Thursday, December 18, 2014

Saniha-e-Peshawar par do nazmen: Muslim Saleem


Sunday, November 16, 2014

Allama Kausar Siddiqui on Muslim Saleem

Allama Kausar Siddiqui, bhopal

Thursday, November 6, 2014

MADAR-E-MEHRBAAN HAI AMU

MUSLIM SALEEM (6 NOVEMBER 2014 )
MAAYA-E-IZZ-O-SHAAN HAI AMU 
MERA SARA JAHAN HAI AMU 
MEIN JAHAN BHI HOON JEE RAHA HON ISAY
YANI MUJH MEIN RAWAN HAI AMU 
IS MEIN TABAAN HAIN SENKRON SOORAJ
ILM KI KEHKASHAN HAI AMU 
IS KI SHAFQAT MEIN BHAID NAHEEN
MADAR-E-MEHRBAAN HAI AMU 
NAZISH MULK, SHAN-E AALAM HAI
JISM DUNIYA HAI, JAAN HAI AMU 
TOO BHI MUSLIM KHIRAAJ DAY USKO
KYUNKAY TERI BHI MAAN HAI AMU 

Sunday, June 22, 2014

Poetic Compliments On Jashn e Muslim Saleem At Bhopal by Ahmad Ali Barqi Azmi (30th Dec 2012

by
jashn barqiBhopal meiN hai jashn jo Muslim Saleem ka

Hai Aiteraf un ke yeh kaar e azeem ka

Dehli meiN aa ke us ne khabr is ki mujh ko di

Ab arsh par dimaagh hai mauj e naseem ka

Rakhsh e qalam ke mere woh mahmez ban gaii

Woh kar rahi thi farz ada ek nadeem ka

Khamosh kyoN ho us ne kaha tum bhi kuchh likho

Kar lena zikr baad meiN daur e qadeem ka

Khidmatguzar e Urdu haii daur e jadeed meiN

Hai ilm kuchh to kaam karo ek aleem ka

MaiN ne kaha ki kaun use janta nahiN
Farzand e neknam hai wahid Saleem ka
“Khayyam e Nau” unhiN ki to vird e zabaaN hai aaj
Un par karam ho khuld meiN Rabb e Kareem ka
Bete pe baap ka hai asar kar raha hai jo
Hai dilnasheeN namoona yeh zauq e Saleem ka

Saturday, June 7, 2014

MUSLIM SALEEM GHAZAL - PARI KA US KAY UNDAR SE NIKALNA

PARI KA US KAY ANDAR SE NIKALNA
JAHAAN-E-KHWAAB BISTAR SE NIKALNA
DAHAKTI RET PAR PHIR MAIN NAY DEKHA
SAMANDAR MERI THOKAR SE NIKALNA
JO MUMKIN HO BUJHA DAY PYAAS MERI
BAJA HAI AAP GAUHAR SE NIKALNA
NA JAANAY KIS JAGAH MIL JAAYE DAHSHAT
DUA'EN PARH KE SAB GHAR SE NIKALNA
BHARAY GA PAIKAR-E-TASWEER MAIN KHOON
MAHABBAT KA TO MANZAR SE NIKALNA
JO MUMKIN HO TO PHIR DUNIYA HAI JANNAT
NADAAMAT NOK-E-KHANJAR SE NIKALNA
AJAB ASHA'AR MUSLIM NAY KAHE HAIN
KE JAISE AAB PATTHAR SE NIKALNA

Wednesday, May 14, 2014

Erum Zehra on Dr. Saleem Wahid Saleem

بقائے دوام کا تاجدار۔ڈاکٹر سلیم واحد سلیم
ارم زہراء۔کراچی
وہ کیا امور ہیں جن کی وجہ سے تخلیق کار بقائے دوام کا تاج سجا کر شہرتِ عام کے دربار میں زرنگار مسند پر متمکن نظر آتا ہے، کن خصوصیات کی بناء پر وہ معاصرین سے ممتاز قرار پاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں لا تعداد لکھنے والے رزقِ ہوا ثابت ہوتے ہیں؟
میری نظر میں جتنی بڑی تخلیقی شخصیت ، اتنا ہی بڑا تخلیق کار، اتنا ہی بڑا ثر اور اتنی ہی تاثیر ۔ لیکن اسکے باوجود با صلاحیت تخلیق کاروں کی اکثریت خود کو منوانے میں ناکام رہی ہے جبکہ ایک جریدۂِ عالم پر اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا لیتا ہے۔ اور وہ نام ہے ڈاکٹر سلیم واحد سلیم۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم اپنے قلمی سفر کی ابتداء سے لے کر آخر ی سانس تک مملکتِ شعروسخن کی گلیوں کو اپنے فن کی خوشبو سے مہکاتے رہے۔
میں نے جب ان کی کلیات کا بغور مطالعہ کیا تو جانا کہ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم خاموشی سے اردو اد ب کی بیش بہا خدمات انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے بے حد لگن کے ساتھ اپنے جنوں کی کرشمی سازیوں سے بازار عقل کو روشن کی تدبیریں کی ہیں۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کے کلام میں داخلی اور خارجی رنگوں کی منظر کشی جمالیات کی ایک انوکھی چھب میں ڈھل کر ہمارے احساسات میں حزن و طرب اور نشاط و ملال کے گہرے تاثرات نقش کرتی ہے۔ ان کی شخصیت میں ہنگامہ خیزیاں اس قدر تہہ در تہہ ہیں کہ انکے اندر جھانکتے ہوئے سانسیں بے ترتیب ہونے لگتی ہیں۔ میری بساط ہی کیا میں تو ابھی نو واردانِ شہرِ ادب میں ہوں۔ اسے لئے ابتداء ہی سے اقرار کرتی چلوں میں اپنی مبتدیانہ نظر کی رسائی کے مطابق تاثرات تک محدود ہوں۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم پیدائش کے بعد ۱۱؍ برس تک ایران میں مقیم رہے ۔ اس لئے ان کو فارسی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا جبکہ اردو انگریزی، عربی ،پنجابی، کشمیری اور ہندی انھوں نے ہندوستان آکر سیکھیں۔ چونکہ فارسی آپ کی مادری زبان تھی اس لئے کلیات میں اردو غزلیات کے ساتھ فارسی کلام بھی نمایاں ہے۔ ساتھ ہی عقل کو حیران کردینے والی آپ کو کاوش ’’خیام بنام خیامِ نو‘‘ میں عمر خیام کی رباعیوں کا منظوم اردوترجمہ پڑھا۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے اپنی جدت طرازی اور فنّی مہارت سے عمر خیام کی شعری دنیا میں نئی جان ڈال دی ہے۔علاوہ ازیں آپ کی کاوشوں میں تزکِ جہانگیری و دیگر مشاہیر کی تخلیقات کے ترجمے بھی شامل ہیں جن میں شیکسپئر کے ڈرامے ہیملیٹ کے ایکٹ ۳ منظر ۴، رابرٹ فروسٹ ، ایملی دکنسن، ڈبلو۔ایم ۔ اوڈن، ماؤزے تنگ وغیرہم نظموں و مختلف زبانوں کے گیتوں کے منظوم تراجم شامل ہیں۔
ان کی یہ ہنگامہ زندگی کی آخری سانس تک جاری رہیں۔وہ جہاں اقتدار کے قلعہ کی فصیلوں پر کمند ڈالتے رہے وہیں اپنے محبوب کو لبھانے کے لیے تمام تر مروجہ اور غیر مروجہ ترکیبیں بھی آزماتے رہے۔ ساتھ ہی انقلاب کی لا طبقاتی نظام کی باتیں بھی کرتے رہے جس کا نتیجہ صدر ایوب کے آمرانہ دورِ حکومت کے خلاف معرکۃ الاراء نظم کی اشاعت کی صورت میں موجود ہے۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا اپنے نظریات و افکار، مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف قلمی جہاد ابھی جاری تھا کہ انھوں نے ناقابلِ فراموش آخری تحریر اپنے قدردانوں کے حوالے کر دی۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم رقم طراز ہیں ’’اگر بعض طنز نگاروں کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے کہ بہترین طنز آنسوؤں کے سرچشمے سے ابھرتا ہے تو کہنا بھی غلط نہیں کہ مسرت و سرخوشی کی تندو تیز لہریں غم کے سمندر سے ہی اٹھتی ہیں اور انسان کوشش سے غم کو خوشی میں بدل سکتا ہے۔ میں نے اپنی اسی بات کو سچ کرنے کے لیے عمر خیام کا یہ منظوم ترجمہ کیا ہے اوریہ ترجمہ اگر میری زندگی شاہدوشراب اور مطرب و ساقی سے کوسوں دور ہے۔‘‘ اور پھر اسی کشمکش کے دوران ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک دن اپنے چاہنے والوں کو اپنی پرماجرا یادوں کے انبوہ میں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔
انکی اس خواہش کی تکمیل کا سہرا ان کے صاحبزادہ مسلم سلیم کے سر جاتا ہے کہ چراغ سے چراغ جلنے کی روایت ادب کی ابتدائے آفرینش سے چلی آ رہی ہے۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے عمر خیام کی رباعیات کو اپنی فکری صلاحیت سے نئی تاثیر بخشی ہے جس کی بناء پر عمر خیام کی نہ سمجھ میں آنے والی شاعری کو نئی زندگی مل گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
عمر خیام
نیکی و بدی کہ در نہادِ بشر است
شادی و غمی کہ در قضا وقدر است
با چرغ مکن حوالہ کاندر رہِ عقل
چرغ از تو ہزار بار بیچارہ تر است
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم
نیکی و بدی ہستی کے دو رخ، آئینۂ دل کے اندر ہیں
آئینِ قضا و قدر یہاں کب سعیِ بشر سے باہر ہیں
یہ نکتہِ عقل وصداقت ہے انسان کے بس میں فطرت ہے
تقدیروقضا، تسلیم ورضا، عیاروں کے اپنے چکر ہیں
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا یقیناًیہ تخلیقی کارنامہ ہے۔قاری چاہے کسی بھی درجہ کا ہو اس کے لیے اس منظوم ترجمے کے سحر سے بچنا مشکل ہے۔ اسی طرح اگر میں ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی اردو غزلیات پر روشنی ڈالوں تو انکی شاعری نوجوان نسل کے لیے بے پناہ کشش رکھتی ہے۔
ہمارے لہجے میں گو تلخئِ حیات بھی تھی
مگر نظر میں محبت کی کائنات بھی تھی
حجابِ قربت و دوری اٹھے ہوئے سے تھے
تمھارے ہجر کی راتوں میں ایسی رات بھی تھی
سلگ سلگ کے ترے غم میں جل رہا ہوں میں
فنا کے سانچے میں چپ چاپ ڈھل رہا ہوں میں
کسے یہ ہوش کہ منزل کب آئے گی لیکن
ترے خیال میں گم ہو کے چل رہا ہوں میں
اسلوب کی جمالیات ، صوتی اور معنوی حسن کی حامل نئی دلکش تراکیب اور خیال کی مناسبت سے بحور کا انتخاب ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی شخصیت میں جمال پر مبنی ملتی ہے ان کی غزل بھی اس کا آئین قرار پاتی ہے۔
رخ سے کسی نے پردۂِ حائل ہٹا دیا
اب جز نگاہِ شوق کوئی درمیاں نہیں
مصروف سجدہ ہائے مسلسل ہے کیوں سلیم
یہ جلوہ گاہِ حشر ہے کوئے بتاں نہیں

فریبِ پیہم غرورِ محکم شرستِ سرمایہ دار میں ہے
علاج اس شیطنت کا محنت کشوں کے بھرپور وار میں ہے
یہ آسماں بوس قصر جن میں چراغ جلتے ہیں معصیت کے
مٹا کے رکھ دو انھیں کہ مدت سے وقت اس انتظار میں ہے
اردو، فارسی اور عربی ادب اور لسانیات کے عمیق مطالعے نے ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کو یہ اعجاز بھی عطا ء کیا ہے کہ ان کی تراشیدہ تراکیب بھرپور مفہوم اور تاثیر کے ساتھ قاری کو منتقل ہوتی ہیں۔جب وہ محبوبہ کو رام کرنے کے لیے قلم اٹھاتے ہیں تو ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ موم کی طرح پگھلتے محسوس ہوتے ہیں اور جب وہ ایک باغی کے قالب میں نمودار ہوتے ہیں تو شیخ و برہمن اور ان کے اتحادی اہل حکم کے سروں پر ان کے اشعار گرز بن کر برستے ہیں اور اتنے خوبصورت انداز میں کہ ہر رنگ اورکیفیت میں جمالیاتی عنصر ان کے اشعار میں امڈتا محسوس ہوتا ہے۔

خود فراموشی کی لے میں جب بھی ڈھل جاتا ہے دل
جانے کس جادو سے عکسِ یار بن جاتا ہے دل
کون بتلائے کہاں ہے اب حدِ وصل و فراق
دھڑکنوں میں تیری ہی آواز بن جاتا ہے دل

ابھی نو خیز کلیوں کی طرف نظریں اٹھائی تھیں
ادھر اک گل ادھرکوئی شگوفہ شاخ سے ٹوٹا
سراپا جو لطافت تھی، جو رنگت تھی، جو نکہت تھی
مقدر اپنا کتنی نرم و نازک چیز سےُ پھوٹا
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کے کلام میں ایک ہی رنگ کے اشعار کی کثرت ملتی ہے۔ ان کے الفاظ ایک شوخ ادا کے ساتھ موم کی طرح لوچ دے کر ایک دلکش رنگ اور آہنگ پیدا کرنے میں بھی اپنی مثال آپہیں۔ ان کے اشعار میں غمِ دوراں دھڑکتا ہوا ملتا ہے تو کبھی عاشقی میں اپی خودی کو برقرار رکھنے کا منفرد اظہار۔۔!
جنوں کی دھن میں ہر پتھر کو ہم نے سنگِ در جانا
کوئی بھی رہگزر ہو ہم نے تیری رہگزر جانا
سلیم اک عمر گذری ہے بیانِ آرزو کرتے
یہ قصہ کتنا طولانی تھا لیکن مختصر جانا

دل ہو نہ سکا مائل رنگینئ دنیا
یہ طائرِ ہشیار تہہِ دام نہ آیا
جب بزم میں گردش میں ہوئے جام و صراحی
پھر تذکرۂِ گردشِ ایام نہ آیا

حرم و دیر کا پابند نہیں اپنا دل
تیرے جلوے نظر آتے ہیں جدھر جاتا ہے
لطفِ ہستی وہی دنیا میں اٹھاتا ہے سلیم
جو خطرگہ میں بھی بے خوف و خطر جاتا ہے
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک زندہ دل شاعر تھے۔ ان کے استعارے موجودہ دور کے تناظر میں بھی با معنی معلوم ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سرنگ کتنی تاریک اور طویل کیوں نہ ہو مگر اس کے اختتام پر روشنی کا دائر ہ استقبال کرتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک ادبی گھرانے سے جس قلمی سفر پر نکلے تھے وہ قدم قدم پر وقت کی مصلحت پسندی کا سامنا کرتا ہوا حق کی خاطر لڑتا ہوآج پوری دنیا کا سفر طے کر چکا ہے۔آج ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا نام ادبی افق پر چمکتے دمکتے چاند کی مانند ہے۔
ان کی جنوں خیز قلمی کاوشوں کی دھن پر میں جس طرح سر دھنتی رہی اور والہانہ رقص کرتی سوچوں کے ساتھ صفحات در صٖفحات آگے بڑھتی رہی تو مجھے اب یہ خیال شدت سے ستا رہا ہے کہ یقیناًوہ ابھی ادب کے میدان میں ان گنت مسائل سلجھانے کی کوششوں میں محو تھے کہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مجھے انکے احساسات ان کے فرزند مسلم سلیم کی شخصیت میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ یقیناًآج مسلم سلیم اپنے والد گرامی کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے موجودہ عہد کے ترجمان ہیں۔ میری نیک تمنائیں ہمیشہ انکے ساتھ ہیں۔
ارم زہرا
۱۲ مئی ۲۰۱۴
کراچی، پاکستان

Wednesday, April 23, 2014

Indian Muslim Legends - Muslim Saleem

http://indianmuslimlegends.blogspot.in/2013/09/436-muslim-saleem.html?showComment=1398220241297#c9193788099551253559

Wednesday, April 9, 2014

MUSLIM SALEEM - Do ashaar

ULFAT MAIN MUBTALAA THAA TO MUHLAT NAHEEN MILI
 

NAFRAT KE WAASTE MUJHAY FURSAT NAHEEN MILI

 

AAKHIRI HAYAAT PAAYEE JAHANNAM KI AAG MAIN


KHUD KUSH NAY LAKH CHAHA, SHAHADAT NAHEEN MILI

Ghazal - Muslim Saleem

SHAAKH-E-IMKAAN PAR GUL KHILA HAI
 
KOI HANS KAR MUJHAY DEKHTA HAI


DAUR-E-HAAZIR KA YEH MAAJRAA HAI
 
NUTQ-E-SHAITAAN PE NAAM-E-KHUDA HAI


MUNTHAB KHUD ANDHERA KIYAA HAI
 
AUR PHIR RAUSHNI SE GILAA HAI


SAANP KA AB TO BACHNAA HAI MUSHKIL
 
KOI INSAAN USAY DAS GAYAA HAI

Thursday, February 6, 2014

Muslim Saleem – ghazal – adaz hain haan kehne ke….


Muslim Saleem Ghazal Feb 4, 2014 
Andaaz hain haan kehne ke aakhir to sabhi naa
Main haan hi samajhta hoon jo kehta kabhi naa
Ai zeest miri tu isi ummeed pay jeena
Utray ga haqeeqat main kabhi khwaab ka zeena
Sairaab ho ye rooh to pur noor ho seena
Ho meharbaan ham par bhi mahabbat ki haseena
Har dam ho khayaal uska mujhe roz-o-shabeena
Har maah ho us maah ki ulfat ka maheena
Muslim tiray maddah hain naa-beena-o-beena
Khoob aata hai izhaar ka tujhko bhi qareena

Monday, January 27, 2014

Zahin Siddui on Muslim_SaleemTRIBUTES TO MUSLIM SALEEM
BY ZAHINA SIDDIQUI, ALL-INDIA RADIO,
URDU MAJLIS, NEW DELHI
HUMDAM HO HUM KHAYAL HO MUSLIM SALEEM TUM , ,,,,,,,
ULFAT KI EK MISAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
JISKA NAHIN JAHANE ADAB MAIN KOI JAWAB , ,,,,,,
AISA HI EK SAWAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
TUM SACHCHE QADERDAAN HO URDU ZABAAN KE , ,,,,,,,,,
INSAAN BA KAMAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
ARBAABE ILMO FUN KI NIGAHON MAIN AAJKAL , ,,,,,,,,,
EK HUSN HO JAMAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
KHILTE HAIN JISPE GHUNCHE WAFAON KE PYAR KE , ,,,,,,
PHOOLON KI AISI DAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
BUJHTE HUYE CHIRAAGH JALANE KE WASTE , ,,,,,,,,,
IK NOOR-E-LAA ZAWAAL MUSLIM SALEEM TUM .
AB TO KARO YAQEEN ZAHINA KI BAAT PAR , ,,,,,,,,,
SHAIR KA EK KHAYAL HO MUSLIM SALEEM TUM .

Monday, January 13, 2014

NAZRANA-E-AQEEDAT BARAI MUSLIM SALEEM SB: AUWWAL SANGRAMPURI

NAZRANA-E-AQEEDAT BARAI MUSLIM SALEEM SB
AUWWAL SANGRAMPURI
JEDDA, SAUDI ARABAI
HUSN-E-SUKHAN MAIN JO YE TIRAY INSIJAAM HAI
SHAHID HAI, KOI BHI NA TIRAA HAM-MAQAAM HAI
SAARE FUSOON-NIGAAR YE KARTE HAIN AITIRAAF
AB REEKHTE KA TOO HI JAHAAN MAIN IMAAM HAI
BARQ-E-SUKHAN HAI TERI ZIYAA-BAAR HAR TARAF
DAANISH MAIN TERI MEHR-E-SUKHAN TEZ-GAAM HAI
AHL-E-ADAB NAY TUJHKO WO MANSAB ATAA KIYA
SHE’RAA KO JO NUJOOM MAIN HAASIL MAQAAM HAI
TERAY SUKHAN KI FIKR SAY HAM PAR AYAAN HAI YEH
BAAM-E-FALAK KO CHOOMTA TERAA KALAAM HAI
MUSLIM SALEEM SAHIB-E-QALB-E-SALEEM HAIN
UNKA RUKH-E-HASEEN BHI MAAH-E-TAMAAM HAI
MERI DUA HAI HAR KOI HO US SAY MUSTAFEED
URDU ZABAAN PAY AAP KA JO FAIZ-E-AAM HAI
TERAY MURASHSHAHAAT-E-QALAM HAMARA DIL
DAST-E-NAZAR SAY CHOOM KAY KARTA SALAAM HAI
*******************************************
SHE’RAA= NORTH STAR
Auwwal design 1
About these ads

Friday, January 10, 2014

GRAND FELICITATION TO DR SHAHZAD RIZVI AT BHOPAL Part 1

ڈاکٹر شہزاد رضوی اور امریکہ میں اردو ادب کی قدآور شخصیت :مسلم سلیم
بھوپال کے فر زند کو پروفیسر آفاق احمد کا بھی خراج: شاندار استقبالیہ منعقد

بھوپال: ۲۹؍ دسمبر ۲۰۱۳واشنگٹن میں مقیم مدھیہ پردیش اور بھوپال کے عظیم فرزند مشہور شاعر اور ناول نگار ڈاکٹر شہزاد رضوی کو ہم سخن ویلفئر سوسائٹی و کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام کی جانب سے شاندار استقبالیہ دیا گیا۔ اس موقعہ پرجناب مسلم سلیم نے ڈاکٹر رضوی کو امریکہ میں اردو ادب کی قدآور شخصیت سے تعبیر کیا۔ مہمانِ خصوصی پروفسر آفاق احمد نے بھی ڈاکٹر رضوی کی ادبی خدمات کو سراہا۔ اس سے قبل مسلم سلیم اور پروفسر آفاق احمد نے ڈاکٹر شہزاد رضوی کو ’’فخر بھوپال ‘‘ ٹرافی پیش کی۔ ہم سخن کے سکریٹری جناب عبدالاحد فرحان نے ڈاکٹر رضوی کو منظوم سپاس نامہ پیش کیا دہلی کے مشہور شاعر ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی نے تحریر کیا تھا۔ ڈاکٹر رضوی کی اہلیہ محترمہ رابعہ رضوی اور دختر ممتاز رضوی بھی اسٹیج پر موجود تھیں۔ پروگرام کا آغاز گلوکار جناب یعقوب ملک نے مسلم سلیم کی تحریر کردہ نعت سے کیا۔
جناب مسلم سلیم نے کہا کہ فی زمانہ ایک خانوادہ امریکہ میں اردو ادب کی سب سے زیادہ خدمت انجام دے رہا ہے جسمیں ڈاکٹر شہزاد رضوی ، انکی ہمشیرہ ڈاکٹر عمرانہ نشتر خیرآبادی ، ناہید نشترخیرآبادی اورر خسانہ وسیم اور برادرِ خورد سید ضیا خیرآبادی شامل ہیں۔ان کے والد یادگار حسین نشتر خیرابادی، والدہ محترمہ سیدہ سرفراز فاطمہ نشتر اور ہمشیرہ سیدہ سہیلہ خیرآبادی بھی اچھے سخنور تھے۔ڈاکٹر شہزاد رضوی ۱۹۶۴ء میں عالم شباب میں امریکہ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے مختلف یونیورسٹیوں میں ا علیٰ تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے پروفیسر ہوگئے۔ اب وہ امریکی شہریت حاصل کرکے واشنگٹن میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ عرصہ سے مقیم ہیں۔
جناب مسلم سلیم نے بتایا کہ اردو کے علاوہ ڈاکٹر رضوی انگریزی میں بھی شاعری کرتے ہیں۔ آپ نے انگریزی میں کہانیاں اور ناول لکھنے میں بھی کافی شہرت حاصل کی ہے اور ان کے ناول Kahany.orgپر دیکھے جاسکتے ہیں یا amazom.comسے دستیاب ہوسکتے ہیں۔جناب مسلم سلیم نے اپنے مقالے میں امریکہ میں اردو ادب اور تدریس پر بھی سیر حاصل روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر شہزاد رضوی کی حیات و کمالات پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر آفاق احمد نے بتایا کہ ڈاکٹر رضوی نے دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے موسم گرما کے دوران آکسفورڈ، سوربون(فرانس) اور لندن میں جاکر کورس کئے اور اسی دوران پورے یوروپ کا سفر بھی کیا۔صدر ریگن کے دوران حکومت ڈاکٹر رضوی نے ایوان صدر میں مترجم کی خدمات انجام دیں اور مسز ریگن کے ساتھ بحیثیت مترجم ان کے ہوائی جہاز میں میں سفر کرنے کا موقع بھی ملا، اس دوران میں امریکہ کی مشہور شخصیتوں، جیسے کہ ہنرسی کسنجر، افسران اور اداکار ان سے ملاقات ہوئی۔
پروفیسر آفاق احمد نے بتایا کہ ڈاکٹر شہزاد رضوی وہ اپنی شاعری میں روایتی موضوعات، واعظ، ساقی اور محبوب کی جفاکاری پر نہیں لکھتے۔ ان کی شاعری کے موضوع زندگی اور عالمی مسائل ہوتے ہیں جن سے آج انسان دوچار ہے۔ وہ اپنی شاعری سے مذہبی تفریق اور تعصب ، نسلی امتیاز اور قبائلی اور قومی رسہ کشی اور تصادم کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ بڑی آرزو ہے کہ دہشت گردی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے اور دنیا کے لوگوں میں ہم آہنگی اور بھائی چارہ پیدا ہوجائے۔ ڈاکٹر شہزاد رضوی صاحب اب تک ۱۲؍ ناول انگریزی میں تحریر کر چکے ہیں جنکے عنوان یہ ہیں۔.ان میں سے دو ناولوں ’’د ا لاسٹ ریسیڈینٹ ‘‘ اور ’’بہائنڈ د ا ویل‘‘ بھوپال کے پس منظر میں تحریر کئے گئے ہیں۔لیکن یہ مکمل طور سے فکتشنل ہیں اور انکابھوپال کے نوابی خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر شہزاد رضوی نے اراکینِ ہم سخن ویلفئر سوسائٹی و کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام کا شکریہ ادا کیا۔ڈاکٹر رضوی نے بتایا کہ ان کی پیدائش۲۸فروری ۱۹۳۷ء لشکر گوالیار میں ہوئی جہاں ان کے دادا خان بہادر حضرت مضطر خیرآبادی ایک زمانے میں جج تھے۔ مضطر خیرآبادی علامہ فضل حق خیرآبادی کے نواسے تھے ۔آپ کے خاندان کا ہندوستان کی جنگِ آازدی میں بھی اہم حصہ رہا ہے۔ آپ کے پرنانا حضرت فضلِ حق خیرابادی نے انگریزوں کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی جسکی پاداش میں انھیں کالے پانی کی سزا دی گئی تھی اور وہیں انڈومان میں آپ کا انتقال ہو ا تھا۔ڈاکٹر رضوی کی والدہ محترمہ سیدہ سرفراز فاطمہ نشتر کا تعلق بھوپال کے ایک جاگیردار خاندان سے ہے۔ ڈاکٹر رضوی نے حمیدیہ کالج بھوپال سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ سیفیہ کالج میں لیکچرر رہے۔ اس کے بعد ایک اور ایم اے کی ڈگری انگریزی ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر امریکہ چلے گئے۔
اس موقعہ پر ڈاکٹر شہزاد رضوی صاحب نے اپنی متعدد نثری نظموں سے بھی سامعین کو نوازا۔ ڈاکٹر رضوی نے مسلم سلیم کو اردو کے ایک بڑے شاعر اور ادیب سے تعبیر کیا۔ انھوں نے کہا کہ جناب مسلم سلیم انٹرنیٹ کے ذریعے بھی اردو کی بیش بہا خدمت انجام دے رہے ہیں۔
اس دوران رائسین سے تشریف لائے جناب حاجی میاں نے ڈ ایک بیش قیمت قلم اور پروفیسر مجید خاں و ڈاکٹر اعظم نے اپنی کتابیں اکٹر شہزاد رضوی کو پیش کیں۔
شروعات میں کھوج خبر نیوز ڈاٹ کا م کے ایڈیٹر جناب عطاء ا ﷲ فیضان ، ہم سخن کے صدر جناب شارق علی ، جناب بسید فیضان علی، ڈاکٹر انیس سلطانہ ، محترمہ رشدہ جمیل اور جناب مظفر اقبال صدیقی نے مہمانان کی گلپوشی کی اور ہم سخن کے سکریٹری جناب عبدالاحد فرحان نے ڈاکٹر شہزاد رضوی کو منظوم سپاسنامہ پیش کیا۔ جناب سلیم قریشی صاحب سے کہ اظہار خیال فرمایا۔
تقریب کی نظامت خوش فکر شاعر اور ادیب ڈاکٹر اعظم نے فرمائی۔ آپ ہی نے اظہار تشکر بھی کیا۔

Thursday, January 9, 2014

Gumgashta alfaz-1



 Urdu bahut wasee zabaan hai. Yeh hamaari ghalati hai ke ham iske bahut say alfaaz ko bhoolte jaa rahe rahe hain. Main kucch aise alfaz say aapko rooshanaas karaana chahta hoon. Shayad kisi kaam aaye.

Nafri
Aaj ham ko lagta hai ke English alfaz personnel aur manpower ke liye Urdu main koi lafz naheen hai to jaan len ke Urdu main lafz Nafri (jo Nafar=Fard se musthaq hai) sadiyon say mustamal hai. Is lafz ka istemal fauj aur police main bataur-e-khaas kiya jaata raha hai. Lekin ab log is say kam hi waaqif hain. (Muslim Saleem)

Monday, January 6, 2014

EK SHER – MUSLIM SALEEM – LAMHA-E-WASL


Ek sher lamha e wasl
LAMHA-E-WASL HAI YEH, LAMHA-E-FARYAAD NAHEEN
AA GAYE TUM TO HAMEIN KOI GILAA YAAD NAHEEN

MUSLIM SALEEM – EK SHER USAY PYAAR KAR LOON


 Ek sher usay payaar kar loon 
MUSLIM SALEEM – EK SHER
USAY PYAR KAR LOON YE JI CHAHTA HAI
MIRAA ISHQ BHI ZINDAGI CHAHTA HAI