں غمِ دوراں دھڑکتا ہوا ملتا ہے تو کبھی عاشقی میں اپی خودی کو برقرار رکھنے کا منفرد اظہار۔۔!
جنوں کی دھن میں ہر پتھر کو ہم نے سنگِ در جانا
کوئی بھی رہگزر ہو ہم نے تیری رہگزر جانا
سلیم اک عمر گذری ہے بیانِ آرزو کرتے
یہ قصہ کتنا طولانی تھا لیکن مختصر جانا
دل ہو نہ سکا مائل رنگینئ دنیا
یہ طائرِ ہشیار تہہِ دام نہ آیا
جب بزم میں گردش میں ہوئے جام و صراحی
پھر تذکرۂِ گردشِ ایام نہ آیا
حرم و دیر کا پابند نہیں اپنا دل
تیرے جلوے نظر آتے ہیں جدھر جاتا ہے
لطفِ ہستی وہی دنیا میں اٹھاتا ہے سلیم
جو خطرگہ میں بھی بے خوف و خطر جاتا ہے
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک زندہ دل شاعر تھے۔ ان کے استعارے موجودہ دور کے تناظر میں بھی با معنی معلوم ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سرنگ کتنی تاریک اور طویل کیوں نہ ہو مگر اس کے اختتام پر روشنی کا دائر ہ استقبال کرتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک ادبی گھرانے سے جس قلمی سفر پر نکلے تھے وہ قدم قدم پر وقت کی مصلحت پسندی کا سامنا کرتا ہوا حق کی خاطر لڑتا ہوآج پوری دنیا کا سفر طے کر چکا ہے۔آج ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا نام ادبی افق پر چمکتے دمکتے چاند کی مانند ہے۔
ان کی جنوں خیز قلمی کاوشوں کی دھن پر میں جس طرح سر دھنتی رہی اور والہانہ رقص کرتی سوچوں کے ساتھ صفحات در صٖفحات آگے بڑھتی رہی تو مجھے اب یہ خیال شدت سے ستا رہا ہے کہ یقیناًوہ ابھی ادب کے میدان میں ان گنت مسائل سلجھانے کی کوششوں میں محو تھے کہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مجھے انکے احساسات ان کے فرزند مسلم سلیم کی شخصیت میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ یقیناًآج مسلم سلیم اپنے والد گرامی کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے موجودہ عہد کے ترجمان ہیں۔ میری نیک تمنائیں ہمیشہ انکے ساتھ ہیں۔
ارم زہرا
۱۲ مئی ۲۰۱۴
کراچی، پاکستان