انحراف ادبی فورم کے مشاعرے بتاریخ ۲۴ اگست ۲۰۱۲ کے لئےاحمد علی برقی اعظمی کی کاوش
ہمیشہ کہتا تھا
اپنی جو جانِ جاں مجھ کو
نہ جانے چھوڑ کے
اب وہ گیا کہاں مجھ کو
مری رقیبوں کی صف
میں مجھے نظر آیا
وہی جو دیتا تھا
جھوٹی تسلیاں مجھ کو
دیارِ شوق میں جن
کو تلاش کرتا تھا
نہیں ملے کہیں
قدموں کے وہ نشاں مجھ کو
ہے جس کو بارِ
سماعت ہر ایک بات مری
ابھی بھی یاد ہے اُس کی وہ ہاں میں ہاں مجھ کو
کلامِ میر و جگر
سن کے ایسا لگتا ہے
سنا رہے ہیں مری
ہی وہ داستاں مجھ کو
نقوش ثبت مری
لوحِ دل پہ پیں اُن کے
بہت عزیز ہے یہ
یادِ رفتگاں مجھ کو
جسے سمجھتا تھا
اپنا وہ غیر کا نکلا
’’بطورِ
خاص ملا سوزِ جاوداں مجھ کو‘‘
دوسری کاوش
کوئی بتائے مجھے میرا آشیاں مجھ کو
دکھائی دیتا ہے
ہر سو دھواں دھواں مجھ کو
جنھیں سکھایا تھا
بچپن میں بولنا میں نے
سمجھ رہے ہیں وہی
آج بے زباں مجھ کو
کھٹک رہا ہے
نشمین مرا انھیں شاید
دکھا رہی ہیں یہ
کیوں آنکھ بجلیاں مجھ کو
سکوتِ شب میں ہے
ہر سو مھیب سناٹا
سنائی دیتی ہیں
کس کی یہ سسکیاں مجھ کو
ہمیشہ تختۂ مشقِ
ستم رہا ہوں میں
’’بطورِ خاص ملا سوزِ جاوداں مجھ کو‘‘
کبھی جو رونقِ
گلشن تھیں فصلِ گُل میں آج
کہیں نظر نہیں
آتیں وہ تتلیاں مجھ کو
ہمیشہ ساتھ تھا
برقی مرے مرا ہمزاد
جدھر جدھر وہ گیا
لے گیا وہاں مجھ کو
No comments:
Post a Comment