MJSLIM SALEEM KI KULLIYAT (SARMAYA) MUKAMML UNICODE MAIn
سرمایہ
(کلام مسلم سلیم)
مرتبہ
عطاءاللہ فیضان
کتاب کا نام : سرمایہ (کلیاتِ مسلم سلیم)
شاعر : مسلم سلیم
ترتیب : عطاءاللہ فیضان
عرضِ مصنف
ؑ میرا پہلا مجموعہ ”آمد آمد“ 2010 میں شایع ہوا تھا ۔ دریں اثنا ءمتعدد نئی غزلیں اور قطعات بھی خلق ہوئے ہیں۔ ایک اور خوش آیند بات یہ ہوئی کی فیس بک اورانٹرنیٹ پر میری شاعری اور اردو کے لئے پر خلوص خدمات سے متاثر ہو کر دنیا کے35 ۵۳شعراءنے مجھ پر منظوم۹۵59 نذرانے تحریر کر دئے۔میری دو غزلوں پر متعددمنظوم اور نثری تبصرے بھی کئے گئے ہیں۔ زیرِ نظر مجموعے میں یہ سب کچھ مجتمع کر دیا گیا ہے تاکہ قاری کے ذہن میں قلمکار کی مکمل تصویر ابھر سکے۔میری شخصیت اور شاعری پر اب تک تحریر کردہ سبھی مضامیں بھی اس مجموعے کی زینت ہیں۔ امید کہ پسند آئیں گے۔
مسلم سلیم
Muslim Saleem,
280, Khanugaon,
Near Masjid Bismillah
Bhopal 462001
Mob 09893611323
e-mail saleemmuslim@gmail.com
فہرست
صفحہ
عرضِ مصنف ۔۔1
.پیش لفظ۔علامہ کوثرصدیقی
.1 معاصرین کی نظرمیں مسلم سلیم
2 دنیا کے۵۳ شعراءکے مسلم سلیم کو۵۵ منظوم خراج عقیدت ۔۔
3 کلام ِ مسلم سلیم حصہ اول۔ا ٓمد۔آمد ۔۔۔
.4 کلامِ مسلم سلیم حصہ دوم ”باز۔آمد ۔۔۔
۔
.5قطعات ۔۔۔
.6 مفرداشعار
.7یکم مئی2018 کے بعد کے اشعار
.8خودنوشت”مسلم سلیم۔کvا بودوباش پوچھو ہو“
پیش لفظ
غزل کا بادشاہ مسلم سلیم
مسلم سلیم کو علمی و ادبی گھرانے کے اعتبار سے نجیب الطرفین کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان کے پر۔نانااپنے دور کے مشہور دانشور سید عبدالباقی ان تاریخی ہستیوں میں ہیں جو محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج علی گڑھ کے ابتدائی پانچ طلبا میں شامل تھے۔آپ کے والد بزرگوار ڈاکٹر سلیم واحد سلیم بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طبیہ کالج سے فارغ التحصیل تھے جان کی تعلیم و تربیت اپنے پھوپھا ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ کی زیرِ نگرانی ہوئی تھی جو اس دور میں جرمنی سے ایم ڈی کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی کے طبیہ کالج کے موسّس پرنسپل اور امراضِ چشم کے شہرت یافتہ معالج تھے۔ دادا محترم عبدالواحد بینک آف تہران (ایران) میں جنرل مینیجر تھے۔ دادی محترمہ فخرالسادات قاجاری خاندان کی شہزادی تھیں۔ مسلم سلیم کے والد اور پھوپھیوں کی مادری زبان فارسی اور ثانوی زبان فرانسیسی تھی۔ اس
طرح وہ نسبی لحاظ سے بھی نجیب الطرفین ہ سلیم خاندان کے اس بین الاقوامی پس منظر میں مسلم سلیم کی اگرچہ اپنے ننھیال قصبہ شاہ آباد (ضلع ہردوئی اتر پردیش جو مشہور فلم اسٹار عامر خاں کی بھی جائے پیدائش ہے) میں یکم نومبر ۰۵۹۱ کوہوئی لیکن درجہ اول سے لے کر بی۔اے۔ تک مسلم یونیورسٹی اور اس کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ایم۔اے۔ عربی الہٰ آباد یونیورسٹی سے کیا۔ دورانِ تعلیم وہ صرف کتابوں میں گھر کر نہیں رہے بلکہ کتابوں کی دنیا سے باہر نکل کر تمام
extracurricular activitiesمع اے۔کلاس کرکٹ سے بھی وابستہ رہے۔
جس شخص کی تعلیمی اساس مسلم یونیورسٹی اورالہٰ آباد یونیورسٹی جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں میں رکھی گئی ہو اس کے ذہن و فکر کی بالیدگی کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ مذکورہ تعلیمی اور تربیتی پس منظر میں مسلم سلیم کو پروفیسر ہونا چاہیے تھا لیکن قدرت کا کھیل بھی عجیب ہے۔ زندگی کے سیلاب نے ساحلِ بھوپال پر لا کر پھینک دیا اور صحافت نے ان کا ہاتھ تھام کر معاشی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ میں انھیں قریب تیس ۔پینتیس سال سے جانتا ہوں۔ذاتی شرافت، نجابت کے علاوہ
ان کی اعلیٰ علمی لیاقت سے بھی واقف ہوں۔ وہ کسی نہ کسی سرکاری محکمے میں اعلیٰ عہدہ حاصل کرسکتے تھے مگر ایسا لگتا ہے کہ مالی منفعت اورسرکاری غلامی کا جوا گلے میں دالنے کے بجائے انھوں نے صحافت(جو جمہوریت کا چوتھا ستون ہے) کے آزاد پیشے کہ ترجیح دی۔
صحافت کے میدان میں بھی اپنے جوہر دکھائے اور ایک کثیر لسانی صحافی ( multi-lingual journalist) کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی۔ بھاسکر گروپ آف نیوزپیپرس بھوپال کے اردو روزنامہ آفتاب جدید سے ۹۷۹۱ میں کیریر کا آغاز کر کے اسی گروپ کے انگریزی اخبار نیشنل میل سے وابسطہ ہوئے۔ پھر اسی گروپ کے ہندی کوآرڈینیٹر بنے۔ 2003 میں وہ ا نگریزی اخبار نیوز ایکسپریس میں چیف سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ فی الوقت مشہور انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز سے وابستہ ہیں۔ صحافت سے ہم وقت وابستگی اور مصروفیات کے با وجود شاعری کا دامن جو انھوں نے لڑکپن میں تھام لیا تھا، مضبوطی سے
تھامے رہے۔ آج بھی تھامے ہوئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ، انھوں نے صحافت اور ادب کو اپنے بچوں کی سرشت میں بھی بھر دیا ہے۔ ان کے بیٹے عطا ءاللہ فیضان خود ایک نیم ادبی نیم سیاسی ماہنامہ ©”ہم سخن“ بھوپال سے شائع کر رہے ہیں۔ آج کے دور میں جب کہ بڑے بڑے اردو شعراءاور دانشوروں کی اولادیں مادری زبان اردو سے نا بلد ہیں، اپنے بچوں کو اردو علم و ادب سے وابستہ کرنے کی ذمہ داری جس طرح مسلم سلیم نے نبھائی ہے اس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
مسلم سلیم ©”زمانہ با تو نسازد تو بزمانہ سازد “ کے مقولے کے تحت انٹرنیٹ کی دنیا سے بھی نہ صرف وابستہ ہیں بلکہ پوری سائبر دنیا ان کی انگلیوں کے زیرِ نگیں ہے۔ انھوں نے اس میدان بھی وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو ابھی تک بھوپال میں کوئی نہیں کر پایا ہے۔ انھوں نے 14 ویب سائٹوں پر اردو شعرا اور ادباءکی ویب ڈائریکٹریز ترتیب دی ہیں جن کی خوبی ڈاکٹر شہزاد رضوی، سابق پروفیسر ، واشنگٹن (جاں نثار اختر کے بھتیجے) نے اس طرح بیان کی ہے:۔
” اس ویب سائٹ (www.khojkhabarnews.com) میں مسلم سلیم نے صرف اپنی شاعری اور شخصیت کے بارے میں ہی نہیں لکھا بلکہ ہندوپاک کے ساتھ اردو دنیا کے ہزار ہا شعراءو ادبا کی مختلف ڈائریکٹریز ترتیب دے کر تعارف و تصاویر پوسٹ کی ہیں۔ میرے نزدیک اردو دنیا میں اتنا بڑا کام
پہلے کبھی نہیں ہوا۔“
یہاں میں یہ بھی بتا دوں کہ بھوپال کے اہلِ قلم حضرات کی شخصیت، فن اور ادبی خدمات بھی انٹرنیٹ پر پیش کرکے انھیں عالمی سطح پر متعارف کرانے کی اولیت بھی مسلم سلیم کو حاصل ہے۔
مسلم سلیم آج کل کے عام شعراءکی روش سے تھوڑا ہٹ کر اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے ہیں۔ کچھ نثری تخلیقات بھی ہیں۔ وہ نعت ، نظمیں، قطعات وغیرہ بھی کہتے ہیں مگر وہ مملکتِ غزل کے بادشاہ ہیں۔ ایسے بادشاہ جو اپنی سرحدوں کی حفاظت پر ہی نظر نہیں رکھتے بلکہ اس کی توسیع میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ ان کی غزل بلا مبالغہ غزل میں اضافہ ہے۔ ان کا طائر ِ فکر جب پرواز کرتا ہے تو اس کی نظرمیں دور کے منظر جو ایسے خیالات کو جنم دیتے ہیں جن میں قاری کو چونکا دینے والا کچھ نیا پن ہوتا ہے۔ میں اس شاعر کو بڑا شاعر سمجھتا ہوں جسے پڑھ کر دوسرے شاعر کے دماغ میں یہ خیال سر اٹھائے کہ کاش میں بھی ایسی شاعری کر سکتا۔ مسلم سلیم کی شاعری (غزل) اس تعریف پر کھری اترتی ہے۔ شہرت کے گراف سے کسی شاعر کے قدوقامت کو نہیں ناپا جا سکتا۔
”مسلم سلیم لیلائے غزل کے اسیر کب ہوئے مجھے معلوم نہیں لیکن 21 برس کی عمر میں کہی گئی مندرجہ ذیل غزل (جسے انھوں نے پہلی تخلیق کہا ہے) کے انداز، اظہار اور پختگی دیکھ کر لگتا ہے کہ کم عمری سے ہی مشقِ سخن کا سلسلہ جاری رہا ہوگا۔ ملاحظہ ہو ©۔۔
ہر خواہش کب کس کی پوری ہوتی ہے
ہوتی ہے پر تھوڑی تھوڑی ہوتی ہے
۲۔ان کے میل کو ان کے گھر جاکر دےکھو
باہر جن کی چادر اجلی ہوتی ہے
۳۔میں بازار سے کافی پردے لایا ہوں
اب دیکھوں کیسے رسوائی ہوتی ہے
پہلا شعر بظاہر بہت سادہ مگر معنویت سے پُر ہے۔ اس میں زندگی کا بہت بڑا فلسفہ ہے۔ انسانی خواہشات کے بیشمار پہلو اور ان کا دائرہ وسیع ہے۔ ایسی صورت میں ان کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔
دوسرے شعر میں آج کے اخلاقی زوال کے دور میں عام لوگوں کے اور بالخصوص ہمارے سماجی ٹھیکیداروں کی زندگی کے دوہرے معیار کی ترجمانی اس سے بہتر ایک نوجوان ، نو آموز شاعر سے نہیں کی جا سکتی۔ اچھی شاعری کے لئے دیگر فنی لوازم کے ساتھ اصطلاحات بھی ضروری ہیں۔ تیسرے شعر میں فن کی اصطلاح کا مفہوم بہت وسیع اور بلیغ ہے۔ کسی نہ کسی صورت میں پردہ اور پردہ پوشی کی ضرورت انسان کی جنم سے مرنے تک ہوتی ہے۔ ۔۔۔ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی۔۔۔
ان اشعار کی تشریح کے پیچھے میرا مقصد یہ ہے کہ ” پوت کے پاو ں پالنے میں نظر آجاتے ہیں ©“ کے مصداق مسلم سلیم کے جب گھٹنے گھٹنے چلنے کے دن تھے، وہ دوڑ لگاتے ہوئے نظر آنے لگے تھے۔
مسلم سلیم فطری شاعر ہیں اور جہاں تک میرا علم ہے تلمیذالرحمٰن ہیں۔ موزوں طبعی اور شعری ذوق انھیں فطرت سے عطا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ابتدائی کلام میں بھی گردان کی کمی بیشی یا اوزان کا سقوط نظر نہیں آتا۔ ان کی شاعری فطری طور پر نزول کی شاعری ہے جسے آمد کی شاعری کہا جا تا ہے۔ اس کا اعتراف انھوں نے خود اس طرح کیا ہے۔ ۔۔
”نہیں کہتا تو مہینوں برسوں نہیں کہتا اور جب آمد کا ہجوم ہوتا ہے تو گھر ہو یا دفتر، سفر ہو یا حضر، اشعار کا ورود ہوتا ہے۔۔۔۔ کبھی کبھی برسوں کے بعد دس پندرہ دن آتے ہیں جب لگتا ہے کہ ذہن میں آمد کا کوئی بٹن دب گیا ہو۔ ان دنوں مجھ پر وجد کی سی کیفیت طاری رہتی ہے اور میں جھوم جھوم کر ان نو آوردگان کا استقبال کرتا ہوں۔ جب مجھ جیسے کم علم پر یہ اشعار گہرا تاثر چھوڑتے ہیں، تو میں مطمئن ہو جاتا ہوں کہ اہل ذوق حضرات انہیں یقینا پسند کریں گے“۔
ان کا پہلا مجموعہ ¿ِ کلام 2010 میں مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے شائع کیا تھاجو پذیرائی کے نقطہ ¿ِ نظر سے کامیاب رہا۔ بر صغیر کی سطح سے بین الاقوامی سطح تک ادبی دنیا کی نامور ہستیوں نے مسلم سلیم کی شعری صلاحیت کا کھلے دل سے اعتراف کیا جن میں ڈاکٹر شہزاد رضوی، واشنگٹن، راشد خلیل، لاہور، ڈاکٹر جعفر عسکری، لکھﺅ، ڈاکٹر نورالحسنین، اورنگ آباد (مہاراشٹرا)، مہدی جعفر، الہٰ آباد وغیرہ شامل ہیں۔
اس سے پہلے کہ زیرِ نظر مجموعہ پر اظہارِ خیال کروں، مسلم سلیم کے پہلے شعری مجموعے ”آمد آمد“ سے چند اشعار بطورِ نمونہ پیش
کرتا ہوں:۔
تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی …..۔۔ میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
آج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے ۔۔…… ڈائری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے
پانی ہیں، بلبلہ ہیں، برستی گھٹا ہیں ہم۔۔۔…… دریا ہیں، آب جو ہیں، سمندر ہیں، کیا ہیں ہم
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے۔۔…..۔حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام
جمع کرتے رہو شیرازہ ¿ِ اسبابِ حیات ۔۔۔…. اس کی تقدیر بکھرنا ہے بکھر جائے گا
یہ تھام لیتا ہے امکانِ فتحِ نو کے قدم ۔۔ شکست سے بھی برا ہے شکست کا احساس
اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے۔۔۔…. ہرطرف سے دیر تک پتھر چلے
مسلم سلیم سے میرے قریبی تعلقات ہیں۔ میں حقیقت بیانی بھی کروں تو مجھ پر عصبیت کا الزام عائد ہو سکتا ہے۔ اس لئے میں اپنی جانب سے لکھنے کے بجائے س مشاہیر کے تاثرات کا اقتباس پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں:۔
ڈاکٹر شہزاد رضوی، واشنگٹن ۔۔۔”اگر بین الاقوامی اردو حلقہ مسلم سلیم کی شاعری کا حظ اٹھانے سے محروم رہ گیا تو یہ از حد شرمناک بات ہوگی۔ مسلم سلیم شاعری برائے شاعری کے قائل نہیں۔ وہ تبھی قلم اٹھاتے ہیں جب ان کے سینے میں موجزن جذبات ان کو تحریک دیتے ہیں“۔
مہدی جعفر، الہٰ آباد۔۔۔”اچھا شعر ہی شاعر کا تعارف ہوتا ہے۔ آجکل جس برق رفتاری سے شاعری کے مجموعے شائع ہو رہے ہیں، ان میں اچھا مجموعہ یا اچھا شعر تلاش کرناجوئے ش یر لانے کے مترادف ہے۔سائنسی ترقی اور مشینی زندگی نے انسانی جذبات و احساسات اور رویوں کوایسا مخبوط کر رکھا ہے کہ آج کا مادےت پرست انسان اعلیٰ روحانی، اخلاقی، سماجی او تہذیبی رویوں کے عملی افادےت سے کوسوں دور چلا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں مسلم سلیم جیسے جدید لب و لہجے کے شاعر کا مجموعہ © © © ©”آمد آمد“ خوشگوار ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا ہے © ©۔
راشد خلیل، لاہور۔۔ ©” مسلم سلیم اپنے عہد کے بڑے نباض ہیں اور عمیق سماجی اور عصری شعور ان کے مزاج، گفتگو اور تحر یروں میں جھلکتا ہے۔\ تخلیقی عمل میں سماجی اور معاشرتی رویوں کا مضبوط تاریخی اور ادبی پس منظر اشعار کی صورت میں قاری کے لئے تفہیم کے نئے در وا کرتا ہوا دکھائی دےتا ہے۔ مسلم سلیم نے اپنے صحافیانہ تجربے اور مشاہدے کو شعر بنانے شعری حسن کا خاص خیال رکھا ہے۔ بعض اشعار تو زندگی کا مکمل خاکہ بنا دیتے ہیں اور قاری کے سامنے ایک تصو یر پھر جاتی ہے۔“
ڈاکٹر جعفر عسکری، لکھنﺅ۔۔۔” کلام میں عصری حسیت بھی ہے، تخیل کی بلاغت بھی ہے، فکری بلوغت بھی ہے نیز فنّی و تخلیقی ہنر مندی بھی ہے اور احساس اور جذبہ بھی اپنی جلوہ سامانیاں بکھیرتے نظر آرہے ہیں۔۔۔۔۔دراصل وہ خیالی دنیا کے شاعر نہیں ہیں بلکہ بےداری اور باخبری کے شاعر ہیں۔“
جعفر عسکری صاحب نے سچ کہا ہے کہ مسلم سلیم مشاعروں کے شاعر نہیں ہیں۔ لیکن میرے نزدیک یہی ان کی کمزوری ہے۔آج کو دور میں بھی جب کہ مشاعروں پر پیشہ ور شعراءنے اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، لوث ، اچھے اور سچے شاعروں کی بھی قدر ہوتی ہے۔ مسلم سلیم کی غزل ان کے دل کی گہرائیوں سے نکل کر سامع کے دل میں براہِ راست اتر جانے والی چیز ہے۔ ان کے خیالات ہر شحص کے ہمہ قسمی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ الفاظ کے ساتھ ردیف اور قوافی اور بندش اتنی چست ہوتی ہے کہ شعر نہ صرف ظاہری طور پر حسین ہو جاتا ہے بلکہ گہری معنویت کا حامل بھی بن جاتا ہے۔ ان کی غزل جدید ہے۔ جدید اس معنی میں کہ بیسویں صدی کا کلام جو” آمد آمد“ میں شامل ہے وہ اکیسویں صدی میں بھی جدید ہے اور اکیسویں صدی کا کلام جو زیرِنظر مجموعے میں شامل ہے وہ بائیسویں صدی اور اس کے بعد بھی اپنے عہد کی ترجمانی کرے گا۔ ان کی نظموں یا غزلوں میں عہدِ حاضر کے حوالے سے جو خیال بندی ہے وہ آنے والے وقتوں میں تاریخ بن سکتی ہے۔ لیکن غزل کے رنگ و آہنگ میں ایسی پائداری ہے جس کا رنگ امتدادِ زمانہ ہلکا نہیں کر سکے گا۔مسلم سلیم نے کہا ہے۔۔
نقاد یہ کہتا کہ کر میری غلامی ۔۔۔ شاعر تجھے میں اوجِ ثریا پہ بٹھا دوں
قدرِ گوہر شاہ داند یا بداند جوہری۔ نقاد حضرات انھیں شعراءسے غلامی کے لئے کہتے ہیں جن کا مال کھوٹا ہوتا ہے۔ گوہر اگر اصل جوہر ہے تو ہر دور میں ان کے
قدرداں بھی ہوتے ہیں اور شناخت کرنے والے بھی۔ مسلم سلیم کے 22 قیراط خالص ہیں۔ انھیں کسوٹی کی ضرورت نہیں وہ اپن quality خود اپنے منھ سےبولتے ہیں۔ یہ بات اور ہے کہ۔۔۔
مسلم مجھے لیکن مری عزلت ہے گوارا۔۔۔ گھر بیٹھ کے خاموشی سے میں فن کا جِلا دوں
مسلم سلیم کا زیرِ نظر مجموعہ اپنے عہد کے کرب کا بھی ترجمان ہے۔ اس میں جہاں مغربیت ، بازاریت اور نسوانی عریانیت کے خلاف آواز بلند کی ہے وہیں اسلامی دنیا پر مغربی ممالک کے مظالم، دورِ حاضر کی خوفناکیاں، سیاہ دولت کی زیاں کاریاں، انسانیت کا زوال وغیرہ کے درد کا بھی اظہار ہے۔ چند اشعار بطور نمونہ پیش کرکے میں اپنی تحریر ختم کرتا ہوں۔۔۔
مغربی بازاریت کی دین یہ ہیجان ہے ۔۔۔ حسنِ نسواں اب فقط تفریح کا سامان ہے
جہاں پہ راج ہے چنگیزی بربریت کا۔۔۔ کسی کے دل میں بھی بدھّا نظر نہیں آتا
نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت …..دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
لوگ پھرتے ہیں یہاں بھیس بدل کر مسلم
شکلِ درویش میں اب کون نجانے نکلے
لہو لہان، دریدہ لباس ہیں لیکن ۔۔۔ ہمارے چہرے پہ اب بھی چمک رہی ہے وفا
دولت سے داغِ جرم ہر اک صاف ہو گیا ۔۔۔ لو آج وہ بھی شاملِ اشراف ہو گیا
کوثر صدیقی، ایڈیٹر، سہ ماہی کاروانِ ادب، 79-A گنّوری،
بھوپال 462001 ،
mob: 09926404171
Kausar Siddiqui, 79-A, Ginnauri, Bhopal. 462001
******************************************
معاصرین کی نظر میں مسلم سلیم
مسلم سلیم – 21 ویں صدی کا شاعر
ڈاکٹر شہزاد رضوی
سابق پروفیسر ، واشنگٹن ، ڈی ۔سی ، یو۔ایس ۔اے
ایک دن اچانک انٹرنیٹ سرفنگ کے دوران میری نگاہ ایک ویب سائٹ www.khojkhabarnews.com پر ٹھہر گئی ۔ یہ بھوپال میں مقیم شاعر ، افسانہ نگار اور صحافی مسلم سلیم کی ویب سائٹ تھی۔ میں کئی گھنٹوں تک اس بلاگ کی سرفنگ کرتا رہا۔ اس میں مسلم سلیم نے صرف اپنی شاعری اور شخصیت کے بارے میں ہی نہیں لکھا بلکہ اردو دنیا کے ہزار ہا شعراءو ادبا کی مختلف ڈائرےکٹریز ترتیب دے کر تعارف و تصاویر پوسٹ کی ہیں۔ میرے نزدیک اردو دنیا میں اتنا بڑا کام پہلے کبھی نہیں ہوا۔ بعد میں پتہ چلا کہ مسلم سلیم نے
muslimsaleem.wordpress.com, muslimsaleem.blogspot.in, xاور کئی دیگر ویب سائٹس کے ذریعہ بھی اردو کے اس بیش بہا اور مخلصانہ خدمت کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ بہر حال اس تحریر سے مسلم سلیم کی ویب سائیٹس کی تعریف مقصود نہیں بلکہ ان کی اس شاعری سے ہے جسکا بےشتر حصہ 20 ویں صدی میں خلق ہوا لےکن جسے بجا طور پر 21ویں صدی بلکہ اس سے بھی آگے کی شاعری کہا جا سکتا ہے۔میں ان کی شاعری کے اس جدید لب و لہجہ سے اس قدر متاثر ہواکہ میں نے انٹرنیٹ پر انگریزی میں مسلم سلیم کی شاعری پر نہ صرف سیر حاصل مضامین
تحریر کئے بلکہ ان کی کئی غزلوں کا انگریزی ترجمہ ءکل انٹر نیٹ پر پوسٹ کیا۔ میں نے اپنے 24 اپریل، 2011 کے مضمو Muslim Saleem
and revelation of his art میں لکھا تھا ” اگر بین الاقوامی اردو حلقہ مسلم سلیم کی شاعری کا حظ اٹھانے سے محروم رہ گیا تو یہ ایک از حد شرمناک بات ہوگی۔ مسلم سلیم شاعری برائے شاعری کے قائل نہیں۔ اور تبھی قلم اٹھاتے ہیں جب ان کے سینے میں موجزن جذبات ان کو تحریک دیتے ہیں اور وہ گذشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کے بحرانات و تجربات کو اس تحریک کی کڑی میں خوبصورتی اورچابکدستی سے پروتے چلے جاتے ہیں۔مسلم سلیم کے اشعارکو سرسری طور پر لینے والا خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اس کے عمق سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ زندگی بھر اسٹڈی روم میں بیٹھ کر مطالعہ
کرنے والے جو سرد و گرم زمانہ چشیدہ نہ ہوں مسلم سلیم کی شاعری کی depth تک پہنچنے میں ہو سکتا ہے کہ ناکام ہو جائیں لیکن ہم جیسے لوگ جو زبردست جدو جہد کے بعد امریکہ، یوروپ، اور دیگر بیرونی ممالک میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں، مسلم سلیم کے فن اورتجربے کی گہرائی کو
مسmissنہیں کر سکتے۔ اس سے قبل میں نے 10 اپرےل ،2011 کو تحریر کردہ اپنے مضمون میں عرض کیا تھا کہ مسلم سلیم کو استعاروں اور علامتوں پر جو عبور حاصل ہے اس سے ان کی شاعری ازحد تہہ دار ہوگئی ہے۔ ایک ہی شعر سے معنیٰ و مفہوم کے سوتے پھوٹے پڑتے ہیں۔
دھوپ میں دیوار بھی تھی کسکو تھا اسکا خیال……. استفادہ سایہ ¿ِ دیوار سے سب نے کیا
یہ اس شخص کے المیہ اور بے چارگی کا پر اثر بیان ہے جس سے ایک زمانہ مستفید ہوتا ہے لیکن یا تو اس ایثار سے بے خبر ہے یا دیدہ و ¿ دانستہ اس کی داد نہیں دیتا کہ اس نے لوگوں کو آلام و مصائب سے محفوظ رکھنے کے لئے آفات و کرب کا کس قدر سامنا کیا ہے اور وہ بھی کوئی شکوہ زبان پر لائے بغیر۔احسان ناشناسی اور بے قدری ہمارے دور کا ایک بڑا المیہ ہے اور غزل کے دو مصرعوں میں اسے اتنی چابکدستی اور فنّی مہارت کے ساتھ نظم کرنے پر مسلم سلیم بے شک داد کے مستحق ہیں۔
بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کا۔۔۔ نشو و نما نہ روکئے، سایہ نہ کیجئے
ایک بار پھر دھوپ اور سایہ کی علامتیں ایک بہترین شعر کی تخلیق میں ممد ہوئی ہیں ۔ جدوجہد اور تجربات و حوادث زندگی میں آگے بڑھتے رہنے اوراسے سنوارنے کے لئے از حد ضروری ہیں۔ ضرورت سے زیادہ پدری یا مادری شفقت میں پلنے والے بچے زندگی میں ذہنی و شخصی ارتقاءکی کئی منازل طےکرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس لئے تجربے ان کے لئے تریاق اور سایہ سنگِ راہ ہے۔ یہ مضمون غزل کے پیرائے میں مسلم سلیم سے پہلے کسی نے نہیں باندھا ہے۔
تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گے ……..میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
اس شعر میں دھوپ کا لفظ تو نہیں لیکن اس کا شدید احساس موجود ہے۔ سایہ اور دیوار مل کر پھر جادو جگاتے ہیں اور ایک المیہ ایک حسین پیرائے میں بیان ہو جاتا ہے۔ شاعر ایک ایسے شخص کی کیفیئات کو بیان کرتا ہے جو مسلسل طور پر اخوت، شفقت، دوستی اور کرم سے محروم ہے۔ یہ احساسِ محرومی تب اور بھی بڑھ جاتا ہے جب وہ کسی ایسے شخص کی طرف بڑھنے کی سعی کرتا ہے جس میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس شخص سے کچھ استفادہ کر سکے وہ شخص کوچ کر جاتا ہے اور طالبِ فیض تشنہ کا تشنہ رہ جاتا ہے۔
سائباں ساتھ کس کے چلے ہیں ۔۔ …..پھر وہی دھوپ تھی، قافلہ تھا
قافلہ ¿ِ ذات کو تجربات و حوادث کی تیز دھوپ میں چلتے ہی رہنا پڑتا ہے کیونکہ محافظت اور تسکین دینے والے ایک حد تک ہی ساتھ دے سکتے ہیں اور رہگذارزیست میں ان سے صرف اسی قدر مستفید ہوا جاسکتا ہے جس طرح راہ میں کوئی سائبان یا کوئی سایہ مل جائے اور انسان کچھ دیر وہاں رک کر آرام کر لے۔ آگے کا سفر تو اسے سائبان سے آگے بڑھکر صعوبتوں اور دشواریوں کو جھیل کر ہی طے کرنا پڑےگا۔ یہ اشعار میں نے مسلم سلیم کے گذشتہ مجموعہ آمد آمد سے لئے تھے۔ اب میں ان کے ز یر ِ نظر مجموعہ سے منتخب چند تاریخ ساز اشعار کی نشاندہی کر رہا ہوں۔
بہار لائے تھے یہ انکا احترام کرو ۔….۔ خزاں ر سیدہ درختوں کو بھی سلام کرو
پاس ہو کے بھی ہم سے وہ خفا خفا سا ہے….. دوریاں ہیں میلوں کی فاصلہ ذرا سا ہے
رنگ آتے جاتے ہیں کتنے اسکے چہرے پر…… حسن اسکا اب دےکھو جب کہ وہ خفا سا ہے
اس لئے جیت کر ہر اک میداں بڑھ گئے رزم گاہ سے آگے
ہم نے اپنی نگاہ رکھی تھی دشمنوں کی نگاہ سے آگے
پہلے تھا ملک میں بس اک ظالم سب جسے بادشاہ کہتے تھے
اب تو اپنے ہیں سینکڑوں آقا ظلم میں عالی جاہ سے آگے
کس قدر پانی ہے پہلے اس کا اندازہ کیا……۔۔۔بند پھر اپنی مدد کا اس نے دروازہ کیا
دہکتی ریت پر پھر میں نے دےکھا۔۔۔سمندر میری ٹھوکر سے نکلنا
قوم کی زبوں حالی پر بھی مسلم سلیم نے بے حد چابک دستی سے روشنی ڈالی ہے:۔
یاد ہے سارا جہاں بھول گئے ہیں خود کو …..سوچتے ہیں کہ کہاں بھول گئے ہیں خود کو
جیت لے گا ہمیں دشمن بڑی آسانی سے ۔۔ ہو گیا سب پہ عیاں بھول گئے ہیں خود کو
زیرِ نظر مجموعے میں مسلم سلیم نے دہشت گردی کے خلاف کافی موثر اشعار شامل کئے ہیں ©۔یہاں میں اس موضوع پر انکی ایک مکمل غزال نما نظم نقل کر رہا ہوں
ہو اگر عاجز تو پھر حاجت روا بنتے ہو کیوں ۔۔ کام ہے یہ تو خدا کا تم خدا بنتے ہو کیوں
درسِ رحمت بھول کر کیوں بن گئے بےدادگر ۔۔ سب کے حق میں پیکرِ جوروجفا بنتے ہو کیوں
ہر قدم کج فہمیاں ہیں، ہر قدم گمراہیاں ۔۔ حق شناس و حق نگر اور حق نما بنتے ہو کیوں
ہو اگر مقدور رکھّو ساتھ کوئی راہبر۔۔۔ راہ گم گشتہ عزیزو! رہمنا بنتے ہو کیوں
فرض مسلم پر قیامِ امن ہے یہ جان لو ۔۔ یوں کھلونا بے جہت جذبات کا بنتے ہو کیوں
اسی موضوع پر چند اور اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت۔۔دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
بھرے گا پےکرِ تصو یر میںِ خوں۔۔۔محبت کا وہ منظر سے نکلنا
بہشت ملتی ہے دہشت سے اور تشدّد سے ۔۔۔ نکال ڈالے دماغوں سے یہ سنک کوئی
اڑا کے اوروں کو خود کو بھی مار لےتے ہیں….. وہ سوچتے ہیں کہ اس میں ثواب ہوتا ہے
اے کشت و خون کے داعی ذرا بتا تو سہی …..کہ ان دھماکوں سے کیا انقلاب ہوتا ہے
اس مجموعہ میں رومانی شاعری اور قطعات کی شمولیت بھی معنی خیز ہے کیونکہ پہلے مجموعے میں ان کی تعداد برائے نام تھی ´ :
وہ مجھ کو سمجھنے میں جو ناکام رہا ہے۔۔۔خود مجھ پہ ہی اس جرم کا الزام رہا ہے
یہ جسم کرتا ہے اکثر بہت سوال تر۱۔۔۔رگوں میں دوڑنے لگتا ہے جب خیال ترا
قدم بچا کے رکھوں میں اگر تو کیسے رکھوں۔۔۔ہر ایک سمت تو پھیلا ہوا ہے جال ترا
تب مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے مخمل یاد کا ۔۔۔سر پہ جب سایہ فگن ہوتا ہے بادل یاد کا
جان و دل میں جب مہک اٹھتا ہے صندل یاد کا
سو غموں کو دور کر دیتا ہے اک پل یاد کا
آج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے۔۔۔ڈائری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے
ایسے ماضی کی پھواروں نے بھگویا ہم کو۔۔۔جیسے بچہ کوئی بارش میں نہانے نکلے
رات بھر چنتے ہیں اکثر لعل و گوہر خواب کے
صبحدم روتے ہیں ہم ٹکڑے اٹھا کر خواب کے
خواب کی جانب چلے پیغام لے کر خواب کے
یوں اڑے دل کی منڈ یروں سے کبوتر خواب کے
جان و دل اپنے ہیں صدقے اس منور خواب کے
جاگتی آنکھوں میں رہنے دو وہ منظر خواب کے
مسلم سلیم نے مغربی ممالک اور میڈیا کی فحاشی اور غلط بیانی کا راز بھی فاش کیا ہے:
مغربی بازاریت کی دین یہ ہیجان ہے ۔۔ حسنِ نسواں اب فقط تفریح کا سامان ہے
مکر آرائش ہے اسکی،جھوٹ اسکی شان ہے ۔۔ مت بہک جانا، یہ گورا میڈیا شیطان ہے
خود تو گویا قتل و غارت، ظلم سے انجان ہے۔۔ ہر برائی کے لئے اسلام پر بہتان ہے
اُس کی ہرزہ گوئیوں پر مہر ِ استحسان ہے۔۔ ہم نے گر کچھ کہہ دیا تو ہر طرف طوفان ہے
حق پہ جےنا ، حق پہ مر مٹنا ہی اسکی شان ہے ۔۔ سچ تو یہ ہے دہر میں مسلم ہی بس انسان ہے
مسلم سلیم کا تقریباً ہر شعر اےسی ہی تہہ داریوں سے مملو ہے اس کے لئے ایک علےحدہ کتاب درکار ہے اور اس مضمون کی طوالت کے خوف سے میں اسے یہیں ختم کرتا ہوں لےکن چلتے چلتے ایک بار پھر میں مسلم سلیم کی اردو ویب سائٹس اور ویب ڈائرےکٹریز کا ذکر کروںگا اور یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گا کہ اس کارنامہ کے سبب مسلم سلیم کو بابائے اردو مولوی عبدالحق کے پائے کی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے
*************************************************************************************۔
مسلم سلیم ہمہ جہت شخصیت۔سلیم اختر
میرے خیال میں جناب مسلم سلیم ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ صحافت اور شاعری اگر ان کو ورثہ میں نہ بھی ملتی تو یہ اسی طرح قابل ، لائق ، ہونہار ، محنتی اورایماندار ہوتے کیونکہ یہ کچھ خصوصیات ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ میں ملی ہیں۔ شاعری تو عطیہ ¿ِ خداوندی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ آپ نے اپنی شاعری کو دلی کیفیات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ کے اظہار کا وسیلہ بنا کر عوام و خواص کے زخمی جذبات پر جو مرہم لگایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔آپ کی شاعری میں وارداتِ قلبی ، دلی کفیات کی عکاسی ، جدائی کی کسک ، حسن و عشق کا خوبصورت اظہارِ بیان راست گوئی و بیباکی جیسی خصوصیات نے اسے بامِ اوج پر
پہنچا دیا ہے جس کا ثبوت ان کے کلام پر مشتمل کتاب کو یونی ورسٹی کے نصاب میں شامل کیا جانا ہے۔میں تو یہ کہوں گا کہ بھوپال کی سر زمین کو اللہ تعالیٰ نے مسلم سلیم تحفہ میں عطا کیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی شاعری کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور نظرِبد سے بچائے۔ آمین۔
محمد سلیم اختر،ریٹائرڈ لیکچرار اردو ، نصرت جہاں اکیڈیمی , 2/15 دارالفتوح شرقی , چناب نگر , پاکستان . فون نمبر . 03347701795
******************************************************************************************
مسلم سلیم ۔ وجد آفریں اشعار کا خالق
مہدی جعفر، الہٰ آباد
بھوپال میں جب۰۳ سال قبل میری ملاقات مسلم سلیم سے ہوئی تھی تو سامنے ایک خوش شکل، وجیہہ، با شعور اور سنجیدہ نوجوان محو گفتگو تھا جو بہت جلد گھل مل گیا تھا۔ چند ملاقاتوں میں یہ بھی پتہ چلا کہ وہ ایک افسانہ نگار بھی ہے۔ ان دنوں راقم الحرف عصری افسانوں کو تنقیدی زاویہ نظر سے پرکھنے میں منہمک تھا۔ اس عالم میں مسلم سلیم جسے بالغ نظر نوجوان کے دو ایک افسانے اسی کی زبان سے سنے تو یہ بھروسا ہونے لگا کہ میری تنقیدی کاوشیںشائد ضایع نہ جایئں۔ اتفاق سے مسلم سلیم کی جائے رہائش میرے گھرکے پاس ہی تھی اور وہ اکثر ملنے چلے آتے تھے۔ جلد ہی میرا تبادلہ بھوپال سے دلّی ہو گیا اور مسلم سلیم سے رابطہ ٹوٹے ہوئے تقریباً چوتھائی صدی گذرگئی۔ الہٰ آباد میں جب ڈاک سے ان کا شعری مجموعہ موصول ہوا تو مسلم سلیم کی نئی تخلیقی فضا نے حیرت میں ڈال دیا۔
میرےزیرِنظر مجموعہ ¿ِ کلام کے مشمولات پر تبصرہ کرنے سے پہلے مسلم سلیم کے اولین مجموعے ”آمد آمد کا ذکر اور تجزیہ لازمی ہے تاکہ قاری ان کے شعری مزاج سے کما حقہُ واقف ہو جائیں۔ مسلم سلیم کے مجموعے ”آمد آمد“ کا شعری شعور واقعی ’آمد آمد‘ ہے۔ انھیں کے بیان کے مطابق اس میں ” وجد کی سی کیفیت طاری “ و ساری ہے۔ وہ کہتے ہیں ، ’سطحی شاعر الفاظ سے خیال تک سفر کی سعی کرتا ہے۔ یہ سفر عرف عام میں آورد کہلاتا ہے، جبکہ غیر معمولی شاعر خیال کو لفظی پیکر عطا ءکرتا ہے‘۔
ان کا مصرع ” نیند بھی میرے لئے عالم بیداری ہے“ اسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے۔ میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ شاعری اس وجد آفریں حالت انجذاب کے بغیر شاعری نہیں ہوتی۔ پھر بھی میرا تصور ہے کہ اگر لفظ کو محسوس کیا جائے، روشن کر دیا جائے، تو اس کا قدیم تاریخی حسن علامتی پیکر بن کر نمودارہوتا ہے اور شعری سفر میں زاد راہ بن جاتا ہے۔ اس صورت میں خیال کی جگہ پر لفظ کا برتاو ¿ شعری منظر کی طرح جلوہ نما ہو جاتا ہے( عید نظارہ ہےشمشیر کا عریاں ہونا)۔ یہ لفظ شعور کے دروازے سے داخل ہوکر لاشعور کی داخلیت سے خراج لیتا ہے۔ یہ وہ صورت ہوتی ہے جہاں لفظ قائم ہوتا ہے البتّہ ”جثّہ تحیئر کو لفظ میں جکڑنے“ اور بے اعتماد نقالی کے لئے لفظ کو چمٹے سے پکڑنے اور بٹھانے کی قطعی ضرورت نہیں پڑتی۔ چنانچہ ’خیال‘ انفراد یت کا
اور ’لفظ‘ معاشرے کے اجتماعی شعور اور لا شعور کا حصہ ہے جو پیدائش سے سماعت، بصارت اور حسیت کی راہ سے داخل ہوکرہماری بصیرت کا حصہ بن
جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں خیال کی تحصیل کے شانہ بہ شانہ لفظیاتی علامتی اضافیت کو بھی شعری توانائ (ENRICHMENT) کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ مسلم سلیم اپنی غزلوں میں ” تتلیاں بھی پکڑتے ہیں“ اور خوابناک لا شعور میں بہ سرعت غوطہ زن بھی نظر آتے ہیں۔ آخر الذکر کیفیت اس سہولت سے پیدا ہوتی ہے کہ شاعر کو شائد خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ سمندر کی کن موجوں کی غواصی کر رہا ہے۔ مسلم سلیم کی تخلیقی فضا میں فرائڈ کی نفسیاتی اپج لا پتہ
ہے۔ اس کی جگہ پر یونگ(C.G.JUNG) کا اجتماعی لا شعور جا بہ جا جھانکتا ہے۔ ان اشعار پر توجہ کیجئے
زندگی خوفناک جنگل ہے ۔۔۔اور سانپوں کے ساتھ رہنا ہے
چاند کیسا یہ ظلمت میں نکلا۔۔۔ضو فشاں تیرگی ہو گئی ہے
پانی ہیں، بلبلہ ہیں، برستی گھٹا ہیں ہم ۔۔ دریا ہیں، آب جو ہیں، سمندر ہیں، کیا ہیں ہم
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے ۔۔ حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑ یں تمام
کوئی فتنہ کوئی شورش کوئی ہنگامہ ہو ۔۔ مجھ کو تڑپائے، مرے جسم کے اندر جاگے
تھی کڑی دھوپ تو کب ان کو پریشانی تھی۔ برف پگھلی تو بہت چونک کے پتھر جاگے
سج گئی بزمِ انجم یکایک۔۔۔منتشر ایک نقطہ ہوا تھا
پرسکوں دن ہے کوئی شور نہیں چیخ نہیں ۔۔ رات ہولے تو گناہوں کا سمندر جاگے
محدود وسعتیں بھی مجھے دے گئیں شکست ۔۔ صحرا بوجہ لغرشِ پا بے کراں سا ہے
ہیں ہمارے جاگتے لمحوں پہ حاوی پستیاں۔ آنکھ لگ جائے تو پھر ہم آسمانوں میں چلیں
کوئی پلٹ کے آتی نہیں، گونجتی نہیں ۔۔ چٹانیں پی رہی ہیں ہماری صدائیں سب
قدرت نے چٹانوں کے ہرے کاغذ پر۔۔ تالابوں کے پانی سے لکھا ہے بھوپال
درج بالا لاشعور سے ملحق الفاظ جنھ یں لکیر کھینچ کر نمایاں کیا گیا ہے متعلق شعر کی روح رواں بن گئے ہیں۔
یہ چند اشعار میں نے یہاں وہاں سے اٹھا لئے ہیں ورنہ مسلم سلیم کی بےشتر شاعری اجتماعی لاشعور (COLLECTIVE UNCONSCIOUS)،
اےگو(EGO)، (روحوں کے اختلاط میں مشکل نہیں کوئی ۔۔اس کا حسین جسم مگر درمیاں سا ہے)، اور مافوق اےگو(SUPER EGO ) (رشتے بنائے رکھنے میں لازم ہے احتیاط ۔۔۔ اس کو خبر نہیں ہے کہ اس سے خفا ہیں ہم) کی جھلکتی کشش سے پڑھنے یا سننے والے کو ازلی لہروں کے سپرد کر د یتی ہے۔ یہ تو خواب جیسا لا شعوری زاویہ ¿ِ نظر ہوا جس سے مسلم سلیم کی غزلوں پر ہر طرف سے روشنی پڑتی ہے۔ اس سے ہٹ کر صرف شعری اعتبار سے دیکھا جائے تو بھی شاعر کا وسیع شعری ادراک فنکارانہ طور پر متوجہ کرتا ہے۔
مدتوں سے ایک جہانِ وہم بھی آباد ہے ۔۔ ہم اک یلے ہی نہیں ہیں فاصلوں کے درمیاں
ملاح کو کھینے کا سلیقہ بھی نہیں تھا ۔۔ کچھ یوں بھی ہے پہلے ہی سے بد نام سمندر
اے تشنہ لباں مژدہ ہے آرام سے بیٹھو ۔۔ خود جوئے رواں سوئے طلبگار چلے گی
جمع کرتے رہو شیرازہ ¿ِ اسبابِ حیات ۔۔ اس کی تقدیر بکھرنا ہے بکھر جائے گا
تمام آرزو یئں دوزخوں کی نظر ہو گئیں ۔۔ تمام عمر جنتوں کی راہ ڈھونڈتا رہا
آج پستی بلندی پہ مسلم ۔۔ کیسے ہنس کر کھڑی ہو گئی ہے
اب آو ¿ چلو ہم بھی ذرا دیکھیں تماشا ۔۔ ہمسائے کے گھر دیر سے کہرام بہت ہے
ہیں ہمارے جاگتے لمحوں پہ حاوی پستیاں۔۔ آنکھ لگ جائے تو پھر ہم آسمانوں میں چلیں
یہ تھام لیتا ہے امکانِ فتحِ نو کے قدم ۔۔ شکست سے بھی برا ہے شکست کا احساس
غرض ہے لطف سفر سے ہمارے قدموں کو ۔۔ نہ فکر جادہ و منزل نہ سمت کا احساس
اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے ۔۔ ہرطرف سے دیر تک پتھر چلے
تھا انتظام میری تباہی کا ورنہ اب ۔۔ ٹھہری ہوئی ہے گردش آفاق کس قدر
مسلم سلیم کے یہاں عہد حاضر کا ناقدانہ مشاہدہ، جگہ جگہ ہجو ملیح کا سلوک، وسعت خیال ، خوابناک شعور و لا شعور کی گیرائی، رواں زبان کا استعمال اور سب سے بڑھ کر حسن و لطافت کا برتاو ¿ ”آمد آمد “ کو حقیقت خیز اور جاذب نظر بناتا ہے۔مجموعی طور پر شاعر کا عصری رجحان کلاسیکی قوس اختیار کرتا ہے۔غالباً یہ بنیادی اردو کے گہرے نقش کا نتیجہ ہے۔ شاعر نے میڈیا سے وابستہ ہونے کے باوجود اس کے اثر سے اپنا دامن بچایا ہے۔
© ”سرمایہ “ تک آتے آتے مسلم سلیم نہ صرف زود گو ہوگئے ہیں بلکہ ان کی شاعری کا کینوس بھی وسیع تر ہو گیا ہے۔ مشاہدے میں مزید عمق پیدا ہوا ہے اور تخیل کی پرواز اور بھی بلند ہو گئی ہے۔
© ’سرمایہ “ کے مسلم سلیم کا کینوس اب اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ شاید کوئی موضوع اور مضمون ان سے اچھوتا نہیں رہ گیا ہے۔ ساتھ ہی الفاظ کی نشست و برخواست اور کاٹ بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ وہ بے حد مشکل ردیفوں میں بہت آسانی سے انتہائی موثر اور رواں اشعار کہہ رہے ہیں ۔
سروں کی گنتی نے آخر کیا اسے رسوا….. ا میرِ شہر پہ بھاری پڑے غریب کے لوگ
جہاں میں دھوم ہے جنکی ژرف نگاہی کی
دکھائی کیوں نہیں دیتے انہیں قریب کے لوگ
اس لئے جیت کر ہر اک میداں بڑھ گئے رزمگاہ سے آگے
ہم نے اپنی نگاہ رکھی تھی دشمنوں کی نگاہ سے آگے
پہلے تھا ملک میں بس اک ظالم سب جسے بادشاہ کہتے تھے
اب تو اپنے ہیں سینکڑوں آقا ظلم میں عالی جاہ سے آگے
دل جہاں لاکھوں پڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
ہم بھی اس رہ میں کھڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
آپ کی مانند چلتے تھے اکڑ کر جو کبھی
خاک میں وہ سب گڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
ردیف اطلاعاً عرض ہے تو میں نے غزل میں پہلی مرتبہ دیکھی ہے ۔یہی نہیں ردیف کو بے حد چابکدستی سے برتا گیا ہے۔ یہ شعر بھی قابلِ توجہ ہے
عشقِ غالب نے کیا جسکا ہے اقبال بلند ۔۔۔ میرِہر نطق زباں کیا ہے؟کہونا اردو
ایک ہی شعر میں اردو کی تین بڑی ہستیوں کا اعتراف اسے سے زیادہ خوبصورت انداز میں نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح کہ اردو کی عظمت بھی کما حقہُ بیان ہو رہی ہے۔
©”باز آمد“ میں مسلم سلیم نے متعدد قطعات بھی شامل کئے ہیں جو ”آمد۔آمد“ میں شاذونادر ہی دکھے تھے۔ زیادہ تر قطعار رومانی ہیں اور یہ بھی ان کے لئے ایک نئی چیز ہے۔ لیکن ان میں مسلم سلیم نے اپنی بھرپور چھاپ چھوڑی ہے۔ یہ قطعات ملاحظہ کر یں۔
تم اک کرن ہو جو شمیں جلائے رہتی ہے۔۔ تم اک خوشی ہوجو دل میں سمائے رہتی ہے
خبر یہ خوب ہے مسلم کہ دشمنِ جاں ہو ۔۔ یہ جاں تمہیں سے مگر لو لگائے رہتی ہے
ایک اور اچھا قطعہ دیکھیں
پہلے تو اس حس یںکے خیالوں میں گم رہا ۔۔ پھر اس کے بعد سب کے سوالوں میں گم رہا
تشبیہ کس سے دوں اسے کیسے بیاں کروں ۔۔ بے مثل دلربا کی مثالوں میں گم رہا
قطعات کے ذریعے مسلم سلیم نے سماجی اور سیاسی برائیوں پر بھی بھرپور وار کئے ہیں۔ قطعہ بہ عنوان ”نام نہاد دھارمک رہنما“ کے یہ تیور دیکھیں:۔
موّدبانہ طریقے سے بولتے بھی رہے۔۔ مگر نظر سے بدن کو ٹٹولتے بھی رہے
نظیرِ فقروقناعت بنے رہے لیکن ۔۔ بٹن ہوس کے لبادے کے کھولتے بھی رہے
”آمد۔آمد“ میں مسلم سلیم نے صرف ایک دو غزلہ شامل کیا تھا لیکن ”سرمایہ “ میں دو غزلوں کے علاوہ سہ غزلہ اور شش غزلہ بھی شامل ہیں جو انکی شعری توانائی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مسلم سلیم کا شعری کارواں کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ ا مید ہے کہ یہ مجموعہ منظرِ عام پر آکر انھیں اردو کے نامور شاعروں کی صف میں کھڑا کردے گا۔
مہدی جعفر، ، ۹۲۷، دریاآباد ، الہٰ آباد
*********************************
مسلم سلیم موجودہ ا ردو ادب کے بلند ترین ستون
مسلم سلیم موجودہ ا رد و ادب کے بلند ترین ستون ہیں ۔آپ کی اشعار میں وہ کاٹ ہے جو ہیروںکی کرنوں سے پیدا ہوتی ہے۔ آپ کی شاعری میں ایک نیاانداز، ایک نئی روشنی ملتی ہے۔ آپ کی اشعار میں طنزو مزاح کا بھی سرمایہ ملتا ہے ۔سنجیدہ شاعری کی طرح طنزو مزاح کا عنصر بھی نئے رنگ میں نظر آتا ہے ۔
عبارت علی علوی تلاش، اٹلی.
(فیس بک آئی ڈی Urdish Ehbab
****************************************
مسلم سلیم ۔ احتجاج کی ایک توانا آواز
نور الحسنین، اورنگ آباد، مہاراشٹرا، انڈیا
ادب کے افق پر خصوصاً شاعری کے ذریعہ اپنی شناخت بنانا آسان نہیں ہے۔ یہ وہ رہگذر ہے جس پر جانے کتنے ہی مسافر برسہا برس چلتے رہے لیکن اپنی شناخت بنانا تو کجا اپنا نام بھی قارئین کے ذہنوں میں محفوظ نہ کراسکے۔ در اصل اس رہ گذر پر ہئی مسافر کامیاب و کامران ٹھہرتا ہے جو عام روش سے ہٹ کر قدم اٹھاتا ہے۔ جس کے سینے میں درمند دل ہوتا ہے اور جسکا دماغ بیدار ہوتا ہے۔ جسکی آنکھ یں روشن ہوتی ہیں اور جو ز مین پر رہ کر بھی آفاق کے اسرار جانتا ہو وہ اپنا راستہ اور اپنی منزل خود ہی طے کرتا ہے۔وہ نہ تو کسی کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے اور نا ہی فرسودہ مضا مین میں الجھتا ہے۔ جس کی
شاعری میں تہہ داری ہوتی ہے اور جس کے لہجے میں ایک عجیب کشش اور تازگی ہوتی ہے۔ ایسے ہی باکمال شعراءکی فہرست میں میں مسلم سلیم کا شمار کرتا ہوں ۔ان کی شاعری وقت کی آواز ہے اور عصر کا آئینہ بھی۔ وہ جوش میں بھی ہوش نہیں کھوتے اور جذبات کے دھارے میں نہیں بہتے بلکہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں بہت سوج سمجھ کر، سنبھل کر اور نہا یت بیباکی سے کہتے ہیں۔ان کی شاعری کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ خفتہ ذہنوں کو بیدار کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور نہا یت آسانی سے اپنا مافی الضمیر ادا کر جاتے ہیں۔
مسلم سلیم کی شاعری نامساعد حالات کا مرثیہ نہیں بلکہ احتجاج کی ایک ایسی مضبوط آواز ہے جو سیاسی، معاشرتی ، تہذیبی، اخلاقی ایوانوں کو جھنجھوڑنے کا ہنر بھی خوب جانتی ہے۔ مثلاً
زندگی کی طرح بکھر جائیں کیوں ہم….. ایسے جئیں کہ مر جائیں
کون ہے اس شہر میں مجھ سے زیادہ باخبر۔۔ مجھ کو سارے بے وفاو ں کے پتے معلوم ہیں
وہ راہیں جن سے ابھی تک نہیں گذر میرا ۔۔ لگا ہوا ہے انہیں راستوں کو ڈر میرا
ترے خلوص کا منکر نہیں ہوں میں لیکن ۔۔ ذرا ٹھہر ، یہ تری آّس تین میں کیا ہے
مندرجہ بالا اشعار کی قراءت ایک ایسے باشعور بیباک شاعر کا تعارف کرواتی ہے جو نہ صرف اپنی دسترس میں لوح و قلم کا اسرار رکھتا ہے بلکہ کھل کر کہنے کا دم بھی رکھتا ہے۔ وہ نہ تو بکھرنے سے خوف زدہ ہے اور نا ہی آس تین میں خنجر چھپانے کر رکھنے والوں سے غافل ہے۔ وہ آگہی اور ادراک کا دامن تھامے ہوئے ہے اور زندگی کو زندگی کی طرح جینے کی تلقین کرنے والا شاعر ہے۔ وہ حالاتِ حاضرہ کا نباض ہے اور اپنی سو سالہ تاریخ کا نقیب بھی اور آج جن حالات سے اس قوم گذر رہی ہے اس کا نوحہ گر نہیں بلکہ نقیب ہے۔ وہ اعتراف کرتا ہے :۔
دیو قامت وہ شجر جب تیز آندھی میں گرا۔۔ پستہ قد جتنے تھے پودے سب قدآور ہو گئے
لیکن وہ مایوس نہیں ہے۔ وہ نہا یت اعتماد لہجے میں اعلان کرتے ہے :۔
باطن کی ذرا آنکھ جو روشن ہو تو پھر ہم۔۔ دیکھیں گے وہ چیز یں جو منظر میں نہیں ہیں
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے ۔۔ حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑ یں تمام
مسلم سلیم کا لہجہ اگرچہ باغیانہ ہے لیکن غنائیت سے بھرپور ہے۔وہ لفظوں کے استعمال کا سلیقہ اور ہنر دونوں جانتا ہے۔ وہ اپنے اشعار میں لفظوں کو موتیوں کی طرح پروتا ہے۔روانی ایسی ہے کہ گویا دریا بہہ رہا ہے۔ خیال آفرینی و معاملہ بندی ان کے اشعار میں اس طرح ّآتی ہے کہ دل ودماغ میں بہت دیر تک اس کی بازگشت سنائی د یتی ہے۔ مسلم سلیم کی شاعری ایک سچے اور حساس انسان کی شاعری ہے۔ان کے کچھ اور خوبصورت اشعار ملاحظہ فرمایئے
خاموشی سے ہر راز نہاں کھول رہا ہے وہ صرف تبسم کی زبان بول رہا ہے
روح کے کرب کا کچھ مداوا نہ تھا…… ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا
بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کا,,,,,, نشو نما نہ روکئے ، سایہ نہ کیجئے
ہر بار یوں لگا کہ کوئی آ ئے گا مگر….. کچھ دور ہی سے لوٹ گئیں آہٹیں تمام
مجھ سے زیادہ وہ میری پہچان سے ملا جو آیا میرے گھر میرے سامان سے ملا
مسلم سلیم شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ یہ ایکایسا پیشہ ہے جس کے اثرات بہت جلد ادب کے معیار اور مزاج کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ موسمی اور وقتی موضوعات بڑی شاعری کے امکانات کو د یمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ لیکن صد شکر ہے کہ مسلم سلیم اسی صحافت میں رہتے ہوئے اپنے فن کو بچا لائے۔ ان کے پاس سستی جذباتیات کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ موضوع کو برتتے ہیں اور خارجیت کو اس انداز سے داخلیت کا حصہ بناتےہیں کہ جگ ب یتی، آپ بیتی میں ڈھل جاتی ہے اور اجتماعی غم، غمِ ذات میں تبد یل ہو جاتا ہے:۔
جب ہم نے زندگی کی گنیں راحتیں تمام لمحات میں سمٹ سی گئیں مدّت یں تمام
´اب کچھ بھی فرقِ مغرب و مشرق نہیں رہا ۔۔ زہر یلی ہو چکی ہیں جہاں کی ہوائیں سب
بھٹک رہا ہوںابھی زندگی کی صحرا میں خبر نہیں کہ کہاں ختم ہو سفر میرا
مندرجہ بالا اشعار مسلم سلیم کے اولین مجموعے ”آمد۔آمد“ سے تھے تاکہ نیا قاری ان کی شعری نہج سے واقف ہو سکے اور نئے مجموعے تک ان کے ارتقائی سفر سے روشناس ہو سکے۔ زےرِ نظر مجموعے تک آتے آتے مسلم سلیم کے قلم میں مزید کاٹ آگئی ہے اور انھوں نے اردو غزل کا دامن وسیع تر کر دیا ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔
گِل خموش کا د یتا نہیں ہے ساتھ کوئی ۔۔ ہیں سارے حاشہ بردار عندلیب کے لوگ
آج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے ۔۔ ڈائری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے
نا گاہ جاگ اٹھا وہ، یہ ہم پر عذاب تھا۔۔ ہم خواب بُن رہے تھے وہ جب محوِ خواب تھا
محشر میں ہم نے دیکھا عجب ہی حساب تھا ۔۔ ناکام جو یہاں تھا وہاں کامیاب تھا
پردا اٹھا کے دیکھا تو آنکھوں میں تھی حیا۔۔ یعنی کہ اس حجاب کے اندر حجاب تھا
بہار لائے تھے یہ، انکا احترام کرو ۔۔ خزاں ر سیدہ درختوں کو بھی سلام کرو
کس قدر پانی ہے پہلے اس کا اندازہ کیا ۔۔ بند پھر اپنی مدد کا اس نے دروازہ کیا
”سرمایہ “ کی نمایاں خصوصیت ہے کہ شاعر مسلم نوجوانوں کو تشدد کی راہ چھوڑ کر امن کی طرف بلا رہا ہے۔ یہاں تک کہ نعت کے شعر میں بھی اس کا اظہار کرتا ہے۔
جہادِ زندگی لازم ہے مسلم جان لو لیکن۔۔ملے گی کامیابی صرف آقا کے طریقے سے
اسی موضوع پر ایک قطعہ بھی ملاحظہ ہو۔
ہر طرف یہ پیام دینا ہے ۔۔ امن کا اذنِ عام دینا ہے
میرے نزدیک مقصدِ اسلام ۔۔ رحمتوں کا نظام دینا ہے
مسلم سلیم کی شاعری ایکایسا جز یرہ ہے جو سمندر میں اٹھنے والے طوفانوں کا مقابلہ کرنا بھی جانتا ہے اور اپنی بقاءکی جنگ بھی لڑ رہا ہے۔ یہ جز یرہ یقینا آنے والے زمانے میں توجہات کا مرکز بنے گا اور مسلم سلیم کے فن کی داد بھی دے گا۔
نور الحسنین
اورنگ آباد، مہاراشٹرا، انڈیا
************************************
مسلم سلیم : جدید لب و لہجہ خوشگوار ہوا کا جھونکا
راشد خلیل، لاہور
شاعری انسانی جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے۔اچھا شعر ہی شاعر کا تعارف ہوتا ہے۔ آجکل جس برق رفتاری سے شاعری کے مجموعے شائع ہو رہے ہیں، ان میں اچھا مجموعہ یا اچھا شعر تلاش کرناجوئے ش یر لانے کے مترادف ہے۔سائنسی ترقی اور مشینی زندگی نے انسانی جذبات و احساسات اور رویوں کوایسا مخبوط کر رکھا ہے کہ آج کا ماد یت پرست انسان اعلیٰ روحانی، اخلاقی، سماجی اور تہذیبی رویوں کے عملی افاد یت سے کوسوں دور چلا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں مسلم سلیم جسے جدید لب و لہجے کے شاعر کا مجموعہ ”آمد آمد“ خوشگوار ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا ہے۔ شاعر اپنے انداز و لہجہ اورمسحور کن کیفیتوں کے حوالے سے ایک معتبر حوالہ دکھائی دے رہا ہے۔مسلم سلیم نے جس علمی ، ادبی، مجلسی، تہذیبی اور معاشرتی ماحول میں عربی، فارسی،
ہندی، انگریزی اور اردو زبان کے حوالے سے ایسی تربیت کا انداز پایا ہے وہ ان کی ابتدائی شاعری میں نظر آتا ہے کر دی میراث وارثوں کے سپرد ۔۔۔ زندگی کس کے نام کر جائیں ہمہ جہت مسلم سلیم بیک وقت عربی، فارسی، ہندی، انگریزی اور اردو زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایک طرف وہ ہندی، انگریزی اور اردو کے نامور صحافی ہیں تو دوسری طرف بہترین شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔وہ زمانی رویوں کو اپنے شعر کے سانچے میں کچھ اس انداز میں سموتے ہیںکہ ان کا شعر سماجی اور تہذیبی حوالہ بھی بن جاتا ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ تخلیق کے عمل میں بنیادی حوالہ ہوتا ہے تب جاکر شعر میں خیال آفرینی ، تخیل اور دےگر شعری محاسن اور معانی و مفاہیم کھلتے ہیں جو قاری کے لئے نہ صرف ذوق مطالعہ کا باعث ہوتے ہیں بلکہ عصری مسائل کا غماز بن جاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کون ہے اس شہر میں مجھ سے زیادہ باخبر ۔ مجھ کو سارے بے وفاو ں کے پتے معلوم ہیں
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے۔۔۔ حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑ یں تمام
خاموشی سے ہر رازِ نہاں کھول رہا ہے ۔۔۔ وہ صرف تبسم کی زباں بول رہا ہے
وہ زیست کے پیالے میں کہیں زہر نہ بھر دے…..۔ کانوں میں جو آواز کا رس گھول رہا ہے
مسلم سلیم کی شاعری میں مغربی شعر و سخن کے مطالعہ کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ الفاظ و تراکیب، روز مرہ اور محاورہ سے واقفیت، قافیہ اور ردیف کا بر محل استعمال، غزل میں شاعر کے اعلیٰ فنکار ہونے کی دل یل ہے۔ بعض شعراءماورائی کیفیتوں اور آورد کے سہارے شعر و سخن کے میدان میں طبع آزمائی ضرور کرتے ہیں اور محدود وقت کے لئے وقتی تعریف کے مستحق قرار پاتے ہیں لیکن زیادہ عرصہ تک اپنا مقام قائم نہیں رکھ سکتے۔ مسلم سلیم کی شاعری اپنے عصری رچا و کی بھر پور عکاس ہے۔ چند مزید اشعار ملاحظہ ہوں
انسان کی کہانی ہے کہ دریا کی روانی ۔۔۔ آغاز سمندر ہے اور انجام سمندر
کس دن بساط زیست پلٹ جائے کیا خبر ۔۔ ہر مہرہ اپنے خانے میں نامطمئن سا ہے
باطن کی ذرا آنکھ جو روشن ہو تو پھر ہم ۔۔۔ دیکھیں گے وہ چیزیں کہ جو منظر میں نہیں ہیں
مسلم سلیم جو ایک اعلیٰ علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور حتی الامقدور اپنے اسلاف کی روا یت کی پاسداری بھی کر رہے ہیں۔ ان کا ذریعہ معاش صحافت ہے اسکے ساتھ علمی، فکری، تہذیبی اورادبی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا ہوا ہے۔مسلم سلیم عقلی، روحانی اور نفسیاتی موشگافیوں کو بہتر اندازمیں سمجھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں آنے والے عہد کا حوالہ بھی موجود ہے اور موجودہ عہد کا نوحہ بھی۔ انداز بیان سلاست کی عمدہ مثال ہے۔ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ تخلےقی جوہر کی بھی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔ بہت کمایسا دیکھا گیا ہے کہ دونوں سطحوں پر انسان اپنے آپ کو فعال رکھتے ہیں۔ تخلےقی عمل بذات خود ایک مکمل جہان ہے۔ مسلم سلیم نے صحافت، نثر اور شاعری میں اپنا لوہا منوا لیا ہے۔
تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی ۔۔ میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
جیب کی گرمی سے کہتی ہے مری بے چہرگی ۔۔ جسم کے بازار چہروں کی دکانوں میں چلیں
دوست یوں جلاتے ہیں ، ایسے خوں رلاتے ہیں۔ محفل یں سجاتے ہیں، ہم کو بھول جاتے ہیں
داستان خود کو کہلواتی رہے گی یونہی ۔۔ ایک جائےگا اک آئےگا سنانے والا
مسلم سلیم آورد کا شاعر نہیں اس کا شعری مواد اس کے ارد گرد کے ماحول اور مضبوط ہند و پاک کی شعری روایات سے مزین ہے۔ ان کی سخن فہمی میں ایک موروثی، جینیاتی اور نفسیاتی محرک عمل بھی کار فرما ہے۔مسلم سلیم کی شاعری میںایک روحانی اور ثقافتی حوالہ بھی خال خال ملتا ہے۔ شاعر ماضی کی یادوں سے بھی اپناناطہ قائم رکھے ہوئے ہے۔بعض اوقات شہرت انسان کے تحقیقی عمل میں ایک رکاوٹ بن جاتی ہے۔ لیکن مسلم سلیم ایسے نابغہ روزگار شاعر ہیں جو شہرت کو پسند نہیں کرتے بلکہ خاموش مسافر کی طرح منازل عشق طے کرنے کا ہنر و شعور رکھتے ہیں
نیک نامی کا صلہ گوشئہ تنہائی ہے………. ۔۔ جس کو شہرت کی تمنا ہو رسوا ہو جائے
مری فطرت میں رچ گیا ہے خلوص …….۔۔ اب مسلسل یہی گناہ سہی
مسلم سلیم اپنے عہد کے بڑے نباض ہیں اور عمیق سماجی اور عصری شعور ان کے مزاج، گفتگو اور تحر یروں میں جھلکتا ہے۔ تخلیقی عمل میں سماجی اور معاشرتی رویوں کا مضبوط تاریخی اور ادبی پس منظر اشعار کی صورت میں قاری کے لئے تفہیم کے نئے در وا کرتا ہوا دکھائی د یتا ہے۔ مسلم سلیم نے اپنے صحافیانہ تجربے اور مشاہدے کو شعر بنانے میںشعری حسن کا خاص خیال رکھا ہے۔ بعض اشعار تو زندگی کا مکمل خاکہ بنا دیتے ہیں اور قاری کے سامنے ایک تصو یر پھر جاتی ہے۔ اس اجمالی تفص یل میں یہ بات عیاں ہے کہ مسلم سلیم جیسا ذی شعور شاعر آنے والے وقتوں کا معتبر حوالہ ہوگا جو ہم عصر زندگی سے قربت رکھتا ہے۔جدےد تہذیب پر طنز، روا یت پسندی، معاشرہ کی تہذیبی اور سماجی شکست و ریخت کا بیان انہیں اپنے ہم عصر شعراءسے ممتاز کرتا ہے۔
راشد خل یل، لاہور، پاکستان
**********************************************************
مسلم سلیم کی غزل گوئی پر ایک نظر
پروفیسرحیدر عباس رضوی
ہندوستان کے وسط میں واقع شہر بھوپال متعدد علوم وفنون خصوصاً ادبیات کا ایک بڑا مرکز ہے۔ نوابی ریاست کے قیام کے ساتھ ہر شعبہ حیات کے ماہرین، علوم وفنون کے کاملین، عربی، فارسی اور اردو کے نامور مصنفین اور ممتاز شعراءوناظمین عزت واحترام کے ساتھ یہاں بلائے اور بسائے گئے۔ ان باکمالوں کی علمی مجلسوں ،ادبی محفلوں اور شعری نشستوں نے شہر میں صحت مند علمی وادبی قدروں اور صالح روایتوں کو فروغ دیا جن کا سلسلہ ہنوز قائم ہے۔ بھوپال ادبی طور پر ایک بیدار شہرے۔ یہاں عربی، فارسی، سنسکرت ، ہندی، سندھی ، مراٹھی ، انگریزی اور اردو کی متعدد ادبی انجمنیں اور مجلسیں قائم ہیں۔ ان انجمنوں کے ساتھ ساتھ ”بھارت بھون“ ہر نوع کی کلچرل سرگرمیوں کا ایک معروف قومی مرکز ہے نیز یہاں ہندی، سندھی اور اردو زبان وادب کے فروع کے لئے الگ الگ اکیڈیمیاں بھی قائم ہیں۔ مشاعرے، کوی سمیلن، ادبی نشستیں، سیمینار، کانفرنس، سمپوزیم وغیرہ وقتاً فوقتاً منعقد ہوتے ہی رہتے ہیں جن میں زبان کے اہل ذوق حضرات خوب دلچسپی لیتے ہیں ۔ علم وادب کی ایسی مہ گیر سرگرمیوں نے ادیبوں اور شاعروں ہی کو نہیں بلکہ ادب دوستوں کو بھی آپس میں جوڑ رکھا ہے۔ ان باہمی خوشگوار روابط سے شہر میں ایک مضبوط اورصحت مند ادبی ماحول قائم ہے جس میں مرحوم ادیبوں اور شاعروں کا ذکر یادرفتگاں کے طور پر کلمات خیر کے ساتھ کیا جاتا ہے، بزرگ شخصیتوں کا کلام ادب واحترام سے سنا جاتا ہے، مشاہیر کی قدر افزائی ہوئی ہے اور مبتدیوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ مہمان دانشوروں، ادیبوں، شاعروں ، صحافیوں نیز ادب دوستوں کی پذیرائی کا چلن یہاں عام ہے۔
اس ادبی ماحول میں مسلم سلیم متوطن ضلع ہردوئی، اترپردیش سے ۹۷۹۱ءمیں صحافتی ملازمت کے سلسلے سے بھوپال آئے اور یہیں کے ہورہے۔ وہ شمالی ہند کے ایک روشن خیال خاندان کے فرد ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ مصلح قوم سرسید احمد خاں نے جدید تعلیم کے فروغ کے لئے علی گڑھ میں قائم کردہ اپنے مدرسة العلوم ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ جن چند طالب علموں کے ساتھ تدریس کا آغاز کیا تھا ان میں مسلم سلیم کے خاندان کے ایک فرد کا بھی داخلہ ہوا تھا۔ اس دور کے مسلمانوں کی رائے عامہ کے خلاف سرسید کے جدید تعلیم کے منصوبے میںتعاون کرنا ان کے خاندان کی دور اندیشی اور روشن خیالی کی دلیل تو ہے ہی بجا طور پر ایک امتیاز بھی ہے۔ مسلم کے دادا اپنے زمانے کے ایک تعلیم یافتہ فرد تھے جو ملک ایران کے کسی بینک میں ذمہ دار افسر کے منصب پر فائز تھے۔ قیام ایران کے دوران شاہانِ قاچار کے خانوادے کی ایک شاہ زادی کے ساتھ ازدواج کا رشتہ قائم ہونا ان کے خاندان کا ایک اور امتیاز ہے۔
مسلم سلیم کی تعلیم کی ابتداءعلی گڑھ میں ہوئی انہوں نے یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن اور الٰہ آباد یونیورسٹی سے عربی میں پوسٹ گریجویشن کی تکمیل کی ہے۔ اردو ان کی مادری زبان ہے نیز عربی ، فارسی ، انگریزی اور ہندی زبانوں میں انہیں کامل دست گاہ ہے۔ کتابوں کے مطالعے کا شوق تو طالب علمی کے زمانے سے پیدا ہوگیا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا رہا۔ اب انٹرنیٹ نے ان کے شوق کو مزید مہمیز کردیا ہے لہذا وہ ہر ممکن ذریعہ سے مطالعہ کتب اور معلومات کے حاصل کرنے میں وقت گذارتے ہیں۔ اس شوق اور شغل سے ان کی شناسائی اور تعلقات کا دائرہ قومی بلکہ بین الاقوامی ہوگیا ہے جو ان کی شاعری اور صحافت پیشگی دونوں کے لئے نہ صرف مفید بلکہ کارآمد بھی ہے۔ صحافت میں ان کا تعلق ابتداءمیں اردو اخبار آفتاب جدید سے تھا، بعد میں انگریز ی کے اخبارات، ڈیلی میل، ایم پی کرانیکل اور ہندوستان ٹائمس سے وابستہ رہے۔ بعدمیں مدھیہ پردیش کے محکمہ اطلاعات کے لئے خدمات انجام دین اور اب اپنی ویب سائٹ
www.khojkhabarnews.comکووسعت دے رہے ہیں۔
شعر وشاعری کا ذوق مسلم سلیم کو ان کے والد سلیم واحد سلیم سے ورثے میں ملاہے جو اپنے زمانے کے ایک اچھے شاعر تھے۔ اب وراثت کے ساتھ ساتھ شاعری ان کے ذاتی ادبی ذوق وشوق کا مظہر ہے۔ مشق سخن میں انہوں نے سلامتی طبع ہی کو رہنما بنایا ہے۔ کلام پر کسی سے اصلاح نہیں لی ہے۔ اسکول کی تعلیم کے دور سے شعر گوئی کا آغاز کیا تھا۔ اسی زمانے سے علی گڑھ ، الٰہ آباد ، ہردوئی، بھوپال اور متعدد شہروں کی ادبی نشستوں اور مشاعروں میں کلام پڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ بھوپال کے ادبی ماحول میں بخوبی متعارف ہیں اور یہاں کے شعر وسخن کے ماحول میں اپنی شناخت قائم کرلی ہے۔
نصب صدی کی اپنی مشق سخن میں مسلم سلیم نے اردو شاعری کی معروف اصناف حمد، نعت، منقبت، قطعہ، نظم، غزل، طنز ومزاح وغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے سرمایہ شاعری میں غزلیں زیادہ ہیں جن کی تعداد ابھی (دسمبر ۵۱۰۲) تقریباً ڈیڑھ سو ہے۔ اس صنف میں انہوں نے دو غزلے، سہ غزلے اور شش غزلے بھی لکھےہیں۔ غزلوں کے علاوہ پچاس قطعے، دس نظمیں، تین حمدیں، چار نعتیں، ایک منقبت اور علامہ بھوپالی کے ادبی نام سے شائع شدہ طنزیہ ومزاحیہ کلام بھی ان کی شعری خدمات کا حصہ ہیں۔ مشق سخن کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ لہذا ان کے شعری سرمائے میں مزید امکان کی توقع ہے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ ”آمدمد“ مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی سے شائع ہوکر ادبی دنیا میں مقبول ہوچکا ہے۔
۹۷۹۱ءمیں مسلم سلیم جب بھوپال آئے تھے اس وقت بھی ہمیشہ کی طرح یہاں کی ادبی خصوصاً شعری نشستیں اردو ادیبوں، شاعروں اور باذوق سامعین کی شرکت سے پررونق تھیں۔ شہر کے ادبی ماحول میں اختر سعید خاں، ڈاکٹر ابومحمد سحر، سرسوتی سرن کیف، رفعت الحسینی، عشرت قادری، فضل تابش، قاسم نیازی، عابد اختر، رہبرجونپوری، مرتضیٰ علی شاد، اجلال مجید، رضا رام پوری، ظفر نسیمی، کوثر صدیقی، آغا سلطان حیدر حیدری، ساجد سجنی،ارمان اکبر آبادی، ظفر صہبائی، نصیر پرواز، نجیب اختر، علی عباس امید، شاہد ساگری، وقار فاطمی، شاہد میر وغیرہ کی شاعری کو توجہ سے سنا اور پڑھا جارہا تھا۔ شہر کے ادبی ماحول میں مسلم سلیم کی خوب پذیرائی ہوئی۔ بھوپال کی محبتوں کے جواب میں وہ بھی بھوپال سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی نظم ”نذر بھوپال“ اس محبت کا ایک خوبصورت اقرار واظہار ہے
کیسے یہ کہیں دیکھ لیا ہے بھوپال ۔۔ فطرت کی قسم روز نیاہے بھوپال
قدرت نے چٹانوں کے ہرے کاغذ پر …۔۔ تالابوں کے پانی سے لکھا ہے بھوپال
اس وقت سے تاریخ کا آنگن مہکا ۔…..۔اوراق پہ جس دن سے کھلاہے بھوپال
ہر وقت ہے مصروف غنا اس کی ہوا …..۔۔ شاید کسی مطرب کی نوا ہے بھوپال
پایا ہے بہت اس کے مناظر میں طلسم …..۔۔جانا کہ بہت ہوش رہا ہے بھوپال
برسوں سے ہے گہوارہ تعلیم یہ شہر ….۔۔ سرچشمہ انوار وضیاءہے بھوپال
مسلم کو ملادشت نور وی کا صلہ …….قدرت نے اسے بخش دیا ہے بھوپال
مسلم سلیم کی شاعری کا محور ومرکز غزل ہے جو اردو کی ایک نہایت معروف اور خواص وعوام کے درمیان نہایت مقبول صنف شاعری ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اردو تاریخ کے ہر دور میں غزل گو شاعروں کی تعداد حد شمار سے اور شعری سرمایہ احاطہ تحریر سے مستغنی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ادب کے آسمان میں غزل کے شاعروں کے ناموں کی ایک خوبصورت کہکشاں سجی ہوئی ہے۔ اس ادبی کہکشاں میں صرف وہ چند شعرا ہی اپنے نام کی پہچان قائم کرنے میں کامیاب ہیں جنہوں نے کسی بھی وصف سے اپنی غزل کی پہچان بنائی ہے ۔ ادب کی تاریخ کے صفحات میں بھی انہیںکے نام محفوظ ہیں۔ مسلم سلیم اس لحاظ سے کامیاب ہیں کہ ان کی غزلوں
میں افکار وخیالات کا دائرہ نہایت وسیع اور مضامین کا تنوع حیرت خیز ہے۔ صحافت کی فرائض کی ذمہ داریوں کی تکمیل کرتے ہوئے وہ زندگی کے عصری مسائل کے تمام خیر وشر اور ہر نشیب وفراز سے آگاہ رہے ہیں۔ عالم انسانیت کے دکھ درد اور تکلیفوں کا نہ صرف انہیں شدت سے احساس ہے بلکہ غزلوں میں ان کو بیان کرنے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔ ان کی غزلوں کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے
رفتہ رفتہ ہم کو جینے کا ہنر آہی گیا ۔۔ پتھروں میں رہتے رہتے ہم بھی پتھر ہوگئے
روح کے کرب کا کچھ مداوا نہ تھا ۔۔ ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا
اب کچھ بھی فرقِ مغرب ومشرق نہیں رہا ۔۔ زہریلی ہوچکی ہیں جہاں کی ہوائیں
ڈالے نہ کیوں کمند ستاروں پہ آدمی ۔۔ قیدی ہے قید خانے میں نامطمئن سا ہے
مجھ سے زیادہ وہ مری پہچان سے ملا ۔۔ جو آیا میرے گھر مرے سامان سے ملا
خدا سے مانگنے ہر اک تمنا ساتھ لے آیا ۔۔ وہ مسجد میں بھی جب آیا تو دنیا ساتھ لے آیا
دولت سے داغِ جرم ہر اک صاف ہوگیا ۔ ۔ لو! وہ بھی آج شاملِ اشراف ہوگیا
مسلکوں کی باریکی ہم نہیں سمجھ پاتے ۔۔ راستوں کے اندر بھی ایک راستہ سا ہے
آنکھ کھلتے ہی حقیقت کی ہوئے کافور سب ۔۔ تشنگی کیسے بجھا پاتے سمندر خواب کے
ہو اگر عاجزتو پھر حاجت روا بنتے ہو کیوں؟ ۔۔ کام ہے یہ تو خدا کا ، تم خدا بنتے ہو کیوں؟
مغربی بازاریت کی دین یہ ہیجان ہے ۔۔ حسنِ نسواں اب فقط تفریح کا سامان ہے
جہاں پہ راج ہے چنگیزی بربریت کا ۔۔ کسی کے دل میں بھی”بدھا“ نظر نہیں آتا
نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت ۔۔ دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
یخ بستہ ملاقاتیں، رشتے بھی ہیں برفیلے ۔۔ یہ آگ بھی کیسی ہے میں جس میں سلگتا ہوں
مذکورہ بالا اشعار مسلم سلیم کی غزلوں کے محض چنندہ نہیں بلکہ عام رنگ سخن کے نمائندہ اشعار ہیں، لہذا فکر کی وسعت اور مضامین کے تنوع کو ان کی غزلوں کا ایک وصف قرار دینا درست معلوم ہوتا ہے۔ غزل کے پیرائے میں انہوں نے ذاتی مشاہدات، تجربات ، نفس کی کیفیات، انسانی جذبات، معاشرتی حقائق، تاجرانہ تہذیب کا چلن، سماجی صداقتیں، سیاست کی فریب کاریاں، فرقہ پرستی کی زہرناکیاں،ترقی یافتہ ملکوں کی مفاد پرستیاں، جارحانہ قوم پرستیاں، ایٹمی اسلح کی مقابلہ آرائیاں، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیاں وغیرہ متعدد مضامین بیان کئے ہیں۔ وہ اس رمز سے آشنا معلوم ہوتے ہیں کہ غزل کا دائرہ کائنات جتنا وسیع اور اس کے موضوعات و مضامین زندگی جیسے ہمہ گیر ہیں۔ موضوعات اور مضامین کی فراوانی کا تحفہ انہیں ان کی انسان دوستی کی صلاحیت، ملنساری کی فطرت اور احساس کی شدت کے ساتھ ساتھ صحافت نے عطا کیا ہے۔ صحافت نے خصوصاً انہیں دنیا کے انسانوں اور انسانیت کو درپیش مسائل ومعاملات سے باخبر رہنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ انٹرنیٹ کے استعمال نے انہیںبے شمار لوگوں سے متعارف کرادیا ہے۔ یہی ان کی فکر وخیال کے سرچشمے ہیں جن سے موضوعات اور مضامین اخذ کرکے انہوں نے اپنی غزلوں میں پیش کیا ہے۔
افکار وخیالات کو غزل کے پیکر میں پیش کرتے ہوئے مسلم سلیم نے عموماً رواں عروضی بحروں کا انتخاب کیا ہے۔ فاعلاتن، مفاعلن، فعلن یعنی عروضی مباحث پر وہ اپنی ادبی سوجھ بوجھ اور موزونی طبع کو ترجیح دیتے ہیں نیز قافیہ وردیف سے اپنی غزلوں میں زمینوں کے تنوع کا وصف پیدا کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائےے
جب بھی جذبوں کے لئے الفاظ نشتر ہوگئے……. ۔ کیسے کیسے پھول جیسے ہاتھ خنجر ہوگئے
جب ہم نے زندگی کی گنیں راحتیں تمام ……۔ لمحات میں سمٹ سی گئیں مدتیں تمام
زندگی کس قدر ہے گراں لکھا گیا ۔……. وقت چہروں پہ مایوسیاں لکھ گیا
ہم پھول گلستاں میں چنیں خار کھائیں سب…… ۔ دیکھیں جب ان کی سمت تو نظریں چرائیں سب
کج اداﺅں ، دل رباﺅں کے پتے معلوم ہیں۔….. جسم سے اٹھتی صداﺅں کے پتے معلوم ہیں
ہیں کیافنا وبقا جثہ اثر سے ڈرو ……۔ رہوں گا زندہ، مری موت کی خبر سے ڈرو
تھے درج ان کتابوں میں اخلاق کس قدر….. ۔ دیمک کی نذر ہوگئے اوراق کس قدر
جثہ تحیر کو لفظ میں جکڑتے ہیں ۔….. شعر ہم نہیں کہتے تتلیاں پکڑتے ہیں
خوشا! کہ ختم ہوا بود وہست کا احساس ….۔ چبھے گا اب نہ کبھی بندوبست کا احساس
سانسوں کے تانے بانے میں نامطمئن سا ہے …..۔دل ایسے سرد خانے میں نامطمئن سا ہے
شاعری، افکاروخیالات کے الفاظ کے ذریعہ موزوں لیکن جمالیاتی اظہار کا فن ہے۔ شاعری کی ایک صنف ہونے کے باعث غزل میں بھی ان شرائط کی پابندی کی جاتی ہے لیکن غزل میں اظہار بیانیہ نہیں بلکہ اشارے اور کنائے میں کیا جاتا ہے لہذااس صنف میں الفاظ کا تفحص، ترتیب، ترکیب، تشبیہ، استعارہ، علامت وغیرہ کا احتیاط کے ساتھ انتخاب اور استعمال کیا جاتا ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے تو غزل کو اظہار سے زیادہ اخفا کا فن کہا ہے۔ غزل کے فن کی تشریح وتفہیم میںیہ ایک اہم نکتہ ہے جس کی تفصیل کا یہ مناسب موقع ومحل نہیںہے۔ مسلم سلیم نے غزل کے فن کا مطالعہ تو دیدہ ریزی سے کیا ہے اور ا س کے فنی اجزا کو قبول بھی کیا ہے لیکن انہوں نے اپنے عہد کے شعری تقاضوں کے پیش نظر جدیدیت کی آمیزش سے اپنی غزلوں میں نیا لب ولہجہ اختیار کیا ہے۔ زبان پر انہیں قدرت حاصل ہے۔ اردو الفاظ، محاوروں اور ضرب الامثال کے عظیم سرمائے کو اپنے اظہار کے مطابق تصرف میں لانے کی وہ خوب مہارت رکھتے ہیں۔ اپنی غزلوں میں الفاظ کو وہ محض اظہار خیال کے وسیلے کے طو رپر استعمال کرتے ہیں ، شعر کی حسن کاری اور آرائش جمال کا ذریعہ نہیں بناتے۔ لہذا زبان کے لحاظ سے ان کی غزلیں اردو غزل کی عام روایت اور روش سے پرے نئی، انوکھی اور کبھی کبھی اجنبی لگتی ہیں۔ اس سبب صحافت کے ساتھ ان کی گہری وابستگی ہے۔ اسی کے اثرات ان کی غزلوں میں زبان اور لہجے پر اثر انداز ہیں
میں بازار سے کافی پردے لایا ہوں ……… اب دیکھوں کیسے رسوائی ہوتی ہے؟
آج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے ……..۔ ڈائری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے
مغربی بازاریت کی دین یہ ہیجان ہے ……. حسنِ نسواں اب فقط تفریح کا سامان ہے
یخ بستہ ملاقاتیں، رشتے بھی ہیں برفیلے …….۔ یہ آگ بھی کیسی ہے میں جس میں سلگتا ہوں
دولت سے داغِ جرم ہر اک صاف ہوگیا …….۔ لو، آج وہ بھی شامل اشراف ہوگیا
مسلم سلیم کی غزلوں میں عالمی انسانی معاشرے کے سانحوں اور حادثوں ، عالمی سیاست کی رسہ کشی، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی باہمی کشمکش ، افلاس زدہ اقوام کی بے بسی، دولت کی لوٹ مار، جرائم، بدعنوانیاں، مفاد پرستیاں غرض آہنگ حیات کو متزلزل کردینے والے حقائق کے اشارے، کنائے اور استعارے موجود ہیں مثلاًمغربی بازاریت، چنگیزی راج، نیم فاقہ نیم عریاں، مصنوعی سانس، نفرتوں کے دشت، لرزہ براندازم فضا، نقیبِ شورشِ فردا، ویرانیوں کے شہر، فریب کے ہزاروں نام، یخ بستہ ملاقاتیں، برفیلے رشتے، سمجھوتے کی زنجیر اور ایسی ہی متعدد ترکیبوں سے مسلم سلیم نے اپنی غزلوں کو نیا رنگ وآہنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ مسلم سلیم کی شعر گوئی کی ابتدا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طالب علمی کے زمانے میں ہوئی تھی۔ پہلی غزل غالباً ۰۷۹۱1970 میں لکھی تھی جس کا مطلع یوں تھا
ہر خواہش کب کس کی پوری ہوتی ہے …….۔ ہوتی ہے پر تھوڑی تھوڑی ہوتی ہے
جدیدیت کے لب ولہجہ میں لکھی گئی یہ غزل دلیل ہے کہ مسلم سلیم ابتدائے فکر سخن سے ہی اپنے عہد کی جدید تر ادبی روش سے متاثر تھے اور ہونا بھی چاہئے تھا کہ اس زمانے کا علی گڑھ ملک میں جدیدیت کے ادبی نظریے کے تعارف، تفہیم اور ترویج کا ایک اہم مرکز تھا جہاں ایک طرف پروفیسر آل احمد سرور اور ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی اپنی اپنی تنقیدی تحریروں سے جدیدیت کی تائید فرمارہے تھے تو دوسری طرف شہر یار ، بشیر بدر اور دیگر شعراءنئی نسل کے درمیان اس کی مقبولیت بڑھا رہے تھے۔ مسلم سلیم نے شعر گوئی کے لئے جدیدیت کو اختیار تو کیا لیکن اس نظریے کی ابتدائی شدت پسندی کے مقابلے میں اپنی طبیعت کی اعتدال پسندی پر قائم رہے۔ اپنی غزلوں میں انہوں نے استعارے برتے لیکن سریع الفہم، علامتیں استعمال کیں، قریب الفہم ، کنائے اختیار کئے اور روشن تر تلمیحات لائے۔ لیکن معروف تر، شعری اسلوب میں ان کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کسی احساس کو جس شدت سے خود محسوس کرتے ہیں اسے شعر میں بھی اسی شدت سے اظہار میں لانے کی تکنیک اختیار کرتے ہیں۔احساس کی شدت کے اظہار کے معاملے میں وہ کسی سمجھوتے کے قائل نہیں ہیں خواہ وہ شعر کی آرائش جمال ہی کیوں نہ ہو۔ جذبے کی شدت کےکھرے اور خالص اظہار سے ہی مسلم سلیم نے اپنی غزل گوئی کی شناخت قائم کی ہے۔ ان کی غزلوں میں ہموار روش اور مانوس فضاکا راز ہی یہ ہے کہ انہوں نے جدیدیت کے اندر اپنے لئے ایک معتدل اسلوب اور الگ رنگ اختیار کیا ہے
ارے ظالم کبھی لفظِ ”مکرر“ کہہ دیا ہوتا ۔ تمہارے نام کے تھے شعر فرمائش تو بنتی تھی
وہ جو روٹھا ہوا سا لگتا ہے ۔ سارا عالم خلا سا لگتا ہے
سفاک قاتلوں کو بچانے کے واسطے ۔…… منصف نے بے گناہ کو قاتل بنادیا
دھرتی کی اپج ذات کے کسانوں کی نہ پوچھے…… ۔ انسانوں کا پوچھیں نہ کبھی دھرم ہوائیں
ٹوٹتے بکھرتے سے اعتبار کی شب ہے ۔…… بے سبب امیدوں پر انحصار کی شب ہے
وقت معرکہ مسلم یار تھے تماشائی …..۔ شور ہی مچا دیتے گر مدد نہیںکرتے
بھوپال کے ادبی ماحول میں جدیدیت مسلم سلیم کی آمد سے بہت پہلے بخوبی متعارف تھی۔ اس رنگ سخن کے کئی نمایاں نام تھے اور ہیں۔ بھوپال کے شاعروں کے درمیان مسلم سلیم متعارف ہیں۔ اپنی شاعری کے انفرادی رنگ سخن سے انہوں نے یہاں اپنی جگہ بنالی ہے لیکن مقامی شعری نشستوں میں وہ کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ دراصل انٹرنیٹ اور فیس بک پر وہ زیادہ مصروف ہیں جہاں ان کے مقامی، ملکی اور غیر ملکی قدر دانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ عصر حاضر کے اس الیکٹرانک ذریعہ ترسیل وابلاغ نے ان کے تعارف بلکہ شہرت کا دائرہ بہت وسیع کردیا ہے۔ کسی حکیم کا قول ہے کہ شہرت ہر شریف النفس انسان کی پہلی اور آخری کمزوری ہے۔ اس قول
سے ”ہم ہوئے،تم ہوئے کہ میر ہوئے“ کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔ معاف کیجئے گا! مسلم سلیم بھی نہی
مسلم سلیم اپنی شعری خدمات کی نصف صدی پوری کرچکے ہیں۔ شہر غزل بھوپال میں وہ تقریباً پینتیس سال سے قیام پذیر ہیں۔ یہاں غزل کی اعلیٰ روایات اور سازگار ادبی ماحول ان کی مشق سخن کو خوب سے خوب تر بنانے میں یقینا معاون رہا ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ”آمد آمد“ کئی برس پہلے شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے۔ اب دوسرا مجموعہ ”سرمایہ“ اشاعت کے مراحل میں ہے۔ فی زمانہ اپنی شاعری کے دو مجموعوں کی اشاعت شاعر کے لئے امتیازکا باعث ہے۔ اس امتیاز کے لئےمسلم سلیم مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ادب دوست حضرات ان کے نئے مجموعہ کلام کے منتظر ہیں۔ امید ہے کہ ادبی حلقوں میں اس مجموعے کی بھی خاطر خواہ پذیرائیکی جائے گی کیونکہ اس تازہ اشاعت سے بھوپال کے شعر وادب کے سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہوگا۔
سید حیدر عباس رضوی
۷/۶ کرییٹو (Creative) گارڈن، احمد آباد پیلس روڈ
کوہ فضا، بھوپال ، ایم پی 462001
462001
**************************************************************************************
مسلم سلیم کی شعری شناخت
جعفر عسکری،لکھنو
¿در حقیقت مسلم سلیم کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب آج سے تقریباً ۵۳ برس قبل وہ شہر الہ آباد میں میرے مکان سے نزدیک محلہ خلد آباد میں ایک فلیٹ میں رہا کرتے تھے۔ وہ غالباً بیسو یں صدی کی ساتو یں دہائی کا درمیانی زمانہ رہا ہوگا جب میرے اس دور کے مخلص دوست فضل حسنین (مزاح نگار) نے موصوف سے میرا تعارف کرایا تھا۔ کشمیری وضع قطع اور ناک نقشے کے گورے چٹے نوجوان سے جوں جوں ملاقاتوں کے سلسے دراز ہوئے، ان کی شخصیت میں پوشیدہ بعض اوصاف مجھ ہیچمداں پر آشکارا ہونے لگے۔ اس زمانے میں مسلم سلیم نے مجھے اپنی جس ادا سے خصوصیت سے متاثر کیا تھا وہ ان کی آواز کا جادو تھا۔ وہ اچھے خاصے گلوکار تھے۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ غزلوں کے علاوہ وہ ممتاز گلوکار محمد رفیع کا ایک گانا ” سہانی رات ڈھل چکی، نہ جانے تم کب آو گے“ خاصے پر اثر انداز میں گا کر سناتے تھے۔ اور پھر رفتہ رفتہ مجھ پر ان کے ادبی اور شاعرانہ ذوق کے اسرار و رموز بھی بے نقاب ہونے لگے تھے۔تقریباً 1982 کے اوائل میں، میں الہ آباد کی سکونت ترک کرکے لکھنو میں مستقل طور پر قیام پز یر ہوگیا اور بعض دیرینہ احباب کی طرح موصوف سے بھی روز کی ملاقاتوں کے سلسلے بھی منقطع ہو چکے تھے۔
لکھنو میں میرے قیام کے دوران، مزاح نگار نے مجھے بتایا کہ مسلم سلیم الہ آباد سے بھوپال میں بودوباش اختیار کر چکے ہیں۔ ماہ و سال گذرتے رہے اور پھر مجھے مسلم سلیم کا کلام بعض رسائل میں نظر آیا۔ خصوصیت سے 1990۰ کے بعد سے بھوپال سے شائع ہونے والے اردو روز نامے ” ندیم“ میں انکی بعض غزلیں نظر نواز ہوئیں۔ ندیم کا ہفتہ وار ضمیمہ میرے کرم فرما حبیب احمد صاحب کی عنا یت سے مجھے گذشتہ کئی برسوں سے موصول ہو رہا ہے۔ مسلم کے اشعار میں شعر یت نظر آئی۔ اس تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ 2011 کے غالباً ماہِ جنوری کے اواخر کی کوئی تاریخ رہی ہوگی کہ اچانک میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔ دوسری جانب مسلم سلیم تھے۔ عرصہ دراز کے بعد ان کی آواز سماعتوں میں رس گھول رہی تھی۔ تھوڑے دن گذرے ہوں گے کہ موصوف نے اپنا مجموعہ کلام ” آمد آمد“ ارسال فرمایا جسکی ورق گردانی کرتے ہوئے پہلی مرتبہ مجھ پر باقاعدہ ان کے بعض مخفی شعری محاسن آشکارا ہوئے۔ شدت سے یہ احساس ہوا کہ ان کے کلام میں عصری حسیت بھی ہے، تخیل کی بلاغت بھی ہے، فکری بلوغت بھی ہے نیز فنّی و تخلیقی ہنر مندی بھی ہے اور احساس اور جذبہ بھی اپنی جلوہ سامانیاں بکھیرتے نظر آرہے ہیں۔
”آمد آمد“ میں شامل اشعار جن میں غزلوں کے علاوہ حمد، نعت اور منقبت کی اصناف میں مدحیہ اشعار بھی شامل ہیں، در اصل زندگی کی گوناگوں حقیقتوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ایک خصوصیت اور۔۔مسلم سلیم نہ تو پیشہ ور مشاعروں کے شاعر ہیں اورنہ شعراءکے اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو بے تحاشہ شعر کہتے ہیں محض تفننِ طبع کے لئے! اس سلسلے میں وہ خود رقم طراز ہیں
”نہیں کہتا تو مہینوں برسوں نہیں کہتا اور جب آمد کا ہجوم ہوتا ہے تو گھر ہو یا دفتر، سفر ہو یا حضر، اشعار کا ورود ہوتا ہے۔۔۔۔ کبھی کبھی برسوں کے بعددس پندرہ دن آتے ہیں جب لگتا ہے کہ ذہن میں آمد کا کوئی بٹن دب گیا ہو۔ ان دنوں مجھ پر وجد کی سی کیفیت طاری رہتی ہے اور میں جھوم جھوم کر ان نو آوردگان کا استقبال کرتا ہوں۔ جب مجھ جسے کم علم پر یہ اشعار گہرا تائثر چھوڑتے ہیں، تو میں مطمئن ہو جاتا ہوں کہ اہل ذوق حضرات انہیں یقینا پسند
کر یں گے“ ( ماخوذ از” آمد آمد“، ص ۵)
متذکرہ بالا سطور کا جائزہ لینے پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ان کی شاعری کی سطح بلند ہے۔ یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ان کی شاعری کا خمیر زندگی اور اس کی مظاہر کی آمیزش سے تیار ہوا ہے۔ اس وجہ سے ان کے اشعار میں فکر و خیال کی متنوع جہت یں پرت در پرت کھلی ہوئی دکھائی د یتی ہیں۔ دراصل وہ خیالی دنیا کے شاعر نہیں ہیں بلکہ بیداری اور باخبری کے شاعر ہیں۔ مندرجہ ذ یل اشعار اس حقیقت کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں
بعد مدت کے جب سامنا ہو گیا …..میں تو بندہ رہا وہ خدا ہوگیا
ایک پل دوری کا احساس نہیں ہوتا ہے ….کیا کہوں کب وہ مرے پاس نہیں ہوتا ہے
تم آنکھ موند لو گے، وہ دیکھتا رہے گا….. مانو اسے نہ مانو وہ تو خدا رہے گا
ہائے کمبخت محبت کے گنہگار ہیں ہم پھر کوئی زخم نیا کھانے کو تیار ہیں ہم
زندگی کا ثبوت دو یارو….. کیوں ہے سنّاٹا کچھ کہو یارو
آج پھر اس کے کوچے کو نکلے جس کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
مدتیں ہو گئیں اس کو دیکھے یار کیا اب بھی اتنا حسیں ہے
یہی بس مشغلہ ہے اب تومسلم ….. لکیریں کھینچنا اور پھر مٹانا
متذکرہ بالا مثال یں مسلم کی متنوع و مستند شاعرانہ شناخت کے لئے کافی ہیں۔درحقیقت ان کے سرمایہ سخن کا ایک حصہ فکری بلوغت، گہری دردمندی، عمیق مشاہد ہ، فنی رچاو کے ساتھ ہی زندگی کی انفرادی و اجتماعی حقیقتوں اور بصیرتوں کا ترجمان ہے۔ مختصر یہ کہ مسلم کی شاعری محض ان کی ذات کا نہیں بلکہ گردو پیش کی تلخ و شیریں حقیقتوں کا شاعری اظہار ہے اور انکشاف بھی۔
ڈاکٹر جعفر عسکری (انتقال ۶۱۰۲)
239, MUMTAZ MAHAL COMPOUND,
GOLAGANJ, LUCKNOW-18
*********************************************************************************************
نبّاضِ عصر مسلم سلیم
نذ یر احمد سامی، الہ آباد
میں مسلم سلیم سے گذشتہ تےس برسوں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ ان کا مدّاح بھی ہوں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شاعرو افسانہ نگار کی حیثئیت سے انھوں نے ہمشہ سماج کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھا ہے لیکن ایسا کرتے وقت انھوں نے اعلیٰ شعری و ادبی معیار کو قائم رکھا ہے۔ ان کے اشعار اور افسانوں میں کلاسکس کا رچاو، نفسیات کا عمیق مطالعہ اور گہرا مشاہدہ پایا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر چند اشعار پیش ہیں
ہیں کیا فناءو بقا، جثئہِ اثر سے ڈرو…… رہوں گا زندہ مری موت کی خبر سے ڈرو
تمام شہر کے دروازے نیچے نیچے ہیں……….. بہت بلند نہ ہو جائے اپنے سرسے ڈرو
روح کے کرب کا کچھ مداوا نہ تھا ڈاکٹر…………….. نیند کی گولیاں لکھ گیا
چمنی سے ابلتی ہے وہ زنجیر دھوئیں کی………… آزاد ہوا اب سے گرفتار چلے گی
محدود وسعتیں بھی مجھے دے گئیں شکست……………… صحرا بوجہِ لرزشِ پا بے کراں سے ہے
ٹوٹی ہے گر کے چیز کوئی بارہامگر………. سر پر محیط اب بھی وہی آسماں سے ہے
مسلم سلیم نے اپنے نثری و شعری سرمایہ کی بنیاد ان چیزوں پر رکھی ہے جو کسی فنکار کو اپنے عہد کا نمائندہ بنانے کے لئے ناگز یر ہوتی ہیں۔ اچھے فنکار کواگر تنقیدی شعور بھی ہو تو اس کے فن میں چارچاند لگ جاتے ہیں۔ وہ اس شعور کو الہ آباد سے شایع جریدہ ’اندازے‘ کے ذریعے ثابت کر چکے ہیں جس میں اسد بدایونی کے شعری مجموعہ پر ان کا سیر حاصل تنقیدی مضمون شایع ہوکر دادِ تحسین حاصل کرچکا ہے۔اسی طرح ’روشن‘ کے فانی نمبر میں شایع ان کے مضمون ’فانی۔فن اور زندگی‘ میں فانی بدایونی کے کلام پر نئی روشنی ڈالی گئی ہے۔فانی وہ شاعر ہے جس پر زمانے والوں نے قنوطیت اور رجعت پسندی کی مہر ثبت کر رکھی ہے۔ لیکن مسلم سلیم نے دلائل و تجزیات سے ثابت کیا ہے کہ فانی ایک حقیقت پسند، حوصلہ مند، حساس انسان اور انسان
دوست تھے۔ اس مضمون نے فانی کے ارد گرد بنے ہوئے نام نہاد ناقدوں کے تانے بانے کو مسمار کر دیا ہے۔
مسلم سلیم کی شخصیت کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ان کی ذات بے حد متنوع اور متضاد شعبوں میں منقسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دوستوں کی تعداد بے شمار ہے جوقطعی مختلف المزاج ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ہر دوست مسلم صاحب کی علیٰحدہ علٰیحدہ خصوصیات سے واقف ہوتا ہے اور دیگر خوبیوں کی اسے ہوا بھی نہیں لگتی۔ جہاں تک راقم الحروف کا سوال ہے تو اس نے مسلم سلیم کو تقریباً ہر رنگ میں دیکھا ہے۔ میں مسلم سلیم کے جس قدر نزدیک آیا ہوں اسی قدر ان کی غیر معمولی ذہانت اور علمیت کا معترف ہوتا گیا ہوں۔ انھیں انگریزی، عربی، فارسی، اردو اور ہندی پر دسترس ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے پناہ تخلیقی اور تنقیدی شعور کا حامل ہونا کوئی معمولی کارنامہ نہیں کہا جاسکتا۔ آئیے مسلم سلیم کو ان کے منتخب اشعار کی روشنی میں دیکھا جائے۔
اسے کب یاد آیا یاد کرنا مجھے کب یاد آیا بھول جانا
قسمیں وعدے پیار وفائیں……… کہئے تو کچھ یاد دلائیں
سائے آتے ہیں سائے جاتے ہیں………… آدمی کم ہی پائے جاتے ہیں
دولت نہ تخت وتاج نہ شہزادی چاہئے ……….. ہم کو تو صرف خوف سے آزادی چاہئے
پرانے بام و در ڈھونڈا کیے ہم ……….. نئے گھر میں وہ گھر ڈھونڈا کیے ہم
پارکھی نگاہوں کے سامنے یہ منظر ہے……………… ذرّے میں زمانہ ہے بوند میں سمندر ہے
ضرور کرنا، کہا کب کہ پیار مت کرنا مگر ہماری طرح بے شمار مت کرنا
ورق ماضی کے الٹوں گا میں ڈھوندوں گا گلی تیری
بہت دیکھی ہوئی سی شکل ہے اے اجنبی تیری
مری عظمت کے قصّوں پر نہ جانا………………. مرے بارے میں افواہیں بہت ہیں
جیت رکّھا ہے جس نے ایک جہاں …. دل وہ ہارا ہوا سپاہی ہے
مندرجہ بالا اشعار کی تشریح کئی کئی صفحات میں کی جاسکتی ہے جو فی الحال جگہ کی قلّت کے سبب ممکن نہیں۔ میری دعا ہے کہ مسلم سلیم اسی طرح اردو زبان و ادب کو نوازتے رہیں۔وہ چاہتے تو دیگر زبانوں میں بھی اپنی ذات کا اظہار کر سکتے تھے مگر اردو کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ان کو اس سے والہانہ محبت ہے
نذ یر احمد سامی، الہ آباد
********************************************************************************************************
مسلم سلیم کی آمد آمد“
ظفر نسیمی، بھوپال
سینئر جرنلسٹ مسلم سلیم کا پہلا شعری مجموعہ ’آمد آمد“کے نام سے ادبی افق پر نمودار ہوا ہے جس پر اہل ِ ذوق کی نگاہیں لگی ہیں۔ اس مختصر سے مجموعہ کلام نے ادبی دنیا میں ایک ہلچل سی پیدا کردی ہے۔
” میں آورد کا شاعر نہیں ہوں۔ اشعارمجھ پر وارد ہوتے ہیں۔“ یہ کہنا ہے مسلم سلیم کا۔ آئیے اس بہانے ان کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ بردباری، سنجیدگی اور متانت ان کی شخصیت کے خاص جزو ہیں۔ علمی بص یرت، صوفیانہ فطرت، دانشورانہ ذہانت اور لہجے
کی صداقت ان کی خاص صفات ہیں۔ میں انھیں ایک خاموش طبیعت انسان کے روپ میں دیکھتارہا ہوں کیونکہ وہ بہت کم سخن ہیں لیکن جب وہ بولتے ہیں تو ان کے فصاحت آمیز کلمات دلوں میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ علاّمہ اقبال کا ایک شعر ہے۔
نہیں منّت کش ِ تابِ شنیدن داستاں میری َََ خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری علاّمہ اقبال نے یہ شعر ملت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہوگا لیکن مسلم سلیم پر کُلّی طور پر صادق آتا ہے۔ جب ان کی خاموشی ٹوٹتی ہے تو نہا یت دلگدازاشعار وجود میں آتے ہیں جو سامعین کو چونکا دیتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ بہت گہرا ہے۔وہ جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اسے من و عن بیان کردیتے
ہیں۔اس اظہار کی بےساختگی کو انھوں نے آمد کا نام دیا ہے اور یہی ان کے فطری شاعر ہونے کی علامت ہے۔ عام شاعر جو کچھ کہتے ہیں اس پر بار بار غورکرتے ہیں۔ کبھی قواعد کی رو سے اور کبھی عروض کے اعتبار سے قطع و برید کرتے ہوئے الفاظ کی ترتیب بدلتے ہیں۔ بندش یں چست کرتے ہیں۔ اس مشقت کو نوک پلک سنوارنے کا نام دیتے ہیں تب کہیں بہ مشکل تمام ایک شعر وجود میں آتا ہے۔ مسلم سلیم کے اشعار سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو شعر ان کے ذہن میں ایک بار وارد ہوتا ہے ہو اسے و یسا کا و یسا ہی رقم کر لیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد کسی کسی ترمیم و تنسیخ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس سے آمد آمد کا ان کا دعویٰ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ ان اشعار میں ان کی بےساختگی، سہلِ ممتنع اور الفاظ کی جدید ترکیبات ملاحظہ کیجئے ۔
مجھ پہ بس میری حکمرانی ہے ۔ یوں جیا ہوں، یونہی جیوں گا میں
اب لباسوں کا کیا ہی کہنا ہے….. ۔ کچھ نہیں پہنا ، اور پہنا ہے
یہ حسیں بت ہیں سنگِ مر مر کے …..۔ آخرش ہیں تو یہ بھی پتھر کے
خود اپنے آپ ہی ابن ِ سبیل بھٹکا ہے ….۔ وگرنہ سیدھی تھی اور اب بھی ہے صراطِ وجود
ترے خلوص کا منکر نہیں ہوں میں لیکن….. ۔ ذرا ٹھہر، یہ تری آس تین میںکیا ہے
مندرجہ بالا صفات کے علاوہ مسلم سلیم کی ایک صفت تلوّن مزاجی بھی ہے۔ وہ کسی ایک نظرئے کو لیکر نہیں چلتے۔ وہ قدرت کی پیدا کردہ تمام تخلیقات پر نظر رکھتے ہیں اور جہاں سے جو کچھ ملتا ہے اخذ کرلیتے ہیں۔
ہر اک خیال کی تصو یر اسمیں ملتی ہے…… نگار خانہِ تخئیل شاعری میری
رفتہ رفتہ ہمکوجینے کا ہنر آہی گیا……… پتھروں میں رہتے رہتے ہم بھی پتھر ہو گئے
تھی کڑی دھوپ تو کب انکو پریشانی تھی…………… برف پگھلی تو بہت چونک کے پتھر جاگے
ڈالے کمند کیوں نہ ستاروں پہ آدمی قیدی ہے، قید خانے میں نا مطمئن سا ہے
وہ شاعر ہی کیا جس کے اشعار میں تغزل نہ ہو۔ مسلم سلیم بھی اس جوہر سے متصف ہیں۔ انھوں نے تغزل میں نیا انداز ایجاد کیا ہے۔ روا یت سے منحرف تو نہیں ہیں لیکن روا یت میں اپنے لہجے کے بل پر جدّت کے قائل ہیں۔ یہی لہجہ کا نیا پن انھیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ میر و سودا کے دور سے لیکر آج تک حسن و عشق کے موضوعات پر لاکھوں اشعار کہے گئے ہیں۔ تازہ کلام میں کسی خیال کا دہرانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ لیکن مسلم سلیم کے اشعار پڑ ھ کرایسا گمان نہیں ہوتا کہ یہ بات پہلے کہی گئی یا اس طرح کہی گئی ہے۔ ملاحظہ ہوں یہ اشعار۔
محفلِ ادراک میں توڑا سکوتِ بے حسی………………. جرم کتنا خوبصورت جنبشِ لب نے کیا
پہلے مرنے کا کوئی خوف نہیں تھا مجھ کو………… تم کو پایا ہے تو اندےشہ ¿ِ جاں کتنا ہے
رشتے بنائے رکھنے میں لازم ہے احتیاط…….. اسکو خبر نہیں ہے کہ اس سے خفا ہیں ہم
خاموشی سے ہر رازِ نہاں کھول رہا ہے۔۔ ۔ ´ وہ صرف تبسم کی زباں بول رہا ہے
الفت بھی عجب شے ¿ ہے، وہ خاموش ہے……… لیکن اس شوخ کا ہر عضوِ بدن بول رہا ہے
میں ایسا اس کے تصور کی راہ میں کھویا ۔۔۔ وہ آگیا تو مرا انتظار کرنے لگا
تغزل کے ساتھ ان کے اشعار میں انسانی نفسیات کو سراغ بھی ملتا ہے۔ کبھی کبھی انسان کی سادہ مزاجی یا کسر نفسی بھی دلوں کو موہ لیتی ہے۔ یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ گھر کے رکھ رکھاو ¿ سے صاحبِ خانہ کی حےث یت اور مزاج کی شناخت ہوتی ہے اور اکثر ہم اپنی انا کی شکست کو قبول نہیں کرتے ۔مسلم سلیم کے یہ اشعار ایسی ہی انسانی نفسیات کو واضح کرتے ہیں۔
نہ میں حسیں تھا، نہ خوش ادا تھا، نہ خوش گلو تھا
مگر مری بے بسی دل اسکا لبھا گئی تھی
مجھ سے زیادہ وہ مری پہچان سے ملا ۔۔۔…… جو آیا میرے گھرمرے سامان سے ملا
ہمکو منظور نہ تھی اپنی انا کی سُبکی۔۔…….۔ ہم سمجھ بوجھ کے دیتے رہے دھوکا خود کو
ان کو شرم آتی ہے ہم کو جب بلاتے ہیں
منہ سے کچھ نہیں کہتے، چوڑیاں بجاتے ہیں
کمرے میں ہوس کو تو چھپا لیتے تھے لیکن ………..۔ اب عشق ہے اور عشق ٹھہرتا نہیں حد میں
نفسیاتی تجزیہ کی روشنی میں یہ شعر پھر دہرائیے۔
پہلے مرنے کا کوئی خوف نہیں تھا مجھ کو ۔۔۔ تم کو پایا ہے تو اندےشہ جاں کتنا ہے
یہ بات کتنی خوبصورتی سے کہی گئی ہے کہ محبوب کو پانے سے پہلے شاعر کی نظر میں اسکی زندگی کی کوئی قیمت ہی نہیں تھی لیکن اس کو پانے کے بعد اس کو خود اپنی جان زیادہ عزیز ہو گئی ہے کیونکہ اس کی جان کا زیاں محبوب کے لئے باعث ِ محرومی ہوگا۔ اس اذیّت کا وہ تصور بھی نہیں کرنا چاہتا۔ مسلم سلیم کا کلام عصری حسّ یت کا آئینہ دار ہے۔ وہ زندگی کے مشاہدات اور تجربات کو مہارت کے ساتھ اشعار کے سانچے میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ اس شعر کی تہہ داری ملاحظہ فرمائےے ، درد کی ساری کیفیات دو مصرعوں میں سمٹ آئی ہیں۔
آثار ِ کرب سب سے چھپاتا پھرا مگر۔۔… ۔بستر پہ نقش ہو ہی گئیں کروٹ یں تمام
مسلم سلیم کی شاعرانہ فکر میں موضوعات کی بو قلمونی اس طرح جھلکتی ہے کہ کہیں وہ زندگی اور موت کا فلسفہ بیان کرتے ہیں، کہیں کائنات کے وجود پر رائے زنی کرتے ہیں اور کہیں فزکس اور کیمسٹری کے راز کھولتے ہیں۔
زندہ ہوں اب بھی گر ہے تنفس کا نام زیست …….۔ سینے میں کوئی چیز جو زندہ تھی مرگئی
سج گئی بزمِ انجم یکایک…….. ۔ منتشر ایک نقطہ ہو ا تھا
خدایا دل کو بینائی عطا کر ۔…… نظر کی راہ میں حدِّ نظر ہے
نہ احتیاط و تکلف نہ انضباطِ وجود ….۔۔۔ وفور ِ جذب اگر ہو تو ہے نشاطِ وجود
مسلم سلیم نے ڈاکٹر اقبال کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے چناچہ اس کے تاثّرات ان کے کلام میں کہیں کہیں نظر آجاتے ہیں۔
اپنااقبال ہو رہا ہے بلند ……۔۔۔ شرحِ بانگِ درا سمجھنے لگے
چل کے چٹّانوں سے سیکھ یں زندگی کے کچھ ہنر …..۔ ۔ آ مری جینے کی خواہش سخت جانوں میں چلیں
ہیں ہمارے جاگتے لمہوں پہ حاوی پستیاں ……۔ آنکھ لگ جائے تو پھر ہم آسمانوں میں چلیں
جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں، مسلم سلیم قلم برداشتہ اشعار لکھتے ہیں۔ عام بول چال کی زبان کا استعمال کرتے ہیں اور ضرورت ہو تو انگر یزی الفاظ کی بھی خوشنما پیوندکاری کرتے ہیں۔
سب اسکی رفتار سے ہارے طائر کیا طیارہ کیا ۔…….. ہمکو ترا ی۔م یل سلامت، قاصد کیا ہرکارہ کیا
روح کے کرب کا کچھ مداویٰ نہ تھا ………..۔۔ ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا
مسلم سلیم شہرت سے گریز کرتے ہیں اس لئے وہ مقامی نشستوں یا مشاعروں میں نظر نہیں آتے۔ مقامی پرچوں میں بھی شاذونادر انکا کلام دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن ہائی۔ٹیک میڈیا سے شغف رکھتے ہیں۔ ان کی اپنی ویب سائٹس بھی ہیں جن کے ذریعہ وہ سمندر پار تک کے دوستوں ، ادیبوں اور شاعروں سے رابطہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ مجموعہ کلام زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ میں انکے اس خیال کی تائید کرتا ہوں کہ۔۔
کچھ اس خوبی سے ہم نے گل کھلائے ۔ زباں چپ تھی، قلم نے گل کھلائے
ا مید ہے کہ وہ انشاءاﷲ ایسے ہی گل کھلاتے رہیں گے۔
ظفر نسیمی ، بھوپال
*************************************************************************************************
دنیا کے 35ر شعراء کے مسلم سلیم کو59 منظوم خراج عقیدت
مسلم سلیم کو شعری نذرانے
ڈاکٹراحمدعلی برقی اعظمی،نئی دہلی
وقت کی آواز ہیں مسلم سلیم
شاعرِ ممتاز ہیں مسلم سلیم
جانفزا ہے انکا تخلےقی شعور
صاحبِ اعجاز ہیں مسلم سلیم
ثروت زیدی بھوپالی
شعروسخن کے تاج ہیں دل کے امیر ہیں
لفظوں کی انجمن میں انیس و دبیر ہیں
غالب نواز قوم نے اعلان کر دیا
مسلم سلیم اردو گھرانے کے میر ہیں
تنو یر پھول (نیو یارک)
نغمہ ¿ِ تہنیت ہے ہر لب پر
بھائی مسلم سلیم دیدہ ور
خوش نوا، خوش ادا، بہت مخلص
آسمانِ ادب پہ مثلِ قمر
دیکھ لو ویب سائٹ اردو کی
بھائی مسلم کا خوب ہے یہ ہنر
نور پھیلاتے ہیں ادب کا صدا
داد دیتے ہیں سارے اہلِ نظر
ان کی تحر یر ہے بہت اعلیٰ
ان کا طرزِ سخن رہے گا امر
کیا شگفتہ مزاج ہے ان کا
دل ہے ان کا محبتوں کا نگر
ذات میں اپنی انجمن ہیں یہ
کرتے ہیں خوب یہ دلوں میں گھر
حق پرستی، خلوص اور الفت
ان سے معمور ان کے قلب و جگر
زندہ دل، کہنہ مشق اور خوش گو
جاری برسوں سے ہے ادب کا سفر
دل سے ان کا کلام پڑھئے اگر
ان کی تحر یر میں نہاں ہے اثر
ان کا پیغام عظمتِ انساں
انکے اشعار ہیں عروجِ بشر
بزمِ اردو کے ہر خزانے میں
ان کی تحر یر مثلِ لعل و گہر
اس میں انسانیت کا درد بھی ہے
سوزِ دل کا نہاں ہے اسمیں اثر
نام مشہور ہندوپاک میں ہے
مثلِ مہتاب ان کی راہ گذر
ان سے شاداب گلشںِ اشعار
پھول سر سبز ہے ادب کا شجر
سعید خاں چراغ شیوپوروی
اہلِ خرد کے دلبر مسلم سلیم صاحب
ایثار کے سمندر مسلم سلیم صاحب
نعمت قلم کی دی ہے تحفے میں جنکو رب نے
کرتے ہیں راج دل پر مسلم سلیم صاحب
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نئی دہلی ،انڈیا
شاعرِ خوش فکر وخوش گفتار ہیں مسلم سلیم
اہل دانش کے معین ویار ہیں مسلم سلیم
آمدآمد سے عیاں ان کا حسن فکر وفن
عندلیب گلشن گفتار ہیں مسلم سلیم
حارث بلال ، سرگودھا، پاکستان
شاعری کا ناز ہیں مسلم سلیم
شعر کی پرواز ہیں مسلم سلیم
ان کے سب مضموں طبیعت سے قریب
زندگی کا ساز ہیں مسلم سلیم
رنگ شعروں میں گلوں کے بھرتے ہیں
شاعرِ گلساز ہیں مسلم سلیم
بات کرتے ہیں کھری اور جاندار
اک نڈر آواز ہیں مسلم سلیم
لوگ حارث کہنے پر مجبور ہیں
عصر کا اعزاز ہیں مسلم سلیم
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نئی دہلی ،انڈیا
آمد آمد ہے یہ عصری آگاہی سے ہمکنار
ایک صحافی کے قلم کا ہے جو ادبی شاہکار
نام ہے مسلم سلیم اور شخصیت تاریخ ساز
کارنامے جن کے ہیں ویب سائٹوں سے آشکار
دیکھ کر ویب سائٹ یں خود رائے قائم کیجئے
علم کا ماحول ہے جن کی وجہ سے خوشگوار
اردو شعرا اور ادیبوں پر ہے جو ڈائریکٹری
اہل دانش کے لئے ہے باعث صد افتخار
خدمت اردو ہے ان کا ایک فطری مشغلہ
ہے ستم دیدہ دلوں کی شاعری ان کی پکار
مظہر سوزِ دروں ہے ان کا معیاری کلام
ہے جہانِ فکر وفن میں جس کو حاصل اعتبار
ہیں یہ رشحات قلم عصری ادب کا آئینہ
سوز وسازِ زندگی برقی ہے جن سے آشکار
فیصل نواز (لندن)
جس طرح درد کو ہونٹوں سے صدا ملتی ہے
ان کے شعروں سے ستاروں کو ضیا ملتی ہے
ندرتِ فکر سے مملوہے کلامِ مسلم
آرزوﺅں کی کھنک دل کی نوا ملتی ہے
لوگ لب بستہ ہوں دہشت کی فضا میں جس دم
تب خیالات کو مسلم کی صدا ملتی ہے
میری مانو وہ معالج ہیں دماغ ودل کے
ان کے اشعار سے ذہنوں کو شفا ملتی ہے
رت بہاروں کی ہو یا دورِ خزاں ہو فیصل
ان کے اشعار سے جینے کی ادا ملتی ہے
مجید تاج بلوچ، بلوچستان، پاکستان
ہر دل میں احترام ہے مسلم سلیم کا
بے مثل وہ کلام ہے مسلم سلیم کا
ہر زاویہ کے سے کرتا ہے خدمت ادب کی جو
بس ایک ہی وہ نام ہے مسلم سلیم کا
ان کو ملا ہے ورثے میں گنج سخن وری
مشہور فیض عام ہے مسلم سلیم کا
غزلوں میں ان کی ندرتِ فکر ونظر بھی ہے
یہ بھی نظیر کام ہے مسلم سلیم کا
کرتے ہیں رہنما ہی جو استاد کی طرح
دل یہ میرا غلام ہے مسلم سلیم کا
کردو رقم یہ نام سنہری حروف سے
اونچا بہت مقام ہے مسلم سلیم کا
اے تاج! بادشاہ ہیں شہر سخن کے وہ
اب ہر زباں پر نام ہے مسلم سلیم کا
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نئی دہلی ،انڈیا
ہیں یہ مسلم سلیم کے اشعار
ان کے ذوقِ سلیم کے غماز
خود پڑھیں اور لگائیں اندازہ
زندگی کا ہے ان میں سوز وگداز
ان کا رنگ سخن تغزل میں
ان کی تاب رساں کا ہے اعجاز
ان کے فن کا ہے قدر داں برقی
ہیں یہ اشعار وقت کی آواز
احمد علی خاں (ریاض، سعودی عربیہ)
علم و فن کی منزلوں کے راہ بر مسلم سلیم
سائبانِ اردو کے ہیں بام و در مسلم سلیم
محفلِ یاراں ہو یا ہو پھر کوئی بزمِ سخن
ہوتے ہیں جلوہ فگن مثلِ قمر مسلم سلیم
وسعتِ علم و ادب کا معترف سارا جہاں
باغِ اردو کے ثمر آور شجر مسلم سلیم
ان گنت اوصاف ہیں، احمد رقم کیا کیا کرے
خوش بیان و خوش ادا و خوش نظر مسلم سلیم
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نئی دہلی ،انڈیا
محسن اردو زبان مسلم سلیم
کارنامے جن کے ہیں بیحد عظیم
ان کی ویب سائٹ ہے گنج شائےگاں
جس سے ہے ان کا عیاں ذوق سلیم
ہے یہ اردو کے لئے ایک نیک فال
اس کی ہے ڈائریکٹری کار عظیم
ہے ادیبوں کا یہ نادر تذکرہ
جو ادب کی ہے صراط مستقیم
ہو گیا دل دیکھ کر یہ باغ باغ
چلتی ہو جیسے یہاں موج نسیم
فکر وفن ہے ان کا عصری آگاہی
ہیں وہ اہل علم ودانش کے ندیم
طارق محی الدین، پٹنہ، بہار، انڈیا
اک میرِ کارواں ہیں، ادب کے ہیں شہسوار
باغِ سخن ہے جنکے سبب آج لالہ زار
ہر سو جہاں میں چلتی ہے انکی ہی گفتگو
پھیلی ہے انکے کام کی شہرت بھی چار سو
پوشیدہ جو ادب میں ہے سب ہوگا بے نقاب
افلاک پر ہوا ہے نمودار آفتاب
اردو زباں میں ایک دھڑکتا ہوا ہے دل
گلہائے رنگ و بو کا ہے شہکار مستقل
اب ان کے در سے فیض یہاں پا رہے ہیں ہم
اپنا نصیب ایسے بھی چمکا رہے ہیں ہم
افکار دلنش یں ہیں ، تخیل ہے لاجواب
جنکی ضیا سے ہوگئے ذرّے بھی آفتاب
دشتِ جنوں کا ایک مسافر سفر میں ہے
منزل کو ہے تلاش، کوئی رہگذر میں ہے
میں نے پڑھا ہے میر کو، غالب کو ، ذوق کو
شاعر ایک اور عظیم ملا اپنے شوق کو
انکا کلام راحتِ قلب و جگر بھی ہے
گویا کہ اک مرقعِ اوجِ بشر بھی ہے
اردو بھی جلوہ گر ہے یہاں تمکنت کے ساتھ
سمٹی ہے ان کے طرزِ نگارش میں کائنات
وسعت نظر کی مایہ ہے ذہن و شعور کا
اک مستقل ذریعہ ہے کیف و سرور کا
نوکِ قلم سے لیتے ہیں خنجر کا کام بھی
اردو کے حق میں ہیں وہ مجاہد مدام بھی
ہر شعر بولتا ہے، غزل بولتی ہوئی
کوئی نہ کوئی رازِ نہاں کھولتی ہوئی
اردو کو پھر سے بخشی ہے تنو یر یا خدا
انکی بڑھا دے اور بھی تو قیر یا خدا
مسلم سلیم آپ کو دوں میں خراج کیا
طارق سخن کے کوچے میں خود میں ہوں اک گدا
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، دہلی
ہیں جو مسلم سلیم کے اشعار
بیشتر ان میں ہیں حسیں شہکار
دلنشیں ہے شعورِ فکر و فن
ہیں وہ عصرِ جدید کے فنکار
اپنی اردو نوازیوں کے لئے
داد و تحسین کے ہیں وہ حقدار
عہدِ حاضر میں ان کا حسنِ بیاں
جوہرِ فکر و فن کا ہے اظہار
کیوں نہ ہر دلعزیز ہو برقی
ان کی غزلوں کا دلنشیں معیار
محمدصبغت اﷲعارفی(ممبئی۔انڈیا)
اے صنفِ غزل تیری تو قیر بڑھا دی ہے
تو اور جواں ہوگی یہ اس نے دعا دی ہے
مصروف ہے ہر لمحہ وہ خدمتِ اردو میں
´غزلوں کے ذریعے بھی یہ بات بتا دی ہے
دے دی ہے شکست اس نے خاروں بھری وادی کو
اردو کو نئی پھر سے اک راہ دکھا دی ہے
اے عارفی دونوں ہی ہیں فن کی بلندی پر
وہ میر ہوں یا مسلم اردو کو جلا دی ہے
احمد علی خاں، ریاض، سعودی عربیہ
ہر کس و ناکس کو کب حاصل ہے شہرت کا مقام
خدمتِ اردو سے پایا ہے یہ عظمت کا مقام
دل میں گھر کر لیتے ہیں ایسا ہے عزت کا مقام
اس کے آگے کچھ نہیں ہے جاہ و حشمت کا مقام
راج کرتی ہے دلوں پر گو نہیں ہے تاج و تخت
کم نہیں شاہی سے کچھ بے لوث خدمت کا مقام
فکر و فن انساں کے چھو لیتے ہیں کیسے آسماں
سوچئے تو فی الحقیقت ہے یہ ح یرت کا مقام
میری قسمت دیکھئے ہیں رہنما مسلم سلیم
میں جہاں ہوں آج احمد، ہے سعادت کا مقام
نذرانہ ¿ِ عقیدت برائے مسلم سلیم صاحب
طارق محی الدین، پٹنہ، بہار، انڈیا
کاروانِ ادبپ اسبانِ ادب داستانِ ادب تو نشانِ ادب
شاعرِ نیک نام تجھ کو لاکھوں سلام
تیری تحر یر کیا تیری تقر یر کیاتیری تفسیر کیا تیری تدبیر کیا
علم کا اژدھام شاعرِ نیک نام
تو نے رکھی ہے لاجسر پہ اردو کے تاج
محترم ہے تو آج
پیش ہے یہ خراج
تیر اونچا مقام شاعرِ نیک نام
شمع بجھتی رہیاردو لٹتی رہی جسنے آواز دیوہ تری ذات تھی
تو مجاہد مدام شاعرِ نیک نام
میرِ ثانی ہے تورودِ معنی ہے توجاودانی ہے تواک کہانی ہے تو
تو غزل کا امام شاعرِ نیک نام
با عقیدت جب یںیوں ہی جھکتی نہیںہے یہ دل کو ےق یںاے مرے ہمنش یں
کچھ ہے رازِ دوام شاعرِ نیک نام
طارق محی الدین، پٹنہ، بہار، انڈیا
یہ وقت یہ زمانہ ہے مسلم سلیم کا
اب ہر طرف فسانہ ہے مسلم سلیم کا
خنجر کی نوک پر بھی یہ کہتے ہے حق کی بات
ہر شعر قاتلانہ ہے مسلم سلیم کا
سودا، ظفر کے، ذوق کے سب معترف ہوئے
ہر شخص اب دوانہ ہے مسلم سلیم کا
قاری کی دل میں سیدھی اترتی ہے انکی بات
وہ رنگ شاعرانہ ہے مسلم سلیم کا
تخئ یل ان کی اوجِ ثریا سے ہے بلند
اک رنگ عارفانہ ہے مسلم سلیم کا
صدقے ٭سلیم واحد و ٭عبدالحکیم کے
علم و ادب گھرانہ ہے مسلم سلیم کا
طارق کو اشتیاقِ ملاقات ہے بہت
مدّاح غائبانہ ہے مسلم سلیم کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ ٭سلیم واحد ﴿ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم صاحب، والدِ محترم مسلم سلیم صاحب اور ”خیامِ نو“ کے مصنف ۲۔٭ خلیفہ عبدالحکیم ﴿ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم
صاحب کے عمّ اور ”فکرِ اقبال“ ودرجنوں کتابوں کے مصنف
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
عہدِنو میں سب کے منظورِ نظر مسلم سلیم
نخلِ اردو کے ترو تازہ ثمر مسلم سلیم
خدمتِ اردو ادب میں مستقل سرگرم ہیں
شاعر و ناقد ادیب و دیدہ ور مسلم سلیم
بن کے اربابِ نظر کے اک ا میرِکارواں
کاروانِ شعر کے ہیں ہم سفر مسلم سلیم
آکے انٹر نٹ پہ دیکھیں ان کے یہ 16 بلاگ
کارناموں سے اپنے نامور مسلم سلیم
دیکھ لیں خود آ کے گوگل سرچ میں چاہیں اگر
ہیں جہاں میں آج کتنے معتبر مسلم سلیم
نامِ نامی ان کا ویکیپیڈیا میں درج ہے
جس کی نظروں میں بھی ہیں اہلِ ہنر مسلم سلیم
نبضِ دوراں پر نہا یت تیز ہے انکی نظر
جو ہیں بے چارہ ، ہیں ان کے چارہ گر مسلم سلیم
رکھتے ہیں سودوزیاں سے ہو کے برقی بے نیاز
اہلِ دانش کی جہاں بھی ہو خبر مسلم سلیم
احمد علی خاں (ریاض، سعودی عربیہ)
(مسلم سلیم صاحب کے دھار شہر میں ۳ستمبر 2014کو اعزاز پرنذرانہ ِ عقیدت )
وہ تھامے پرچمِ اردو کہاں کہاں پہنچا
اٹھا بھوپال سے ، اب دھار کارواں پہنچا
جو دیکھا دھو پ میں پودا کوئی جھلستے ہوئے
تو بن کے سایہ ¿ِ شفقت وہ باغباں پہنچا
کمالِ ہستی ہے یا یہ کشش کلام کی ہے
کہ ان کی بزم میں ہر پیر و نوجواں پہنچا
بلند اتنا ہوا ہے قد آج مسلم کا
جہاں نہ پہنچا تھاکوئی وہ اب وہاں پہنچا
ضیا شہزاد (کراچی)
(مسلم سلیم صاحب کے دھار شہر میں ۳ستمبر 2013کو اعزاز پر)
مسلم سلیم آپ کو کرتا ہوں میں سلام
اردو کو آپ نے کیا مقبولِ خاص وعام
پرچم زبانِ اردو کا تھامے جو پہنچے دھار
ہر لب پہ نامِ اردو رہا صبح اور شام
ﷲ! ایسے لوگوں کہ عمرِ خضر عطا
وہ جن کے دم سے اردو نے پایا عروج وبام
شہزاد آج اردو جو تابندہ، زندہ ہے
”مسلم“ سے لوگوں نے ہی دلایا ہے یہ مقام
مسلم سلیم اور بھوپال
احمد علی خان احمد (ریاض،سعودی عربیہ)
روح پرور ہر طرف ہے سادگی بھوپال میں
چہروں پر بھی ہے غضب کی تازگی بھوپال میں
لذّتِ اردو کی نا کھلتی کمی بھوپال میں
مثلِ مسلم ہوتا گر ہر آدمی بھوپال میں
آگرا ، دہلی، الہٰ آباد اور شہرِ لکھنﺅ
چل کے آئی ہے مجسم شاعری بھوپال میں
کرتے ہیں اپنے بلاگوں سے وہ تشہےرِادب
خدمتِ اردو کی بہتی ہے ندی بھوپال میں
ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ہے مسلم کا جواب
ہے ادب کی ان کے دم سے روشنی بھوپال میں
خوش نماءو خوش ادا یہ شہر ہے احمدعلی
کاش اپنی بھی گذرتی زندگی بھوپال میں
نذرانہ ِ عقیدت بخدمت مسلم سلیم صاحب
طارق محی الدین، پٹنہ، بہار، انڈیا
ایک رہبر، اک مجاہد آج اردو کو ملا
میں تو کہتا ہوں کہ بے شک تاج اردو کو ملا
ہر جگہ اردو زباںکو زخم ہی کاری ملے
اس کے حق میں جو ملے وہ در کے درباری ملے
شعرکہنا، شعرسننا اور اس پر تبصرہ
روٹیاں کچھ سینک ل یں اور پےٹ اپنا بھر لیا
لڑکھڑائی، گر پڑی، سنبھلی، یہ گر کر پھر اٹھی
سلسہ چلتا رہا، مرجھاگئی نازک کلی
اس کے سر پر بے تکا بہتان بھی رکھا گیا
اس پہ دشمن کی زباں کہہ کر ستم ڈھایا گیا
سازشوں کے تیر سے پھر اس کا دل چھلنی ہوا
زےرِمقتل اک تماشا ، رقصِ بسمل بھی ہوا
ہر قدم پر ٹھوکر یں تھیں، تھے مصائب بھی بڑے
کہہ رہے تھے سب یہی دشوار ہیں یہ مرحلے
ہر طرف مایوسیوں کا چھا گیا اس پر گہن
اس گھٹا کے بیچ ابھری پھر خوشی کی اک کرن
اور پھر ایسی صدا اٹھنے لگی بھوپال سے
تم نکالواب تو اس کو سازشوں کے جال سے
آفریں صد آفریں اٹھتا رہا پیہم قدم
ایک جذبہ، اک جنوں تھا ساتھ اس کے دم بدم
وہ مجاہد کون ہے ٹکرایا جو طوفان سے
ہند کی سرحد ملادی جس نے پاکستان سے
ان کی عظمت کو کر یں جھک کر ذرا ہم بھی سلام
نام ہے مسلم سلیم ان کا کر یں صد احترام
دیکھ لیں ان کی عنا یت کا یہا ں اردو کو ہے
ذات ایسی محترم کیوں رشکِ جاں اردو کو ہے
ہے سرورِ جانفزا ن کا کلامِ لاجواب
شاعری انکی ہے جسے درد کا درماں جناب
چست ہے لفظوں کی بندش، ہے عجب طرزِ بیان
مات ہیں نوکِ قلم کے سامنے تےغ و سناں
فکر ہے سب سے الگ ان کی ، اچھوتا ہے کلام
اس میں کوئی شک نہیں ہے دل کو چھوتا ہے کلام
کیا تخیل، کیا یہ اندازِ بیاں ہے دوستو!
افتخار و نازشِ اہلِ زباں ہے دوستو!
علم اور فن کا علی گڑھ سے انھیں تحفہ ملا
درجہ ¿ِ اول سے بی اے تک وہیں سیکھا پڑھا
آپ اس کا بھی اثر دیکھیں گے ان کی ذات میں
قوم کا غم جسے سید کو تھا، دن میں رات میں
پھر الہٰ آاباد سے عربی میں ایم اے بھی کیا
اکبر و ابن صفی کی سر زمیں پر گل کھلا
نازش ِ شعروسخن مسلم کو لوگوں نے کہا
دیکھ لیں سائٹ پہ انکی کس قدر ہے تبصرہ
بزم انکے نام کی سجتی ہے صبح و شام اب
روک سکتی ہی نہیں ہے گردشِ ایام اب
ایک مکتب، اک ادارہ علم و دانش کا کھلا
لے رہے ہیں فیض ان سے دیکھئے ہم برملا
آپ کے چرچے نہیں بس ہند و پاکستان میں
تذکرے ہوتے ہیں اب تو چین میں ، جاپان میں
ہر ادارے سے مل یں اسناد ان کو بے شمار
شاعرِ یکتا، کہا بے مثل افسانہ نگار
آپ کی خدمت اد ب میں ہم لکھیں تو کیا لکھ یں
آپ کے رتبے، مراتب جو لکھیں تھوڑا لکھ یں
جس طرح گل کی چمن بندی ہے خوشبو کے لئے
دل دھرکتا ہے اگر ان کا تو اردو کے لئے
ان کی کوشش نے د یا اردو کو حسنِ لازوال
ان کی خدمت کی ادب میں ہے نہیں کوئی مثال
آپ نے شعروادب کو، فن کو زندہ کردیا
حال سب کا اپنی ویب ڈائریکٹری میں لکھ دیا
کس قدر احسان ان کا ہم گنائیں دوستو
پڑ گئے الفاظ کم، کیسے بتائیں دوستو!
نذرانہ ¿ِ عقیدت برائے مسلم سلیم صاحب
اوّل سنگرام پوری، جدہ، سعودی عربیہ
حسنِ سخن میں جو یہ ترا انسجام ہے
شاہد ہے کوئی بھی نہ ترا ہم مقام ہے
سارے فسوں نگار یہ کرتے ہیں اعتراف
اب ریختے کا تو ہی جہاں میں امام ہے
برقِ سخن ہے تیری ضیا بار ہر طرف
دانش میں تیری مہرِ سخن تےز گام ہے
اہلِ ادب نے تجھ کو وہ منصب عطا کیا
شعریٰ کو جو نجوم میں حاصل مقام ہے
تیرے سخن کی فکر سے ہم پر عیاں ہے یہ
بامِ فلک کو چومتا تیرا کلام ہے
مسلم سلیم صاحبِ قلبِ سلیم ہیں
ان کا رخِ حسین بھی ماہِ تمام ہے
میری دعا ہے ہر کوئی ہو اس سے مستفیض
اردو زباں پہ آپ کا جو فیضِ عام ہے
تیرے مرشحاتِ قلم کو ہمارا دل
دستِ نظر سے چوم کے کرتا سلام ہے
ضیاءشہزاد، کراچی
تجھ پے نازاں ہے بہت ہندوستاں مسلم سلیم
تیرے دم سے زندہ ہے اردو زباں مسلم سلیم
تیرا جذبہ اردو کی خدمت گذاری مرحبا!
کام تیرے کس قدر ہیں بے کراں مسلم سلیم
ڈاکٹر واحد کے اور امِّ حبیبہ کے سپوت
ہوگیا ہے واقعی تو جاوداں مسلم سلیم
جنت الفردوس میں بھی ہے مسرت کا سماں
کس قدر خوش ہیں وہاں دو ہستیاں مسلم سلیم
آبیاری کرتا ہے اردو کی اپنے خون سے
رات دن اردو پہ تو ہے مہرباں مسلم سلیم
اوڑھنا تیرا بچھونا اردو ہے اردو فقط
اور ہے اردو فقط تیرا جہاں مسلم سلیم
میں بھی ہوں شہزاد نازاں آج اپنے آپ پر
دوست ہے میرا، ہے مجھ پر مہرباں مسلم سلیم
سلمان صدیق، سیالکوٹ ، پاکستان
خدمتِ اردو ہے راہِ مستقیم
علم کا دریا ہیں، لہجہ بھی حلیم
شاعری اور ذات دونوں ہیں عظیم
محترم وہ دوست ہیں مسلم سلیم
ضیاءشہزاد، کراچی
اک دھوم ہے فسانہ ہے مسلم سلیم کا
دیکھو جسے دوانہ ہے مسلم سلیم کا
ہر شخص گا رہا ہے یہ اردو زبان میں
اردو کا یہ ترانہ ہے مسلم سلیم کا
کیسا عجیب شخص ہے جادو اثر ہے یہ
کیا خوب آستانہ ہے مسلم سلیم کا
اک بار پڑھ لیا تھا انہیں بس غضب ہوا
ہر لفظ قاتلانہ ہے مسلم سلیم کا
میرے خیال و خواب میں کب روک ٹوک ہے
ہر روز آنا جا نا ہے مسلم سلیم کا
رکھتا ہوں اتفاق میں طارق کی بات سے
علم و ادب گھرانہ ہے مسلم سلیم کا
اردو کو کر دیا ہے زمانے میں روشناس
شہزاد اب زمانہ ہے مسلم سلیم کا
اقبال قریشی، حضرو ، پنجاب ، پاکستان
نام مسلم سلیم ہے انکا
ان کا شعری جہاں ہے رشکِ ارم
شیر گوئی میں طاق ہیں حضرت
کیا خدا نے دیا ہے ان کو قلم
مکتبِ فکر ہیں ہمارے لیے
ان سے ہی کسب فیض کرتے ہیں ہَم
آسمانِ ادب کے چاند ہیں وہ
ان پہ قائم رہے خدا کا کرم
بابر شاہ رحمٰن، میانوالی، پاکستان
یہ جو مسلم سلیم صاحب ہیں
شعر گوئی کے فن پہ غالب ہیں
آج کل ان کے شعر پرپڑھتا ہوں
دیر تک اپنے سر کو دھنتا ہوں
بابر امام، پھلیا، پاکستان
نامِ مسلم ہے سب کے وردِ زباں
خوب اردو میں بھرتے ہیں یہ رنگ
ایک اک شعر لاجواب و حسیں
شعر گوئی کا اک الگ ہے ڈھنگ
جیسے کوئل کی کوک وقتِ سحر
ان کے اشعار کا ہے وہ آہنگ
خورشید الحسن نیر، ریاض، سعودی عربیہ
اک صبوئے محبت پلا دیجئے
جس سے دل نرم ہو وہ ادا دیجئے
جس سے مسرور ہوں سارے اہلِ ادب
بس وہ مسلم کے جیسا نشہ دیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا انداز ہے اور بلا کی سادگی ہے ۔ واہ۔ چار مصرعے آپ کی نذر کر رہا ہوں گر قبول افتد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
**************************************************************************************************************************
ضیاءشہزاد (کراچی)
اک صحافی اور شاعر، ماہرِ لسّانیات
نام ہے مسلم سلیم اور فخرِہندوستان ہیں
مرد ہیں میدان کے، پیچھے کبھی ہٹتے نہیں
ہاتھ میں پرچم لئے اردو زباں کی شان ہیں
کامل جنیٹوی، چندوسی انڈیا
معترف ہے زمانہ مسلم کا
یہ فسانہ نہیں، حقیقت ہے
سچ ہے یہ کامل کہ شہر علم میں
وقت کی آواز ہیں مسلم سلیم
فیصل نواز، لندن، انگلینڈ
واہ کےسی زباں پہ قدرت ہے
جسکے باعث غزل میں ندرت ہے
ناصر فیروزآبادی
دوستی کا بھی الگ انداز ہیں مسلم سلیم
ہاںمیرے ہمراز اور دم ساز ہیں مسلم سلیم
ضیاءشادانی، مرادآباد
در حقیقت اہل فن کی جان ہیں مسلم سلیم
خدمت اردو کا ایک اعلان ہیں مسلم سلیم
ندیم اختر ندیم مانگناوی، لندن، انگلینڈ
اردو میں ایک نام ہے مسلم سلیم کا
جدت غزل میں کام ہے مسلم سلیم کا
اسماعیل عثمانی نظرالٰہ آباد یونیورسٹی الٰہ آباد
ایسی کچھ بات ہے مسلم میں کہ لکھتا ہے نظر
ان کے ہرِ شعر نے انسان کو طاقت دی ہے
زرینہ خان،رامپور
آپ کے دل کو خدا نے وہ طہارت دی ہے
سنگ بھی جس سے بکھر جائے وہ طاقت دی ہے
ذہینہ صدیقی، دہلی
ایڈیٹر فکرِ نو، لاہور جناب مسعود تنہا اور مستن جناب ضیاءشہزاد ، کراچی کے مسلم سلیم پر قطعات سے متاثر ہو کر چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
فخرِ ہندوستان ہے مسلم سلیم
اردو پر قربان ہے مسلم سلیم
عالمی شہرت کا بھی حامل ہے وہ
فیس بک کی جان ہے مسلم سلیم
خوبیاں اس کی فرشتوں جیسی ہیں
گو کہ اک انسان ہے مسلم سلیم
اس کو ورثے میں ملی ہے شاعری
صاحبِ دیوان ہے مسلم سلیم
اے ذہینہ علم اور ادراک کی
آن بان اور شان ہے مسلم سلیم
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، دہلی
ہیں یہ مسلم سلیم کی خدمات
”ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے © ©“
کتنا بے لوث ہے مشن ان کا
ان کی اردو سے عاشقی کیا ہے
دیکھ کر فیصلہ کریں خود ہی
روشنی کیا ہے تیرگی کیا ہے
کیجئے ان سے کچھ سبق حاصل
ان کا معیارِ شاعری کیا ہے
کارناموں کے ان کی بات کریں
اہلِ اردو سے دوستی کیا ہے
کرلیں خود ہی محاسبہ برقی
اہلِ دانش سے دل لگی کیا ہے
ذہینہ صدیقی ۔مسلم سلیم کے بارے میں احمد علی خان (ریاض، سعودی عربیہ) کے منظوم تاثرات کے جواب میںمنظوم تاثرات
ہے ادب کی کان سے نکلا گہر مسلم سلیم
اپنے فن سے کر رہا ہے باخبر مسلم سلیم
سب کا ہے دنیا میں منظورِ نظر مسلم سلیم
گوشے گوشے کی جو رکھتا ہے خبر مسلم سلیم
ہے سخنور با اثر اور معتبر مسلم سلیم
سارے عالم کو بھی کردو یہ خبر مسلم سلیم
ہے ابھی نوکِ قلم میں اسکی وہ طاقت کہ جو
دشمنوں کو بھی کرے ز یروزبر مسلم سلیم
مرحلے درپیش ہیں ہر گام پر اسکے مگر
بڑھ رہا ہے آگے وہ ہو کر نڈر مسلم سلیم
کر نہ پاتا آندھیوں کا سامنا دنیا میں وہ
گردشِ ایام سے ڈرتا اگر مسلم سلیم
کوئی شکوہ ہے کسی سے ،نا شکا یت ہے کوئی
کر رہا ہے زندگی ہنس کر بسر مسلم سلیم
اے ذہینہ تو بھی اب تسلیم کر اس بات کو
علم و فن کی راہ میں ہے اک خضر مسلم سلیم
ممتاز علی، انگلینڈ
مرحبا! روشنی روشنی شاعری
دھوپ ہے تو کبھی چاندنی شاعری
واہ “مسلم” جلانے لگی ہے دئےے
فکر میں آتشیں آپ کی شاعری
احمد ساحر، اورنگ آباد، مہاراشٹر
ان کااک اک شعر ہے ضربِ کلیم
ہیں شہنشاہِ ِ س ±خن مسلم سلیم
ارشد اقبال انجم، بوکارو، جھارکھنڈ،بھارت
یہ آپ کے عروجِ تخیّل کا ہے کمال
مسلم سلیم آپ کے فن کی نہیں مثال
لفظوں کا انتخاب کہ موتی جڑے ہوئے
مطلع ہے لاجواب تو مقطع ہے لازوال
مسعود تنہا، ایڈیٹر ”فکرِنو“، لاہور
خوب طینت، خوبرو مسلم سلیم
دوستوں کی آبرو مسلم سلیم
محفلِ اہلِ ادب کی شان ہے
تیری ہر اک جستجو مسلم سلیم
شوق انصاری، پاکستان
خدمتِ اردو میں عظیم
کارہائے مسلم سلیم
جانشینِ اہلِ قلم
ہے زباں کا حسنِ عظیم
ذہینہ صدیقی، دہلی
یہ ایک حقیقت ہے تسلیم کرے دنیا
مسلم کے تغزل کی تعظیم کرے دنیا
محمد علیم اﷲ خاں وقار (سہارنپور، اتر پردےش)
پرچمِ اردو کو تھامے ہے کھڑا مسلم سلیم
با خدا اردو زباں ہے فدا مسلم سلیم
کیسے نہ شکرِ خدا ہم بھی کریں اب بے شمار
فیس بک سے یار اردو کا ملا مسلم سلیم
اقبال قریشی، حضرو، پنجاب ، پاکستان
غزل چھیڑی ہے تو نے آج کیسی
مکرر کی صدائیں آ رہی ہیں
تری نظمیں تری غزلیں تو صاحب
چمن اردو کا اب مہکا رہی ہیں
نہ گھبرانا کبھی ان مشکلوں سے
مخالف گر بلائیں آ رہی ہیں
توہے افلاک پر روشن ستارہ
کہ جس سے ظلمتیں گھبرا رہی ہیں
چمن کے بلبلوں کو ناز تجھ پر
حسد سے قمریاں بل کھا رہی ہیں
دیارِ ہند سے مسلم کے باعث
بہت مہکی ہوائیں آ رہی ہیں
میری دستاویزی فلم پراحمد علی برقی اعظمی صاحب کا خراجِ تحسین ۷۲ مئی ۷۱۰۲
عندلیبِ گلشنِ گفتار ہیں مسلم سلیم
اہلِ دانش کے معین و یار ہیں مسلم سلیم
ان کی یہ خدمات ہیں سود و زیاں سے بے نیاز
ہر طرف اب سرخی اخبار ہیں مسلم سلیم
دیکھ کر یو ٹیوب پران کو سبھی ہیں شادکام
ہے خوشی مجھ کو کہ میرے یار ہیں مسلم سلیم
۲
”گوہرِ نایاب“ ہیں مسلم سلیم
روشن از مہتاب ہیں مسلم سلیم
شاعری ہے ان کی اب جزوِ نصاب
نازشِ احباب ہیں مسلم سلیم
اردو ہے دنیا کی اک زندہ زباں
جس کی آب و تاب ہیں مسلم سلیم
ہدیہ ¿خلوص برائے مسلم سلیم صاحب
ظفرسلام ،لندن، انگلینڈ
اردو کے پُرخلوص سہارے کا نام ہے
مسلم سلیم ایک ادارے کا نام ہے
شاعر، ادیب اور صحافی ہے وہ عظیم
ہر فن میں اک چمکتے ستارے کا نام ہے
انجینئر عابدرخسان طالب، مظفرپور، بہار
اشعار دلفریب ہیں افکار بھی حسیں
مسلم سلیم تیری یہ سوغات ہے جدا
پہنچا نہ فی زمانہ کوئی تیرے آس پاس
میدانِ شعرو فن میں تری ذات ہے جدا
طالب یہ کہہ رہا ہے بڑے تجزئے کے بعد
ہر فکر ہے کمال کی ہر بات ہے جدا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مسلم سلیم کی غزل ”اطّلاعاً عرض ہے“ پر منظوم ومنثور تبصرے
اﷲ کا بڑا کرم ہے کی ناچیز کی غزل پر اردو ادب کی نامور ہستیوں نے منظوم تبصرے کےے ہیں۔ میں سب مخلصین کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔تبصرے بہت
زیادہ ہیں ۔ جگہ کی قلت کے سبب یہاں منتخب تبصرے ہی پیش کےے جا رہے ہیں۔جس غزل پر تبصرے ہوئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہے ۔
مسلم سلیم ۔ غزل
دل جہاں لاکھوں پڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
ہم بھی اس رہ میں کھڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
آپ کی مانند چلتے تھے اکڑ کر جو کبھی
خاک میں وہ سب گڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
کھیل بچّوں کا نہیں ہے، عشق کا رستہ ہے یہ
مرحلے سارے کڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
گدڑیوں میں رہ کے خدمت خلق کی کرتے ہیں جو
وہ سبھی انساں بڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
بارہا مسلم کیا ہے ہم نے خونِ آرزو
خود سے ہم اکثر لڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
تبصرے
اویس جفری، واشنگٹن
فکر و فن، لہجہ، معانی، صوت و آہنگ کا کمال
مسلم، اِک شا عر بڑے ہیں اطّلا عاً عرض ہے
ڈاکٹر احمدعلی برقی اعظمی ، دہلی
رنگِ مسلم سے نمایاں ہے شعورِ فکر و فن
وہ سخنور اک بڑے ہیں اطلاعاََ عرض ہے
جن کا دنیائے ادب میں نام ہے مسلم سلیم
وہ سخنور اک بڑے ہیں اطلاعاََ عرض ہے
رہتی ہے ہردم انھیں بے نام چہروں کی تلاش
راہِ اردو میں کھڑے ہیں اطلا عاََ عرض ہے
ضیاءشہزاد، کراچی
واہ وا ! کیسی انوکھی ہے یہ مسلم کی ردیف
شعر میں موتی جڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
اک نیا رنگ تغزل سیکھئے شہزاد آپ
ہم سخنور کب بڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
سعود صدیقی، کراچی
کاش میں بھی شعر میں داد ِسخن دیتا انہیں
رنگ مسلم کا الگ ہے ، اطلاعاً عرض ہے
نثار احمد خاں، اوکارا، پاکستان
شعر موتی سے جَڑے ہَیں اطلاعاً عرض ہے
دریا کوزے میں بھرے ہیں اطلاعاً عرض ہے
احمد علی خاں، ریاض، سعودی عربیہ
جنکو دنیا جانتی ہے ،اسم ہے مسلم سلیم
علم کے افضل دھڑے ہیں، اطاعاً عرض ہے
(زبردست!!!! ردیف پر زورِقلم کا یہ جادو ہر دل کو اپنا قائل کرنے کے لئے کافی ہے)
ضیاءرومانی، کرناٹک ، بھارت
شاعر عمدہ اور بڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
شعر نشتر سے گڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
نثری تبصرے
عامر ریاض ، کانپور
ایسی ردیف تو آج تک استعمال ہی نہیں ہوئی…بہت عمدہ اشعار ہیں…لطف آ گیا پڑھ کر ….واہ واہ۔
شیر بہادر اختر دتیا، مدھیہ پردیش، انڈیا
واااااااہ بہت خوب محترم مسلم سلیم صاحب! نئے زاوئے کے ساتھ کیا اندازِ بیان ہے واااہ واہ ۔بہت خوب۔
مسرور احمد کراچی پاکستان
اچھی نہیں بہت اچھی لگی آپ کی یہ غزل اطّلا عاً عرض ہے۔
ضیاءشادانی (مرادآباد-انڈیا)
محترم آپنے بالکل نئی ردیف پیش کرکے غزل کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے ۔خدا کرے آپکی اس ردیف سے آنے والی نسل استفادہ حاصل کرے اور آپکی ردیف ساری دنیا میں مقبولیت کی سند حاصل کرے۔ ایسی میری دعا ہے۔
مسلم سلیم کی غزل ”دریا ہے رواں خوں کا مرے قامت و قد میں “ پر منظوم تبصرے
غزل ۔ مسلم سلیم
دریا ہے رواں خوں کا مرے قامت و قد میں
لے جانا لہو جب بھی کمی پاو ¿ رسد میں
کمرے میں ہوس کو تو چھپا سکتے ہو لیکن
یہ عشق ہے اور عشق ٹھہرتا نہیں حد میں
اک وہ نہیں شہر میں مجرم تو بہت تھے
بس یہ ہے کہ وہ آگیا الزام کی زد میں
کیا اس نے چھپا رکھا ہے ہمدردی کے پےچھے
بو گل کی تو ہرگز نہیں گل پوش مدد میں
سرخی سے دمکنے لگا اشعار کا چہرہ
کچھ خون کیا صرف جو اظہار کی مد میں
تخلےق تو خود اپنی سند ہوتی ہے مسلم
نادان ہیں وہ لوگ جو الجھے ہیں سند میں
تبصرے
ضیاءشہزاد، کراچی
مسلم ہے بڑا پہلے ہی سے قامت و قد میں
اب اور کیا ٹھہراﺅں اسے منصب و حد میں
میں بزم سخن میں اسے تسلیم کروں گا
آجاﺅں بلا سے کسی الزام کی زد میں
میں یہ نہیں کہتا کہ بڑا اہلِ نظر ہے
جو دیکھے وہ کہہ دیتا ہے اظہار کی مد میں
ہے کام یہ مسلم کا سخن ہی سے محبت
الجھے گا نہ ہرگز بھی وہ تعریف و سند میں
جو تنگ نظر لوگ ہیں میں ان سے لڑوں گا
شہزاد نہ آئے کوئی بھی میری مدد میں
( جناب مسلم سلیم بھائی ! چھوٹی بحر میں اس قدر خوبصرت اور حسین قافیوں سے سجی ہوئی غزل پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ غزل پڑھتے ہوئے میرے جو دلی جذبات تھے وہ میں نے آپ ہی کی بحر اور قافیوں کے ساتھ فی البدیہہ منظوم کر دئے ہیں۔ ” گر قبول افتد زہے عز و شرف “۔۔۔۔۔ ضیاءشہزاد)
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، نئی دہلی
مسلم سلیم شاعرِ روشن ضمیر ہیں
اشعار سے ہے ا ن کے عیاں عصری حسیت
پروفیسرثمینہ چغتائی، اسلام آباد
اتنے اعلی کلام پر اتنے عمدہ تبصروں کے بعد آپ ہی کے مصرعے کو دہراو ¿ں گی …تخلیق تو خود اپنی سند آپ ہوتی ہے مسلم; کی مثل آپکی یہ غزل بھی رنگ تغزل اور لہجے کی انفراد یت کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ جذبے کی سچائی، مشکل بحر کے ساتھ ردیف اور قوافی کا مناسب انتخاب پروازِ تخیل کی بلندی شعر کی بلندی کی حامل سوچ کا درجہ ہے، معاشرتی شعور کی ترجمانی کی ہے۔ جب زندگی کا لہو پیش کیا ہو گا توا کے دِل کی کفیت اِس لہو لہو ماحول کی اداس فضا سے ہم آہنگ ہو کر اِس شاہکار غزل کی تخلےق کا سبب بنی ہو گی ; ; یقیناً کمال فن کی داد نا دی جائے تو لکھاری اور پِھر کے ساتھ اوار اسلوب کے حق من نا انصافی ہو گی۔ واہ کیا خوب کہا ; ; یہ عشق ہے اور عشق ٹھہرتا نہیں حد میں۔ عشق بے پایاں سمندر ہی تو ہے۔ اس کا مفہوم خود بہت وسیع ہے۔ بڑ ے شاعرکا کلام خود ہی اپنی تحسین کرواتا ہے توبہت زوروں سے منوانے کا بھی نہیں۔ آپ کی غزل خود ہی خود کو منواچکی۔ ©” لے جانا لہو جب بھی کمی پاو رسدمیں“ ، واہ کیا دریا دلی ہے ، جذبہ ¿ِ ایثار کا ثبوت اِس ایک ہی شعر میں کس خوبی سے پیش کر دیا ہے۔ واقعی یہ عشقِ حقیقی ہی ہے جس کی کوئی حد نہیں۔
اکمل حسین، جدّہ، سعودی عربیہ
مت سہل اسے جانو،پھرتاہے فلک برسو ں ۔۔تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے . .ایسا کچھ میرنے کہا ہے . . انسان کی ضمیر کا مرجع سارے انسان نہیں بلکہ جو ممتاز ہوتا ہے، وہ مراد ہے جسے پرندوں میں شاہین ہے ۔ اِس وقت میرے سامنے میر کا انسان ہے ، جناب مسلم سلیم اپنی ایک اعلی غزل کے ساتھ . .
اَحمَد علی خاں، ریاض، سعودی عربیہ
ہَم ا ردو شاعری کے سے جن ( لیجینڈس کو یاد کرتے آئے ہیں ان میں چند چنندہ نام جیسے جناب میر ، مومن ، غالب اور اقبال کی غزلوں کو ہی اکثر بیشتر ہم عصرشاعروں پر ترجیح دیتے رہے اور ہیں۔ ا نہیں شخصیتوں کے کلام کو اور سنتے آئے ہیں . . . . یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری نیازمندی کی یہ انتہا تھی کہ ہَم نئے دیگر شاعروں کی تخلیق ، خواہ وہ کتنی با اَثَر اور معیاری کیوں نا ہو ، ، ، نا تو کبھی اسے اور نا ہی ان پر ہماری کوئی خاص عنایت رہی……… مگر آج جب محترم مسلم سلیم صاحب کی اِس تازہ ترین غزل سے میرا سامنا ہوا اور اس کا عکس جسے جسے ذہن دِل پر گہرایا تو مجھے یکبارگی یہ لگاکہ جناب مسلم سلیم صاحب کے وجود سے آج ا رد و کی وہی صدی پِھر سے لوٹ آئی ہے جس میں ارد و ادب نے کبھی عروج بام کوچھو لیا تھا . . . . . آج آپ (جناب مسلم سلیم صاحب ) کے
دم سے پِھر وہی فضا اِس غزل کے دیار کو رونق بخشنے کے لیے بیتاب ہے
دریا ہے رواں خون کا میرے قامت قد میں ۔۔ لے جانا لہو جب بھی کمی پاو ¿ رسد میں
بلا شبہ یہ غزل دورِ حاضر کی شاعری میں اک انقلاب کی صورت لیکر آئی ہے۔ ساتھ ساتھ زندگی ماحول اور فضا کی نبض اورطبیعت کو اتنی خوبصورتی سے پڑھ لینا سب کے بس کی بات نہیں…… اس بلندی ¿ِ پرواز تک رسائی اور کسی کے لیے بھی آسان نہیں بہت مشکل ہے … . . شاعر کو زباں ا رد و پر جو قدرت حاصل ہے اسکا یہ آئینہ دار بھی ہے۔ اگر ہَم اسے اک مکمل فلاسفی کہیں تو غلط نہ ہو گا۔ جس میں ہر جذبہ خودبخود جذب ہوکر راہ پا گیا . ہے۔ ہاں ، تبصرے کے لیے قلم اورروشنائی تھک کر اپنی کم ماےگی کا اظہار ضرور کر سکتے ہیں . . . . . ! اِس نایاب اور خوبصورت غزل کی آمد پر دِل سے بس یہی صدا نکلتی . . ہیٹس اوف ٹو یو
سر……… . میری دعا یہی ہوگی … بقول جناب ضیا شہزاد* صاحب !
اﷲ!! کر ایسے لوگوں کو عمر خضر عطا ، ، ، ، ، وہ جن کے دم سے ا رد و نے پایا عروج بام ، ، ، ، ، ! ! کیا زبردست شعر ہے۔۔۔۔
کمرے میں ہوس کو تو چھپا سکتے ہو لیکن ۔۔ یہ عشق ہے اور عش ٹھہرتا نہیں حد میں
سر ، میں آپکی اِس نئی غزل میں کچھ کھو سا گیا ہوں . . . . . . کبھی میر ، مومن ، غالب اور اقبال کے بارے میں پڑھا اور سنا کرتے تھے .. . . . . مگر آپ کے دم سے آج ا رد و کی وہی صدی جیسے لگتا ہے لوٹ آئی ہو . . . . . . . یہ غزل اِس دور کی شاعری کی پہنچ سے بہت پرے ہے . . . . . . سر . اک مکمل فلاسفی آپ نے اِس میں جذب کر دی ہے . . . زبردست . . . . تبصرے کے لیے قلم اور روشنائی ختم ہونے کی سی کیفیات طاری کر رکھی ہے اِس غزل میں سر . . . . . !
میاں محمد ارشد منیر، لندن، انگلینڈ
محترم مسلم سلیم صاحب! آپ کی غزل کاہر شعر آپ کے فن سخن کی بڑی واضح دلیل اور سند ہے۔ تمام اشعار لائق ستائش ہیں۔اورمقطع نے تو گویا دل ہی موہ لیا۔اللہ کرے ذوقِ سخن اور زیادہ۔سلامت رہیں شاد و آباد رہیں۔
سید حسنین ، اورنگ آباد، بھارت
مسلم بھائی کیا استادانہ رنگ میں غزل لکھی ہے ، ، یہ انداز اور اصلوب میں استاد ذوق اور غالب جھلک رہے ہیں ، یہ آسان نہیں بہت مشکل سفر ہے بہت بہت مبارک ۔ مسلم بھائی کیا استادانہ رنگ میں غزل کہی ہے جواب نہیں یہ کلاسیکی رچاو ¿ تو صرف اساتذہ ِ سخن کا ورثہ ہے۔اِس غزل نے تو آپ کو استاد ذوق و غالب کی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔میرے بھائی اِس طرح کی غزل کہنا آسان نہیں بہت مشکل ہے . پلان کر کے بھی یہ رنگ اختیار کرنا ناممکن ہے یہ صرف فطری شاعر ہی کہہ سکتا ہے ۔
فیروز ناطق خسرو،کراچی
مشکل زمیں میں کیا اچھے اشعار کہے ہیں آپ نے . . . ما شاءاللہ
مسعود حساس، متحدہ عرب امارات
اک غزل جس میں فکر کی اعلی پرواز کے ساتھ ا رد و کی بقاءپرخصوصی دھیان دیا گیا ہے . اسی بنا پہ یہ اپنے پیرائے ہی نہیں روحانی وصف میں بھی کامیاب ترین ہے۔
اعجاز اَحمَد آزاد ، اسلام آباد
مسلم سلیم صاحب آپ اشعار میں ہیرے جڑ دیتے ہیں غزل کے مقطع کا جواب نہیں ، تخلیق میں آپ جیسی کہاںر سائی لائیں ۔جب تخلیق ہوگی جب ہی تو سند ملے گی۔. اللہ آپکو لمبی عمرعطا کرے اور ہم سب آپکے کلام سے مستفیض ہوتے رہیں۔
**************************************************************************
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کلام ِ مسلم سلیم حصہ اول
ا ٓمد۔آمد
اﷲ
توہی تو ہر کہیں سبحٰن اﷲ
کوئی تجھ سا نہیں سبحٰن اﷲ
تو ہی تحت الثریٰ میں جلوہ فگن
تو ہی عرشِ بر یں سبحٰن اﷲ
کرتے ہیں رات دن تری تسبیح
آسمان و زمیں سبحٰن اﷲ
جب بھی دل سے کیا تجھے سجدہ
بول اٹھی یہ جب یں سبحٰن اﷲ
سرورِکونین
فرش تا عرش یہ انعام بھلا کیا کم ہے
میں غلامِ شہِ بطحٰی ہوں مجھے کیا غم ہے
نعت
شکلِ نبی میں نور اتارا مولا نے
یوں انساں کا بخت سنوارا مولا نے
اس سے بڑھ کو فرطِ محبت کیا ہوگی
نام کبھی لے کر نہ پکارا مولا نے
نا گہنائے نہ ڈوبے ایسے سورج سے
ختم کیا جگ کا اندھیارا مولا نے
آقا ہم سے رب کہتا ہے ہم بھی جپ یں
جسے جپا ہے نام تمہارا مولا نے
ان پر خود قرآن بھی واری جاتا ہے
وہ جن پر قرآن اتارا مولا نے
سدرہ پار نبی ﷺ نے دیکھا مولا کو
یا پھر ان کا کیا نظارا مولا نے
اس کو لگایا اپنے یار کی مدحت پر
خوب دیا مسلم کو سہارا مولا نے
حضرت علیؑ
قربِ نبی کا ذکر ہی کیا ہے
وہ تو خود تھے نفسِ نبی
ان کا یہ رتبہ ہے مسلم
ان سے نبی کی نسل چلی
اے مردانِ حق و صداقت
قریہ قریہ گلی گلی
زور سے بولو علی علی اور
جھوم کے بولو علی علی
ان کا چشم و چراغ جہاں میں
سب سے بڑا سردار ہوا
میں نے علی کا دامن تھاما
میرا بےڑا پار ہوا
ان کے علم کی ایک کرن سے
ذہن مرا بیدار ہوا
ان کی تےغِ دو دم کے صدقے
میرا قلم تلوار ہوا
پہلے میں در در بھٹکا تھا
اور ذل یل و خوار ہوا
ان کا خادم بنا ہوں جب سے
میں بھی عزت دار ہوا
نذرِ بھوپال
کیسے یہ کہوں دیکھ لیا ہے بھوپال
فطرت کی قسم روز نیا ہے بھوپال
قدرت نے چٹانوں کے ہرے کاغذ پر
تالابوں کے پانی سے لکھا ہے بھوپال
©اس وقت سے تاریخ کا آنگن مہکا
اوراق پہ جس دن سے کھلا ہے بھوپال
ہر وقت ہے مصروفِ غنا اس کی ہوا
شاید کسی مطرب کی نوا ہے بھوپال
پایا ہے بہت اس کے مناظر میں ہے سحر
جانا کہ بہت ہوش ربا ہے بھوپال
برسوں سے ہے گہوارہِ تعلیم یہ شہر
سر چشمہِ انوار و ضیا ہے بھوپال
مسلم کو ملا دشت نوردی کا صلہ
قدرت نے اسے بخش دیا ہے بھوپال
غزلیات
جب بھی جذبوں کے لئے الفاظ نشتر ہو گئے
کیسے کیسے پھول جسے ہاتھ خنجر ہو گئے
دیو قامت وہ شجر جب تےز آندھی میں گرا
پستہ قد جتنے تھے پودے سب قدآور ہو گئے
رفتہ رفتہ ہم کو جینے کا ہنر آ ہی گیا
پتھروں میں رہتے رہتے ہم بھی پتھر ہو گئے
آ پڑے جس دن سے ہم دریائے جد و جہد میں
اس طرح سے جاں پہ بن آئی شناور ہو گئے
نیم فاقہ نیم عریانی کو اندر چھوڑ کر
گھر سے باہر جب قدم رکھا سکندر ہو گئے
پیکرِ ترغیب تھے سارے کھلونے دور سے
چھو لیا ہم نے تو سب یکلخت پتھر ہو گئے
عالمِ تخئیل میں مسلم ہوا کس کا گذر
میری یادوں کے کئی لمحے معطر ہو گئے
جب ہم نے زندگی کی گنیں راحتیں تمام
لمحات میں سمٹ سی گئیں مدتیں تمام
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے
حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑ یں تمام
ہربار یوں لگا کہ کوئی آئے گا مگر
کچھ دور ہی سے لوٹ گئیں آہٹیں تمام
میں اور احتجاج کی ہمت، نہیں نہیں!
بے اختیار چیخ پڑی ہیں رگیں تمام
وہ خود یہ چاہتا تھا یہ محسوس تب ہوا
ہم بے خودی میں توڑ گئے جب حدیں تمام
آثارِ کرب سب سے چھپاتا پھرا مگر
بستر پہ نقش ہو ہی گئیں کروٹیں تمام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جو سویا تو یہ کروں گا میں
خواب کے ہونٹ چوم لوں گا میں
بزم میں سچ بھی میں نے بولا ہے
زہر کا جام بھی پیوں گا میں
یہ مرے دوست کی نشانی ہے
چاک دامن بھلا سیوں گا میں؟
مجھ پہ بس میری حکمرانی ہے
یوں جیا ہوں یونہی جیوں گا میں
سوچ رہا ہوگا شاید جڑ پائے گا یہ دوبارہ کیا
بچہ چپ چپ کیوں ییٹھا ہے پھوٹ گیا غبارہ کیا
دوب کے اوپر ایسے ہی بیٹھو گے لبِ فوارہ کیا
پارک یہ تم سے پوچھ رہا ہے آو گے پھر دوبارہ کیا
سب اس کی رفتار سے ہارے طائر کیا طیارہ کیا
ہم کو ترا ای میل سلامت قاصد کیا ہرکارہ کیا
ڈال کبھی اس کافر کے اوپر بھی دہشت کا سایہ
انسانوں کو مارنے والے تو نے دل کو مارا کیا
مات ہے ہر معیارِ تغیر اس کے تلون کے آگے
دیکھنا ہے تو اس کو دیکھو دیکھ رہے ہو پارہ کیا
پہنچے پیر نظیر کی ہم کو یاد آئی اک منظر پر
رہ گیا ٹھاٹ پڑا سب کا سب لاد چلا بنجارا کیا
خود کو شاعر کہتے بچے گھوم رہے ہیں گلی گلی
شاعر گھر میں قید پڑا ہے اور کرے بےچارہ کیا
کتنی دیر سجے گی محفل کب تک یہ رقص و نغمہ
گھر ہی لوٹ کے جائیں گے سب اور بھلا پھر چارہ کیا
سب ہیں مظاہر عشق کے مسلم کعبہ، اقصیٰ، تاج محل
پیار نہ ہو تو سب پتھر ہیں مرمر اسود خارا کیا
زندگی کس قدر ہے گراں لکھ گیا
وقت چہروں پہ مایوسیاں لکھ گیا
روح کے کرب کا کچھ مداوا نہ تھا
ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا
سر درختوں کے کس نے قلم کر دئے
شہر میں دور تک بستیاں لکھ گیا
بے تعلق تھا اس کا تبسم مگر
میرے سارے غموں پر خزاں لکھ گیا
دورِ حاضر مرے جسم کے بخت میں
مختلف رنگ پرچھائیاں لکھ گیا
ہر رگِ تن پہ بس اک تبسم ترا
دم بدم کوندتی بجلیاں لکھ گیا
کتنے در میری آہٹ کے تھے منتظر
کیوں جب یں پر بس اک آستاں لکھ گیا
(۲)
خود بھی سورج تھا، اک کہکشاں لکھ گیا
جان و تن پر کوئی بجلیاں لکھ گیا
خون میں اس قدر سرخیاں لکھ گیا
جنوری میں بھی وہ گرمیاں لکھ گیا
جس نے دل کی عقیدت سے چومی زمیں
اس کی تقدیر میں آسماں لکھ گیا
روح کے درد کی کچھ دوا ہی نہ تھی
ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا
ایک مدّاح مسلم کا ایسا بھی تھا
ذرّہ خاک کو آسماں لکھ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کی طرح بکھر جائیں
کیوں ہم ایسے جئیں کہ مر جائیں
کر دی میراث وارثوں کے سپرد
زندگی کس کے نام کر جائیں
گھر کی لپٹیں بہت غنیمت ہیں
ہر طرف آگ ہے کدھر جائیں
موڑ لگنے لگے ہر اک منزل
اور ہر موڑ سے گذرجائیں
دب گیا ہوں میں جن میں تہہ در تہہ
یہ جو پرتیں ہیں سب اتر جائیں
ہم پھول گلستاں میں چنیں ، خار کھائیں سب
دیکھیں جب ان کی سمت تو نظر یں چرائیں سب
کوئی پلٹ کے آتی نہیں، گونجتی نہیں
چٹانیں پی رہی ہیں ہماری صدائیں سب
کیا دینا چاہتا ہے فقط حشر میں صلہ
کیوں جمع کر رہا ہے ہماری دعائیں سب
مردہ ضمیر زندہ ہیں مصنوعی سانس پر
لاشیںسی چل رہی ہیں میرے دائیں بائیں سب
اب کچھ بھی فرقِ مغرب و مشرق میں نہیں رہا
زہریلی ہو چکی ہیں جہاں کی ہوائیں سب
مرے بدن میں نہ جانے کیا شئے سما گئی تھی
جب اتفاقاً قریب پل بھر وہ آ گئی تھی
بہت مہذب بہت ہی خاموش طبع تھا میں
وہ پھر اکیلے میں کس لئے تلملا گئی تھی
نہ میں حسین تھا، نہ خوش ادا تھا نہ خوش گلو تھا
مگر مری بے بسی دل اس کا لبھا گئی تھی
سوال جب بھی کیا مری وسعتِ نظر نے
وہ مسکراہٹ میں اپنا ماضی دبا گئی تھی
غضب کی ناداں تھی وہ کہ سوچا نہ کچھ بھی اس نے
خوشی خوشی وہ فرےبِ تہذیب کھا گئی تھی
نیند ٹوٹے نہ خضر ہی کی نہ رہبر جاگے
مجھ میں سویا ہوا انساں جو گھڑی بھر جاگے
تھی کڑی دھوپ تو کب ان کو پریشانی تھی
برف پگھلی تو بہت چونک کے پتھر جاگے
پر سکوں دن ہے کوئی شور نہیں چیخ نہیں
رات ہولے تو گناہوں کا سمندر جاگے
کوئی فتنہ، کوئی شورش، کوئی ہنگامہ ہو
مجھ کو تڑپائے مرے جسم کے اندر جاگے
لوگ ٹکرا کے حقیقت سے ہراساں یوں ہیں
جس طرح طفل کوئی خواب سے ڈر کر جاگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ راہیں جن سے ابھی تک نہیں گذرمیرا
لگا ہوا ہے انھیں راستوں کو ڈر میرا
نہ جانے کون تھا جس نے مجھے بچایا ہے
مجھے خبر بھی نہ تھی جل رہا تھا گھر میرا
نہیں ہے بوجھ مرے نام پر مناصب کا
میں آدمی ہوں تعارف ہے مختصر میرا
گنوا کے ذات کو لایا ہوں زندگی کی خبر
مری سنو کہ حوالہ ہے معتبر میرا
بھٹک رہا ہوں ابھی زندگی کے صحرا میں
خبر نہیں کہ کہاں ختم ہو سفر میرا
شعلوں میں گھرے سب ہیں شراروں میں کھڑے ہیں
اوروں کی طرح ہم بھی حصاروں میں کھڑے ہیں
دیکھو گے کسی دن کہ سواروں میں کھڑے ہیں
کچھ لوگ سر راہ غباروں میں کھڑے ہیں
ہر سمت سے محصور خساروں میں کھڑے ہیں
بس اتنا سکوں ہے کہ سہاروں میں کھڑے ہیں
آزادی نے بخشی ہے غلامی کو وہ عظمت
بکنے کے لئے لوگ قطاروں میں کھڑے ہیں
وہ آنکھیں اور ان آنکھوں میں تصو یر ہماری
لگتا ہے کہیں دور ستاروں میں کھڑے ہیں
نزدیک اگر تم ہو تو کیسا بھی ہو موسم
محسوس یہ ہوتا ہے بہاروں میں کھڑے ہیں
یکتائی کا دعویٰ نہیں مسلم ہمیں پھر بھی
پہچان لئے اپنی ہزاروں میں کھڑے ہیں
یہ دعا ہے کہ کہیں ہوش و خرد کھو جائیں
دیکھیں کیا ہوتا ہے دیوانے اگر ہو جائیں
ایک ہی کام خوش اسلوبی سے پائے انجام
اب جو صحراﺅں میں بھٹکیں تو وہیں کھو جائیں
اپنی تق دیر میں چھوٹا ہی سا گھر لکھا تھا
وہ کوئی جاگ آگیا چلو سو جائیں
*************************************************
اس کو کافی نہ سمجھئے کہ اندھیرا ہو جائے
اور کچھ دیر ٹھہرئے کہ یہ گہرا ہو جائے
ایک ہی رات میں اس کے لئے کیا کیا ہو جائے
شمع گھر کی کسی محفل کا اجالا ہو جائے
شب کو دیوار پہ لٹکا دے حیا کی چادر
دن میں ہنس دے جو کوئی شرم سے دوہرا ہو جائے
نیک نامی کا صلہ گوشئہ تنہائی ہے
جس کو شہرت کی تمنا ہو وہ رسوا ہو جائے
قطرے آپس میں کہاں ملتے ہیں دیکھا تو نہیں
ہاں یہ سنتے ہیں کہ مل جائیں تو دریا ہو جائے
کج اداﺅں، دل رباﺅں کے پتے معلوم ہیں
جسم سے اٹھتی صداﺅں کے پتے معلوم ہیں
کون ہے اس شہر میں مجھ سے زیادہ با خبر
مجھ کو سارے بے وفاﺅں کے پتے معلوم ہیں
سیکھ ہی پائے نہیں ہم سر جھکانے کا ہنر
ورنہ سب باطل خداﺅں کے پتے معلوم ہیں
لو کے جھونکے کس طرف سے آ کے برساتے ہیں آگ
مصلحت کو ان ہواﺅں کے پتے معلوم ہیں
عیش دنیا میں کر یں گے وہ بھی مسلم کی طرح
وہ جنھیں ماں کی دعاﺅں کے پتے معلوم ہیں
فتنہ و شر سے سدا خود کو بچائے رکھئے
روٹھنے والوں کو پہلے سے منائے رکھئے
بولئے جھوٹ سراسر مگر اتنا کےجے
دھوپ کے چشمے سے آنکھوں کو چھپائے رکھئے
وہ بھی عاشق ہی تو ہے کام کبھی آئے گا
دل نہیں دیتے نہ دیں دوست بنائے رکھئے
کیجئے چڑھتے اترتے ہوئے سورج کا خیال
ہے بدن ایک مگر سینکڑوں سائے رکھئے
دل کہاں جنسِ گراں مایہ کہ سودا کیجے
جسم ہے گرمیِ بازار سجائے رکھئے
کچھ تو لازم ہے مری زیست کا عنواں ہونا
راس آئے مجھے خوابوں کا پریشاں ہونا
مجھ کو فیشن نے سکھائے ہیں جنوں کے آداب
مجھ کو مجنوں نے سکھایا نہیں عریاں ہونا
عیش کے دن مجھے ہرگز نہ بدل پائیں گے
یاد رہتا ہے مجھے بے سروساماں ہونا
وہ ہے کمزور تو کیا اس کو قوی کے آگے
جرم نا کردہ پہ آتا ہے پشیماں ہونا
لذتِ خوفِ خطاکاری کا سر چشمہ تھا
اولیں وصل پہ وہ تیرا ہراساں ہونا
کس قدر بے دست و پا راکب کو مرکب نے کیا
خود سے بھی بے گانہ حرصِ جاہ و منصب نے کیا
ہم کو لایا ہے تعصب نفرتوں کے دشت میں
ورنہ کب گمراہ انسانوں کو مذہب نے کیا
جب بھی شہرِ مصلحت میں وا کیا دستِ طلب
اک عجب انکار سا اقرار سے سب نے کیا
محفلِ ادراک میں توڑا سکوتِ بے حسی
جرم کتنا خوب صورت جنبشِ لب نے کیا
دھوپ میں دیوار بھی تھی کس کو تھا اس کا خیال
استفادہ سایہ دیوار سے سب نے کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیں کیا بقا و فنا جثہِ اثر سے ڈرو
رہوں گا زندہ مری موت کی خبر سے ڈرو
جہاں میں باعثِ خوف و ہراس اے لوگو
مگر یہ فرض ہے تم پر کہ اپنے گھر سے ڈرو
اٹھو کہ لرزہ بر اندام ہے فضا ساری
نقیبِ شورشِ فردا ہے یہ سحر سے ڈرو
تمام شہر کے دروازے نےچے نےچے ہیں
بہت بلند نہ ہو جائے اپنے سر سے ڈرو
فلک پہ کون سی شئے ہے ز مین میں کیا ہے
نظر نہیں تو تری خورد بین میں کیا ہے
ترے خلوص کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
ذرا ٹھہر یہ تری آستین میں کیا ہے
نہ ساز چیز ہے کوئی نہ کوئی شئے دھن ہے
وہ دردِ دل ہے سپ یرے کی بین میں کیا ہے
تمام عمر جہنم میں کیوں گذار یں ہم
سوائے حسن و ادا اس حسین میں کیا ہے
خبر بھی کچھ ہے کہ احساس اسمِ آدم ہے
جو دل نہیں ہے تو پھر اس مشین میں کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوئی جو شام راستے گھروں کہ سمت چل پڑے
ہمیں مگر یہ کیا ہوا یہ ہم کدھر نکل پڑے
کسی کی آرزوو ں کی وہ سرد لاش ہی سہی
کسی طرح تو جسم کی حرارتوں کو کل پڑے
اسی کی غفلتوں پہ میری عظمتیں ہیں منحصر
خدا نہ خواستہ کہ اس کی نیند میں خلل پڑے
سفر طو یل تھا مگر گھٹا اٹھی ا مید کی
کڑی تھی دھوپ دیکھیں کس پہ سایہ اجل پڑے
اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے
ہر طرف سے دیر تک پتھر چلے
خود پہ اتراتی ہوئی اکثر چلے
جب صبا اس کا بدن چھو کر چلے
اپنی قسمت میں ہے گردش کیا رکیں
ہم اگر ٹھہر یں تو ہر منظر چلے
زخم کھانے میں مزہ آنے لگا
اب چلے تلوار یا نشتر چلے
تیزگامی ٹھوکر یں کھلوائے گی
اس سے یہ کہئے کہ رک رک کر چلے
جی اٹھوں پھر سے کسی کی آرزو
خون بن کر جسم کے اندر چلے
زندگی کے لبوں پہ آہ سہی
کیوں ہنسے موت میں تباہ سہی
وصل حالآنکہ مرگِ الفت ہے
اک ملاقات گاہ گاہ سہی
جانے کس وقت کام پڑ جائے
اس سے تھوڑی سی رسم و راہ سہی
میری فطرت میں رچ گیا ہے خلوص
اب مسلسل یہی گناہ سہی
کون رشتوں کو توڑ پایا ہے
ایک مکروہ سے نباہ سہی
بحر و بر اب بھی تجھ پہ ہنستے ہیں
آسماں پر تری نگاہ سہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرخرو صرف لمحہ کھڑا تھا
ہر بدن جب شکستہ پڑا تھا
تھک چکے تھے عقائد کے غازی
صرف پرچم ہی لہرا رہا تھا
آ و اچھا تماشا رہے گا
دور سے شور سا اک اٹھا تھا
سج گئی بزمِ انجم یکایک
منتشر ایک نقطہ ہوا تھا
لوٹ آیا ہوں اے ارتقا میں
پھر وہیں پر جہاں سے چلا تھا
سائباں ساتھ کس کے چلے ہیں
پھر وہی دھوپ تھی قافلہ تھا
تھا جہاں انسان انساں ان ٹھکانوں میں چلیں
اے نئی تہذیب آ پچھلے زمانوں میں چلیں
ہیں ہمارے جاگتے لمحوں پہ حاوی پستیاں
آنکھ لگ جائے تو پھر ہم آسمانوں میں چلیں
پھ یلتی ہی جاتی ہے ناکامیوں کی تیز دھوپ
آئیے خوش فہمیوں کے سائبانوں میں چلیں
چل کہ چٹانوں سے سیکھیں زندگی کے کچھ ہنر
آ مری جینے کی خواہش سخت جانوں میں چلیں
شیر کو تہذیب کی سازش سے کرنا ہے شکار
بزدلی تسلیم ہے ہم کو مچانوں میں چلیں
جیب کی گرمی سے کہتی ہے مری بے چہرگی
جسم کے بازار، چہروں کی دوکانوں میں چلیں
کچھ کم نہیں ہے یہ کہ نقیبِ رجا ہیں ہم
و یرانیوں کے شہر میں آوازِ پا ہیں ہم
پانی ہیں بلبلہ ہیں برستی گھٹا ہیں ہم
دریا ہیں آبِ جو ہیں سمندر ہیں کیا ہیں ہم
اے لشکرِ غنیم ٹھہر جا کہ جیت لیں
وہ جنگ جس میں خود سے نبرد آزما ہیں ہم
رشتے بنائے رکھنے میں لازم ہے احتیاط
اس کو خبر نہیں ہے کہ اس سے خفا ہیں ہم
پینے لگا ہمیں بھی بہت پھونک پھونک کر
وہ دودھ کا جلا تھا نہ سمجھا کہ کیا ہیں ہم
اک چیخ اک کراہ اک آواز ہی سہی
سناٹے مصلحت کے ہیں لرزاں، صدا ہیں ہم
بکنا پڑے گا تجھ کو ہمارے حصول میں
ہم کو خریدتا ہے تو سن بے بہا ہیں ہم
اشخاص ہیں ارواح مرے گھر میں نہیں ہیں
لمحاتِ سکوں پھر بھی مقدر میں نہیں ہیں
باطن کی ذرا آنکھ جو روشن ہو تو پھر
دیکھیں گے وہ چیزیں کہ جو منظر میں نہیں ہیں
سوزش ہے محبت کی نہ جذبوں کی حرارت
پوشیدہ شرارے کسی پتھر میں نہیں ہیں
ہم سر سے کفن باندھے ہوئے پھرتے ہیں لیکن
جاں لینے کے انداز ستم گر میں نہیں ہیں
پیتا ہوں تو کچھ اور بھی ہوتا ہے فزوں غم
خوشیوں کے خزانے مرے ساغر میں نہیں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حساس دل تھا تابِ نظارہ بکھر گئی
پھیلی ہوئی تھی پیاس جہاں تک نظر گئی
دروازہ کھولتے ہی عجب سانحہ ہوا
منظر کی آگ سب مرے سینے میں بھر گئی
زندہ ہوں اب بھی گر ہے تنفس کا نام زیست
سینے میں کوئی چیز جو زندہ تھی مر گئی
اب کس کی جستجو میں زمانہ ہے غوطہ زن
پاتال میں خلوص کی کشتی اتر گئی
تھے درج ان کتابوں میں اخلاق کس قدر
د یمک کی نذر ہوگئے اوراق کس قدر
تھا انتظام میری تباہی کا ورنہ اب
ٹھہری ہوئی ہے گردشِ آفاق کس قدر
پوچھا تو اس نے حال سر راہ ہی سہی
وہ شخص بھی ہے صاحب اخلاق کس قدر
جب تک ہے سانس سینے میں تب تک یہ زندگی
خود زہر بھی ہے خود ہی ہے تریاق کس قدر
جب بھی ہوائے تیز چلی تیرے نام کی
لرزے کتابِ دل کے ہیں اوراق کس قدر
رکھے ہیں اس نے نام ہزاروں فریب کے
یہ فطرتِ بشر بھی ہے خلّاق کس قدر
وہ سمجھتا تھا ہار جاو ¿ں گا
کیا خبر تھی کہ مار جاو ¿ں گا
رہ میں ہونے دو خار، جاو ¿ں گا
ایک کیا بار بار جاو ¿ں گا
یاد رکھ تو بھی ساتھ جائے گا
میں اگر سوئے دار جاو ¿ں گا
ایک شب تیرے خواب میں آکر
تیری زلف یں سنوار جاو ¿ں گا
تو نہ ہوگا تو تیرے کوچے میں
نام تیرا پکار جاو ¿ں گا
مل تو جا ایک بار، بوسوں کے
سارے قرضے اتار جاو ¿ں گا
رنج و غم کی یورش یں ہوتی ہیں جب ہنستے ہیں ہم
سب سمجھتے ہیں کہ یونہی بے سبب ہنستے ہیں ہم
ہیں سبھی سنجیدگی سے سازشوں میں منہمک
دیکھ کر ایسی فضائے بوالعجب ہنستے ہیں ہم
بے بسی اخلاق کے پتھر پہ سر پٹکے تو کیا
دل ہوا ہے مدفنِ غیض و غضب ہنستے ہیں ہم
کیا ہے تحرےکِ تبسم پوچھتے رہتے ہیں سب
تیرے دم سے اے تمنائے طرب ہنستے ہیں ہم
توڑ کر دیوارِ آہن غم کی پل بھر کے لئے
جب خوشی دل میں لگاتی ہے نقب ہنستے ہیں ہم
ہم بھی پرتوَ ہیں اسی کے جس کی وہ تصو یر ہے
پوچھتا ہے جب کوئی نام و نسب ہنستے ہیں ہم
کب بھلا ان کی سرزنش کی ہے
ہم نے زخموں کی پرورش کی ہے
لہلاتی ہے غم کی پھلواری
آبیاری روش روش کی ہے
قرب سے اسکے ذہن کی حالت
ہو بہ ہو آبِ مرتعش کی ہے
وہ تو مل بھی گیا مگر دل میں
سرسراہٹ یہ کس خلش کی ہے
بجھ گیا گر شرار الفت کا
پھر یہ جاں کاہی یہ کس تپش کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو کہاں گمان گذرتا کہ میں بھی ہوں
دیکھا تمہیں تو میں نے یہ جانا کہ میں بھی ہوں
میرے بھی بخت میں ہے اندھیرا کہ میں بھی ہوں
سمجھے نہ رات خود کو اک یلا کہ میں بھی ہوں
گھر تو بہا کے لے گیا خاشاک کی طرح
دریا نہ چھوڑ مجھ کو اک یلا کہ میں بھی ہوں
اے کاش چیختا، اسے آتا تو میں نظر
اس ”صاحبِ نظر“ © نے نہ دیکھا کہ میں بھی ہوں
میں اپنی دھن میں کتنی بلندی پہ آگیا
کوئی نہیں ہے دیکھنے والا کہ میں بھی ہوں
وقت نے کیسی کروٹ لی ہے سر والے سنگسار ہوئے
سر ہی نہیں تھا شانوں پہ جنکے پھر وہ سب سردار ہوئے
جتنے جواں تھے انکے ارماں اتنے ہی انکار ہوئے
جب یہ سیاست حسن کی سمجھے عشق سے ہم سرشار ہوئے
چلئے اب تحقیق ہی کر ل یں مدت گذری وار ہوئے
پشت پہ خنجر کس نے مارا کیا اپنے غدار ہوئے
ڈال ہی لو تم آج کی شب سے وعدہ نبھانے کی عادت
جاگ اٹھا ہے رات کا جادو غافل پہریدار ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم سے کس نے کہا تھا کہ اتنا ہوا میں دھواں چھوڑدو
اب چلو جنگلوں میں رہو مدتوں کیلئے بستیاں چھوڑ دو
سینہِ بحر پر اپنی جولانیوں کے نشاں چھوڑ دو
لاکھ طوفان سہی بادباں کھول دو کشتیاں چھوڑ دو
میرے ہمدرد، محسن انہیں تم یونہی خونچکاں چھوڑ دو
اسکی تصو یر مجھ کو بنا لینے دو انگلیاں چھوڑ دو
کیسا آزاد ہوں سہہ تو سکتا ہوں میں بول سکتا نہیں
قید کر لو مجھے میرا سب چھین لو بس زباںچھوڑ دو
رکا تو میری رگِ جاں پہ وار کرنے لگا
لہو لہو مجھے دل کا غبار کرنے لگا
پتہ چلا کہ بہت ہو چکا ہوں دولت مند
میں دل کے زخموں کو جب سے شمار کرنے لگا
ایسا اس کے تصور کی راہ میں کھویا میں
وہ آ گیا تو مرا انتظار کرنے لگا
کبھی تو اترے گا سر سے یہ زندگی کا نشہ
شراب پی کے میں ردِّ خمار کرنے لگا
اسی گھڑی کا ہی تھا انتظار قاتل کو
وہی گھڑی کہ میں جب اعتبار کرنے لگا
نہیں گلوں پہ، جڑوں پر نظر ہے اب اسکی
وہ اب ارادئہ قتلِ بہار کرنے لگا
جب اس نے کچھ نہ کہا میری بدکلامی پر
مرا ضمیر مجھے شرمسار کرنے لگا
یقیں آیا کہ دنیا مختصر ہے
جہاں جاتا ہوں میں میرا ہی گھر ہے
خدایا دل کو بینائی عطا کر
نظر کی راہ میں حدِّ نظر ہے
نہیں معلوم مجھ کو اس کی منزل
ہزاروں میل تک وہ ہم سفر ہے
دیا ہے اس نے پھر آنے کا دھوکہ
ہمارے پاس پھر اک رات بھر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے زندگی سے برہم ہے
آرزوئیں بلند قد کم ہے
میں اگر مٹ گیا تو کیا غم ہے
زندگی تیری آنکھ کیوں نم ہے
وقت ہی گھا و بھی لگاتا ہے
وقت کے ہاتھ ہی میں مرہم ہے
منتظر ہوں ترے اشارے کا
عشق کم ہے نہ حوصلہ کم ہے
کیوں درار یں دلوں میں پڑتی ہیں
یا الٰہی یہ کیسا موسم ہے
جثہُ تحیر کو لفظ میں جکڑتے ہیں
شعر ہم نہیں کہتے تتلیاں پکڑتے ہیں
کیوں ہمارے قبضے میں کوئی جن نہیں آتا
اس چراغِ ہستی کو ہم بھی تو رگڑتے ہیں
برقراری ¿ِ ظاہر کتنا خوں رلاتی ہے
اپنے جسم کے اندر ہم کسی سے لڑتے ہیں
قابلِ عبور اتنی ہے بدن کی صف بندی
تیر جتنے چلتے ہیں روح ہی میں گڑتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شنید و دید کی مایا کا دھوکا ٹوٹ جاتا ہے
وہ دن جس روز یہ مٹی کا منڈوا ٹوٹ جاتا ہے
بہت پہلے سے ہو جاتا ہے احساسِ فنا اس کو
دہانے پر جب آتا ہے تو دریا ٹوٹ جاتا
ہماری سمت آتا ہے بہت شدت سے وہ اکثر
مگر ٹکرا کے ہم سے خود ہی صدمہ ٹوٹ جاتا ہے
یہ تارِ زندگی مسلم متاعِ عنکبوتی ہے
بالآخر ایک دن مکڑی کا جالا ٹوٹ جاتا ہے
گھوم پھر کراسی آئینے میں دیکھا خود کو
اپنے ماحول سے انسان نے سمجھا خود کو
ہم کو منظور نہ تھی اپنی انا کی سبکی
ہم سمجھ بوجھ کے دیتے رہے دھوکہ خود کو
ذات اپنی ہی بہر حال مقدّم ٹھری
پردئہ الفتِ اغیار میں چاہا خود کو
کسی صورت دلِ نادان بہلتا ہی نہ تھا
لوریاں دے کے ترقی کی سلایا خود کو
مار ہی ڈالتی حق گوئی کی عادت مسلم
جھڑکیاں دے کے کئی بار دبایا خود کو
دریا ہے رواں خوں کا مرے قامت و قد میں
لے جانا لہو جب بھی کمی پاو ¿ رسد میں
کمرے میں ہوس کو تو چھپا سکتے ہو لیکن
یہ عشق ہے اور عشق ٹھہرتا نہیں حد میں
اک وہ ہی نہیں شہر میں مجرم تو بہت تھے
بس یہ ہے کہ وہ آگیا الزام کی زد میں
کیا اس نے چھپا رکھا ہے اخلاص کے پیچھے
بو گل کی تو ہرگز نہیں گل پوش مدد میں
سرخی سے دمکنے لگا اشعار کا چہرہ
کچھ خون کیا صرف جو اظہار کی مد میں
تخلیق تو خود اپنی سند ہوتی ہے مسلم
نادان ہیں وہ لوگ جو الجھے ہیں سند میں
افسانوی غزل
عصمت نے جب لحاف ادب کو اوڑھا دیا
عینی نے بڑھ کے آگ کا دریا بہا دیا
منٹو میں اور میر میں ہے قدرِ مشترک
دونوں نے اختصار کو جامع بنا دیا
بکواس لکھتے رہنے سے اچھا ہے کم لکھو
دانا تھا جس نے راز یہ ہم کو بتا دیا
’ننگی سڑک پہ‘ ییٹھ کے ہم نے بھی کچھ لکھا
قاری کو ×’سکھ کی نیند‘ سے واقف کرادیا
ابھرا ہے اور تےز دھماکے کا ساتھ وہ
اندر کے جس ادیب کو میں نے دبا دیا
مسلم ہے میرا نام مکمل ادیب ہوں
افسانوں کا غزل سے تعارف کرا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(× ننگی سڑک پر اور سکھ کی نیند میرے افسانوں کے عنوانات ہیں۔)
آگ کے ساتھ ساتھ پانی ہے
جسم کی بھی عجب کہانی ہے
حال اس کا بیاں کروں کیسے
دل تو صدموں کی راجدھانی ہے
کردیں مسمار قصرِ ہستی کو
حادثوں نے یہ جی میں ٹھانی ہے
پھول کی پنکھڑی مرا احساس
اور بادِ صبا روانی ہے
جو بھی گذرے ہیں حادثے ہم پر
سب تمہاری ہی مہربانی ہے
میں اٹھاتا نہیں ہوں دیوار یں
دل کی بستی مجھے بسانی ہے
اتنی چھوٹی سی بحر میں مسلم
تیرا اظہار داستانی ہے
اب لباسوں کا کیا ہی کہنا ہے
کچھ نہیں پہنا اور پہنا ہے
شوق ہے اس کو خوش لباسی کا
وہ مزاجاً مگر برہنہ ہے
زندگی خوفناک جنگل ہے
اور سانپوں کے ساتھ رہنا ہے
یہ عمارت بنی ہے مٹی سے
جسم کو ایک دن تو ڈھہنا ہے
اب یہ عادت سی بن گئی مسلم
شعر کہتے ہیں کیونکہ کہنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوائے نوَ
قلمکاری میں ماہر ہو گئی ہے
غزل پروین شاکر ہو گئی ہے
نہاں تھے ہم سے جو عورت کے جذبے
وہ خود ان کی مصور ہو گئی ہے
قد اتنا بڑھ گیا ہے شاعرہ کا
کہ ہمدوشِ اکابر ہو گئی ہے
نہیں ہے اب وہ مردوں کا کھلونا
سیاست کی بھی شاطر ہو گئی ہے
ہمارے عہد میں عورت بھی مسلم
مدبر اور مفکر ہو گئی ہے
جن پر منٹو گرجے ہے عصمت بیدی چلّائیں ہیں
آج وہی اونچی مسند پر ییٹھے ہیں اترائیں ہیں
طعنے، تشنے، جھڑکی، دھکّے، کیا کیا تحفے پائیں ہیں
تیری محفل سے ہم خالی ہاتھ بھلا کب آئیں ہیں
تم گھٹ گھٹ کر جئے، یہ عزّت دولت شہرت پائیں ہیں
غالب، میر تمہارے لقمے شاعر آج چبائیں ہیں
بھرا ہے میرے اندر لاوا میرے مقابل مت آنا
میں شاعر ہوں ساری بلائیں لیتی مری بلائیں ہیں
باطل سے سمجھوتہ نہ کرنا ظلم نہ سہنا سچ کہنا
تعز یراتِ شہر میں مسلم شامل اب یہ خطائیں ہیں
مشاہدے کا ہے جمگھٹ مرے روئیے میں
اسی کی پاو ¿ گے کروٹ مرے روئیے میں
پڑھا میں نے بہت اس لئے در آئی ہے
اساتذہ کی سی آہٹ مرے روئیے میں
بڑے سلیقے سے برتی ہے شاعری میں نے
ہے اصل میں تو سجاوٹ مرے روئیے میں
مرے سہارے سے سچّائی ہو گئی بیباک
اٹھا رہی ہے وہ گھونگھٹ مرے روئیے میں
قدم قدم پہ ریا اور مصلحت کوشی
نہیں ہے یار یہ جھنجھٹ مرے روئیے میں
بلا کا چلبلا، حاضر جواب اور فعّال
ابھی تلک ہے وہ نٹ کھٹ مرے روئیے میں
نہ راج کی ہے، نہ ہے بال کی، نہ تریا کی
صداقتوں کی ہے بس ہٹ مرے روئیے میں
یہاں پر بھرتے ہیں پانی سبھی بڑے چھوٹے
ملا ہے ان کو تو پنگھٹ مرے روئیے میں
کبھی ہے چاند، کبھی کہکشاں، کبھی سورج
نہیں ہے ایک بھی سلوٹ مرے روئیے میں
اس عمر میں بھی شگفتہ ہوں میں جواں کی طرح
نہیں ہے چڑچڑا کھوسٹ مرے روئیے میں
میں چپکا رہتا ہیں ’کی۔بورڈ‘ سے بہت مسلم
اسی سے آگئی کھٹ کھٹ مرے روئیے میں
خوشا کہ ختم ہوا بودوہست کا احساس
چبھے گا اب نہ کسی بندوبست کا احساس
یہ اس کی چیخ اچانک بتا گئی ورنہ
نہیں تھا مجھ کو خود اپنی گرفت کا احساس
یہ تھام لیتا ہے امکانِ فتحِ نو کے قدم
شکست سے بھی برا ہے شکست کا احساس
چہار سمت ہیں بس بے حسی کی چٹّانیں
مری صدا کو نہ ہو بازگشت کا احساس
غرض ہے لطفِ سفر سے ہمارے قدموں کو
نہ فکرِ جادہ و منزل نہ سمت کا احساس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وقت وہ ہے جب طلبِ جام بہت ہے
جانکاہ تری یاد سرِ شام بہت ہے
اچھا ہے کہ ہم پر ہے ترے عشق کی تہمت
جینے کے لئے بس یہی الزام بہت ہے
اندازہ یہ ہوتا ہے کہ کل عید ہے شاید
کیوں آج یہ اک نور لبِ بام بہت ہے
اب آو ¿ چلو ہم بھی ذرادیکھیں تماشہ
ہمسایہ کے گھر دیر سے کہرام بہت ہے
اپنے وطنِ ثانی میں مسرور ہے مسلم
بھوپال میں رہ کر اسے آرام بہت ہے
زندگی بندگی ہو گئی ہے
زندگی زندگی ہو گئی ہے
یاد سے اس کی قلب و نظر میں
دور تک روشنی ہو گئی ہے
مل گیا ہے ہدف اپنی جاں کا
ختم اب بے بسی ہو گئی ہے
تذکرہ تھا کتابوں میں جس کا
یہ گھڑی وہ گھڑی ہو گئی ہے
دیکھئے ساتھ رہتا ہے کب تک
دوستی عارضی ہو گئی ہے
شور سینے میں کرتی تھی جو شئے
خامشی سے تری ہو گئی ہے
ٹھیک تھے تیرے آنے سے پہلے
بس یہ حالت ابھی ہو گئی ہے
چاند کیسا یہ ظلمت میں نکلا
ضو فشاں تیرگی ہو گئی ہے
آج پستی بلندی پہ مسلم
کیسے ہنس کر کھڑی ہو گئی ہے
کسقدر بے خوف تھے ہم دشمنوں کے درمیاں
سازشوں میں گھر گئے ہیں دوستوں کے درمیاں
ہے یہ اک مٹتی ہوئی تہذیب کا اندازِ عشق
وہ جو دو آنکھیں ہیں روشن جالیوں کے درمیاں
مدتوں سے اک جہانِ وہم بھی آباد ہے
ہم اکیلے ہی نہیں ہیں فاصلوں کے درمیاں
غیر سے منسوب تھی ساری پسند و نا پسند
چند لمحے تھے بس اپنے مدتوں کے درمیاں
امن ہے سستی کا باعث خواب آور ہے سکوں
ذہن کھلتا ہے جہاں کا حادثوں کے درمیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاموشی سے ہر رازِ نہاں کھول رہا ہے
وہ صرف تبسم کی زباں بول رہا ہے
صیادو مبارک ہو چلو دام بچھا ¶
سینے میں پرندہ کوئی پر تول رہا ہے
وہ زیست کے پیالے میں کہیں زہر نہ بھر دے
کانوں میں جو آواز کا رس گھول رہا ہے
تہذیب کی پوشاک سے جسموں کو سجا کر
بستی میں درندوں کا کوئی غول رہا ہے
الفت بھی عجب شئے ہے، وہ خاموش ہے، لیکن
اس شوق کا ہر عضوِ بدن بول رہا ہے
الفاظ یہ کس کے ہیں خبر خوب ہے مجھ کو
یہ آپ نہیں اورکوئی بول رہا ہے
مجھے لگا کہ کوئی بلبلہ سا پھوٹ گیا
وہ کہہ رہے ہیں کہ تارِ حیات ٹوٹ گیا
جنون و عقل کے گرداب سے نکل آئے
جب اپنے ہاتھ ہے دامن ہمارا چھوٹ گیا
تھا انحطاط کا اعلان نقطئہ آغاز
وجود پاتے ہی انسان ٹوٹ پھوٹ گیا
وہ کام آیا کہ سہمے ہوئے تھے جس سے ہم
گمان جس پہ نہیں تھا وہ ہم کو لوٹ گیا
اک عمر ہم نےگذاری کہانیاں سنتے
نہ سچ کا بول ہی بالا ہوا نہ جھوٹ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ اس طرح فرارِ غم کی راہ ڈھونڈتا رہا
مرا جنوں نئے نئے گناہ ڈھوندتا رہا
تمام آرزوئیں دوزخوں کی نذر ہو گئیں
تمام عمر جنتوں کی راہ ڈھونڈتا رہا
مصیبتوں سے ہارنا مرا مزاج ہی نہ تھا
مسرتوں کے لمحے گاہ گاہ ڈھونڈتا رہا
نئے نئے کھلونے چاہتا تھا قلبِ مضطرب
زمیں تو کیا نجوم و مہر و ماہ ڈھونڈتا رہا
اماں ملی ہے جب سے ہو گیا ہوں اسلحہ بکف
کہاں سکوں ملا کہ جب پناہ ڈھونڈتا رہا
اپنا سبک وجود بھی ہم پر گراں سا ہے
جینے کا حوصلہ مگر اب بھی جواں سا ہے
ٹوٹی ہے گر کے چیز کوئی بارہا مگر
سر پر محیط اب بھی وہی آسماں سا ہے
کب تک یہ حفظِ لاشہِ بے جاں فراعنہ!
مستقبلِ وجود بہت بے نشاں سا ہے
روحوں کے اختلاط میں مشکل نہیں کوئی
اس کا حسین جسم مگر درمیاں سا ہے
دل ہے سرشتِ آدمِ خاکی سے با خبر
بدظن ہے سب سے خود سے بھی کچھ بدگماں سا ہے
محدود وسعتیں بھی مجھے دے گئیں شکست
صحرا بوجہِ لغزشِ پا بے کراں سا ہے
وہ ہیں خوش یا خفا سمجھنے لگے
ان کی اک اک ادا سمجھنے لگے
آئینے سے نہیں ہٹاتے نظر
خود کو کیا جانے کیا سمجھنے لگے
ان کو کیا دے دیا خدا نے کچھ
وہ تو خود کو خدا سمجھنے لگے
اس نے جو دیا سیاست سے
ہم اسی کو دوا سمجھنے لگے
اس کے بے ساختہ تبسم کو
مژدہِ سلسلہ سمجھنے لگے
منزلِ انتہا پہ آکر ہم
عشق ہوتا ہے کیا سمجھنے لگے
اپنا اقبال ہو رہا ہے بلند
شرحِ بانگ ِ درا سمجھنے لگے
میر آخر تمہارے قدموں میں
شعر ِ نشتر ہے کیا سمجھنے لگے
جاگو مسلم کہ یہ تو صحرا ہے
تم جسے راستہ سمجھنے لگے
سانسوں کے تانے بانے میں نامطمئن سا ہے
دل ایسے سردخانے میں نامطمئن سا ہے
کس دن بساطِ زیست پلٹ جائے کیا خبر
ہر مہرہ اپنے خانے میں نا مطمئن سا ہے
ہر چند مٹ چکا ہے ہمارا وجود بھی
وہ ہم کو آزمانے میں نا مطمئن سا ہے
ڈالے کمند کیوں نہ ستاروں پہ آدمی
قیدی ہے قیدخانے میں نا مطمئن سا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج کو نگل جاتا ہے بدنام سمندر
ہوتا ہے خطرناک سر شام سمندر
انساں کی کہانی ہے کہ دریا کہ روانی
آغاز سمندر ہے اور انجام سمندر
ملاح کو کھینے کا سلےقہ بھی نہیں تھا
کچھ یوں بھی ہے پہلے ہی سے بدنام سمندر
وہ بوند کہاں ہے جو مری پیاس بجھائے
صحرا ہے کہ بکھرا ہے بہرگام سمندر
کشتی مری ساحل سے ہم آغوش ہوئی جب
سر اپنا پٹکنے لگا ناکام سمندر
ختم ہو جائے گا سرمایہِ جاں کتنا ہے
اپنے ہونے کا مگر مجھ کو گماں کتنا ہے
راز جو دفن ہے سینے میں بیاں کتنا ہے
حال دل کا مرے چہرے سے عیاں کتنا ہے
قہقہوں میں نہ دبا اس سے جدائی کا الم
سب کو اندازہ ہے احساسِ زیاں کتنا ہے
استفادہ تپشِ دل سے کیا لوگوں نے
آگ دیکھی نہ یہ دیکھا کہ دھواں کتنا ہے
پہلے مرنے کا کوئی خوف نہیں تھا مجھ کو
تم کو پایا ہے تو اندےشہِ جاں کتنا ہے
سب یہی کہتے ہیں روداد ہماری سن کر
بات مہمل ہے مگر زور بیاں کتنا ہے
دو غزلہ جو خواب میں وارد ہوا
کہیں سے دیکھو بدلتی نہیں جہاتِ وجود
ہزار آئینے ہیں اور ایک ذاتِ وجود
نہ اختتام ہے اس کا نہ ابتدا کوئی
ازل سے جاری و ساری ہے کائناتِ وجود
جو ایک بار بنا پھر وہ مٹ نہیں سکتا
بدلتی رہتی ہیں اشکال و ماہیاتِ وجود
کتابِ جنبش و حرکت فضا میں ہے موجود
ہر اک ورق پہ رقم ہیں نگارشاتِ وجود
وجود ہی سے تو آباد ہے جہانِ عدم
ہے ایک وقفہ جو ہے پردہِ مماتِ وجود
بقائے چشمہِ انسانیت حسین سے ہے
بفیضِ تشنہ لباں ہے رواں فراتِ وجود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ احتیاط و تکلف نہ انضباطِ وجود
وفورِ جذب اگر ہو تو ہے نشاطِ وجود
ہر ایک خلق کو بخشا گیا وجودِ محض
وہ ہم ہیں جن کو ملا کیف و انبساطِ وجود
جو ہے وجود وہی خالقِ وجود بھی ہے
بچھاتا رہتا ہے ہر دم نئی بساطِ وجود
خود اپنے آپ ہی ابنِ سبیل بھٹکا ہے
وگرنہ سیدھی تھی اور اب بھی ہے صراطِ وجود
تقاضے وقت کے پیہم بدلتے رہتے ہیں
ضروریات کے موسم بدلتے رہتے ہیں
کبھی ہے طنز کبھی قہقہ کبھی آنسو
ہماری یاس کے عالم بدلتے رہتے ہیں
کبھی سرور کبھی سیر اور ساز کبھی
ہم اپنے زخم کے مرہم بدلتے رہتے ہیں
ہے راگ دل کے تقاضے ایک ہی لیکن
وہ اپنے وعدوں کی سرگم بدلتے رہتے ہیں
ہمیشہ جیتنے والوں کی صف میں رہنا ہے
اسی لئے تو وہ پرچم بدلتے رہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربت ہمیں نہ بخشئے احسان کی طرح
منظور ہم کو پیار نہیں دان کی طرح
وہ کامیاب ٹھہرے تجارت میں عشق کی
جو حسن کو سمجھتے ہیں سامان کی طرح
یہ آخری سہارا ہے ساقی ذرا سنبھل
پیمانہ ٹوٹ جائے نہ پیمان کی طرح
مخلص تھے جنّتوں سے کیا سب کو ہمکنار
محروم خود ہی رہ گئے رضوان کی طرح
مجھ سے زیادہ وہ مری پہچان سے ملا
جو آیا میرے گھر مرے سامان سے ملا
جب بھی میں اپنے وقت کے خاقان سے ملا
سر تھا بلند میرا، میں اس شان سے ملا
عاجز میں اپنی جان سے وہ اپنی زلف سے
اک خستہ حال ایک پریشان سے ملا
مدّت سے بحرِ شوق بہت پرُ سکون ہے
تو اس کو اپنے جسم کے طوفان سے ملا
رہ کر وہاں وہ اور بھی بیباک ہو گیا
الٹا ہی کچھ سبق اسے زندان سے ملا
وہ کسی شخص کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے
لوگ جس چیز کو کردار سمجھ لیتے ہیں
ہے ہمارے ہی لئے خود کو سمجھنا مشکل
ہم کہ سرگوشیِ دیوار سمجھ لیتے ہیں
مسلے جانے سے تو بچ جاتے ہیں گل ہو کر بھی
توڑنے والے ہمیں خار سمجھ لیتے ہیں
مشغلہ زہرہ ج بینوں کا اداکاری ہے
اور اس کھ یل کو ہم پیار سمجھ لیتے ہیں
وار تعریف کا خالی نہیں جاتا ہے کبھی
سب منافق کو وفادار سمجھ لیتے ہیں
اہلِ باطن کبھی تقسیم نہیں ہو سکتے
سازشِ جبہ ¶ دستار سمجھ لیتے ہیں
ہم گوئیے ہیں مگر اپنے ترنم کے سبب
سننے والے ہمیں فنکار سمجھ لیتے ہیں
جلد کھل جانے کی کوشش جو کیا کرتا ہے
سب اسے اور پراسرار سمجھ لیتے ہیں
جیب کی کس کو خبر سب مری خوش پوشی سے
جھک کے مل لیتے ہیں، زردار سمجھ لیتے ہیں
اور جب موج میں آتی ہے طبیعت مسلم
کسی قہار کو غفار سمجھ لیتے ہیں
معمول کی حدود سے نکلا نہ کیجئے
جینے کی آرزو ہے تو سوچا نہ کیجئے
بچوں کو ہونے دےجئے احساس دھوپ کو
نشوونما نہ روکئے سایہ نہ کیجئے
ظالم پہ مہر ِعدل لگا دی عوام نے
چپ ہو کے ییٹھ رہئے تماشا نہ کیجئے
کھو جانے دےجئے مجھے باطن کے حسن میں
نظر یں ذرا اٹھائےے پردا نہ کیجئے
ناقابلِ حصول کوئی شئے نہ دکھ پڑے
منظر کو دل کی آنکھ سے دیکھا نہ کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود اپنے ہی ہاتھوں سے دل میں نشتر سے چبھو کر رہتے ہیں
رشتوں کے ہار میں پھول نہیں کانٹے بھی پرو کر رہتے ہیں
گرداب سے لڑنا ہے آساں س یلاب سے بچنا ہے ممکن
ساحل سے جو طوفاں اٹھتے ہیں کشتی کو ڈبو کر رہتے ہیں
جیون کے کسی دوراہے پر تم ہمکو ملوگے کیا تھی خبر
تقدیر میں جو کچھ لکھے ہیں وہ حادثے ہوکر رہتے ہیں
پھر آیا ہے رم جھم کا موسم یادوں کی گھٹا گھنگھور ہوئی
یہ بادل جب بھی اٹھتے ہیں پلکوں کو بھگو کر رہتے ہیں
منزل پہ وہی تو پہنچ یں گے ہو جن کا سفر منزل کے لئے
چلنا ہی جن کی منزل ہو وہ قافلے کھو کر رہتے ہیں
یخ ہواوں میں تو وہ جاں سے گذر جائے گا
میرے اندر یہ جو انسان ہے مر جائے گا
میرے احباب جب آئیں گے ہوا کی زد پر
مجھ کو معلوم نہیں کون کدھر جائے گا
رہ میں تنہائی کا احساس نہ ہوگا مجھ کو
میرے ہمراہ مرا ذوقِ سفر جائے گا
کچھ دنوں کا ہے خدا اس کو بھلا کیا پوجیں
وہ تو چڑھتا ہوا سورج ہے اتر جائے گا
جمع کرتے رہو شیرازئہ اسبابِ حیات
اسکی تق دیر بکھرنا ہے بکھر جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی
میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
چمنی سے ابلتی ہے وہ زنجیر دھوئیں کی
آزاد ہوا اب سے گرفتار چلے گی
تقدیر پہ انگلی کوئی ہرگز نہ اٹھائے
کس سمت ہوا کیا خبر اس بار چلے گی
سمجھوتے کی زنجیر نہ پہناو انا کو
ہمراہ سدا طنز کی جھنکار چلے گی
جب پڑ کے اچٹ جائے گی دولت کی زرہ پر
مفلس ہی پہ حالات کی تلوار چلے گی
اے تشنہ لباں مژدہ ہے آرام سے بیٹھو
خود جوئے رواں سوئے طلبگار چلے گی
ہر گام پہ اندےشئہِ آزار بہت ہے
ہم کو بھی مگر نشہِّ کردار بہت ہے
چہرے کے تاثر کس یقیں کیسے کر یں ہم
اس دور میں ہر شخص اداکار بہت ہے
انسان پہ کس درجہ حکومت ہے غرض کی
مطلب ہو تو دیوانہ بھی ہشیار بہت ہے
پھرتا ہے گلی کوچوں میں وہ خاک اڑاتا
آزادی کے دھوکے میں گرفتار بہت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں ہی جینا اگر ہے مر مر کے
دیکھئے کوئی تجربہ کر کے
یہ حسیں بت ہیں سنگِ مر مر کے
آخرش ہیں تو بھی پتھر کے
ہونگے چرچے جہاں کہیں سر کے
نام آجائیں گے بہتّر کے
میں کہاں اور آپ کس گھر کے
ہمنشیں کھیل ہیں مقدر کے
اک ذرا کیا تھکے مرے بازو
حوصلے بڑھ گئے سمندر کے!
آج کوئی ادھر نہیں آیا
کب سے ہم منتظر ہیں پتھر کے
کیا زمانہ تھا پارک میں مسلم
ساتھ ہوتے تھے جب گلِ تر کے
دوست یوں جلاتے ہیں، ایسے خوں رلاتے ہیں
محفل یں سجاتے ہیں، ہم کو بھول جاتے ہیں
ان کو شرم آتی ہے ہم کو جب بلاتے ہیں
منہ سے کچھ نہیں کہتے، چوڑیاں بجاتے ہیں
لوگ سب تھکے ہارے وقت یوں بتاتے ہیں
داستان سنتے ہیں، داستاں سناتے ہیں
کیمپس کی یادیں سب اپنے ساتھ لاتے ہیں
لوگ جب علی گڑھ سے ہم سے ملنے آتے ہیں
ہرطرف چلن ہے اب، جب بھی گھر سے جاتے ہیں
لوگ آس تینوں میں اپنی کچھ چھپاتے ہیں
اپنی تو بہار آمد، اس کی آمد آمد ہے
جسم و دل کے دروازے آج ہم سجاتے ہیں
اب مزا ہے جینے کا اس کے رنگ میں رنگ کر
رنگ کچھ اڑاتے ہیں، رنگ کچھ جماتے ہیں
فطرتی تھے کتنے ہم مسلم اپنے بچپن میں
جب بزرگ ملتے ہیں ہم کو سب بتاتے ہیں
چھوٹی سی رکاوٹ ہے دیوار نہ مانوں گا
میں ہار نہیں مانا، میں ہار نہ مانوں گا
اخبار کے باعث ہوں ہشیار نہ مانوں گا
میں رہبرِ رہزن کو سالار نہ مانوں گا
دامن پہ، دہن پر کیا یہ دودھ کے دھبّے ہیں؟
کیوں وہم ہے پھر تم کو خونخوار نہ مانوں گا
آزارِ زمانہ کو آزار توسمجھوں گا
جوتم نے دئے ان کو آزار نہ مانوں گا
اس جگہ وہ صدیوں تک محبوب سے ملتا تھا
مسلم کے سوا اس پر حقدار نہ مانوں گا
تمہارے حسن کی تمثیل شاعری میری
جنوں کے حکم کی تعمیل شاعری میری
کوئی صحیفہ نہ تنز یل شاعری میری
مگر ہے واجبِ ترتیل شاعری میری
ہر اک خیال کی تصو یر اس میں ملتی ہے
نگار خانہِ تخئیل شاعری میری
ہے آبشار کبھی اور کبھی ہے جوئے رواں
کبھی ہے ٹھہری ہوئی جھیل شاعری میری
شراب اور بھی غم کو ابھار د یتی ہے
دکھوں کو کرتی ہے تحلیل شاعری میری
غرض نہیں ہےزمانے کی داد سے مسلم
مرے وجود کی تکمیل شاعری میری
مصلحت اور برائی سے نبھانے والا
ہاں نہیں مجھ میں یہ انداز زمانے والا
اس کو بھی مار گیا جذبہِ ایثاروخلوص
خود بھی تیراک نہ تھا مجھ کو بچانے والا
اس لئے خیمہِ سفاک میں ہے جشنِ ظفر
گر گیا آج وہ گرتوں کو اٹھانے والا
کوئی دستک نہ کوئی شور نہ آہٹ، دل میں
یوں دبے پاو ¿ں چلا آتا ہے آنے والا
داستاں خود کو کہلواتی رہے گی یونہی
ایک جائے گا اک آئے گا سنانے والا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ اس خوبی سے ہم نے گل کھلائے
زباں چپ تھی، قلم نے گل کھلائے
گلستاں ہو گیا کانٹوں کا جنگل
ہمارے ہر قدم نے گل کھلائے
رواں تھی راہ پھر اک دن اچانک
مری قسمت کے خم نے گل کھلائے
ہزاروں آفتیں نازل ہوئی ہیں
یہ کیا تیرے کرم نے گل کھلائے
جدا ہیں شعر میرے سب سے مسلم
نئے پن کی قسم نے گل کھلائے
جس جانب بھی قدم نکالا دشمن ہے
ہر کوچے میں ہم نے پالا دشمن ہے
کچھ حکمت ہے یا پھر کوئی مجبوری
ییٹھا اس بزم میں بالا دشمن ہے
عرصے بعد ملا اک پنچنگ بیگ ہمیں
شکر یہ ہے کہ وہ ہمت والا دشمن ہے
دن ڈستا ہے رات جراحت د یتی ہے
گورا دشمن ہے اور کالا دشمن ہے
راہ بری کرتا ہے نکتہ چینی سے
دوست سے بڑھ کر وہ متوالا دشمن ہے
دوری ہم نے ان سے قائم رکھی ہے
مئے ہے اپنی دوست نہ پیالہ دشمن ہے
ُاُس سے مسلم مجھے کوئی خوف نہیں
وہ تو میرا دیکھا بھالا دشمن ہے
سمجھوتے کا قائل ہوں رہ رہ کے لچکتا ہوں
اتنا نہ جھکا مجھ کو میں ٹوٹ بھی سکتا ہوں
جب اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کے پلٹتا ہوں
میدان ہی نیچا ہے ا میداں پہ برستا ہوں
کھائے ہیں فریب اتنے انسان سے ڈرتا ہوں
وحشت میں خود اپنے ہی سائے سے بھڑکتا ہوں
یخ بستہ ملاقاتیں رشتے بھی ہیں برفیلے
یہ آگ بھی کےسی ہے میں جس میں سلگتا ہوں
کچھ اور ستم اس نے ایجاد کئے ہوں گے
ظالم کے تبسم کو میں خوب سمجھتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو اک بحرِ ہستی کا گرداب ہے
خواب تو اصل میں خواب در خواب ہے
بندگانِ ہوس کا تو سیلاب ہے
عشق نایاب ہے، انس کمیاب ہے
جس کو جو کچھ ملا اس پہ شاکر نہیں
سب کو کچھ پیاس ہے، کون سیراب ہے
صدق کا شوق ہو، شوق میں جوش ہو
عشق کے سامنے آگ بھی آب ہے
ٹین کا ایک ٹکڑا چمکدار تھا
ہم تھے ناداں یہ سمجھے کہ مہتاب ہے
عزیز درّانی
اک درِّ نایابِ ادب، اک گوہرِ نادرویکتا تھا
جس کی جہاں نے قدر نہ کی درّانی اےسا ہیرا تھا
مست قلندر، بے پروا، سرشارِ رضائے مولا تھا
غوث، ولی،ابدال،قطب، اﷲ ہی جانے وہ کیا تھا
حسبِ حال کوئی اک شعر وہ مجھ کو دیکھ کے پڑھتا تھا
اس کو سارا حال پتہ ہے اکثرایسا لگتا تھا
اس کا ہی بس ہو جاتاتھا جو بھی اس سے ملتا تھا
نام عزیزتھا اس کا بر حق ہر دل میں وہ رہتا تھا
ستواں ناک تھی پتلے لب تھے، جن پہ تبسم رہتا تھا
لمبے لمبے گیسو اس کے اور مخروطی چہرہ تھا
۰۷ کے پےٹے میں ہو کر بھی کافی پھرتیلا تھا
لمبے لمبے قدم اٹھا کر اعتماد سے چلتا تھا
اب بھی نظر یں ڈھونڈھ رہی ہیں اپنے مخلص رہبر کو
جمِّ غفیرِ انسانی میں وہ انسان اکیلا تھا
داد نہیں د یتا تھا مجھ کو وہ دانائے شہرِ سخن
لیکن یہ بھی کیا کم تھا وہ شعر مرے سن لیتا تھا
تم کو نہیں معلوم کہ یہ اشعار لکھے میں نے کیسے
حرف حرف تھا صرفِ گریہ، لفظ لفظ پر رویا تھا
پی ڈبلو ڈی میں رہ کر بھی وہ بے داغ نکل آیا
اس کی دیانت اسکی ثابت قدمی کا کیا کہنا تھا
کون یہ کہتا ہے مسلم دنیا میں نہیں ہے درّانی
اب بھی وہ میرے دل میں ہے پہلے بھی دل میں رہتا تھا
منافعہ خوروں، ذخ یرہ اندوزں اور کالہ بازاریوں کا ترانہ
ہر شخص کو منٹوں میں پٹا لیتے ہیں ہم لوگ
باتوں سے جگہ دل میں بنالیتے ہیں ہم لوگ
خاموشی سے پھر مال اڑا لیتے ہیں ہم لوگ
سرسوں کو ہتھیلی پہ جما لیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ
ہم لوگوں سے سیکھے کوئی جینے کا قرینہ
بوتے نہیں بے کار میں ہم نخلِ تمنا
آتا ہے ثمر باری کا جس وقت زمانہ
اوروں کے درختوں کو گرا لیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ
کرتے ہیں کلرکوں کی شب و روز خوشامد
ہوتی نہیں گر پھر بھی کوئی خاص درآمد
کرلیتے ہیں پھر جیب سے کچھ نوٹ برآمد
روٹھے ہوئے بابو کو منالیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ
کردار سے کچھ خاص نہیں ہم کو لگاوٹ
ہے یہ بھی گنہ کوئی کہ کرتے ہیں ملاوٹ
جس چیز کی سپلائی میں پاتے ہیں گراوٹ
اس چیز کو اس طرح بڑھالیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ
حالات سے سمجھوتے کو تیار ہیں ہر دم
ہم کو تو بہر حال فوائد ہیں مقدم
ذی جاہ و اثر جب کوئی ہوجاتا ہے برہم
اگلے ہوئے لقموں کو چبا لیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ
کیا فکر ہے چلتی رہیں لوگوں کی زبانیں
وزراءکے سہارے پہ ہیں قائم یہ دکانیں
ممکن ہے بھلا درد ہمارا وہ نہ جانیں
ان کو بھی ہمدرد بنا لیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ
اپنے لئے رحمت ہے تو ان کے لئے مہلک
وہ بھوک کہ ہے جس سے پریشان یہ پبلک
سہ چند ہمیں نفع عطا کرتا ہے مالک
گوداموں میں اجناس چھپالیتے ہیں ہم لوگ
بگڑی ہوئی ہر بات بنالیتے ہیں ہم لوگ
بھوپال گیس حادثہ
سنبھال لے کوئی مجھ کو دعا کے ہاتھوں میں
میں اک کھلونا ہوں پاگل ہوا کے ہاتھوں میں
پلا دیا گیا موجِ صبا کو زہر کا جام
تھما دئے گئے خنجر ہوا کے ہاتھوں میں
لکھا تھا از سر ِ نو قصہِ حیات و ممات
بہت روانی تھی اس دن قضا کے ہاتھوں میں
وبا وہ پھیلی کہ تشخیص ہو گئی بوڑھی
یکایک آگیا رعشہ شفا کے ہاتھوں میں
وہی عزیز کہ جو جان سے بھی پیارے تھے
انھیں کو چھوڑ گئے سب فنا کے ہاتھوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظ جامد ہوگئے منظر ٹھہر کر رہ گیا
شعر میں کیسے کہوں احساس ششدر رہ گیا
زہر گھولا تھا ہواو ¿ں نے فضا میں اس قدر
سانس جس نے زور کی لی آہ بھر کر رہ گیا
خوف کے ماحول میں اہلِ عناں تھے بے لگام
سرد کار یں بھاگ نکل یں گرم بستر رہ گیا
ہے یہ سچ چنگیز و نادر تو نہیں آئے یہاں
ہاں مگر اس شہر میں اک دورِ بربر رہ گیا
سونپ ڈالا موت کے ہاتھوں کسی نے لختِ دل
اور کسی گھر میں کوئی ماہِ منور رہ گیا
آڑ میں مارا گیا جو علم اور تحقیق کی
سینہ انسانیت میں بس وہ خنجر رہ گیا
کلامِ مسلم سلیم حصہ دوم ©”باز۔آمد © ©“
حمد
سارے مکان سارے مکینوں کا بادشاہ
افلاک برزخوں کا زمینوں کا بادشاہ
دن رات موسموں کا مہینوں کا بادشاہ
سارے خزانوں سارے دفینوں کا بادشاہ
دنیا کے کند ذہنوں ذہینوں کا بادشاہ
بے بس غلاموں، شاہ نشینوں کا بادشاہ
دینوں کا مسلکوں کا قرینوں کا بادشاہ
بے دینوں اوردیں کے امینوں کا بادشاہ
مسلم میں اس سے کچھ بھی چھپاوں تو کس طرح
وہ شاہِ ذوالجلال ہے سینوں کا بادشاہ
نعت
گذاریں زندگی ہم لوگ آقا کے سلیقے سے
تو اتریں گی خدا کی رحمتیں ہر اک دریچے سے
براہِ راست بندے اور خدا کے درمیاں کیا ہے؟
ہدا یت بھی وسیلے سے اطاعت بھی وسیلے سے!
وسیلہ زندگی میں بھی ہمارے کام آتا ہے
بچ یں گے حزن سے روزِ قیامت بھی وسیلے سے
مقدس شہر دنیا میں بسے ہیں جا بجا لیکن
یہ راہِ امنِ عالم صرف نکلی ہے مدینے سے
جہادِ زندگی لازم ہے مسلم جان لو لیکن
ملے گی کامیابی صرف آقا کے طریقے سے
نعت
پھر کیوں نہ ہوں مسلم مری سانسو ںمیں محمد
جب رہتے ہیں اللہ کی” آنکھوں“ میں محمد
(حوالہ: سورة طور آیت ۸۴)
جنت اسے ملتی ہے وہ ہوتا ہے ”صحابی“
دیدار کرادیں جسے خوابوں میں محمد
اسلام کی ترویج بھلا کیسے ہو ممکن
شامل نہیں جب اپنے رواجوں میں محمد
گستاخی کا ہے دور عرب ہو کہ عجم ہو
مجبور ہیں جینے کو خرابوں میں، محمد
کچھ فکر نہیں حشر کی، اعمال نہیں گر
نکلیں گے وہاں اپنے حسابوں میں محمد
ایک حدیث
مانگ جو کچھ مانگنا ہے، جب نبی نے یہ کہا
اک صحابی نے کہا کر دیجیئے جنت عطا
بولے جا تجھ کو وہ بخشی اورہے کچھ مدعا؟
عرض کی خادم نے بیشک مجھ کو سب کچھ مل گیا
دیکھئے شانِ نبی اور اختیارِ بے کراں
آپ کی جودوعطا میں ہیں زمین و آسمان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ماخذ تمام مستند کتبِ حدیث)
نعت
رب نے جس کو آخری پیغامبر طے کرلیا
اس نے کچھ لمحوں میں برسوں کا سفر طے کر لیا
اس کے لب کی جنبشوں کو معتبر طے کر لیا
اس کے فرمودات میں ہوگا اثر طے کر لیا
نام اسکا ہر صحیفے میں بتایا اس طرح
عالمِ انسانیت کا منتظَر طے کر لیا
وہ عمارت جس سے تھی اسکو محبت بے پناہ
اس عمارت کو خدا نے اپنا گھر طے کر لیا
نور وہ جو باعثِ تخلیقِ دو عالم ہوا
چند نادانوں نے اس کو ہی بشر طے کر لیا
آخری خواہش جہاں والوں سے جب پوچھی گئی
سب نے جنت اور میں نے ان کا در طے کر لیا
کیوں نہ اب اسکے سخن کی داد دے سارا جہاں
مدحتِ سرور ﷺ کو مسلم نے ہنر طے کرلیا
نعت
نعت گوئی کی اس عاجز کو سعادت دی ہے
یعنی دنیا ہی میں تحریکِ شفاعت دی ہے
سب سے اچھی ہیں عبادات درود اور سلام
ان عبادات نے جنت کی ضمانت دی ہے
عظمت اسلام کو اور کفر کو لعنت دی ہے
ایک بندے نے کچھ اس طرح شہادت دی ہے
قابلِ رشک ہیں وہ لوگ جنہیں دنیا میں
عالمِ خواب میں آقا ﷺ نے بشارت دی ہے
لوٹ لے آج تو رحمت کے خزانے مسلم
آج اﷲ نے توفیقِ ندامت دی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت
جو محمد سے کی ہے وفا دیکھ لے
کوئی دیکھے نہ دیکھے خدا دیکھ لے
در گذر کر خدا میرے اعمال کو
میری نیّت، مرا حوصلہ دیکھ لے
دےکھ سکتا ہے باطن کوبس تو خدا
دل یہ میرا عقیدت بھرا دیکھ لے
ہے ثناءلب پہ یٰسین کی ہر گھڑی
ہے یہی رات دن سلسلہ دیکھ لے
سارے عالم پہ فرمانِ مسلم چلے
ایک دن یہ بھی دنیا ذرا دیکھ لے
نذرانہ عقیدت بحضور حضرت خواجہ غریب نواز ( رح)
عقیدت یوں دکھاتی ہے اثر دربارِ خواجہ میں
کہ جھک جاتا ہے شاہوں کا بھی سر دربارِ خواجہ میں
ماں
مجھ میں زندہ ہے فنا ہی کب ہے
ماں مری مجھ سے جدا ہی کب ہے
والدہ مرحومہ ّبیگم امِّ حبیبہ کی یاد میں
لگ رہا ہے یہاں ہے ، وہاں ہر طرف
جب نہیں ہے تو دکھتی ہے ماں ہر طرف
تو تھی جب تو مناظر تھے سارے دھلے
اب تو لگتا ہے مجھ کو دھواں ہر طرف
چاہنے والا کوئی نہ تجھ سا ملا
بعد تیرے جو دیکھا جہاں ہر طرف
ساتھ ہے ہرقدم اسکے تیری دعا
آج مسلم جو ہے کامراں ہر طرف
خراجِ تحسین برائے والدِ محترم ڈاکٹر سلیم واحد سلیم
زائیدہ تہران تھے، پروردہ لاہور
سب لوگ انھیں کہتے تھے شہزادہ لاہور
نقّادوں کی نظروں میں تھے ُاس دور کے خیام
انمول رتن تھے وہ تراشیدہ ¿ِ لاہور
لندن میں ، علی گڑھ میں بھی کچھ سال رہے تھے
لندن میں ، علی گڑھ میں بھی کچھ سال رہے تھے
پھر پلٹے وہیں ، کیونکہ تھے گروِدیدہ لاہور
تا عمر دیا علم کا دنیا کو اجالا
مصباحِ سخن تھے وہ جہاں دیدہ لاہور
رخصت ہوئے دنیا سے ُاسی سال وہ مسلم
اکیاسی میں ہر شخص تھا نمدیدہِ لاہور
اردو
ہر کسوٹی پہ کھرا اترے وہ سونا اردو
کچھ بھی کھو دینا مرے یار نہ کھونا اردو
تا کہ ہر لفظ زبانوں سے مہکتا نکلے
اپنی نسلوں کے گلستان میں بونا اردو
عشقِ غالب نے کیا جسکا ہے اقبال بلند
میرِ ہر نطق زباں کیا ہے؟کہونا اردو
ہوں اٹل، نرغہ دشمن سے نہیں گھبراتا
کچھ بھی ہو جائے مرے گھر میں تو ہونا اردو
نوکری اپنی یہ مسلم نے سمجھ رکھّی ہے
سب کے گلدستہِ ہستی میں پرونا اردو
(خاص طور سے ہند کے تناظر میں)
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی
مادرِ مہرباں ہے اے ایم یو ©
مایہ عز وشاں ہے اے ایم یو
میرا سارا جہاں ہے اے ایم یو
میں جہاں بھی ہوں جی رہا ہوں اسے
یعنی مجھ میں رواں ہے اے ایم یو
اس میں روشن ہیں سینکڑوں سورج
علم کی کہکشاں ہے اے ایم یو
اس کی شفقت میں بھید بھاو نہیں
مادرِ مہرباں ہے اے ایم یو
نازشِ ملک، شانِ عالم ہے
جسم دنیا ہے، جاں ہے اے ایم یو
تو بھی مسلم خراج دے اسکو
کیونکہ تیری بھی جاں ہے اے ایم یو
غزل
دل جہاں لاکھوں پڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
ہم بھی اس رہ میں کھڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
آپ کی مانند چلتے تھے اکڑ کر جو کبھی
خاک میں وہ سب گڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
کھیل بچّوں کا نہیں ہے، عشق کا رستہ ہے یہ
مرحلے سارے کڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
گدڑیوں میں رہ کے خدمت خلق کی کرتے ہیں جو
وہ سبھی انساں بڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
بارہا مسلم کیا ہے ہم نے خونِ آرزو
خود سے ہم اکثر لڑے ہیں اطلاعاً عرض ہے
وہ دور کے ہوں دوانے، کہ ہوں قریب کے لوگ
ہیں مدح خوان اسی پیکرِ عجیب کے لوگ
ہیں کار زار کئی اور بھی زمانے میں
ہلال ہی سے الجھتے ہیں کیوں صلیب کے لوگ
سروں کی گنتی نے آخر کیا اسے رسوا
امیرِ شہر پہ بھاری پ ©ڑے غریب کے لوگ
جہاں میں دھوم ہے جنکی ژرف نگاہی کی
دکھائی دیتے نہیں کیوں انھیں قریب کے لوگ
گلِ خموش کا د یتا نہیں ہے ساتھ کوئی
ہیں سارے حاشیہ بردار عندلیب کے لوگ
نظر بچا کے ہم اس دلربا سے مل آئے
گلی میں گھومتے پھرتے رہے رقیب کے لوگ
وطن سے آج چلا ہوں یہ سوچ کر مسلم
کہیں تو مجھ کو مل یں گے مرے نصیب کے لوگ
خدا سے مانگنے ہر اک تمنا ساتھ لے آیا
وہ مسجد میں بھی جب آیا تو دنیا ساتھ لے آیا
وہ کہنے کو تو اک پل تھا مگر کیا ساتھ لے آیا
وہ لمحہ اسکی سب یادوں کا صحرا ساتھ لے آیا
بڑا تقدیر والا ہے مرے اشعار کا قاری
بس اک غوطہ لگایا اور دریا ساتھ لے آیا
نیا کہنا تھا مشکل سب زمینیں پا فتادہ تھیں
مگر مسلم تھا مسلم، فکرِ تازہ ساتھ لے آیا
یہی رختِ سفر کافی ہے مسلم راہِ منزل میں
خدا کا شکر ہے وہ ساتھ اپنا ساتھ لے آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنج مطلع غزل
نہ شکا یت نہ گلہ اور نہ تکرار کوئی
پھر بھی رشتوں پہ لٹکتی رہی تلوار کوئی
نہ کوئی عہد نہ پیمان نہ اقرار کوئی
پھر ہوا کیسے مرے دل کا طلبگار کوئی
دوڑتا ہے مری نس نس میں اداکار کوئی
میں بھی ہوں جسے کسی فلم کا کردار کوئی
راہ سےگذرے گا سچائی کا سردار کوئی
ہوگا میرا بھی زمانے میں خریدار کوئی
خود بھی وہ ہوگا بڑے درجہ کا فنکار کوئی
جسکا دعویٰ ہے کہ مسلم ہے سمجھدار کوئی
خبردار! سینوں کے سچ کا پتہ ہے
ہمیں آستینوں کے سچ کا پتہ ہے
مکانوں سے مرعوب ہوتے نہیں ہیں
کہ جن کو مکینوں کے سچ کا پتہ ہے
ہیں خائن بہت رہنمایانِ ملّت
ہمیں ان © ©”ا مینوں“ کے سچ کا پتہ ہے
ہے کس کے لئے اتنا بننا سنورنا
ترے سب قرینوں کے سچ کا پتہ ہے
جو سجدے میں جاتے ہیں انکے دلوں کو
خود انکی جبینوں کے سچ کا پتہ ہے
فنونِ لطیفہ کا عامل ہے مسلم
اسے ان دفینوں کے سچ کا پتہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے دور میں یہ بھی عذاب ہوتا ہے
زیادہ نیک بھی ہونا خراب ہوتا ہے
اڑا کے اوروں کو خود کو بھی مار لیتے ہیں
وہ سوچتے ہیں کہ اس میں ثواب ہوتا ہے
اے کشت و خون کے داعی ذرا بتا تو سہی
کہ ان دھماکوں سے کیا انقلاب ہوتا ہے
پیاسے سگ کو بھی پانی پلائے تو جنت
ہمارے دین میں یوں بھی حساب ہوتا ہے
خدا کا وعدہ ہے مسلم کہ حق کی راہوں میں
کرے جو صبر وہی کامیاب ہوتا ہے
یاد ہے سارا جہاں بھول گئے ہیں خود کو
سوچتے ہیں کہ کہاں بھول گئے ہیں خود کو
جیت لے گا ہمیں دشمن بڑی آسانی سے
ہو گیا سب پہ عیاں بھول گئے ہیں خود کو
اپنے اسلاف سے کٹ جانا تھا نقصانِ عظیم
سب سے بڑھ کر یہ زیاں بھول گئے ہیں خود کو
پوچھتا ہے کوئی جب نام و نشاں ہنس ہنس کر
کھل نہیں پاتی زباں بھول گئے ہیں خود کو
یاد مسلم کو دلائے کوئی بیتی باتیں
آج کل تو یہ میاں بھول گئے ہیں خود کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسان اتنا شاہ کا انصاف ہو گیا
جو راستے میں آیا وہی صاف ہو گیا
دولت سے داغِ جرم ہر اک صاف ہو گیا
لو آج وہ بھی شاملِ اشراف ہو گیا
الفت میں اپنے خون کا دریا بہا دیا
اب سوچتے ہیں ہم سے یہ اسراف ہو گیا
باقی نہیں ہے کوئی کدورت، نہ کوئی رنج
صوفی بنا تو قلب مرا صاف ہوگیا
نورِ ازل سے دھل گئی آلودگی تمام
شیشے کی طرح دل مرا شفّاف ہو گیا
اے وائے مصلحت کہ فقط بت بنا رہا
کیا کیا نہ کشت و خوں مرے اطراف ہو گیا
مسلم کی راہ اس لئے مسدود ہو گئی
متروک اب طریقہ اسلاف ہو گیا
اس لئے جیت کر ہر اک میداں بڑھ گئے رزم گاہ سے آگے
ہم نے اپنی نگاہ رکھی تھی دشمنوں کی نگاہ سے آگے
پہلے تھا ملک میں بس اک ظالم سب جسے بادشاہ کہتے تھے
اب تو اپنے ہیں سینکڑوں آقا ظلم میں عالی جاہ سے آگے
دھند پر کیوں نگاہ ٹھہری ہے کام لیں وسعتِ نظر سے ذرا
کارواں ہے رواں دواں کوئی دیکھئے گردِ راہ سے آگے
کوئی تنگی نہ جان کا خطرہ اصل میں عیش اسکو کہتے ہیں
زندگی اپنی کتنی اچھی ہے مثلِِ سائل نہ شاہ سے آگے
ہم خطاکار تھے مگر رب نے ہم کو اپنی پناہ میں رکھا
ہر قدم پر ملی ہمیں مسلم اس کی رحمت گناہ سے آگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناگاہ جاگ اٹھا وہ یہ ہم پر عذاب تھا
ہم خواب بُن رہے تھے وہ جب محوِ خواب تھا
وہ آخری رفیق بھی مثلِ سراب تھا
اپنی ہر آرزو کا مقدر خراب تھا
محشر میں ہم نے دیکھا عجب ہی حساب تھا
ناکام جو یہاں تھا وہاں کامیاب تھا
پردا اٹھا کے دیکھا تو آنکھوں میں تھی حیا
یعنی کہ اس حجاب کے اندر حجاب تھا
جو کچھ ہے اس زمیں پہ علیؑ کا رہین ہے
انکا اسی لئے تو لقب بو تراب تھا
امّیدوار کتنے ہی ناکام ہو گئے
مشکل تھا امتحاں کہ وفا کا نصاب تھا
نازاں بہت تھا اپنی محبت کی جیت پر
مسلم خود اس نظر کا مگر انتخاب تھا
کارواں کدھر جائے شور اک اٹھا سا ہے
جسکو تھا پتہ سب کچھ وہ تولاپتہ سا ہے
پاس ہو کے بھی ہم سے وہ خفا خفا سا ہے
دوریاں ہیں میلوں کی فاصلہ ذرا سا ہے
اسکے گھر چراغاں ہے بے خبر ہے وہ ہم سے
جسکی یاد میں اپنا دل بجھا بجھا سا ہے
رنگ آتے جاتے ہیں کتنے اسکے چہرے پر
حسن اسکا اب دیکھو جب کہ وہ خفا سا ہے
کیا خبر تھی شوق اسکو ہے لہو بہانے کا
یہ سمجھ کے جاں دی تھی میرا بھائی پیاسا ہے
مسلکوں کی باریکی ہم نہیں سمجھ پائے
راستے کے اندر بھی ایک راستہ سا ہے
وہ کبھی نہ آئے گا خوب ہے پتہ ہمکو
وہ پلٹ کے آئے گا یہ تو بس دلاسہ ہے
وہ وہی تھا لیکن کیوں بارہا لگا مجھکو
وہ نہیں ہے وہ مسلم کوئی دوسرا سا ہے
آسان ہر اک ممکنہ مشکل نظر آئے
گر ڈوبتے انسان کو ساحل نظر آئے
ہمدرد کا کیوں بھیس بنائے ہوئے گھومے
قاتل ہے اگر کوئی تو قاتل نظر آئے
محبوب سے منسوب ہر اک چیز حسیں ہے
میں چاند سمجھتا ہوں اگر تل نظر آئے
قدرت کے خزانے کا ہے بے جوڑ نگینہ
دلبر کا کوئی کیسے مماثل نظر آئے
مسلم تمھیں بتلاو ¿ کہ ٹھکرایئں بھلا کیوں
صورت جو کوئی پیار کے قابل نظر آئے
وہ نہ بدنام ہو کہیں مسلم، بس یہی فکر ہم پہ بھاری ہے
اس کی خاطر گریز ہے اس سے، دل پہ یہ جبر اختیاری ہے
کرتے ہیں ہم پہ وہ کرم پہ کرم، سلسلہ فیض کا یہ جاری ہے
شکرئے کو بھی منع کرتے ہیں، یہ ادا انکی اور پیاری ہے
یہ ہے پنچھی کھلی ہواو ¿ں کا، اس پہ کس کی اجارہ داری ہے
آپ کا جسم غیر کا ہے مگر ، آپ کی یاد تو ہماری ہے
آج سے جوگ لے لیا ہم نے، تم ہو دیوی یہ دل پجاری ہے
جو متاعِ سخن ہماری ہے، آج سے سب وہ بس تمھاری ہے
نشّے کافور سارے ہو جائیں، سارے میخانے بند ہو جائیں
سر سے لیکن نہیں اترتی ہے، عشق کی بھی عجب خماری ہے
عزتِ نفس چاہنے والے، جان لیں یہ عمل ہے دنیا کا
حسنِ بیباک سے ہے بیباکی، پردہ داروں سے پردہ داری ہے
وہی عبرت کا تازیانہ ہوا
جس کو پاسِ وفا ذرا نہ ہوا
دلِ شفّاف بھی ضروری تھا!
آئینہ ساز آئینہ نہ ہوا
کچھ تو ہوتا مثال دینے کو
کیوں کوئی اور آپ سا نہ ہوا
ہم نے مانا تھی دوستی بے فیض
دشمنی سے بھی کچھ بھلانہ ہوا
اذنِ گستاخی آج دے دیجے
پھر یہ موسم ہوا ہوا نہ ہوا
اس نے کیسے سمجھ لیا مسلم
وہ جو کہنے کا حوصلہ نہ ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیلے تھے ہم، ایسے حالات میں
بنے انجمن اپنی ہی ذات میں
کوئی ہم سے جیتا نہ جذبات میں
رہے شاہ ہی ہم مگر مات میں
نہیں مال و زر کی تمنا کوئی
محبت ملے ہم کو خیرات میں
کہاں رہے گئے تھے؟ بہت دیر کی
سہمتا رہا دل یہ خدشات میں
یہ مشرک، وہ کافر، ہے مسلم کدھر
کہاں پھنس گئے ہم خرافات ہیں
ہو یہ دنیا یا وہ دنیا امکان بڑا ہوجاتا ہے
گردن جو ذرا سی خم ہو تو انسان بڑا ہوجاتا ہے
لذّات کی ضربِ کاری سے ہیجان بڑا ہوجاتا ہے
انسان کا قد گھٹ جاتا ہے شیطان بڑ ا ہوجاتا ہے ہے
جب حاضری دینے پہنچیں تو چلتے ہیں اسکے اشاروں پر
وزرا سے وزیرِ اعظم کا دربان بڑا ہوجاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر پہ گرتے آسماں کو روک لیتا
کاش وہ اپنی زباں کو روک لیتا
دل ہی میں جوشِ جواں کو روک لیتا
بنتے بنتے داستاں کو روک لیتا
سونے گھر میں کہکشاں کو روک لیتا
میں اگر اس مہرباں کو روک لیتا
اس کو اپنے شک پہ تھا پختہ یقیں
کیسے میں اس کے گماں کو روک لیتا
وہ مجھ کو سمجھنے میں جو ناکام رہا ہے
خود مجھ پہ ہی اس جرم کا الزام رہا ہے
وہ تیز ہوا ہے کہ میں گر جاتا کبھی کا
اندیکھا کوئی ہاتھ مجھے تھام رہا ہے
ہرصبح کا ہوتا ہے ترے ذکر سے آغاز
اور تذکرہ تیرا ہی ہر اک شام رہا ہے
آزادی کی یاد آتی ہے چڑیا کو، قفس میں
ویسے تو ہر اک بات کا آرام رہا ہے
ہاں جنگ کے میدان میں اترا تو ہے مسلم
مقصود مگر امن کا پیغام رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شک سے بھرے سوالوں، جوابوں میں کھو گئے
الفت کے چند پل بھی حسابوں میں کھو گئے
محشر میں ہم تھے سایہ حبِّ رسول میں
منکر تھے جو یہاں ، وہ عذابوں میں کھو گئے
آبِ حیاتِ عشق کی چاہت میں یوں ہوا
صحرائے آرزو کے سرابوں میں کھو گئے
کل رات بھر رہے تھے ترے ساتھ خواب میں
سو کر اٹھے تو پھر ترے خوابوں میں کھو گئے
چہرے پہ چہرے،چہرے پہ چہرے لگا لئے
حتّیٰ کہ اصل چہرے نقابوں میں کھو گئے
زندوں کو جو سراہیں وہ اب فیس بُک پہ ہیں
مردہ پرست سارے کتابوں میں کھو گئے
پری کا اسکے اندر سے نکلنا
جہانِ خواب بستر سے نکلنا
دہکتی ر یت پر پھر میں نے دیکھا
سمندر میری ٹھوکر سے نکلنا
جو ممکن ہو بجھادے پیاس میری
بجا ہے آب گوہر سے نکلنا
نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت
دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
بھرے گا پیکرِ تصو یر میںِ خوں
محبت کا وہ منظر سے نکلنا
جو ممکن ہو تو پھر دنیا ہے جنت
ندامت نوکِ خنجر سے نکلنا
عجب اشعار مسلم نے کہے ہیں
کہ جسے آب پتھر سے نکلنا
کس قدر پانی ہے پہلے اس کا اندازہ کیا
بند پھر اپنی مدد کا اس نے دروازہ کیا
اپنے اندر ہم نے اسکو اس طرح زندہ رکھا
زخم جب بھرنے لگے تو یاد کو تازہ کیا
کوئی سمجھوتا نہیں قدروں سے شہرت کے لئے
اس لئے ہم نے سدا بطلانِ آوازہ کیا
داد کیا دوں یہ شفق مرہونِ حسنِ یار ہے
آسماں نے لے کے اُس رخسار سے غازہ کیا
کوئی تو مسلم سبق سکھلائے اس نقّاد کو
بیر بل نے جسے اک ملّا کو دو پیازہ کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تب مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے مخمل یاد کا
سر پہ جب سایہ فگن ہوتا ہے بادل یاد کا
جان و دل میں جب مہک اٹھتا ہے صندل یاد کا
سو غموں کو دور کر د یتا ہے اک پل یاد کا
وادی و ¿ دشت و چمن میں لیکے پھرتے ہیں ہمیں
ر یلا دیوانی ہوا کا، زور پاگل یاد کا
ہو گئے ناکام سب دل بستگی کے مشغلے
سلسلہ تھمتا نہیں اسکی مسلسل یاد کا
اک عجب عالم ہے مسلم کیا کہیں، کس سے کہیں؟
دور تک بس ہم ہی ہم ہیں اور جنگل یاد کا
ایک قطعہ اور چند اشعار
آج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے
ڈائری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے
ایسے ماضی کی پھواروں نے بھگویا ہم کو
جسے بچہ کوئی بارش میں نہانے نکلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی اشعار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ افسردہ تھے ہم ان کو ہنسانے نکلے
آج پھر زخم زمانے کو دکھانے نکلے
وعدہ وصل کچھ اس طرح نبھانے نکلے
اپنے گھر سے وہ سہیلے کے بہانے نکلے
لوگ پھرتے ہیں یہاں بھیس بدل کر مسلم
شکلِ درویش میں اب کون نہ جانے نکلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انداز ہیں ہاں کہنے کے آخر تو سبھی نا
میں ہاں ہی سمجھتا ہوں جو کہتا ہے کبھی نا
اے زیست مری تواسی ا مید پہ جینا
اترے گا حقیقت میں کبھی خواب کا زینہ
سیراب ہو یہ روح توپر نور ہو سینہ
ہو مہرباں ہم پر بھی محبت کی حسینہ
ہر دم ہو خیال اسکا مجھے روزوش بینہ
ہر ماہ ہو اس ماہ کی الفت کا مہینہ
مسلم ترے مدّاح ہیں نا بینا و بینا
خوب آتا ہے اظہار کا تجھ کو بھی قرینہ
جنوں زدہ سی بدن اپنا ڈھک رہی ہے وفا
بچھڑ کے آپ سے در در بھٹک رہی ہے وفا
لہو لہان، دریدہ لباس ہیں لیکن
ہمارے چہرے پہ اب بھی چمک رہی ہے وفا
خبر ہے خوب وہ انساں نہیں ہے پتھر ہے
مگر سر اپنا اسی پر پٹک رہی ہے وفا
یہ کاغذی نہیں، اصلی گلِ محبت ہے
کچل مسل کے بھی دیکھا مہک رہی ہے وفا
ترے خیال سے پائی ہے وہ توانائی
نہ رک رہی ہے کہیں اور نہ تھک رہی ہے وفا
لہو ہے گرم محبت کی لوَ سے اے مسلم
الاو ¿ بن کے رگوں میں دہک رہی ہے وفا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو اگر عاجز تو پھر حاجت روا بنتے ہو کیوں
کام ہے یہ تو خدا کا تم خدا بنتے ہو کیوں
درسِ رحمت بھول کر کیوں بن گئے بیدادگر
سب کے حق میں پیکرِ جوروجفا بنتے ہو کیوں
ہر قدم کج فہمیاں ہیں، ہر قدم گمراہیاں
حق شناس و حق نگر اور حق نما بنتے ہو کیوں
ہو اگر مقدور رکھّو ساتھ کوئی راہبر
راہ گم گشتہ عزیزو! رہمنا بنتے ہو کیوں
فرض مسلم پر قیامِ امن ہے یہ جان لو
یوں کھلونا بے جہت جذبات کا بنتے ہو کیوں
رات بھر چنتے ہیں اکثر لعل و گوہر خواب کے
صبحدم روتے ہیں ہم ٹکڑے اٹھا کر خواب کے
خواب کی جانب چلے پیغام لے کر خواب کے
یوں اڑے دل کی منڈ یروں سے کبوتر خواب کے
جان و دل اپنے ہیں صدقے اس منور خواب کے
جاگتی آنکھوں میں رہنے دو وہ منظر خواب کے
کون د یتا ورنہ آنکھوں کے چھلاووں پر دھیان
آپ کے آنے سے جاگے ہیں مقدر خواب کے
زندگی میں اتنی تلخی سہہ نہ پاتے ہم کبھی
یہ تو اچھا ہے کہ سب تھے تیرونشتر خواب کے
آنکھ کھلتے ہی حقیقت کی ہوئے کافور سب
تشنگی کیسے بجھا پاتے سمندر خواب کے
زندگی مسلم کی پھر شرمندہ فردوس ہو
کاش ہوجائے حق یت بھی برابر خواب کے
اس لئے چہرہ ¿ِ حسیں ہے زرد
جم گئی خواب کے سفر کی گرد
عام انسان کی طرح جینا
نہ ہوا ہم سے ہر چہ خواہم کرد
اور بھی حوصلہ دیا مجھ کو
میرے بدخواہ تھے مرے ہمدرد
گرم بازاری ¿ِ ہوس کے سبب
ان دنوں عشق کی ہوا ہے سرد
درد کیا ہے یہ کوئی کیا جانے
وہی جانے جو سہہ رہا ہے درد
سامنے وہ ہیں کیا کرے مسلم
ذہن و دل میں چھڑی ہوئی ہے نبرد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغربی بازار یت کی دین یہ ہےجان ہے
حسنِ نسواں اب فقط تفریح کا سامان ہے
مکر آرائش ہے اسکی،جھوٹ اسکی شان ہے
مت بہک جانا، یہ گورا میڈیا شیطان ہے
خود تو گویا قتل و غارت، ظلم سے انجان ہے
ہر برائی کے لئے اسلام پر بہتان ہے
اُس کی ہرزہ گوئیوں پر مہرِ استحسان ہے
ہم نے گر کچھ کہہ دیا تو ہر طرف طوفان ہے
حق پہ جینا ، حق پہ مر مٹنا ہی اسکی شان ہے
سچ تو یہ ہے دہر میں مسلم ہی بس انسان ہے
آج ان کے ہی خلاف ہے ڈٹ کر کھڑا ہوا
جن کی نوازشوں سے وہ لڑکا بڑا ہوا
عرضی لگاو ¿ اور کرو دوڑ دھوپ بھی
اعزاز کیا ملے گا سڑک پر پڑا ہوا
معلوم ہے اسے کہ غلط راہ پر ہے وہ
لیکن زمانہ ضد پہ ہے اپنی اڑا ہوا
دیوار و در بھی کانپتے تھے اسکے رعب سے
کونے میں گھر کے ہے جو وہ بوڑھا پڑا ہوا
کردار ۔ اور ساتھ میں حق گوئی کی ادا!
سونا کھرا ۔ اور اس پہ ہے ہیرا جڑا ہوا
وہ دورِ امتحان کا ساتھی نہیں، نہ ہو
کیوں دشمنوں کی صف میں ہے آخر کھڑا ہوا
اس کو تو بس سہارا ہے خ یر الانام ﷺ کا
مسلم ہے آندھیوں میں بھی تن کر کھڑا ہوا
اس سے اکثر بات دل کی کہتے کہتے رہ گئے
مدتّوں درد نہاں پھر سہتے سہتے کہہ گئے
کیا خبر پھر کون سے رُت میں ابھر آئیں گے وہ
ذہن کے گوشے میں جو بھی کرب دب کر رہ گئے
ہے ہماری ہی خطا ہم اس قدر حسّاس تھے
یاد کے نشتر ہمارے دل میں تہہ در تہہ گئے
ناتواں تھے ہم، ہماری ہار طے تھی سر بہ سر
یہ بھی کیا کم ہے کہ اس ظالم کو دے کر شہہ گئے
گھومنا ممکن نہ تھا پہیا مخالف سمت میں
وقت کے سیلاب میںمسلم بھی آخر بہہ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راکھ جذبوں کی خلاو ¿ں میں بکھر جائے تو
دل پہ جو اترا تھا وہ دل سے اتر جائے تو
دور تک اپنے تعلق کی خبر جائے تو
ان نوشتوں پہ زمانے کی نظر جائے تو
لذّتِ دید سے تق دیر سنور جائے تو
گردشِ وقت ذرا دیر ٹھہر جائے تو
میری مانند ہی وہ لطفِ سفر پائے گا
کوئی اس دشت میں بے خوف و خطر جائے تو
تیرا مسلم بڑی ا مید لئے آیا ہے
اور اگر بزم سے با دیدہ تر جائے تو
وہ کاٹتے نہیں تاریکیوں کے جالوں کو
ہمارے دور میں کیا ہو گیا اجالوں کو
مرے جنوں سے وہ صدمہ ہے خوش جمالوں کو
کوئی مثال ہی ملتی نہیں مثالوں کو
ذراسنبھل کے دلِ سادہ لوح رہنا تو
وہ آج ڈھونڈھنے نکلا ہے تر نوالوں کو
کوئی مذاق نہ تھا راہِ راست پر چلنا
میں جھیلتا رہا ہر قسم کے سوالوں کو
زمانہ سازوں کے کانوں پر برق بن کے گری
مری غزل پسند آئی ضمیر والوں کو
رسائی ذہن کی اونچائی پر جب آئے گی
یہ لوگ سمجھیں گے مسلم ترے خیالوں کو
جی چاہا کئی بار کہ میں خود کو گنوا دوں
پھر سوچا کہ پہلے ترا پردہ تو اٹھا دوں
ابلےسی شجر راکھ سے پھر ہوگا نمودار
کیا ہوگا اگر سارے زمانے کو جلا دوں
اس دشت کے سناٹے نے توڑے وہ عزائم
دشمن بھی نظر آئے تو میں اسکو صدا دوں
نقاد یہ کہتا کہ کر میری غلامی
شاعر تجھے میں اوجِ ثریا پہ بٹھا دوں
مسلم مجھے لیکن مری عزلت ہے گوارا
گھر ییٹھ کے خاموشی سے میں فن کو جِلا دوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری آنکھیں، خواب تمھارے
ہر پل دیکھیں، خواب تمہارے
سوئی صبح یں، خواب تمہارے
جاگی راتیں، خواب تمہارے
اکثر کر کے چھوڑ گئے ہیں
بھیگی پلکیں، خواب تمہارے
جاگی آنکھ یں دیکھ رہی ہیں
دل ہی دل میں خواب تمہارے
مسلم کی نظروں کے آگے
بس لہرائیں خواب تمہارے
(فسبک پر ایک گرافکس سے متاثر ہو کر)
خبر بھی ہے کہ محبت گلاب ہوتی ہے
لہو کے رنگ سے الفت گلاب ہوتی ہے
ہزار اسکو چھپاو ¿ مگر مہکتی ہے
دلوں کی وادی میں چاہت گلاب ہوتی ہے
یہ سہہ نہ پائیں گے بادِ سموم نفرت کی
تعلقات کی فطرت گلاب ہوتی ہے
خیال بن کے مری خار زار ہستی میں
تم آتے ہو تو طبیعت گلاب ہوتی ہے
یہ آرزو کوئی مسلم پہ ہی نہیں موقوف
ہر ایک شخص کی حسرت گلاب ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے بات صرف مرے مہرباں ضرورت کی
زمانہ بول رہا ہے زباں ضرورت کی
نکل ہی جائیں گی سب گرمیاں ضرورت کی
گھری ہیں آج بہت بدلیاں ضرورت کی
ثواب دیدے تو یہ تیرا فضل ہے مولا
عبادتیں ہیں یہ اﷲ میاں ضرورت کی
خوشی نہیں ہے پہ چلنے کو ساتھ ہیں مجبور
بندھے ہیں ڈور سے ہم سب یہاں ضرورت کی
لبھا رہے ہیں محبت کا نام لے لے کر
سجا رہے ہیں مگر کہکشاں ضرورت کی
آدمی کو یوں بھی دیکھا جائے ہے
عقل کو پےسے سے ناپا جائے ہے
ڈھ یر سا آنکھوں میں پانی لے چلو
اس کے گھر صحرا سے رستہ جائے ہے
ہے عجب اس کے خزانے کا مزاج
جس پہ برسے بس برستا جائے ہے
خود نہیں ہے اس کو منزل کا پتہ
جس کے پیچھے ساری دنیا جائے ہے
دن کو تھوڑا کم لگے ہے تیرا غم
رات کو یہ درد گہرا جائے ہے
جتنی پا لیتا ہے وہ اونچائیاں
اصل میں اتنا ہی گرتا جائے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جارحانہ سے تیور، نہ باغیانہ مزاج
ہمیں تو راس ہے اپنا قلندرانہ مزاج
ہمیں تو رحم ہی اسلام نے سکھایا ہے
کہاں سے آگیا ہم میں یہ آمرانہ مزاج
جہاں سے اتنے کھلے دل سے مت ملا کیجے
کہ ہو نہ باعثِ رسوائی والہانہ مزاج
عظیم شاعر و انساں سلیم واحد سے
ملا ہے ورثہ میں مجھکو سخنورانہ مزاج
فنا خدا کی محبت میں ہو اگر مسلم
سبھی مزاجوں سے بہتر ہے عاشقانہ مزاج
سب گناہوں سے اگرچہ دور ہے
جسمِ راہب سیکس سے مجبور ہے
جنگ کرتا ہے وہ فطرت کے خلاف
اس کا چہرہ اس لئے بے نور ہے
کچھ مرے اظہار میں ہوگی کمی
کیسے کہہ دوں میں کہ وہ مغرور ہے
دیکھئے حسنِ سیاست حسن کا
میں بھی خوش ہوں، غیر بھی مسرور ہے
واہ مسلم بحرِ معنیٰ تیرا شعر
صرف دو سطروں میں سب مستور ہے
کیا انکو پڑھیں اب یہ حقائق سے پرے ہیں
اخبار تو سب ریپ کی خبروں سے بھرے ہیں
کیا انکو ڈراتا ہے، کبھی وہ بھی ڈرے ہیں
ہر خطرہ کو تیار ہیں جو لوگ کھرے ہیں
معصوموں کی جانوں سے نہیں ملتی ہے جنت
سمجھائیں انھیں کیسے وہ نادان دھرے ہیں
تم مارنے والوں نے شہید انکو کیا ہے
جنت میں وہ جائیں گے کہ جو لوگ مرے ہیں
اوروں کی جراحت کے نشاں بھی نہیں باقی
کچھ زخم جو اپنوں نے دئے ہیں وہ ہرے ہیں
مسلم ہمیں خدشہ ہے فقط اپنے ہی شر سے
اوروں سے نہیں اپنے ہی سائے سے ڈرے ہیں
کیا ہے گر بے نقاب رہتا ہے
اس نظر میں حجاب رہتا ہے
کوئی خوشیوں کے پل نہیں گنتا
آنسوو ¿ں کا حساب رہتا ہے
کھویا کھویا سا مت سمجھ مجھ کو
فکر میں انقلاب رہتا ہے
جو اہانت کرے بزرگوں کی
اس کا خانہ خراب رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(فیس بک پر ایک گرافکس سے متاثر ہوکر)
دل دُکھاتا ہے کیا کوئی غم جی
چشم کیوں آپ کی ہے پُر نم جی
بھیڑ ہے آج دل میں یادوں کی
کیوں کہ اک یاد کا ہے ماتم جی
بخش دےجے خطائیں عاصی کی
آپ کیوں اس قدر ہیںبرہم جی
کچھ دنوں کی بہار تھی مسلم
آگیا پھر خزاں کا موسم جی
مقدر کو وہ کوسے کس بلا کو ہم بلا ییٹھے
چلیں جب ہم تو مسلم سر پکڑ کر راستہ ییٹھے
اسی پل لوگ اپنے راز کی عصمت گنوا ییٹھے
جو سننے کے لئے نا اہل تھا اسکو بتا ییٹھے
کبھی انکے خدا سوئے کبھی انکے خدا جاگے
کبھی انکے خدا اٹھّے کبھی انکے خدا ییٹھے
©بس اک محفل یہی ا مید کی کرنوں سے روشن ہے
تو بس ہم دل کو چمکانے تری محفل میں آییٹھے
کبھی ممکن نہیں لیکن دلی خواہش ہے یہ اسکی
کہ جب بھی وہ چلے قدموں میں آکے راستہ ییٹھے
محبت امن اور انصاف سے جینا ہی جینا ہے
وہ دل کیا خوب دل ہو جس میں مسلم کی صدا ییٹھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الفت میں مبتلا تھا تو مہلت نہیں ملی
نفرت کے واسطے مجھے فرصت نہیں ملی
آخر حیات پائی جہنم کی آگ میں
خود کُش نے لاکھ چاہا ۔ شہادت نہیں ملی
آئے وہ بعد میں تھے جو تخلیقِ اولیں
آدم کو پہلے آنے پہ سبقت نہیں ملی
زاہد عمل پہ ناز نہ کر یہ بھی سوچ لے
شیطان کو جزائے عبادت نہیں ملی
بہار لائے تھے یہ انکا احترام کرو
خزاں ر سیدہ درختوں کو بھی سلام کرو
یہ گھر تمہارا ہے اس دل میں تم قیام کرو
یہیں پہ صبح گذارو یہیں پہ شام کرو
ہمارے دین نے ہم کو یہی سکھایا ہے
مٹاو ¿ بیر، محبت کا ذکر عام کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے جان اور سپاٹ سے چہرے ہوئے ہیں لوگ
تج کر ضمیر جب سے سنہرے ہوئے ہیں لوگ
دل کی صداوں پر کوئی ردِّ عمل نہیں
یوں لگ رہا ہے جسے کہ بہرے ہوئے ہیں لوگ
وہ بارہا ہوئے ہیں زمانے میں سر بلند
جب بھی معاشرے میں اکہرئے ہوئے ہیں لوگ
لگتا ہے ہو نہ پائے گا اب کوئی راز فاش
دلچسپی میری دیکھ کے گہرے ہوئے ہیں لوگ
مسلم تو منزلوں سے بھی آگے نکل گیا
کیوں ایک ہی مقام پہ ٹھہرے ہوئے ہیں لوگ
عمر کا دشمن شور مچاتا رہتا ہے
دل میں بچپن شور مچاتا رہتا ہے
لاکھ کرے وہ کوشش جرم چھپانے کی
اس کا دامن شور مچاتا رہتا ہے
ہے تخلیق سے عاری ناقد جانے دو
خالی برتن شور مچاتا رہتا ہے
دیکھ کے یاروں کو اکثر یہ ناداں دل
دشمن! دشمن! شور مچاتا رہتا ہے
پیچھے پلٹو غوری پر بھی غور کرو
دل کا بلبن شور مچاتا رہتا ہے
مسلم کیسے دیکھیں رونق باہر کی
گھر کا بندھن شور مچاتا رہتا ہے
ہم بہت خوش ہیں ہمیں پہچانتا کوئی نہیں
ہم کو ہے سب کا پتہ اپنا پتہ کوئی نہیں
اب نہ موسیٰ ہیں نہ ہے ضربِ عصا کوئی نہیں
اس سمندر میں بھی لیکن راستہ کوئی نہیں
منحصر ہے وقت پر سب چوکتا کوئی نہیں
یہ غلط فہمی نہ پالو دیوتا کوئی نہیں
اسکو زندوں میں کریں شامل تو ہم کیسے کریں
جس سے کوئی خوش نہیں ہے اور خفا کوئی نہیں
اب نہ چھیڑو راگ گذرے وقت کا مسلم میاں
اب بزرگوں کی نصیحت مانتا کوئی نہں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسروں کے لیے دھڑکتا دل
دے اگر دل مجھے توایسا دل
لاکھ جلوے ہیں اور تنہا دل
تب ہی رہتا ہے کھویا کھویا دل
دیکھ کر اس کو اتنا مچلا دل
کیا کہیں کس طرح سنبھالا دل
یار کی بزم میں سنبھل کر جا
کر نہ ییٹھے کوئی تماشا دل
اب تو مسلم یہ بات مان ہی لے
ہے گراں جسم ہے اور سستا دل
طرحی پنج غزلہ
—ژمصرعہ ” دیکھنے کو تری آنکھوں میں بصارت دی ہے © ©“
(۱)
وقت نے جب کسی ظالم کو حکومت دی ہے
مجھکو حالات نے لہجے میں بغاوت دی ہے
جذبہ و ¿ جوش صداقت نے یہ حّدت دی ہے
آنچ الفاظ میں اظہار میں شدت دی ہے
پیش قدمی کی توقع تھی بہت، دشمن کو
ہم نے پسپائی کے حربہ سے حزیمت دی ہے
کچھ تو کام آگیا آخر کو مرا پاگل پن
مجھ کو پتھر دئے لیکن تجھے شہرت دی ہے
وہ لٹاتا ہے بہت انس و وفا لوگوں پر
رب نے دولت دلِ مسلم کو بکثرت دی ہے
(۲)
بر محل شعروں میں الفاظ کی صنعت دی ہے
مجھ کو پروازِ تخیّل نے یہ حرفت دی ہے
آپ اردو کے مخالف ہیں مگر سچ یہ ہے
آپ کے لہجے کو اردو نے حلاوت دی ہے
ملک کو اس نے ہی تہذیب سکھائی ہے نئی
جس پہ نازاں ہےں سبھی ایسی ثقافت دی ہے
دشمنوں کو بھی بھگانے میں مددگار ہوئی
جنگِ آزادی کے نعروں کو بھی طاقت دی ہے
ناز مسلم کو ہے اردو پہ کہ سب پہلے
خطہ ہند کو اس نے ہی صحافت دی ہے
(۳)
شکر کر رب کا کہ دیدار کی جنت دی ہے
©” دیکھنے کو تری آنکھوں میں بصارت دی ہے © ©“
یار اٹھ کر نہ چلا جائے کہیں پہلو سے
اس لئے بات کو کچھ اور طوالت دی ہے
شرم سے ہونٹ سلے ہیں یہ پتہ ہے ہمکو
ہم نے کب آپ کو اظہار کی زحمت دی ہے
جو نظر بھر کے اسے دیکھے گا جل جائے گا
اسکے چہرے نے تو سورج کو تمازت دی ہے
جب بہت بول چکا وہ تو یہ مسلم سے کہا
شکر ہے رب کا کہ کم گوئی کی عادت د ی ہے
(۴)
سوچئے کس نے یہ سیلاب کی آفت دی ہے
ن حوادث کو خود انسان نے دعوت دی ہے
حشر ہوگا یہی فطرت سے اگر کھیلو گے
اتّراکھنڈ میں قدرت نے نصیحت دی ہے
اپنے اعمال سے تو اس کو جہنم نہ بنا
تجھ کو اﷲ نے کہسار کی جنت دی ہے
ڈالی ڈالی کو وہاں اس نے ثمر بار کیا
سبزہ و ¿ گل کی بھی سوغات نہا یت دی ہے
کچھ زیادہ نہیں اتنا ہی کہے گا مسلم
اسکو زحمت نہ بناو ¿ کہ جو رحمت دی ہے
(۵)
اس حسیں پل میں تری یاد کو دعوت دی ہے
جب بھی ہم کو کبھی حالات نے مہلت دی ہے
گوشہ قلب میں بس جانے کی دعوت دی ہے
آج اُن آنکھوں نے ہم کو یہ اجازت دی ہے
عمر بھر عشق نے مصروف رکھا ہے ہم کو
آزمانے کے لئے حسن کو فرصت دی ہے
بات جب نکلی ہے ظالم کی ثنا خوانی کی
ہم نے چپ رہ کے بھی دنیا کو نصیحت دی ہے
دیکھتا ہے وہ جدھر تو ہی نظر آتا ہے
چشمِ مسلم کو یہ الفت نے کرامت دی ہے
طرحی سہ غزلہ برائے فےس بک محبت گروپ
عالمی آن لائن مشاعرہ : ۵۲ مئی ۳۱۰۲
(۱)
نہ کچھ مزاج میں نرمی نہ ہے لچک کوئی
تو اسکے ساتھ چلے کیسے دور تک کوئی
تھی لاشعور میں آہٹ کسی کے قدموں کی
پلٹ کے دیکھا، نہ تھا دور دور تک کوئی
وہ صرف یاد تھی لیکن شدید تھی اتنی
کہ جسے آ گیا پہلو میں یک بیک کوئی
بس ایک پل میں تعلق تو ترک کر ییٹھے
تمام عمر ستاتی رہی کسک کوئی
شجر تو کاٹ دیا یہ مگر نہیں سوچا
سنائی دے گی نہ چڑیوں کی اب چہک کوئی
کسی زمانے میں اسکو خلوص کہتے تھے
یہ شعلہ بجھ گیا اس میں نہیں لپک کوئی
بہشت ملتی ہے دہشت سے اور تشدّد سے
نکال ڈالے دماغوں سے یہ سنک کوئی
ہے حق کا معرکہ، کوئی بلاو ¿ مسلم کو
کہ صاف گوئی سے اس کو نہیں جھجھک کوئی
(۲)
جو چاند تاروں میں ہے یہ بھی ہے دمک کوئی
دکھائے آپ سا چہرا ہمیں فلک کوئی
یہ چوڑیاں یہ دوپٹہ یہ عارضِ گلگوں
چرا لے رنگ نہ انکے کہیں دھنک کوئی
نہ کوئی شور نہ آہٹ، کسی کے جانے سے
یہ دل کا کوچہ ہے سنسان سی سڑک کوئی
صدائیں کےسی اٹھی ہیں یہ اسکی پا یل سے
بتا رہی ہے ہمیں راز یہ چھنک کوئی
بھلا رہے تھے کہ پھر ذکر اسکا چھیڑ دیا
ہمارے زخموں پہ ملنے لگا نمک کوئی
(۳)
تمھارے آنے کی کیا مل گئی بھنک کوئی
”ابھر رہی ہے چراغوں میں پھر چمک کوئی“
پرانے دور کی ہم کو دکھا جھلک کوئی
یہ کیا نوا ہے کہ جس میں نہیں لپک کوئی
بس ایک شورنئے دور کی ہے موسیقی
کہ اب صداوں میں باقی نہیں کھنک کوئی
پھر اس کے بعد ان آنکھوں میں کوئی بھی نہ جچا
کچھ اس ادا سے دکھا کر گیا جھلک کوئی
ہماری بزم میں وہ نور بن کے کیا آئے
کھلی ہی رہ گئی، جھپکی نہیں پلک کوئی
کسی کو دوست بنانے کی ہو اگر خواہش
تلاش اس میں کرو قدرِ مشترک کوئی
سبھی یہ کہتے ہیں مسلم ہے ان کا دیوانہ
یہ بات سچ ہے تو اس میں نہیں ہتک کوئی
دو غزلہ کے دو رنگ
(۱) محبوب کے نام
یہ جسم کرتا ہے اکثر بہت سوال تر۱
رگوں میں دوڑنے لگتا ہے جب خیال ترا
قدم بچا کے رکھوں میں اگر تو کیسے رکھوں
ہر ایک سمت تو پھیلا ہوا ہے جال ترا
قریب سے جو بچا کر نظر نکلتے ہیں
ذرا سنبھل، یہی پوچھیں گے حال چال ترا
چلا سفر پہ جو تو ان کی راہ سے ہٹ کر
تو آج دیکھ لے کیا ہوگیا ہے حال ترا
(۲)
دشمن کے نام
عروج ہونے کو بے شک ہے بے مثال ترا
وہ دن بھی سوچ کہ جب آئے گا زوال ترا
دہک اٹھے گا کسی روز خود ترا ہی بدن
تباہ تجھ کو کرے گا یہ اشتعال ترا
ابھی تو س یر ستاروں کی کر رہا ہے تو
زمانہ دیکھے گا اک دن مگر زوال ترا
الٹ دے مسلمِ خستہ کے دشمنوں کے نگر
جمال والے دکھا دے ذرا جلال ترا
محبت میں انا کیا، نام کیا ہے
انا ہے تو وفا کا کام کیا ہے
سزاو ¿ں پر سزائیں دے رہا ہے
بتائے تو سہی الزام کیا ہے
بچھڑ کر اس سے پھر ہم نے جانا
سکوں کیا چیز ہے، آرام کیا ہے
اگردیکھو، شکستِ دل کو دیکھو
نہ یہ دیکھو شکستِ جام کیا ہے
ؓکسی کی یاد دفنانے چلے ہو
جہانِ دل میں یہ کہرام کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملے گا نہ کچھ تم کو ہرجائی بن کر
رہو ایک ہی کے تمنّائی بن کر
اس عادت کی باعث تماشا بنوگے
تو دیکھیں گے ہم بھی تماشائی بن کر
سنبھل کر چلو راہِ الفت میں مسلم
محبت نہ رہ جائے رسوائی بن کر
شاخِ امکان پر گل کھلا ہے
کوئی ہنس کر مجھے دیکھتا ہے
دورِ حاضر کا یہ ماجرا ہے
نطقِ شیطاں پہ نامِ خدا ہے
منتخب خود اندھیرا کیا ہے
اور پھر روشنی سے گلہ ہے
سانپ کا اب تو بچنا ہے مشکل
کوئی انساں اسے ڈس گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ رکی ہیں نہ تھکی ہیں آنکھیں
خواب کو ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں
آخرش سوکھ گئی ہیں آنکھیں
ہجر میں اتنی بہی ہیں آنکھیں
کچھ نہیں پایا بھٹکنے کے سوا
جب بھی اس در سے ہٹی ہیں آنکھیں
لوگ ششدر ہیں چمک سے ان کی
اس کے جلووں میں پلی ہیں آنکھیں
تم بھی آنکھوں سے کہو کچھ مسلم
تم سے کچھ پوچھ رہی ہیں آنکھیں
نہ تھا وہ جسکے سب خوگر بہت تھے
وگرنہ خوشنما منظر بہت تھے
مروّت، حق پرستی، صاف گوئی
مرے دشمن مرے اندر بہت تھے
بہا بستی میں پھر اس بات پر خوں
مدد تھوڑی سی تھی اور گھر بہت تھے
بہت تھا میرے لب پر نام تیرا
جہاں کے ہاتھ میں پتھر بہت تھے
وہی جیتا کہ جسکے ساتھ رب تھا
تھا مسلم ایک اور آزر بہت تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل میں بالکل نئی ز مین
بیمارِ ہوس ہے ترا ارمان زدہ دل
ایمان کو کیا پائے گا شےطان زدہ دل
ابرو سے جگر زخمی تو مژگان زدہ دل
دیکھا جو اسے، ہو گیا طوفان زدہ دل
چھلنی ہے فریبوں سے، رفےقوں کی دغا سے
میں لے کے کہاں جاو ¿ں یہ انسان زدہ دل
کیوں پیاس بجھاتا ہے تو اپنوں کے لہو سے؟
کہتا ہے مسلماں سے مسلمان زدہ ول
دنیا کی محبت بھی عجب روگ ہے مسلم
جس دل کو بھی اب دیکھو، ہے سرطان زدہ دل
بے اختیار بولے، دیوانہ وار بولے
ایسے بھی یار بولے، نظروں سے پیار بولے
جب پاس وہ نہ ہو تو، کٹتا ہے وقت ایسے
کچھ یاد گنگائے، کچھ انتظار بولے
جب گل وہ مسکرائے، غم پاس ہی نہ آئے
دے کر خزاں کو جھڑکی، دل میں بہار بولے
ہر چیز ہی ہے الٹی اس دورِ بوالعجب میں
صحرا میں پھول چیخے، گلشن میں خار بولے
چلتی ہے عقل مسلم ہر گام لڑکھڑا کر
اس نے وہ ہوش اڑائے،ہر دم خمار بولے
قطہ برائے بہن ریشما پرویز ، نیو یارک
اس کا خلوص مہکے، اس کا دلار بولے
ہر جملہ اس بہن کا جیسے بہار بولے
شیریں رقم بھی ہے وہ ، شیریں دہن بھی ہے وہ
جی چاہتا ہے یونہی وہ بار بار بولے
اسے بیدار و خفتہ سوچتا ہوں
یہی بس لمحہ لمحہ سوچتا ہوں
محبت ہوگئی ہے مجھکو جب سے
تو سب کچھ میٹھا میٹھا سوچتا ہوں
سوا تیرے اگر کچھ بھی نہ دیکھوں
سمجھ لے تو کہ میں کیا سوچتا ہوں
محبت سے مجھے سیراب کردے
میں پیاسا تجھ کو دریا سوچتا ہوں
خود اپنی ذات کو گم کرکے مسلم
کسی کا میں سراپا سوچتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شور کرتی ہوئی ہر سمت ہواہے، میں ہوں
وہ جو اس دشت میں اک آبلہ پا ہے، میں ہوں
مجھ کو چٹانوں کی باعث یہ پتہ ہے، میں ہوں
لوٹ کر آتی ہوئی میری صدا ہے، میں ہوں
صاف گوئی کے سبب ہو گیا خود میں محصور
ایسی تنہائی کہ بس میرا خدا ہے، میں ہوں
میرے بدخواہوں کی ہر چال ہوئی ہے ناکام
خیر خواہوں کی مرے ساتھ دعا ہے، میں ہوں
وقت کے سانچے میں ڈھلتا ہی رہا ہوں مسلم
ہر قدم اک نئی جینے کی ادا ہے، میں ہوں
عشق کی حرمت ، وفا کی آبرو اشعار ہیں
ہم ہیںلب بستہ، ہماری گفتگو اشعار ہیں
جو رقیبوں کے لئے سب فالتو اشعار ہیں
یار کی محفل میںسارے سرخرو اشعار ہیں
جابہ جا ،قریہ بہ قریہ ، کو بہ کو اشعار ہیں
الغرض اس دلربا کے چار سو اشعار ہیں
رازِ سر بستہ کبھی تو فاش ہی کر دیں گے یہ
فکرِسرگرداں کی پیہم جستجو اشعار ہیں
صاف اور شفّاف پانی کی طرح مسلم سلیم
میری فطرت کے مطابق ہوبہ ہو اشعار ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو کرتا ہے دن اور دن کو کرتا رات ہے
آج انساں سے پریشاں گردشِ حالات ہے
جان لی جس نے کسی کی اس کو کو قاتل کہہ دیا
لیکن اس کو کیا کہیں جو قاتلِ جذبات ہے
لاکھ وہ پتّھر سہی اک دن پگھل ہی جائے گا
گرمی جذبات آخر گرمیِ جذبات ہے
کیا مجال اس کی کہ خود کو شاعِر اعظم کہے
خوب ہے ہم کو پتہ مسلم کی کیا اوقات ہے
دوستوں کو پکارو کہیں سے
وہ نکل آتے ہیں آستیں سے
آسماں مل رہا ہے زمیں سے
راہ مل جائے شاید یہیں سے
آگ بونے کا انجام ہے یہ
نفرتیں اگ رہی ہیں زمیں سے
اے ریا کار رکھ رب کو دل میں
یہ صدا آ رہی ہے جب یں سے
جن سے ہم کر رہے ہیں محبت
بے وفائی کر یں گے ہمیں سے
مجھ میں اچھا ہے جو وہ بھی دیکھو
بس کہوں گا یہی نکتہ چ یں سے
فخر ہے فقر پر مجھ کو مسلم
کام چلتا ہے نانِ جو یں سے
کچھ تمھاری انا کچھ ہماری انا
پڑ گئی سارے رشتوں پہ بھاری انا
عاقبت کھوکے اس نے سنواری انا
آج انساں کو ہے اتنی پیاری انا
فیصلہ کیجےے کون ہے حکمراں
شاہ پر کرتی ہے شہسواری انا
خود گھمنڈی کو بھی کاٹ دیتی ہے یہ
ہے یہ تلوار بے شک دو دھاری انا
پاس مسلم کے ہرگز پھٹکنا نہیں
تو تو ہوتی ہے اک وجہِ خواری انا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جام سے تیرا نام یاد آیا
شام سے تیرا نام یاد آیا
چھت پہ کافی دنوں کے بعد چڑھا
بام سے تیرا نام یاد آیا
جب بھی لوگوں کا کچھ ہوا مطلب
کام سے تیرا نام یاد آیا
نام چاہے کسی کا ہو مسلم
نام سے تیرا نام یاد آیا
دوستو بے کار کوشش مت کرو
سامنے آ جاو ¿ سازش مت کرو
مدعی ہیں ہم، نہیں دریوزہ گر
حق ہمارا دو، نوازش مت کرو
کہہ رہا ہوں ضبط سے بھی کام لو
یہ نہیں کہتا کہ خواہش مت کرو
جو جہاں پر ہے ٹھہر جائے وہیں
جلوہ گر ہے حسن جنبش مت کرو
کل کہا مسلم سے اک مداح نے
خود نمایاں ہو، نمائش مت کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیں چٹانوں سے بھی بڑھ کر دیواریں
کیسے ٹوٹیں گی یہ تہتر دیواریں
چھت کی چھاو ¿ں کسی کو کیسے مل پائے
خود کو سمجھیں جب پورا گھر دیواریں
یکجہتی کا ذکر اگر آجائے تو
چمکانے لگتی ہیں خنجر دیواریں
سب راہیں مسدود سی اب تو لگتی ہیں
ہوگئیں جیسے اپنا مقدر دیواریں
مسلم کاش وہ دن بھی آئے جب ہم سب
ڈھادیں مل کرساری خودسر دیواریں
برسے جو سبھی پر اسی ساون کی طرح سوچ
خاروں سے بھی نبھ جائے گی، گلشن کی طرح سوچ
تاریک سے کمرے کی فضا ذہن میں مت رکھ
گر وسعتِ قلبی ہو تو آنگن کی طرح سوچ
اپنی نہیں، اسکی بھی سمجھ حکمتِ عملی
ہے فتح جو مقصود تو دشمن کی طرح سوچ
سچ کہنے کی ہمت ہے تو کیا خوف ِ شکستن
تو سب کو دکھا آئینہ، درپن کی طرح سوچ
مسلم کو بھی جینے دے مرے دیش کے انساں
مت رام کی دھرتی پہ تو راون کی طرح سوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوگئے وہ بھی مری سانسوں کے سوالی
یہ پوچھ رہے ہیں مری آنکھوں کے سوالی
اب چاہتے ہیں لوٹنا کُل میرا اثاثہ
ارباب ِ حقیقت، مرے خوابوں کے سوالی
عقبیٰ کے طلبگاروں کا گھر باغِ عدن ہے
دنیا کے طلبگار سرابوں کے سوالی
دنیا سے سبق سیکھ کے لکھ ڈالی کتابیں
ناکام رہے سارے نصابوں کے سوالی
سب نیٹ کی دنیا میں مگن ہوگئے مسلم
گنتی کے ہی باقی ہیں کتابوں کے سوالی
نظر میں اپنی کبھی یہ خوابِ عجیب جاگے
ہم اس کے گھر سوئیں اور باہر رقیب جاگے
سحرہوئی تو امیر جاگے غریب جاگے
مگر کہاں ہر کسی کے سوئے نصیب جاگے
ہے جاگنا تب کہ جو ہے دل کے قریب جاگے
میں اٹھ گیا توضمیر بھی عنقریب جاگے
علاجِ ملت ہو کیسے ممکن عجب ہے مسلم
مریض سویا پڑا ہوا ہے طبیب جاگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج چاند ستاروں پر اور سیاروں پر لکھتا ہوں
لیکن کب میں اپنی قوم کے غداروں پر لکھتا ہوں
کاش عطا ہو جائے مجھے بھی شاہ ظفر کی سی شہرت
قیدی ہوں میں جیل میں بیٹھا دیواروں پر لکھتا ہوں
لحنِ داو ¿دی تو نہیں ہے لیکن شاید ہو مقبول
نام کسی کا تان اور لے سے کہساروں پر لکھتا ہوں
مسلمسب مجھ کو اس دم دیوانہ کہنے لگتے ہیں
تیرے نام کاجب بوسہ میں انگاروں پر لکھتا ہوں
تبصرہ مجھ سے نہ کرواو کہ سچ کہتا ہوں میں
ہے یہی بہتر چلے جاو کہ سچ کہتا ہوں میں
سیخ پا کیوں ہو گئے چھوٹی سی سچی بات پر
زور سے اتنا نہ چلّاو کہ سچ کہتا ہوں میں
بات ہو جب ہو حسن سے تو جھوٹ باتیں ہیں روا
سوچ کر تم یہ نہ گھبراو کہ سچ کہتا ہوں میں
کیوں یقیں کرتا نہیں ہے کوئی میری بات پر
تم ہی مسلم سب کو سمجھاوکہ سچ کہتا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرق کچھ میرے نہ ہونے سے پڑا ہے یا نہیں
اس گلی میں پھر کوئی محشر اٹھا ہے یا نہیں
اس کو بھی نشتر محبت کا لگا ہے یا نہیں
ّآج تک بھی موم وہ پتھر ہوا ہے یا نہیں
اب کفِ افسوس مَلتا دلربا ہے یا نہیں
منقطع ظلم و ستم کا سلسہ ہے یا نہیں
مل نہیں سکتا کوئی مسلم سا مخلص دہرمیں
دل میں یہ احساس اس کو ہو گیا ہے یا نہیں
چڑھتا ہوا وفاو ¿ں کا بازار دیکھنا
پژمردہ آرزوئے خریدار دیکھنا
ہوگا ضرور پست یہ مینار دیکھنا
اک روز قصرِ ظلم کو مسمار دیکھنا
قطعہ
فرقوں میں جب بٹے ہو تو ہر بار دیکھنا
خود سے ہی خود کو بر سرِ پیکار دیکھنا
اس اک خطا پہ شیخ سے جنت پھسل گئی
اپنے سوا سبھی کو خطاکار دیکھنا
سو بار قتل کرکے گیا ہے قتیل کو
ظالم کا بار بار وہ تلوار دیکھنا
اپنی جمی ہے منزلِ مقصود پر نظر
جب چل پڑے سفر پہ تو کیا خار دیکھنا
جاں کاہ واپسی کی گواہی قدم قدم
میرا پلٹ پلٹ کے رہِ یار دیکھنا
کل کو خدا نخواستہ مسلم کو کچھ ہوا
دیوانہ پن میں بھی اسے ہشیار دیکھنا
بہت جن سے ملتے تھے بیتاب ہو کر
وہ اب رہ گئے ہیں بس اک خواب کر
سیاست ہوئی پست گرداب ہوکر
اٹھے رہمنا اتنے کذّاب ہوکر
بہانہ ملاکیا کہ سب بھول بیٹھے
ذرا ہم نے دیکھا جو کمیاب ہو کر
ہے مشکل بہت باز آبادکاری
کوئی دل سے گذرا ہے سیلاب ہوکر
…………….
مقّدرات پہ تحریرِ ماہ و سال بھی دیکھ
عروج دیکھ چکا ہے تو اب زوال بھی دیکھ
ترے جواب پہ بھاری مرا سوال بھی دیکھ
گھُٹا گھٹا مری سانسوں میں اشتعال بھی دیکھ
بچھائے بیٹھی ہے دنیا زرا وہ جال بھی دیکھ
بجا ہے زورِمحبت مگر مآل بھی دیکھ
پڑے گی کند یہ تلوار تیری نفرت کی
محبتوں سے بنی ہے ہماری ڈھال بھی دیکھ
کبھی چمکتے تھے سورج کی مثل گردوں پر
وہ زرہ ہائے زمیں بوسِ خال خال بھی دیکھ
ملانے نکلا ہے دنیا کے سُر سے سُر مسلم
تو ارد گرد ہراک تان اور تال بھی دیکھ
بہت ہی شوق سے کرتے ہیں نوش جامِ ردیف
ہمارا شعر نہیں ہے مگر غلامِ ردیف
بہت ضخیم ہے اپنا ذخیرہ ¿ِ الفاظ
تبھی تو تھام کے رکھتے ہیں ہم زمامِ ردیف
یہ بِچھ سے جاتے ہیں خود ہی خیال کی رہ میں
نہ فکرِ قافیہ ہم کو نہ اہتمامِ ردیف
ہو کیوں نہ ناز سخن پراک ایسے شاعر کو
مطیعِ بحر ہو جو اور ہو شادکامِ ردیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے اہتمام سب تکلفات برطرف
خدا کرے گا ایک روز کائنات برطرف
ضرور ہو گی مل کے گر بڑھاو ¿ ہات برطرف
تم ہو دن ،اٹھو، کرو سیاہ رات برطرف
ثواب بھی ہمیشگی، عذاب بھی ہمیشگی
کوئی نہیںمرے گا ہوگی جب ممات برطرف
ظالموں کے خیمے سج رہے ہیں جشنِ فتح میں
خدائے ذولجلال کردے میری مات برطرف
مسلم آج ہوتے ہوتے دور یہ بھی آگیا
ساتھ رہ رہے ہیں جوڑے اور برات برطرف
منجمد وقت کی رفتار کریں
آو ¿ لمحوں کو گرفتار کریں
شغلِ نفرت تو بہت آساں ہے
پیار کا کارِ گرانبار کریں
ہر طرف رنگِ لہو چمکے گا
اپنی آنکھوں کو نہ خونبار کریں
پھر سے چمکیں گے برنگِ ماضی
اپنے کردار پہ پھر دھار کریں
کھل کے لڑتے ہیں بہادر مسلم
سازشیں کیوں پسِ دیوار کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو بھی چلنے کی چاہ تھی
دشت میں راہ ہی راہ تھی
اک نئی شان ہر گاہ تھی
مہر تھی وہ کبھی ماہ تھی
خود ہی منزل پہ پہنچایا اس نے
جستجو جس کی ہمراہ تھی
ہو گیا قتل چالوں سے خود ہی
منکشف مرضی ¿ِ شاہ تھی
جس کو منزل سمجھتا تھا مسلم
وہ محض اک گذرگاہ تھی
مضطرب ہوکے پوچھا پتہ شہر میں
ہے کدھر امن کا راستہ شہر میں
کھائیں اے سی کی بے شک ہوا شہر میں
کیا ملے گا صبا کا مزہ شہر میں
کالی سڑکو ں کی ندیاں یہاں ہیں رواں
دشت ہے اک عمارات کا شہر میں
ُاب پڑوسی پڑوسی سے واقف نہیں
چل پڑی ہے کچھ ایسی ہوا شہر میں
ہو گئے لیس وہ جھوٹ سے مکر سے
اب تو بن جائے گا دبدبہ شہر میں
سب کی الفت کا محور بس اک آپ ہیں
کیوں نہیں آپ سا دوسرا شہر میں
دوربینوں سے ڈھونڈا گیا ہر طرف
تب کہیں جاکے مسلم ملا شہر میں
چہرے ہمیں جو دور سے پر نور سے لگے
دیکھا قریب سے تو بہت دور سے لگے
کچھ ایسے پردہ پوشی ¿ِ ح ±زن و ملال کی
محفل میں سارے لوگوں کو مسرور سے لگے
میرے بس اک سوال نے کیا کر دیا ا ±نہیں
با اختیار لوگ بھی معذور سے لگے
دیرینہ دوستی پہ ہوا جب وہ طعنہ زن
ہلکے سے کچھ کھرونچے بھی ناسور سے لگے
مسلم میاں کو پاس رفاقت تھا اِس قدر
اسکی عطائے شر پہ بھی مشکور سے لگے
( مطلع کا مصرعہ اول خواب میں ہوا تھا . دوسرا
مصرعہ لگا رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلمن کے پار دیکھا جو شہزادہ
اناچلمن کے پار دیکھا جو شہزا دہا۔اے۔انا
اس دن کھلے گا اس کا بھی دروازہ۔اے۔انا
لاکھوں پڑے ہیں دہر میں درماندہ۔اے۔انا
چلنا سنبھل سنبھل کے بہ اندازہ۔اے۔انا
ٹکرا نہ جاو¿ اور کسی کی انا سے تم
دیکھو بہت خراب ہے یہ جادہ۔اے۔انا
انجام خود سروں کا ہماری نظر میں ہے
اک دن بکھر ہی جائے گا شیرازہ۔اے۔انا
دیکھیں وہ اور کرتا ہے کیا حوصلے کے ساتھ
تا عمر چھیڑ چھاڑ رہے راستے کے ساتھ
دشمن سمجھ رہا ہے کہ ہم زیر ہوگئے
دیں گے شکست اس کو نئے ولولے کے ساتھ
ہوگا پرانا یہ جو نیا لگ رہا ہے آج
پھر لو پرانے چھوڑ کے کچھ دن نئے کے ساتھ
دیکھیں جو سازشیں وہاں، اوروں کی غیبتیں
مسجد کوچھوڑ ہو لئے ہم میکدے کے ساتھ
میدان ہو سخن کا ، صحافت کا ہو جہاں
مسلم رہا جہاں بھی، رہا دبدبے کے ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شور کرتا ہوا ہر فکر کا دریا آیا
ہم کو جب خود میں اترنے کا سلیقہ آیا
لوٹنے کا نہ کبھی دل میں ارادہ آیا
راہ میں جتنے نشاں تھے وہ جلاتا آیا
جب خیالوں میں اچانک ترا چہرہ آیا
ہر گماں خیز تصور کو پسینہ آیا
خود کو سوچا تو نظر ہم کو کچھ ایسا آیا
مسکراتا ہوا معصوم سا بچہ آیا
مل نہ پائی ہمیں مسلم کبھی لہروں سے نجات
ابھی ابھرے ہی تھے موجوں سے کہ صحرا آیا
فاتح ہو ہر خوشی کا ہر اک غم کو جیت لے
گر تجھ میں یہ صفت ہے توعالم کو جیت لے
لا اعتبار بخت کے ہر خم کو جیت لے
دل گر بدلتے رنگ کے موسم کو جیت لے
کیا ذکر دوستوں کا اک عالم کو جیت لے
شیریںدہن تو دشمنِ برہم کو جیت لے
میدان ہم نے چھوڑ رکھا ہے کھلا ہوا
ہم خود یہ چاہتے ہیں کوئی ہم کو جیت لے
رہتا ہے اس کا گھاو ¿ تروتازہ ہر گھڑی
مسلم ہے یہ وہ زخم جو مرہم کو جیت لے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوچ کرہی اشک ہر اک پی رہا ہوں میں
وہ خوش رہیں کہ جن کے لئے جی رہا ہوں میں
کچھ سوچ کر حدوں سے نکلتا نہیں کبھی
یعنی خود اپنے آپ کا قیدی رہا ہوں میں
باطل سے کچھ بھی حال ہو ممکن نہیں نباہ
ہر چند ٹوٹ جاو ¿ں وہ ضدّی رہا ہوں میں
اظہار عشقِ یارِ مسلسل تو دیکھنا
سّری کبھی رہا کبھی جہری رہا ہوں میں
اے شاعرو! ادیبو! یہ کترانا کس لئے
یارو تمہارے شہر کا شہری رہا ہوں میں
خاکسترِ بدن سے یہ ثابت نہیں ہے کیا؟
مسلم کسی زمانے میں بجلی رہا ہوں میں
مستقل تقدیر ہی اپنی بنالی شاعری
خوانِ قسمت جب سجا ہم نے اٹھالی شاعری
کچھ کے دل اور کچھ کی جیبوں دوالی شاعری
شوقیہ ہے کچھ یہاں اور کچھ ہے مالی شاعری
چند کش سگرٹ کے اک چائے کی پیالی شاعری
ایسے ہوتی ہے ہماری بھولی بھالی شاعری
دردِ دل دردِ جگر کی ہے سوالی شاعری
تب کہیں تخلیق ہوتی ہے نرالی شاعری
کچھ بھی تم کرنا، نہ کرنا خالی خالی شاعری
وزن ہو کچھ ،ورنہ بن جائے گی گالی شاعری
درد کو بھی کر لیا مثبت طریقے سے کشید
کرب کی تاریک راتوں میں اجالی شاعری
خوشہ چیں ناکام نقّالی کی کوشش مت کریں
مسلمِ بے مثل کرتا ہے مثالی شاعری
ہمیں ہو رنج تو چہرے پہ کرب لاو ¿گے
مگر پتہ ہے کہ تم دل میں مسکراو ¿گے
نکل کے سامنے خود اپنے آ ہی جاو ¿گے
تلاشِ ذات میں خود کوکہاں چھپاو ¿گے
ضرر جو دو گے ہمیں کچھ بھلا ہی پاو ¿گے
چراغ روشنی دے گا اگر جلاو ¿گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ادا بھولی ہر بات معصوم ہے
اس حسیں کی ہر اک گھات معصوم ہے
کھوٹ ہے دیکھنے والے کی آنکھ میں
ورنہ اپنی ملاقات معصوم ہے
ابنِ آدم کے کھاتے میں ہیں جرم سب
رات کو کچھ نہ کہہ رات معصوم ہے
جس نے اکسایا تھا، اصل ہے سرغنہ
وہ جو ملزم ہے ، وہ ہاتھ معصوم ہے
سارے مجرم ہیں آزاد اس دور میں
اور شکارِ حوالات معصوم ہے
پتھر کی کیا ہے شمع، پگھلتی نہیں ہے رات
ہو یاد کا عروج تو ڈھلتی نہیں ہے رات
شب بھر تپاتی رہتی ہے بس ایک آنچ پر
مانا کہ دن کی مثل ابلتی نہیں ہے رات
شاید تمھارے آنے سے قابو میں آئے یہ
ہم سے کسی بھی طرح سنبھلتی نہیں ہے رات
مسلم نظامِ قدروقضا ہے بہت اٹل
دن لاکھ سر کو پٹکے پہ ٹلتی نہیں ہے رات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو جب بھی اتاریں حضور شیشے میں
تو خود بھی جھانک کے دیکھیں ضرور شیشے میں
رفیق چاہئے اک جھوٹ بولنے والا
دکھائے جو مرے چہرے پہ نور شیشے میں
کسی کے عکس کے خاطر وجود ہے اسکا
تو پھر ہے کس لئے اتنا غرور شیشے میں
پتہ جو اس کو ہے ، ان پتھروںکو کیا معلوم
نزاکتوں کے سبب ہے شعور شیشے میں
چمک ہو لاکھ مگراصل کی ہے بات کچھ اور
نہیں دکھے گی تجلی ¿ِ طور شیشے میں
نشہ سما گیا مسلم کی ہر رگ و پے میں
نظر سے اس کی وہ اترا سرور شیشے میں
نہ رک جانے کو جی چاہے نہ تھک جانے کو جی چاہے
کسی کی جستجو میں دور تک جانے کو جی چاہے
اڑاتے پھرتے ہیں جو دھجیاں اوروں کے کاموں کی
کریں جب جرم خود اپنے تو ڈھک جانے کو جی چاہے
حضورِ یار میں ہیں گوش بر آواز و لب بستہ
غیابِ یار میں کیا کیا نہ بک جانے کو جی چاہے
ہمیں اے ماہ رو اندازہ ہے تم ہی سنبھالو گے
جو رخشِ عشق کا اک دن بدک جانے کو جی چاہے
نہیں ہے جانِ محفل تو مزہ کیا رہ گیا مسلم
وہ اٹھّے ہیں تو محفل سے سرک جانے کو جی چاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قتل کا مقصد نہیں پر خوں بہانا چاہتا ہے
ٹھیک کرنا اصل میں اپنا نشانہ چاہتا ہے
دشمنی کچھ بھی نہیں ، بس ذات ہی سے بیر ہے
صرف اتنی بات پر ہم کو مٹانا چاہتا ہے
دورِ حاضر کا شکاری ہے بہت شیریں دہن
جال چھوڑا، اب تو باتوں سے پھنسانا چاہتا ہے
پہلے خود کو بیچ کر پایا تھا خوابوں کا نگر
آج سپنے بیچ کر خود کا بچانا چاہتا ہے
اے خدا مسلم کو اس فتنے سے تو محفوظ رکھ
بھول کر خود کو کوئی مہتاب پانا چاہتا ہے
۔ مختلف قوافی کے ساتھ ایک ہی زمیں اور ردیف
کے ساتھ دو غزلیں
جوابِ جاہلاں ہے یہ، انھیں زندیق بولی ہے
جہاں چپ رہ گیا ہوں میں، مری تحلیق بولی ہے
انھیں کو نامزد کرکے ہر اک تصدیق بولی ہے
ابو بکرِ رضی اللہ کو صدیق بولی ہے
کسی صورت بھی اسکو نذرِ آتش کر نہیں سکتے
ہمارے حق میں در آتشکدہ تحریق بولی ہے
یقینا ساتھ مسلم کے کوئی تائیدِ غیبی ہے
کہ اسکے شعر میں اللہ کی توفیق بولی ہے
(۲)
وہ ہم سے ہار کر، لمبی لگا کر چیخ بولی ہے
یہ انساں جل نہیں سکتا ہے ہر اک سیخ بولی ہے
سبھی آداب ِ دین و زندگی ہم نے سکھائے ہیں
فسانے لاکھ گڑھ لو، سچ مگر تاریخ بولی ہے
ملامت کی ہے اجرام ِ فلک نے اسکی جی بھر کر
کسی کی مصلحت سورج کو جب مرّیخ بولی ہے
بلند و بانگ دعوے پھسپھا کر رہے گئے مسلم
خموشی نے مری وہ کہہ دیا جو چیخ بولی ہے
بانٹ سب کوخلوص کی دولت مال و زر چاہے تیرے پاس نہ ہو
ہو سکے گر تو اتنی کوشش کر تجھ سے مل کر کوئی اداس نہ ہو
وحشت ِ عشق اس قدر نہ بڑھے کہ کسی چین کی بھی آ س نہ ہو
دل نہ بہلے ہمارا محفل میں اور عزلت بھی ہم کو ر اس نہ ہو
آوایسا جہاں بنائیں ہم ہر طرف خوف اور ہراس نہ ہو
نرک میں ساری نفرتیں جائیں، الفتوں کا سورگ واس نہ ہو
اس ضیا پاش ایک جلوے میں ہم کہیں اس قدر نہ کھو جائیں
ہوکے رہ جائے منجمد احساس کیسا موسم ہے یہ قیاس نہ ہو
ساتھ رہ کر بھی ہم سے وہ اکثر پوچھتا ہے کہ کون ہے مسلم
اس سے بہتر تو میرا دشمن ہے یار اتنا بھی ناشناس نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوکے دریا میں بھی ہیں ساحل پہ ہم
آ گئے ہیں آج اس منزل پہ ہم
پس گئے یوں زندگی کی سل پہ ہم
ہم پہ دل حاوی رہا اوردل پہ ہم
حق بجانب ہے جو برہم ہے رقیب
بزم اس کی، چھا گئے محفل پہ ہم
دیکھئے تو انتہائے اعتماد
مسکرا اٹھتے ہیں ہر مشکل پہ ہم
تھا پریشاں ، نذر ہم نے جان کی
رحم کر بیٹھے تھے بس قاتل پہ ہم
شعرِ مسلم وہ سمجھ سکتا نہیں
کیوں کریں غصّہ کسی جاہل پہ ہم
کوئی عمل کی راہ دکھائے تب ہم نکلیں زنجیروں سے
قوم کی حالت کیا سدھرے گی لمبی لمبی تقریروں سے
اب تو ہم حالات کے رخ کو بدلیں گے تدبیروں سے
باز آئے ہم خوابوں سے اور ان کی الٹی تعبیروں سے
کچھ تو وجہِ سکوں حاصل تھی خوش قسمت محروموں کو
چاند کے ٹکڑے ہاتھ نہ آئے کام چلایا تصویروں سے
نوکِ قلم تو کام آئی ہے ہاتھ میں گر تلوار نہیں
مسلم صاحب جہدِ مسلسل کرتے ہیں تحریروں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر طرف یوں اپنے افسانے گئے
بھیڑ میں بھی صاف پہچانے گئے
اس کی الٹی سمت پر ہم چل پڑے
جس طرف شہرت کے دیوانے گئے
بے غرض الفت، خلوصِ مستقل
دوستی کے اب یہ پیمانے گئے
عاشقی صحرا ہے تپتی ریت کا
جس طرف مسلم سے دیوانے گئے
کہاں آنسو بہانا ہے کہاں پر مسکرانا ہے
جسے یہ مشق ہو جائے اسی کا یہ زمانہ ہے
فریب و مکر دل میں اورحلیہ مخلصانہ ہے
چھپے دشمن کا ظاہر میں رویہ دوستانہ ہے
مسلسل فکر رہتی ہے ہمارے رہنماو ¿ں کو
برابر چل رہے ساتھی کو کب ، کیسے گرانا ہے
ہمارے دور میں مردم شناسی ہو گئی مشکل
بہت چہروں پہ اب لکھا ہوا الٹا فسانہ ہے
کبھی بھی رم نہ پائے گرگٹی تہذیب میں مسلم
نہیں پرواہمیںہے جیتنا یا ہار جانا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئنوں کی گھر سے رخصت کا بہانہ ہو گیا
جب سے اپنے خواب کا چہرہ پرانا ہو گیا
بجلیوں، طوفان کا یہ دل ٹھکانا ہو گیا
آپ کا کیا؟ آپ کا تو مسکرانا ہو گیا
دل لگا کر ان کا لہجہ عاجزانہ ہو گیا
پتھروں کا بھی رویہ فدویانا ہو گیا
جب سے دلبر کا کسی کے ساتھ جانا ہوگیا
دل ہمارا وسوسوں کا کارخانہ ہو گیا
اصل میں وہ حق کے پردے میں کوئی باطل ہی ہے
حق نہیں، باطل سے جس کا دوستانہ ہو گیا
کچھ حوادث نے بھی کھولی چشمِ مسلم اور ادھر
کچھ صحافت سے نظریہ طائرانہ ہوگیا
یہ دنیا دار ہر اک راستہ بدل دیں گے
اگر مراد نہ پائی خدا بدل دیں گے
علاج عشق کا یہ چارہ گر کریں گے کیا
مرض رہے گا وہی بس دوابدل دیں گے
ہمیشہ فکر میں گھلتے رہیں گے بے چارے
جو سوچتے ہیں مرا حوصلہ بدل دیں گے
غرض ہے داد و ستائش سے انکو محفل میں
جو جیسا چاہے گا وہ ماجرا بدل دیں گے
ہے سرد مہری کا ماحول اگر تو کیا مسلم
یہ گرم جملے ہمارے ہوابدل دیں گے
ہو لاکھ سنگ محبت کی تھرتھری کے بغیر
گلی سے تیری نہ گذرے گا سنسنی کے بغیر
نبھائی رسمِ وفا ایسے دل لگی کے بغیر
تمام عمر رہے ساتھ دوستی کے بغیر
ہوا طلوع مدینے کا شمس مکہ میں
ؓبھٹک رہا تھا جہاں پہلے روشنی کے بغیر
وہی کتابِ شجاعت کا بابِ زرّیں ہیں
یہ داستان مکمل نہیں علی کے بغیر
چھپا کے رکھا ہے مسلم نے دولتِ غم کو
ہمیشہ بزم میں شاداں رہا خوشی کے بغیر
گر یہ ممکن نہیں دکھ مٹا دیجئے
خودکشی کا تو مت مشورہ دیجئے
حوصلے اپنے اتنے بڑھا دیجئے
آندھیوں کو بھی رنگِ صبا دیجئے
مٹ گئے ہوگی اب ساری ناراضگی
کر چکے قتل! اب مسکرا دیجئے
مٹ نہیں سکتیں تاریخ کی ذلتیں
سب کتابوں کو چاہے جلا دیجئے
رہ گیا ہے بس اک آئینہ شہر میں
اپنے دشمن کو مسلم دعا دیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکوہ نہیں ہے، جشن ہے تاخیر ِیار کا
آنکھوں کو لگ گیا ہے مزہ انتظار کا
ذہنوں میں گل کھلائے رہو اعتبار کا
شاید پلٹ کے آئے زمانہ بہار کا
چاہو اگر کسی کو تو لٹنے کی حد تلک
الفت میں کام کیا ہے حساب و شمار کا
جس پر ہے طیش اس پہ تو چلتا نہیں ہے بس
کمزور ہی نشانہ ہے دل کے غبار کا
جمہوریت کا عیب نہ مسلم سے پوچھئے
لوہار کام کرتا ہے اس میں سنار کا
عقبیٰ ہے بے کنار بہ میعاد ہے جہاں
بھولے ہیں آخرت کو مگر یاد ہے جہاں
آدم سے جو ہوا وہ مشی یت خدا کی تھی
فردوس کے گناہ سے آباد ہے جہاں
جاہ و جلال اس کا نظر پر ہے منحصر
خود اپنے آپ شاہ نہ شہزاد ہے جہاں
جذبے کی آنچ اور بڑھاتے چلے چلو
پگھلے کا ایک دن جو یہ فولاد ہے جہاں
کھیلے گا یونہی آنکھ مچولی ستم کے ساتھ
مسلم وہیں وہیں ہے کہ صیاد ہے جہاں
اونچائی خود کو اور سبھی کو ڈھلان دی
جس رہنما کے ہاتھ میں ہم نے کمان دی
غفلت کی نیند اور بھی چہرے پہ تان دی
کانوں میں اس کے جب بھی سحر نے اذان دی
قومی ذبیحہ آپ ہی چٹ کر گیا امیر
ہم کو دےے نہ پائے سِری اور نہ ران دی
اک دوسرے کو مارے ہیں ناپاک کہہ کے ہم
کیسی یہ اے خدا ہمیں جائے امان دی
مسلم ہے وہ جو بات پہ اپنی ڈٹا رہا
وعدہ نبھادیا جو کسی کو زبان دی
جسم و جاں، دل جگر بدلتے رہے
درد کے مستقر بدلتے رہے
وحشتوں سے کہاں نجات ملی
بس ہو ا یہ کہ ڈربدلتے رہے
لاکھ چہروں کی ہے بدعنوانی
دھڑ وہی ایک، سر بدلتے رہے
واقعہ کچھ کا کچھ بیان کیا
ٹی وی والے خبر بدلتے رہے
منزلوں تک نہ ہم کو پنہچایا
صرف سمتِ سفر بدلتے رہے
خیر جیسے پرانا کپڑا ہو
لوگ کیوں اس سے شربدلتے رہے
کرکے مجبوریوں سے سمجھوتا
ہم ادھر ، وہ ادھر بدلتے رہے
اب نہ پہچان پائے گا بچپن
اس قدر عمر بھر بدلتے رہے
عمر کے ہر پڑاو ¿ پر مسلم
آرزووں کے گھربدلتے رہے
اونچے نیچے ٹیرھے میڑھے راستے ہیں زیست میں
لطف ہچکولوں کا ہم کھاتے رہے ہیں زیست میں
سینکڑوں کردار ناٹک کر چکے ہیں زیست میں
کچھ نہ سیکھا، اب بھی دھوکے کھا رہے ہیں زیست میں
آ ہنی جن کے عزائم کو بنایا تھا کبھی
بن کے وہ دیوارِ آہن اب کھڑے ہیں زیست میں
چھوٹے موٹے رنج و غم کو زیرِ پا رکھتے ہیں ہم
فکر اعلیٰ ہے، حدف اپنے بڑے ہیں زیست میں
مل کے غازہ مسکراہٹ کا رخِ محزون پر
سب کو اس دھوکے میں رکّھا ہے مزے ہیں زیست میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنبھل ناداں، نہ ڈھائے قہر پھر خلّاق آیت کا
نہیں ہے کفر سے کچھ کم غلط اطلاق آیت کا
زمانے کی قیادت سے ہمیں پھر کون روکے گا
اتاریں ہم اگر کردار میں اخلاق آیت کا
وہی تو گامزن ایمان ِ کامل کی طرف ہوگا
وہ جس کو کھینچ لے اپنی طرف چقماق آیت کا
تلاوت جب کروگے ڈوب کر دل کی نگاہوں سے
ملادے گا تمھیں بھی رب سے یہ برّاق آیت کا
کہاں پھر روح میں اترے گی اک نورانیت مسلم
بجائے دل اگر ہوگا ٹھکانہ طاق آیت کا
سارے سازشی چہرے گھرگئے سوالوں میں
لا کھڑاکیا ان کو ہم نے جب اجالوں میں
سادہ دل تو تھے لیکن ہم پھنسے نہ جالوں میں
لوگ خود الجھ بیٹھے اپنی اپنی چالوں میں
آپ اپنی نسلوں کو پائیں گے اجالوں میں
گر حلال روزی کو رکھ دیا نوالوں میں
بس و ہی حسیں چہرہ بس گیا خیالوں میں
ذکر جس کا ملتا ہے سینکڑوں حوالوں میں
سخت دل ہی اچھّے تھے،چین سے تو رہتے تھے
دل ذرا سا کیا پھسلا، پڑ گئے وبالوں میں
اپنی زندگانی میں موڑ اتنے آئے ہیں
ہم بھی اک کہانی ہیں، چھپ گئے رسالوں میں
لوگ جان جائیں گے راز ایک دن مسلم
عشق کو چھپا رکھئے چاہے سات تالوں میں
عدالت میں وفا کیشی کی اک نالش تو بنتی تھی
تھکی ہاری سہی ہمت مگر کوشش تو بنتی تھی
تھا آئے دن کا شب خوںاس پہ کچھ بندش تو بنتی تھی
پلٹ کر وار ہم نے بھی کیا، یورش تو بنتی تھی
ہمارے پیٹھ پیچھے کے عمل سے آپ منکر ہیں
مگر سچائی یہ ہے دوستو! سازش تو بنتی تھی
ارے ظالم کبھی لفظِ مکرر کہہ دیا ہوتا
تمھارے نام کے تھے شعر فرمائش تو بنتی تھی
یہ مسلم ہم نے مانا دوستی جیسا نہیں تھا کچھ
شناسائی ہماری از رہِ رنجش تو بنتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب دوا کام نہ آئے تو یہ شافی ہوگی
آپ کی اک نگہ ¿ِ لطف ہی کافی ہوگی
شانِ محبوب میں گستاخی کم از کفر نہیں
جرم یہ وہ ہے کہ جس کی نہ معافی ہوگی
لاکھ سجدے بھی برا ¿ت کا نہ ساماں ہونگے
دل سے توبہ ہی گناہوں کی تلافی ہوگی
فرشِ رہ بن گیا نظروں کا مقدر مسلم
جانے کب ختم تری وعدہ خلافی ہوگی
وہ جو روٹھا ہوا سا لگتا ہے
سارا عالم خلا سا لگتا ہے
بارہا سن کے وہ یہ کہتے ہیں
یہ فسانہ سنا سا لگتا ہے
حسن ایسا کہ شاعرِ اعظم
اس کے آگے گدا سا لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کام میں ہنر لاتے، آسماں زمیں کرتے
کوستے ہیں قسمت کو جو عمل نہیں کرتے
لے کے صاف پیشانی گھر کو لوٹ آئے ہم
در نہ تھا جب اس قابل پست کیوں جبیں کرتے
دشمنوں سے لڑنے میں گھر کو بھول بیٹھے تھے
کاش وقت رہتے ہم فکرِ آستیں کرتے
اس کو لے کے دنیا کی سیر پر نکل جاتے
وہ حسیں جو مل جاتا کام یہ حسیں کرتے
وقتِ معرکہ مسلم یار تھے تماشائی
شور ہی مچا دیتے گر مدد نہیں کرتے
اس کو بھی اپنے حسن کا بسمل بنا دیا
پتّھر بھی چھو لیا تو اسے دل بنا دیا
رسوائیوں کو زیست کا حاصل بنا دیا
عیّاشیوں نے قوم کو بزدل بنا دیا
سفّاک قاتلوں کو بچانے کے واسطے
منصف نے بے گناہ کو قاتل بنا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلیاروں میں سڑکوں پہ چلیں گرم ہوائیں
سنّاتی ہیں اس دور میں بے شرم ہوائیں
غصّے سے کبھی اور کبھی پیار سے ماریں
ہوتی ہیں کبھی تند کبھی نرم ہوائیں
دھرتی کی اپج ذات کسانوں نہ پوچھے
انسانوں کا پوچھیں نہ کبھی دھرم ہوائیں
کردار میں مسلم وہ بلندی ہو کہ ہم سے
بیباک سہی پھر بھی کریں شرم ہوائیں
تم کو کیا خبر یہ تو بے قرار کی شب ہے
انتظار کی شب تو انتظار کی شب ہے
ٹوٹتے بکھرتے سے اعتبار کی شب ہے
بے سبب امیدوں پر انحصار کی شب ہے
میکدے نہ جاکر بھی، جام کو نہ چھو کر بھی
بن پئے جو ہوتا ہے اس خمار کی شب ہے
یادِیار سے فرصت مل نہ پائی اے مسلم
دن کہاں نصیب اپنا بار بار کی شب ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے سبب تم نے یہ سمجھا غم سے بن جائے گی بات
کرکے دیکھو، کوششِ پیہم سے بن جائے گی بات
دیکھ کر حالت ہماری الٹے قدموں پھر گیا
تھا مسیحا کو گماں ، مرہم سے بن جائے گی بات
ہے اگر روٹھا صنم ہم بھی تو پُر امیّد ہیں
آنے دو برکھا کی رُت موسم سے بن جائے گی بات
دیتے ہیں مسلم کو دعوت محفلوں میں اس لئے
سب سمجھتے ہیں کہ اسکے دم سے بن جائے گی بات
یہ کبھی ہم نے سوچا نہیں تھا، دل میں ایسے بھی مر جائے گا وہ
ہم پہ کوئی اثر ہی نہ ہو گا، سامنے سے گذر جائے گا وہ
صبح ہوگی تو پھر اگلی شب تک سب سے چھپ کر کدھر جائے گا وہ
ہے اندھیرا تو آخر اندھیرا روشنی میں بکھرجائے گا وہ
طفلِ ناداں کو ہوش آئے گا جب، کچھ نہ سوجے گا ڈرجائے گا وہ
زندگانی کے اندھے کنویں میں آخرِکار اتر جائے گا وہ
یاد کا اک ہیولا جو مسلم رات بھر خواب بن کر جیا تھا
دن میں گھٹ گھٹ کے مر جائے گا وہ، جب بھی ہوگی سحر جائے گا وہ
َََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
َََََََََََََََََََََ
دن میں یوں خود کو بچا پاتی ہے رات
سایہ بن کر ہم میں چھپ جاتی ہے رات
نور اس رخ سے چرا لاتی ہے رات
روزِ روشن خود ہی بن جاتی ہے رات
ایسے بدلا موسمِ حرص و ہوس
دن ہوئے بے شرم ، شرماتی ہے رات
خواب، بے خوابی، اذیت، ابتلا
جیسے تیسے بس گذر جاتی ہے رات
رات کو مسلم نہ تو الزام دے
کب ہر اک انساں کو بہکاتی ہے رات
یہ حال اب ہے کہ جنجال ہو گیا ماضی
میں کیا کروں کہ مرا حال ہو گیا ماضی
اڑائے پھرتا ہے ہر وقت اپنے کاندھوں پر
میں راجہ بن گیا بیتال ہو گیا ماضی
کسی کے ماضی نے چمکا دیا ہے حال اس کا
کسی کے حال سے پامال ہو گیا ماضی
مچا ہے شور وہ مسلم کہ دور ِ حاضر میں
سرودونغمہ کی سُرتال ہو گیا ماضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگانی کا دِکھاتی ہے ہر اک منظر غزل
ساتھ میرے آ گئی ہے کس بلندی پر غزل
ظربِ کاری زنگ آلودہ دماغوں کے لئے
گرچہ ہے شیشے سے نازک، توڑ دے پتھر غزل
خون جب جمنے لگے گا انجمن کے جسم کا
برف پگھلے گی، اٹھادے گی کوئی محشر غزل
نیند کی گولی اگر لوری نہ دے پائے تمھیں
گنگنا لینا ہماری کوئی خواب آور غزل
کچھ بھی مسلم کا تعلق میر صاحب سے نہیں
ان کے نشتر شعر ہونگے، ہے مری نشتر غزل
مقابل یار ہے تو خود کو ہم محدود کر لیں گے
بڑھو آگے، ہم اپنا راستہ مسدود کر لیں گے
مصور مَیں، میری تصویر پر شاطر جہاں والے
مجھے کافر کہیں گے اور اسے معبود کر لیں گے
برائے علم ہم نے مدرسے بھیجا تھا بچوں کو
خبر کیا تھی کہ اپنے جسم کو بارود کر لیں گے
نہ ہو خوفِ خدا ان کو تو پھر دعویٰ خدائی کا
کہیں شداد کر لیں گے، کہیں نمرود کر لیں گے
محبت کا ہے سودا نفع اور نقصاں نہ دیکھیں گے
اگر کوشش ہے یہ بے سود تو بے سود کر لیں گے
کسی کے حسن کی جلوہ گری کو دیکھ کر مسلم
مناظر حسن اپنا نیست و نابود کر لیں گے
بہت ہی قیمتی سامان ہو گیا چوری
ہمارے سینے سے انسان ہو گیا چوری
سکون پانے کی خاطر کیے تھے سمجھوتے
بہت سکون سے ایمان ہو گیا چوری
یہ کس نے رکھ دیا ہم کو تہس نہس کرکے
بچے ہیں فرقے، مسلمان ہو گیا چوری
مٹے اثاثے تو کچھ غم نہیں، الم یہ ہے
ہماری فتح کا امکان ہو گیا چوری
بٹھایا پہرے پہ مسلم جہاں بھروسے سے
خود اس مکان کا دربان ہو گیا چوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستقبل کس نے دیکھا ہے
بس حال کی سب کو پروا ہے
تقدیر میں جو کچھ لکھا ہے
انسان کو مل کر رہتا ہے
محروم رکھے گا کیوں ہمکو
وہ پالنے وال سب کا ہے
سہہ لیں گے تری خاطر یہ بھی
مانا کہ زخم یہ گہرا ہے
تو لاکھ چھپا لے جرم اپنا
اک روز تو پردا اٹھنا ہے
مسلم بیباک صحافی ہے
کرلے جو تجھ کو کرنا ہے
کہیں بولتا ہے رتبہ، کہیں نام بولتا ہے
میں خموش اس لےے ہوں، مرا کام بولتا ہے
میں پڑا ہوں اپنے گھر میں ، ہے رسائی اُس کی اونچی
میں حلال بولتا ہوں، وہ حرام بولتا ہے
کوئی مصلحت تو ہوگی کہ چھپا کے دل میں سچ کو
یوں زباں پر اپنی ڈر کی وہ لگام بولتا ہے
وہ رکے تو سارا منظر پڑھے حسن کے قصیدے
جو چلے لہک لہک کر تو خرام بولتا ہے
نہیں کوئی خوف اُس کو، ہو جو بات حق کی مسلم
سرِ بزم بولتا ہے، سرِ عام بولتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس غزل کا حسن یہ ہے کہ مونث الفاظ جیسے صبح، رات، بارات اور جمع حالات وغیرہ کو ردیف ”ہوتا ہے“ کے ساتھ باندھا گیا ہے جو شاید اردو غزل میں ایک نادر مثال ہے
تماشہ یہ بوجہِ گردشِ حالات ہوتا ہے
کوئی دن صبح ہوتا ہے، کوئی دن را ت ہوتا ہے
کہاں اسدرجہ لطف آگیں کسی کا ساتھ ہوتا ہے
تمھارا ساتھ تو خوشیوں کی اک برسات ہوتا ہے
وہی انسان کو ہر وقت رکھتا ہے تروتازہ
وہی بس ایک پل جو عشق کی سوغات ہوتا ہے
کوئی جیتے، کوئی ہارے غرض اس سے نہیں ہم کو
ہمارا مشغلہ ہر وقت شہہ اور مات ہوتا ہے
غضب کا چست ہے، کیسی توانائی ہے مسلم میں
کسی انساں پہ جیسے سایہ جنّات ہوتا ہے
اور کسی کے حسن و ادا کو حسن و ادا کہنے سے پہلے
یاد تجھے سو بار کریں گے جانِ وفا کہنے سے پہلے
تلوے چاٹو لیکن کوئی حد ہو چمچہ گیری کی
کچھ تو شرم کروآندھی کو بادِ صبا کہنے سے پہلے
ماہر ہے یہ دنیا کتنی بہلانے پھسلانے میں
زہر کی کتنی تعریفیں کیں اسکو دوا کہنے سے پہلے
میخانے میں بھیڑ لگی ہے نئے نئے میخواروں کی
مے چکھنا ہے ان کو تری آنکھوں میںنشہ کہنے سے پہلے
اوروں پر انگلی نہ اٹھاو ¿ یاد رہے تم بھی انساں ہو
اپنی خطا بھی یاد کرو کچھ اس کی خطا کہنے سے پہلے
مجھ سے ایسی بات نہ کرنایاد رہے میں مسلم ہوں
تجھ کو جہنم پہنچا دوں گا تجھ کو خدا کہنے سے پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہنا مگن اُسی میں سمجھنا نہ سوچنا
کچھ اور زندگی میں سمجھنا نہ سوچنا
نکلے ہیں سر کو لے کے سروں کی تلاش میں
مدہوش سرکشی میں سمجھنا نہ سوچنا
کیا دے دیا ہے، بدلے میں ہمکو ملا ہے کیا
ایسا تو دوستی میں سمجھنا نہ سوچنا
علم و ہنر کے نور سے جگ مگ ہیں راستے
اب ایسی روشنی میں سمجھنا نہ سوچنا
جنت کے عیش، حوروںکے جلوے سلیم جی
اخلاصِ بندگی میں سمجھنا نہ سوچنا
جا بخش دیا تجھ کو سکوں ، آئی ندا یوں
مٹی سے سنے ہاتھوں نے مانگی تھی دعا یوں
سونے کی رکابی میں رکھا چاندی کا چمچہ
غربت کی محبت کا جواب اس نے دیا یوں
سب جان گئے میں بھی ہوں دیوانہ کسی کا
پردہ مرے کردار سے اک روز اٹھا یوں
جیسے کسی محبوب کے بدلے ہوئے تیور
بدلے نہ مرے شہر تیری آب ہوا یوں
ہَم سینے کے پتھر کی حفاظت میں مگن تھے
مسلم وہ پگھل ہی گیا طوفان اٹھا یوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توانا تھے ترے ارمان سے ہم
اکیلے لڑ لیے طوفان سے ہم
یہ سچ ہے کہتے ہیں ایمان سے ہم
تمھیں پر ہیں فدا جی جان سے ہم
نہ سید سے نہ شیخ اور خان سے ہم
نبھا لیتے ہیں ہر انسان سے ہم
اٹھے ہیں ارضِ ہندوستان سے ہم
یہیں کے ہیں، جئیں گے شان سے ہم
ہمیں کیسے ہرا پائے گی دنیا
ہیں بالاتر ہر اک امکان سے ہم
بتادے گا ہمیں وہ راہ سیدھی
اگر پوچھیں کبھی قران سے ہم
اگر مسلم ہو محفل جاہلوں کی
تو بن جاتے ہیں بس نادان سے ہم
بھٹکے کہاںکہاں سب روشن چراغ والے
منزل کوپا گئے ہیںشاطر دماغ والے
ویراں پڑی ہوئی ہیں سچائی کی دوکانیں
بازار پر ہیں حادی اب سبز باغ والے
ووٹر کو صاف ستھرے انساں نہ راس
وہ پھل چنے ہیں سب نے جو پھل تھے داغ والے
اتری ہے رب کی رحمت تخلیق بن کے ہم پر
ہم کوبھی کچھ پتہ ہے،ہم ہیں سراغ والے
مسلم تو ہے عقابی، ہے یہ بڑی خرابی
اس سے گھلیں ملیں کیوں روباہ و زاغ والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانے مت سناو وصل و فراق والے
عنقا سے ہوگئے ہیں اچھے مذاق والے
جن میں بسی تھی خوشبو مہماں نوازیوں کی
وہ گھر کہاں رہے اب محراب و طاق والے
برسا رہا ہے ظالم شعلے وہ آسماں سے
نا حق جھلس رہے ہیں شام و عراق والے
ہے مصلحت نبھانا، آخر کو ہم بڑے ہیں
کرتے ہیں کام بچے ہر چند عاق والے
دیکھیں گے جب کہ ہم تم نزدیک آرہے
جملے اچھال دیںگے وہ پھرنفاق والے
بس سچ کو سچ کہا ہے، معتوب اس لئے ہیں
مسلم کبھی نہیں تھے ہم طمطراق والے
روزوشب اپنی ہی ذات کو، مات کرنے کو جی چاہتا ہے
کیونکہ کچھ کام ایسے بھی ہیں ساتھ کرنے کو جی چاہتا ہے
آپ پلکیں اٹھا لیجئے، مجھ سے نظریں ملا لیجئے
گفتگو کو ترستی ہیں آنکھیں، بات کرنے کو جی چاہتا ہے
لیٹ کر مخملی ریت پر، باغ میں، گاو ¿ں کے کھیت پر
چاندنی میں نہاتے ہوئے، رات کرنے کو جی چاہتا ہے
پیار سے پیار کی چھیڑ ہو، میں بھی کچھ بولوں تم کچھ کہو
تم رضامندی اپنی بھی دو، گھات کرنے کو جی چاہتا ہے
قاتلِ جذبِ ایثار ظالم، سچ بتائیں تمھیں ہم کہ مسلم
ایسی بیدرد دنیا سے دو دو ہاتھ کرنے کو جی چاہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب وہ ہر منظر میں اچھی لگتی ہیں
گھر کی چیزیں گھرمیں اچھی لگتی ہیں
دن میں جن باتوں پر دھیان نہیں دیتے
رات میں وہ بسترمیں اچھی لگتی ہیں
یوں بھی چمیلی دل کو بھاتی ہے لیکن
کلیاں اس کے سر میں اچھی لگتی ہیں
وہ جو اترتی ہیں تھوڑی مے نوشی پر
تصویریں ساغر میں اچھی لگتی ہیں
وہ چیزیں تم مسلم میں بھی پاو ¿گے
جو چیزیں گوہرمیں اچھی لگتی ہیں
قدرت کے بنائے ہوئے شِہکار کھلونے
ہوتے ہیں کھلونوں کے خریدار کھلونے
مسند پہ سیاست کی ہیں عیار کھلونے
افسوس کہ محکوم ہیں ہشیار کھلونے
اس دور میں خود اپنی لگاتے ہیں یہ بولی
ہر دام میں بکنے کو ہیں تیار کھلونے
تب دیکھ خریدار کی ناکامی کاعالم
جب ہوتے ہیں ہم جیسے انادار کھلونے
بالکل بھی زرومال کی پروا نہیں کرتے
مسلم ابھی کچھ باقی ہیں دلدار کھلونے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگاہوں میں نظارہ تھام کر ہم
بڑھے آگے اشارہ تھام کر ہم
ہمیں کرنی تھی موجوں پر سواری
پلٹ آئے کنارہ تھام کر ہم
ہیں اندر مختلف محراب و منبر
بہت خوش ہیں منارہ تھام کر ہم
حسد کی آگ میں جھلسے ہزاروں
جو نکلے خط تمھاراتھام کر ہم
بلندی پربہت پہنچے ہیں مسلم
غزل میں استعارہ تھام کر ہم
شجرکی شاخ پہ گرگٹ اداس رہتا ہے
ہر ایک رنگ اب انساں کے پاس رہتا ہے
چلو ملیں کہ ہجومِ مصاحباں سے پرے
دبا چھپا کوئی احساں شناس رہتا ہے
شکست خوردگی صدیوں کی بھولنے کے لئے
وطن کے لوگوں کوہر جھوٹ راس رہتا ہے
یہ کیسا امن ہے مسلم کہ جسکی پرتوں میں
جدھر بھی دیکھئے خوف و ہراس رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے احسان اسے یاد ہیں ، میرے احساں؟
شوقِ تحسین سے آزاد ہیں میرے احساں!
جس سے ملنا تھا صلہ، اس سے نہیں مل پایا
غیر لوگوں کے سبب شادہیں میرے احساں
ہے حوادث میں بھی سرسبز شجرنیکی کا
میںہوں دلشاد تو آبادہیں میرے احساں
اتنی کثرت سے پرندے ہیں کہ پکڑے کیسے
باعثِ حیرتِ صیاد ہیں میرے احساں
یہ تواچھا ہے ورق صاف ہے دل کا مسلم
نہ اسے اورنہ مجھے یادہیں میرے احساں
مصرعہ ¿ِ طرح : ©”چراغ جل نہیں سکتا کبھی ہوا کے بغیر“
ملی جو خونِ شہیداں سے اس جِلا کے بغیر
ہمارا دین ادھورا تھا کربلا کے بغیر
اماں کہیں نہیں محبوبِ کبریا کے بغیر
بہشت میں بھی نہ جائیں گے مصطفی کے بغیر
قدم بڑھایئے اندیشہ ¿ِ بلا کے بغیر
کہ ہو نہ پائے گا انجام ابتدا کے بغیر
ہم اس کی خوشبو سے اسکو تلاش کرلیں گے
دیارِ غیر میں ہمدرد و آشنا کے بغیر
یقین راہ دکھاتا ہے ہر قدم ہم کو
اگرچہ قافلہ اپنا ہے رہمنا کے بغیر
بچ آندھیوں سے اگرچہ یہ بات بھی سچ ہے
©”چراغ جل نہیں سکتا کبھی ہوا کے بغیر“
یہ کتنی بار ہوا لگ گئی دعا ماں کی
افاقہ ہو گیا مسلم کسی دوا کے بغیر
تنہائی
ستاتا ہے نفاق آمیز آوازوں کا سنّاٹا
مری تنہائی کچھ تو بول کچھ تو بات کر مجھ سے
تو ہی تو گوش بر آوازِ ہے، دمساز ہے میری
فقط اک تو ہے جس سے دل کی میں ہر بات کرتا ہوں
تری سرگوشیاں سن کر سکونِ قلب پاتا ہوں
یہی کچھ ایسے لمحے ہیں میں جن میں مسکراتا ہوں
چلی آ! بات کر مجھ سے! کہ میں پھر آج اکیلا ہوں
مری تنہائی کچھ تو بول کچھ تو بات کر مجھ سے
در مدحِ غزل
بہت عریض و سبک رو ہے آبنائے غزل
کوئی کبھی نہ کہے اس کو تنگنائے غزل
یہ ماہئے، یہ ثلاثی ، یہ ہائیکو کیا ہیں
یہ سب ہیں مانداگر کوئی گنکنائے غزل
گویئے گاتے ہیں مانا کہ گیت اور دوہے
مگر غنائے غزل تو ہے پھر غنائے غزل
تمام جذبوں کو خود میں سمیٹ لیتی ہے
یہ سب کے دل کی زباں ہے، کرو ثنائے غزل
دوئی کا فرق یہاں مٹ گیا ہے اے مسلم
غزل ہے ہم میں فنا اور ہم فنائے غزل
آزادی کی قید
تاریکیوں میں ابھری آواز سسکیوں کی
تھی فرش سے فلک تک پرواز سسکیوں کی
دیکھا جو پاس جا کر، آزادی رو رہی تھی
کل تک جو تھی سبھی کی شہزادی، رو رہی تھی
پوچھا جو ماجرا تو بولی کہ قید ہوں میں
پھوٹا مرا مقدر اب تم سے کیا کہوں میں
سارے فدا ہیں جس پر، میرا مجسمہ ہے
عاری ہے روح سے وہ، لیکن وہی سجا ہے
اس کو سجا دھجا کر سب رقص کر رہے ہیں
اور اصل جو کہ ہم ہیں گھٹ گھٹ کے مر رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوست یوگیش شرما کی یاد میں
بیڑی جو کوئی سلگائے تو شرما جی بہت یاد آتے ہو
اور چائے کی چسکی لگائے تو شرما جی بہت یاد آتے ہو
اس نفسا نفسی کے یگ میں ، تم جیسی پیار کی چھاو ¿ں تلے
مخلص جو کوئی مل جائے تو ، شرما جی بہت یاد آتے ہو
بیکنٹھ کے تم اب واسی ہو، کیا تم کو سنائیں حال اپنا
دل اپنا کبھی گھبرائے تو ، شرما جی بہت یاد آتے ہو
انسان کی عظمت غالب ہو، کیا ہندو ہے اور کیا مسلم
یہ بھید جہاں مٹ جائے تو ، شرما جی بہت یاد آتے ہو
مسلم سلیم ۔ خراجِ عقیدت برائے خالد ہ بلگرامی
صحافت کا روشن ستارہ تھیں وہ
قلمکار بے مثل و یکتا تھیں وہ
ان اخباروںپر ان کا احساں عظیم
ہوئے فیضیاب ”آفتاب © ©“ و ”ندیم“
اگرچہ قلم ان کا تھا نغمہ گر
دِکھاتی تھیں مطبخ میں بھی وہ ہنر
پکاتی تھیں پکوان جب روزِ عید
تو مہمان کہتے تھے ہل من مزید؟
عجب ان کے ہاتھوں میں تھا ذائقہ
ضیافت کا انداز بھی تھا جدا
کھلاتی تھیں یوں بن کے وہ میزباں
ہو جیسے کوئی مادرِ مہرباں
لبوں پر تبسم ہمیشہ رہا
اگر چہ بہت دورِ مشکل سہا
عزائم تھے ان کے بہت آہنی
نہ چھوٹی کبھی ان سے زندہ دلی
بس اوصاف ان کے گنائیں گے اب
کہاں خالدہ جیسی پائیں گے اب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(”آفتاب © ©“ و ”ندیم“ بھوپال کے دو اردو اخبارات ہیں) مطبخ: کچن
ہل من مزید: اور کچھ ہے کیا؟)
بیاد شاگرد محمد عباد خاں شمس بھوپالی(انتقال25 اکتوبر 2015
تم تو فردوس میں رہو گے شاد
عمر بھر ہم کریں گے تم کو یاد
کرکے بھوپال کو گئے ناشاد
ہم ہیں نوحہ کناں اے شمس عباد
تم کو بھی لے اڑی عدم کی طرف
تیز اتنی چلی اجل کی باد
دن تھا پچیس، ماہ اکتوبر
سال پندرہ نے کردیابرباد
مسلم اس صدمے سے ابھر آئے
اے خدا اس میںتو ہی کر امداد
یونس مخمور کی یاد میں
دل جسکا تھا اخلاص و وفا سے معمور
نعمات سے کر دیتا تھا سب کو مسحور
بھوپال! تجھے یادبہت آئے گا
اک گوہرِ نایاب تھا یونس مخمور
محترم عزیزالدین خان خضری صاحب (کراچی ) سے فیس بک دوستی کا ایک برس مکمل ہونے پر
ہوں مبارک دوستی کے ماہ وسال
ذہن و دل کا ہے یہ رشتہ لا زوال
فاصلہ ہے گو ہزاروں میل کا
پاس رہتا ہے مگر ہر دم خیال
قریہ ¿ِ حبّ و شناسائی میں اب
ملتے ہیں ان جیسے مخلص خال خال
جوش کے گلشن میں ان سے ہے مہک
مشک و عنبر غنچہ غنچہ، ڈال ڈال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلم سلیم ۔ سہیل کاکوروی کی ۷138 اشعار پر مشتمل
غزل کو خراج انھیں کی زمین میں
یہ غزل ہے بوئے گل، ہے ہو بہ بہو تصویر ِگل
اس سے بہتر ہو نہیں سکتی کوئی تفسیر ِگل
اس کی جانب بڑھ نہ پائے کوئی دستِ بوالہوس
خار کو رکّھا ہے درباں دیکھئے تدبیرِ گل
ہو گدازِ دل کا حامل دیکھنے والا اگر
پھول کی ہر پنکھڑی ہوتی ہے اک شمشیر ِ گل
کوئی بھی مٹی ہو مہکائے رہو ماحول کو
صرف صورت ہی نہیں پیدا کرو تاثیرِ گل
تم بھی مسلم کچھ کہو ایسا کہ ہو تابِ گلاب
مثلِ بوئے گل ہی پھیلے ہر طرف تنویرِ گل
اردو کی بقا ءمیں مجلسوں کا حصہ
اپنے مولا کے عاشقوں کے سبب
اردو زندہ ہے مجلسوں کے سبب
کوئی اس کو مٹا نہیں سکتا
ایسے دلدار دوستوں کے سبب
عظمتِ مرثیہ انیس و دبیر
اور ایسے ہی شاعروں کے سبب
کچھ شعاعیں پڑی ہیں مسلم پر
ان سے اس کی محبتوں کے سبب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے حسی
اتنے بے حس ہیں کہ پیغامِ ِ محبت سن کر
چونکتے بھی نہیں قرآن کی آیت سن کر
مان لیتے ہیں جہالت میں یہ کیا کیا باتیں
مسلکی فکر کی ہر ایک روایت سن کر
اپنے راگوں پر ہی سر دھنتے ہیں ایسے حضرات
کچھ نہیں ہوتا اثر نغمہ وحدت سن کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قطعات
سرکار ِ دو عالم
سرکارِ دو عالم تھے مگر اتنے تھے سادہ
پہنا نہ کبھی قیمتی حضرت نے لبادہ
مل سکتی تھی ہر چیز اگر کرتے ارادہ
کھائے نہ کبھی گیارہ نوالوں سے زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنی تعریف کی جائے کم، مصطفی مجتبیٰ محترم
آپ کے ہیں غلاموں میں ہم، مصطفی مجتبیٰ محترم
مطمئن ہیں بہت زندگی سے، راہ روشن ہے نورِ نبی سے
ڈگمگاتے نہیں ہیں قدم ، مصطفی مجتبیٰ محترم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے میں کیسے مردہ مان لوں بیشک وہ زندہ ہے
قیامت تک کی نسلوں کی ہدایت جس کا ذمّہ ہے
کہ ”لمّا یلحقو“ نے راز ظاہر کردیا سارا
کہاں کوئی پہیلی ہے، کہاں کوئی معمّہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجھ نہ عمرِ طبیعی میں شارحِ ناداں
سمجھ ہماری طرح نکتہ ظہورووصال
خدا کی اولیں تخلیق قبلِ لفظِ کن
مرے رسولکی عمرِ رواں ہے اربوں سال
ٓٓاردو
صحیفوں، ٹی۔وی۔ پہ خبروں کی جان اردو ہے
تمام ہند میں ہونٹوں کی شان اردو ہے
جو دفتروںمیںلکھی جاتی ہے وہ ہندی ہے
جو بولی جاتی ہے گھر میں زبان اردو ہے
دن میں سورج جلا اور دی روشنی
رات میں چاند بھی دے گیا روشنی
ہاں مگر ہر گھڑی ذہن روشن کرے
ایسی ہے میرے اشعار کی روشنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب وہ انعام کریں کب وہ خفا ہو جائیں
جب بھی جی چاہے ملیں اور جدا ہو جائیں
ان سے بھاگو تو ملیں بندہ ¿ ِ عاجز کی طرح
ان کو چاہو تو اچانک سے خدا ہو جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیامِ امن
ہر طرف یہ پیام دینا ہے
امن کا اذنِ عام دینا ہے
میرے نزدیک مقصدِ اسلام
رحمتوں کا نظام دینا ہے
جائے گا جو بھی وہ اللہ کی رحمت کے سبب
کوئی جنت میں نہ جائے گا عبادت کے سبب
اور ہم جیسے گنہگار بھی ہونگے مسلم
بخشے جائیں گے محمد سے محبت کے سبب
(مطلع بخاری شریف کی ایک حدیث کا قریب ترین منظوم مفہوم ہے)
حدیثیں چھوڑ کر کچھ تجھ کو حاصل ہو نہیں سکتا
بنا حبِّ نبی ایمان کامل ہو نہیں سکتا
کہ جو قرآں کو مانے اور منکر ہو حدیثوں
منور نورِ ایمانی سے وہ دل ہو نہیں سکتا
معجزہ ایسا کہ دیکھا ہے جسے صدیوں نے
یاد رکھتے ہیں جسے پیروجواں آج تلک
چاند پر جاکے خلابازوں نے دیکھا مسلم
ٹوٹ کے جڑنے کے باقی ہیں نشاں آج تلک
یومِ مادر مبارک
معجزہ بے مثال مولا کا
ماں کی ممتا کمال مولا کا
بارہا ماں کو دیکھ کر مسلم
آگیا ہے خیال مولا کا
وہمِ منظر رہا اندھیروں کو
رات بھی ڈر رہا اندھیروں کو
نورِ ذکرِ مدام سے مسلم
دل ہرا کر رہا اندھیروں کو
فیس بک
اب شکایت یہ نہیں کافی زمانہ ہو گیا
©”وال“ پر ہر وقت اپنا آنا جانا ہو گیا
دوستوں سے رات دن ملنا ملانا ہو گیا
فیس بک سے کام اب یہ غائبانہ ہو گیا
”وال ©“ = Facebook wall
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیطاں ہے کوئی، نہ کوئی دیوتا ہے
قدروں کا یہاں عجب ہی ماجرا ہے
میدانِ سیاست ہے یہ ، یہاں پہ مسلم
اچھا ہے وہی جو سب سے کم برا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھول کر ساری تفرقہ بازی
صرف اسلام ہی کی بات کریں
کوئی فرقہ نہیں رہے گا تب
آو ¿ مہدیؑ کا انتظار کریں
زورِ طغیان ہے سچائی کے عازم کے خلاف
غیر اعلان شدہ جنگ ہے مسلم کے خلاف
بے سبب کیوں یہ کٹہرے میں کھڑا کرتے ہو
کوئی الزام تو عائد کرو ملزم کے خلاف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منت سے، عاجزی سے پگھلتا نہیں ہے اب
ہے مستقل ، پتہ یہ بدلتا نہیں ہے اب
دل میں بسا لیا تھا اسے شوق شوق میں
یہ قبضہ دار گھر سے نکلتا نہیں ہے اب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خراجِ عقیدت برائے مرحوم پروفیسر آفاق احمد
وہ ٹوٹا آج جو آفاق کا روشن ستاراتھا
وجود اس کاخلوصِ بیکراں کا استعارہ تھا
مبرّیٰ ذات تھی جسکی گروہوں کی سیاست سے
ادب کے بحر کا مسلم وہ اک ایسا کنارہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید الاضحی ۔مسلم سلیم
گاو اور بز کی کیوں نمائش ہے
اصل میں دل کی آزمائش ہے
سب سے محبوب چیز ہے مطلوب
گوشہ قلب میں جو ہے محجوب
عےدِ قرباں پہ تازہ ہو ایمان
آو اپنی انا کر یں قربان
محمد رفیع
کہیں سایہ کہیں کھلی ہے دھوپ
ایک آواز اور ہزاروں روپ
کوئی نغمہ کسی بھی راگ میں ہو
انکی آواز نے دیا سوروپ
ہولی
پیار کی آج ہولی میں گھاتیں ہوئیں
خوب رنگوں کی رنگوں سے باتیںہوئیں
راگ اور رنگ کا ایسا سنگم ہوا
رنگ دن بھر اڑے راگ راتیں ہوئیں
عاشق کی عید
جو آپ کی خاطر ہوئی تنقید ، مبارک
دو بارہ نہیں ملنے کی تاکید ، مبارک
دشنام پہ، جھڑکی پہ ہمارا یہ عمل ہے
ہر حال میں کہتے ہیں یہی، عید مبارک
نوجوانوں کی عید
جشنِ الفت کا انتظام کیا
عید کا ایسے اہتمام کیا
چھت پہ جاتے ہی بس یہ کام کیا
ؑعید کے چاند کو سلام کیا
پہلے تو اس حسیںکے خیالوں میں گم رہا
پھر اس کے بعد سب کے سوالوں میں گم رہا
تشبیہ کس سے دوں اسے کیسے بیاں کروں
بے مثل دلربا کی مثالوں میں گم رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمندر نے تسلسل کا عجب چکر چلایا ہے
گیا ہے جس طرف پانی اسی میں لوٹ آیا
وہ چھپنا چاہتا تھا روپ لے کر برف و باراں کا
مگر حاصل ہوا ہے کیا اسی میں جا سمایا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھسلا جو مرے ہاتھ سے وہ دستِ حنائی
اک وعدہ ¿ِ فردا بھی کیا وقتِ جدائی
اس نے یہ کہا تم کو بہت یاد کر یں گے
پھر یوں بھی ہوا اسکو مری یاد نہ آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعر کہتے ہیں جس حسیں کے لئے
سب سے پہلے اسے سناتے ہیں
جب وہ کہہ دے کہ ہاں بہت اچھا
خوب دنیا سے داد پاتے ہیں
نئے آقا ملے ہیں، اتنی بس تقدیر بدلی ہے
غلامی اب بھی باقی ہے فقط زنجیر بدلی ہے
ہمارے ساتھ چھل کرنے کی ہر تدبیر بدلی ہے
کبھی دعدے سے پلٹے ہیں، کبھی تحریر بدلی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نذرِ سرسید
پلائی ہے جو سید نے وہی مے پی رہا ہوں میں
علی گڑھ بولتا ہوں میں، علی گڑھ جی رہا ہوں میں
مشن ان کا بھی تھا خدمت، مہم میری بھی ہے خدمت
انھیں سے درس لے کر چاکِ اردو سی رہا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم اک کرن ہو جو شمیں جلائے رہتی ہے
تم اک خوشی ہوجو دل میں سمائے رہتی ہے
خبر یہ خوب ہے مسلم کہ دشمنِ جاں ہو
یہ جاں تمہیں سے مگر لو لگائے رہتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام نہاد دھارمک رہنما
موّدبانہ طریقے سے بولتے بھی رہے
مگر نظر سے بدن کو ٹٹولتے بھی رہے
نظیرِ فقروقناعت بنے رہے لیکن
بٹن ہوس کے لبادے کے کھولتے بھی رہے
ندا فاضلی مرحوم کو خراجِ عقیدت
جاتے ہیں سب ہی، وہ بھی فنا کی گلی گئے
کرکے جہاں کو ترک ندا فاضلی گئے
فلموں، مشاعروں سے ، رسائل سے ہر طرح
اردو ادب کو دے کے نئی زندگی گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی اب بے سبب ملتا نہیں ہے
وہ آیا ہے تو کوئی کام ہوگا
لبوں پر یا کوئی فریاد ہوگی
نہیں تو کچھ نیا الزام ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برما نظر نہیں آتا
عجیب روگ لگا مغربی ممالک کو
جو دیکھتے ہیں وہ پورا نظر نہیں آتا
دکھائی د یتا ہے سب کچھ انھیں زمانے میں
بس ایک خطّہ ِبرما نظر نہیں آتا
جہاں پہ راج ہے چنگیزی بربریّت کا
کسی کے دل میں بھی بدھّا نظر نہیں آتا
جہاں میں فوج کشی کے لئے انھیں لیکن
سوائے مسلمِ خستہ نظر نہیں آتا
برما : © میانمار
بُدھّا: گوتم بدھ امن کے علم بردار
ایک قطعہ ۔ بیکار سا
کچھ نہ پایا، مفت کا سودا کیا
لوگ کہتے ہیں یہ ہم نے کیا کیا
تھی یہ اک بے کار سی شئے جسم میں
دل کسی کو دے دیا اچھا کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت کم لوگ مجھ کو جانتے ہیں
مگر جو جانتے ہیں، مانتے ہیں
میں ہوں صورت گرِ افکارِ تازہ
یہ سب اچھی طرح پہچانتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہنامہ امکان کی نذر
مایوسیوں کے دور میں ا مید کا نقیب
مژدہ سنا رہا ہے انھیں جو ہیں فکرمند
حق گوئی، حق پرستی ©کا ”امکان“ ہے ابھی
ہوتی ہے لکھنﺅ سے یہ آوازِ حق بلند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الفت سے انھیں سخت عداوت ہے تو بس ہے
ہم کو بھی مگران سے محبت ہے تو بس ہے
روٹھے ہیں کچھ ایسے کہ منائے نہیں منتے
بے وجہ انھیں ہم سے شکا یت ہے تو بس ہے
(ایک فیس بک دوست کی تسلی کے لیے فی البدیہہ آن لائن
دعا یہ ہے کہ تری زندگی اداس نہ ہو
مسرتیں ہی مل یں،تو کبھی اداس نہ ہو
ہر دن کے مقدر میں رات ہوتی ہے
جو ہو گیا سو ہوا، روشنی اداس نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س بک پر اپنی پوسٹ پر ایک دوست کا معاندانہ تبصرہ دیکھ کر
دشمنی خوب کرے گا یہ پتہ تھا لیکن
ہاتھ دشمن سے ملا لے گا یہ معلوم نہ تھا
پہلے رنجیدہ تھا مسلم سحروشام مگر
اسکی یادوں کے سبب اتنا بھی مغموم نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ شیرازی کے شعر پر تضمین
صلحِ کُل سے کام لے دامن رواداری کا تھام
اس زمانے میںقیامِ امن ہے مسلم کا کام
©”حافظا گر وصل خواہی صلح کُن با خاص و عام
با مسلماں اللہ اللہ، با برہمن رام رام “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریب پھر کوئی خواب دے گا
دکھا کے گلشن سراب دے گا
حقیقتوں سے نظر نہ پھیرو
عمل ہی بس آب و تاب دے گا
سیاسی مشروم
یہ وہ ہیں کہ بس قوم ہی خوراک ہے ان کی
ہم ان کے سبب دہر ہم محروم بہت ہیں
جن کی نہ جڑیں ہیں نہ ہرے جنکے ہیں پتّے
امّت کی ہر شاخ پہ مشروم بہت ہیں
تین مسلسل قطعات
مجھے اس کے بارے میں سب کچھ پتا ہے
مگرکیا کروں دل اسی پر فدا ہے
زمانے کی نظروں میں کچھ اور ہے وہ
وہ میری نظر میں کوئی دوسرا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلا میں ا ±دھر ، تو جدھر چل دیا ہے
ترا راستہ ہی مرا راستہ ہے
ہو محبوب کیسا بھی ا ±س سے نبھانا
یہی ہے محبت یہی تو وفا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسِ پردہ کیا ہے ہمیں کیا پتا ہے
خدا دیکھتا ہے خدا جانتا ہے
خدا کے بھروسے پہ ہم چل رہے ہیں
اگرچہ یہ پر پیچ سا راستہ ہے
خوش فہموں کے نام
کچھ ایسے لوگ جو خود کو خدا سمجھتے ہیں
زمانے والے انھیں سر پھرا سمجھتے ہیں
سوال یہ نہیں تم خود کو کیا سمجھتے ہو
سوال یہ ہے تمہیں لوگ کیا سمجھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزماتے کچھ تو میری آرزو کا سلسلہ
یک بیک کیوں توڑ ڈالا گفتگو کا سلسلہ
بارہا بدلی ہیں راہیں، ہاں قدم جب بھی اٹھے
تم پہ ہی جا کے رکا ہے جستجو کا سلسلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
و یلنٹائن ڈے پر
جب عشقِ سرمدی میں گذررتے ہوں ماہ و سال
ہر روز روزِ عشق ہے ہر شب شبِ وصال
مخصوص دن ہی کیوں کر یں اظہارِ حالِ دل
باقی دنوں میں کیا نہیں محبوب کا خیال؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری کا تاج محل
عظیم ایسی عمارت بنا نہ پاو ¿ں گا
میں کوئی شاہجہاں تو نہیں ہوں جانِ غزل
مگر یہ شعر جو میں نے کہاہے تیرے لےے
کہیں گے لوگ اسے شاعری کا تاج محل
عزت بنام محبت
وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور اسکو عزت کہتا ہے
میں اسکو عزت د یتا ہوں اور اسکو محبت کہتا ہوں
کیسے بھی کہو، کیسے بھی سنو، ہے بات دلوں کے ملنے کی
کچھ وہ بھی حقیقت کہتا ہے، کچھ میں بھی حقیقت کہتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور کا پیکر ہے مرا یار
مت کہئے کہ اک ماہِ منور ہے مرا یار
بے مثل ہے وہ، نور کا پیکر ہے مرا یار
ہر شے ¿ میں وہی اب تو نظر آتاہے مسلم
آنکھوںمیں جواترا ہے وہ منظر ہے مرا یار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہہ چکے آپ بہت، کہےے تو بول یں اب کچھ
ایک ہی وقت میں ملتانہیں سب کو سب کچھ
ٹکٹکی باندھ کے بس آپ کودیکھا ہی تو تھا
آپ کیوں روٹھ گئے ہم نے کہا ہے کب کچھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کو ہی روز دیکھیں، تمھیں سے ہو گفتگو
افسوس یہ سپاہ بھی زیرِ کماں نہیں
اس پر بھی راج چلتا ہے تحت الشعور کا
اقلیمِ خواب کے بھی تو ہم حکمراں نہیں
پھر اسکے بعد اور کہیں کم گئی نگاہ
جلوہ تھا بے پناہ ، وہیں جم گئی نگاہ
اب ختم ساری دید کی آوارہ گردیاں
اک منزلِ مراد پہ جب تھم گئی نگاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری کوئی خطا نہیں تھی مگر
زندگی سے نکل گیا ہے کوئی
جسے پکڑی تھی ر یت مٹھی میں
ہاتھ سے یوں پھسل گیا ہے کوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہِ رمضاں
پھر ہو گیا ہے ہم کو دیدارِ ماہِ رمضاں
اتر یں گے خوب دل پر انوارِ ماہِ رمضاں
اس ماہ میں جو سیکھ یں ، دہرائیں پھر اسی کو
اے کاش سال بھر ہو کردارِ ماہِ رمضاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں وہی جس سے مہکتے تھے کبھی شام و سحر
اسی خوشبو کو سرک جاتے ہوئے دیکھا ہے
آپ کو پھول کے مرجھانے پہ حیرت کیوں ہے
ہم نے رشتوں کو بھی مرجھاتے ہوئے دیکھا ہے
چل پڑا تھا کسی کے ساتھ مگر
چلتے چلتے مجھے خیال آیا
دور تک کوئی بھی نہ تھا مسلم
تھا اگر کوئی تو مرا سایہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذہن کے نہاں خانے کب انھیں بھلاتے ہیں
ہم شعوری کوشش سے جن کو بھول جاتے ہیں
کچھ تو ان میں تھا ایسا جس کی ہے کسک مسلم
بے وفائی کے پیکر اب بھی یاد آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہدیہ خلوص برائے محمد نسیم، بھوپال
سچ ہے کہ تری ذات ہے زیبائشِ بھوپال
سر خم ہے ترے سامنے اے نازشِ بھوپال
اخلاصِ مجسم ہے، تمدن کا امیں ہے
تجھ جیسے ہی لوگوں سے تو ہے تابشِ بھوپال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہدیہ خلوص برائے شاعر مظفر طالب
حسنِ اخلاق کی پہچان مظفر طالب
شہرِ بھوپال کی ہیں شان مظفر طالب
شعر گوئی میں بھی یکتا ہے بہت ان کا مقام
ہے اگر جسم سخن، جان مظفر طالب
الفاظ ادا ہوتے نہیں نطقِ وفا سے
شریانوں میں سناٹاہے یوں اس کی دغا سے
دیکھا تو کسی اور کے آنگن میں تھی رم جھم
ساون کا ستم دیکھئے ہم رہ گئے پیاسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو کبھی مذموم تھے لوگ ان کے شائق ہو گئے
داغ تھا جن پر وہ ممدوحِ خلائق ہو گئے
جھوٹ کی بیساکھیوں کے بل پہ مسلم آج کل
جتنے نا لائق زمانے میں تھے لائق ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انصاف کا نہ حقّ و صداقت کا فیصلہ
ہوگا عجیب و طرفہ حماقت کا فیصلہ
پھر ہر دراز قد کو پکاریں گے پستہ قد
بونے کریں گے جب قدوقامت کا فیصلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پایا نہ کوئی ہمسر، خود سے مقابلہ ہے
ہے یہ عجیب منظر، خود سے مقابلہ ہے
کرنا مزید بہتر، خود سے مقابلہ ہے
مسلم زرا سنبھل کر، خود سے مقابلہ ہے
ہیرے موتی بھی چن کر کیا کرنا ہے
یہ ہیں سب کنکر پتھر کیا کرنا ہے
سجنا ہے تو اپنے ہنر کو چمکاو ¿
سوچو یہ کل سے بہتر کیا کرنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دشتِ خرد کی خاک یہ کیوں چھاننے لگے
کیوں شب کو شب سحر کو سحر جاننے لگے
غفلت میں کٹ رہی تھی خوشی سے یہ زندگی
یہ کیا ہوا کہ ہم اسے پہچاننے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابر الفت کا جب بھی نمودار ہو
بوندا باندی نہیں موسلا دھار ہو
ساری دنیا پہ الفت کے چھینٹیں پڑیں
جس طرف دیکھئے پیار ہی پیار ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی کام ہو ممکن ہو یا ہو نا ممکن
بس ایک نام لیا اور ہو گیا ممکن
جہاں تھی آندھی وہاں اب ہوئی صبا ممکن
ہے اسکے بس میں جو چاہے کرے خدا ممکن
جہاں میں پھرتے ہیں لیکن ادھر نہیں آتے
بس اس گلی میں کبھی بھول کر نہیں آتے
یہ کیسا عارضہ ¿ِ چشم ہے کہ سب تو دِکھیں
بس ایک ہم ہیں جو ان کو نظر نہیں آتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طویل عمرمیں مرمر کے اس جہاں میں جیا
خود اپنے سائے سے ڈر ڈر کے اس جہاں میں جیا
تڑپتے رہ گئے راحت کو اس کے روح و بدن
بنا ضمیر، بنا سر کے اس جہاں میں جیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری شاعری کس کے لیے؟
کوئی خلوص و محبت کا داغ ہے تو سنو
تمھارے پاس بھی دل کا سراغ ہے تو سنو
شعوروفکر کا رہبر چراغ ہے تو سنو
ہماری شاعری، روشن دماغ ہے تو سنو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیا حوصلہ، نئی اڑان
قفس سے چھوٹ گئے کیوں نہ مسکرائیں ہم
نئی اڑان کے منصوبے پھر بنائیں ہم
خزاں کا مرثیہ پڑھنے سے فائدہ کیا ہے
چلو چلو کہ نئے بال و پر اگائیں ہم
سازشی تھے، ہیں اب فسردہ لوگ
میرے ہاتھوں شکست خوردہ لوگ
جسم قتلِ ضمیر سے بوجھل
زندہ ہو کر بھی ہیں یہ مردہ لوگ
انگریزی ااخبارنیشنل میل کے ساتھی جناب صغیر بیدار کے سانحہ ¿ِ ارتحال پر
ساتھی مرے، صحافی بیدار تھے صغیر
سب کی مدد کے واسطے تیارتھے صغیر
میکیپ سے جلائی تھی اک شمعِ آگہی
بے لوث ایک قوم کے معمار تھے صغیر
جناب صغیر بیدارمرحوم نے میرے ساتھ انگریزی ااخبارنیشنل میل طویل عرصہ تک کام کیا۔ بعد میں استعفیٰ دے کر قوم کی تعیر کے لئے ادارہ ”مسلم ایجوکیشن پروموشن
سوسائٹی(میکیپ) قائم کی۔ اس ادارے کی کوششوں کے سبب مدھیہ پردیش میں مسلم طلبہ نے امتحانات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
مفرداشعار
ملا تھا نور، نوری سے جنھیںنبیوں کا سب سرتاج کہتے ہیں
اجالے لے کے جو آئی ہم اس شب کو شبِ معراج کہتے ہیں
کچھ ایسے شرک کے فتووں کو رد اللہ کرتا ہے
پکارو مصطفی کو تو مدد اللہ کرتا ہے
بفیضِ اولیا وہ انبیا کے تاج تک پہنچا
ہے یہ معراج دل کی صاحبِ معراج تک پہنچا
جہنم بغض، جنت ہے محبت
علیؑ ایمان کا میزان ٹھہرے
کثرتِ علم سے کم ظرف بہک جاتا ہے
اصل ایماں بھی اسے شرک نظرآتا ہے
گالی ہی سہی لب کھولے تو
ہے شکرِ خدا کچھ بولے تو
عشق کی ہر موسم میں چاندی ہوتی رہے
پیار کی یونہی بوندا باندی ہوتی رہے
عید
یہ تو رفاہِ عام کا روزِ سعید ہے
چاہو بھلا سبھی کا یہی جشنِ عید ہے
دیتا ہے جو سبھی کو اکیلاخدا ہی ہے
داتا کوئی بھی ہاتھ ہو دیتا خدا ہی ہے
بچھڑنے کا اس اے ہمیں غم بہت ہے
سنا ہے مگر وقت مرہم بہت ہے
محسن کشوں کے خوف میں یوں مبتلا ہوں میں
احسان کرکے دور کھڑا ہو گیا ہوں میں
اے جانِ جہاں اسکی یہ فطرت ہی نہیں ہے
مشروط اگر ہے تو محبت ہی نہیں ہے
تری ہی مہربانی تھی کہ تجھ میں کھو گیا تھا میں
تری ہی مہربانی ہے کہ خود میں لوٹ آیا ہوں
جب تجزیہ کیا کہ وہ کیوں مجھ سے دور ہے
پایا کہ اس میں میری انا کا قصور ہے
آسماں پر ہیں ہمیںایسا لگا
آپ گھر آئے بہت اچھا لگا
گوروں کی بستی میں گورے، کالوںکی بستی میں کالے
بستی بستی گھوم رہے ہیں گرگٹ رنگ بدلنے والے
تحفہ جہاں چھپا تھا ہمارے نصیب کا
پہنچے وہاں پہ ہاتھ پکڑ کر رقیب کا
میری کوشش تو ہو گئی ناکام
تو دعا کر کہ بھول جاو ¿ں تجھے
جو خطا کی ہے کبھی ایسی خطا مت کرنا
قتل کر دینا مگر قتل وفا مت کرنا
اب اس سے بڑھ کے مسرت کی بات ہی کیاہے
خوشی یہ پوچھ رہی ہے ہمیں خوشی کیا ہے
اس سے خود ڈر رہا ہے آدمخور
آدمی ہو گیا ہے آدمخور
زور چلتا نہیں ہواو ¿ں پر
منحصر ہو گئے دعاو ¿ں پر
یکم مئی 2018کے بعدکے اشعار
ادھر بھی تم ہو، اُدھر بھی تم ہو، یہاں بھی تم ہو وہاں بھی تم ہو
جہانِ دل کا عجب ہے عالم،یقیں بھی تم ہو گماں بھی تم ہو
تمھیں ہو ناظر تمھیں ہو منظر، بیاں ہوئی داستاں بھی تم ہو
سرائے کی شوخ نازنیں بھی،رکا ہوا کارواں بھی تم ہو
چھپا کے رکّھا ہے تم کو دل میںہمارا رازِ نہاں بھی تم ہو
مگر کریں وحشتوں کا کیا ہم،بنا کہے کچھ بیاں بھی تم ہو
یہ امتزاجِ حسین مسلم،جو تم میں دیکھا کہیں نہ پایا
روایتوں کے ہو تم محافظ، جدید طرزِبیاں بھی تم ہو
عشق کاپیکان سوچا جا رہا ہے
دل میں ہے طوفان سوچا جا رہا ہے
ان کے آنے کی خبر کیا مل گئی
آج ہر ارمان سوچا جا رہا ہے
ؒخونِ نا حق کا بہانہ چاہئے
قتل کا فرمان سوچا جا رہا ہے
ان دنوں دلہن کے چہرے کو نہیں
ساتھ کا سامان سوچا جا رہا ہے
ارض پر وہ بھی تھی مخلوقِ خدا
حلیہ انسان سوچا جا رہا ہے
وجہِ ناراضگی کیا ہے یارو، کھل کے وہ کچھ بتاتے نہیں ہیں
بجتی رہتی ہے گھنٹی مسلسل، فون بھی اب اٹھاتے نہیں ہیں
اب وہ لائک بھی کرتے نہیں ہیں ، کچھ کمنٹ ان کے آتے نہیں ہیں
کیاہوا اب کہ اشعار میرے ان کا دل گدگداتے نہیں ہیں
گر نہ ہو کام کوئی کسی سے، اس کو اپنابناتے نہیں ہیں
سوچا سمجھا ہے ہر کام ان کا، بے سبب مسکراتے نہیں ہیں
یہ گواہی چمن دے رہا ہے، آپ کیوں مان جاتے نہیں ہیں
زور پر جب پرندے جواں ہوں، کون سا گل کھلاتے نہیں ہیں
دورِ حاضر میں بے کار شئے ہے، سوگ اسکا مناتے نہیں ہیں
دل کا شیشہ ہی ٹوٹا ہے مسلم، شوراتنا مچاتے نہیں ہیں
بھول کروہ ہمارا بڑکپن، خودکواونچا سمجھنے لگاہے
ہم نے جس کوبڑا کہہ دیا ہے، ہم کو چھوٹا سمجھنے لگاہے
بے وفا کی وفا یاد کرکے وجہ تھی کیا سمجھنے لگاہے
دل ہے ہمرازِ آئینِ فطرت، رسمِ دنیا سمجھنے لگاہے
منہ کی کھائے گا اک دن یقینا گر وہ ایسا سمجھنے لگاہے
ہم کھلاڑی ہیں نادان دشمن ہم کو مہرہ سمجھنے لگاہے
سوچ لیتا جوپہلے نتیجہ بچ نکلتاکئی سانحوں سے
سانحوں سےگذر کر زمانہ اب نتیجہ سمجھنے لگاہے
جس کوآنا ہے میداں میں آئے، ایسے پردے میں منہ مت چھپائے
جھیل کر مار کھیلوں کی مسلم ہر تماشا سمجھنے لگاہے
ہوں بہت خوش جب سے مجھ پر راز یہ افشا ہوا
سب خدا کی مصلحت تھی، جو ہوا اچھا ہوا
رحمتِ رب کا مجھے تب خوب اندازہ ہوا
کوئی کھڑکی کھل گئی گر بند دروازہ ہوا
کر گیا پوشیدہ سب، جذبات کا پردہ ہوا
ایک آنسورہ گیا پلکوں پہ جو ٹھہرا ہوا
میںعجب تیراک ہوں سب ہے مرا دیکھا ہوا
جوبھی سطحِ آب پر جو کچھ تہہِ دریا ہوا
جب کبھی آزار کا دنیا سے اندیشہ ہوا
خودمیں مسلم چھپ کے میں نظروں سے پوشیدہ ہوا
ظاہرتو دکھ رہا ہے ہوا کس کے ساتھ ہے
اب دیکھنا یہ ہے کہ خداکس کے ساتھ ہے
کیسے سیاسی شخص کا کردار طے کریں
دم بھر رہا ہے کس کا، کھڑاکس کے ساتھ ہے
سب کو خبر ہے جال بچھایا تمھیں نے ہے
لیکن بتاو ¿ جال بُناکس کے ساتھ ہے
تاریکیو! سنبھلنا کہ اب آرہا ہوں میں
دیکھو یہ ذوالفقارِ ضیا کس کے ساتھ ہے
مسلم،کہ جس کے آپ پہ احسان ہیں بہت
کچھ سوچئے یہ طرزِ جفا کس کے ساتھ ہے
ہرگز ایساکھیل نہ کھیلو، دیکھو دیکھو جل جاو ¿گے
الٹے پیروںآگ چلے گی گرچنگاری بھڑکاو ¿گے
وار ہمارا ایسا ہوگا جیتے جی ہی مر جاو ¿گے
اٹھتے بیٹھتے روتے گاتے زخموں کو سہلاو ¿گے
کیا تھی خبر کہ دیکھ کے تم کو اور نہیں کچھ سوجھے گا
آنکھوں کے آگے ہر دم تم سایہ بن کر لہراو ¿گے
بڑے ہوئے تو کار کھلونے والی کام نہ آئے گی
بچّے! کب تک کاغذ کی کشتی یونہی تیراو ¿گے
صحرا صحرا گھومو تم بھی چمن چمن کی سیر کرو
مسلم سے کچھ سیکھو بیشک تم بھی شاعر بن جاو ¿گے
یوں میری تشنگی کو تماشا بنادیا
کاغذ پہ اس نے منظرِ دریا بنادیا
سورج کی کیا مجال تھی، ہم ہی تھے رحمدل
خود ہم نے ریگراز پہ سایہ بنادیا
جذبوں کی آگ تیز ہوئی ، تیز تر ہوئی
دہکا کے ہم نے سنگ کو شیشہ بنادیا
دِکھتی ہیں جس میں صاف لکیریں نفاق کی
مسلم حکومتوں کا یہ نقشہ بنادیا
مسلم کو تلخ گوئی سے کچھ واسطہ نہ تھا
کچھ حادثوں نے اسکا یہ لہجہ بنادیا
ماں اور خدا
نہ آدم کی ماں تھی نہ حوا کی ماں تھی
بتائے کوئی پھر کہ ممتا کہاں تھی
کرو شکر رب کا کہ ماں کو بنایا
جہاں میںہے ہرشخص اب ماں کا جایا
اسی کے توسط سے رب کی عطا ہے
خدا کی محبت کا وہ آئینہ ہے
یہ نعمت ملی ہے ہمیں بھی تمھیں بھی
یہ سوچو کہ کیا قدر بھی اس کی کچھ کی؟
چڑھے بامِ شہرت پہ اشعار کہہ کر
بھنایا ہے ممتا کو یوں تم نے اکثر
دوست احد پرکاش کی بیٹیوں کے نام
گھر سے باہر بھی منور ہو گئیں
بیٹیاں بیٹوں سے بڑھ کر ہو گئیں
اُن کی بھی تقدیر چمکی دم بدم
زیست میں جن کا مقدر ہو گئیں
ہیںمثالی کارنامے، کیا کہوں
کامیابی کا یہ پیکر ہو گئیں
ہے دعا مسلم رہیں آبادوشاد
یہ جو لڑکوں کی بھی رہبر ہو گئیں
ذہینہ صدیقی نئی دہلی کی پوسٹ سے متاثر ہو کرمسلم سلیم پر
وقار احمد وقار (جونپور ) کے تاثرات
سچ کا ہی اعلان ہیں مسلم سلیم ۔۔۔ صاحبِ ایمان ہیں مسلم سلیم
ظاہروباطن ہیں ان کے ایک سے ۔۔ صاف دل انسان ہیں مسلم سلیم
علم و عرفان و ادب کے ملک میں ۔۔۔ بے شبہ سلطان ہیں مسلم سلیم
خواب میں بھی شعر کہہ لیتے ہیں جو ۔۔۔ شاعرِعرفان ہیں مسلم سلیم
اپنے اخبار و رسائل کے لئے ۔۔۔ آنکھ ، ناک اور کان ہیں مسلم سلیم
ٹیڑھے لوگوں کے لئے مشکل ترین ۔۔ سیدھے کو آسان ہیں مسلم سلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاروں بھرے رستے کو کمخاب بنا دے گا
اللہ مسبّب ہے،اسباب بنا دے گا
تیرے لیے سب دلکش القاب بنا دے گا
تیرایہ ہنر تجھ کو نایاب بنا دے گا
یہ نغمہ زمانے کوبیتاب بنا دے گا
تم سازبناو ¿، وہ مضراب بنا دے گا
ہے چور اگر افسر، کاغذ پہ رجسٹر میں
سوکھے ہوئے گڈّھے کو تالاب بنا دے گا
اردومیںہے گر دقّت، مسلم سے پڑھو جاکر
لو ُلفظ ہے یا لَو ´ ہے اعراب بنا دے گا
وہ شوخ گل اندام ہے، نازک ہے بدن بھی
چبھ جاتی ہے اکثر اسے بستر کی شکن بھی
وہ لالہ ¿ و گل، سنبل و نرگس بھی ، سمن بھی
وہ جسمِ چمن، بوئے چمن، روحِ چمن بھی
صحرا بھی مہک جاتے ہیں، کھِل اٹھتے ہیں بن بھی
تکتا ہے اسے رشک سے خود باغِ عدن بھی
آزادی کے احساس پہ طاری ہے گھٹن بھی
اس موڑ پہ آپہنچا ہے اب میرا وطن بھی
اشعار میں مسلم کے ہیںسب رنگ نظارے
چسکا ہے زباں کا بھی یہاں فکر بھی فن بھی
آدمیّت بہت کراہی ہے
کیسا یہ دور یا الٰہی ہے
قطع
جرم ہیں سارے اپنے کھاتے میں
ان سے حصے میں بے گناہی ہے
امن کی بات کر رہے ہیں وہ
جن کے باعث یہ سب تباہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک زرا بخت کو چمکنے دو
دیکھنا پھر کہاں سیاہی ہے
جیت رکّھا ہے جس نے ایک جہاں
دل وہ ہارا ہوا سپاہی ہے
کچھ نہیں رازِ عظمتِ مسلم
یہ تو دنیا کی خوش نگاہی ہے
جوڑ گھٹانا پیار نہیں ہے
جیون دو دو چار نہیں ہے
اپنوں پر تو وار ہے لیکن
دشمن پر یلغار نہیں ہے
پُرکھوں کی تلوار ہے گھر میں
لیکن اس پر دھار نہیں ہے
کاٹ ہے اس کی اور زیادہ
یہ ہے قلم تلوار نہیں ہے
ناخن، بال پہ کب ہے قابو
انساں خودمختار نہیں ہے
اسمیں سکوں ہے اسمیں وفاہے
یہ گھرہے بازار نہیں ہے
کارگہِ قدرت میں مسلم
کوئی بھی شے ¿ بیکار نہیں ہے
اُسی کے ساتھ خوشی کے سحاب میں اترا
جو اک خیال شبِ اضطراب میں اترا
میںنکتہ چینوںکے ایسے جواب میں اترا
کہ درسگاہوں کے اعلیٰ نصاب میں اترا
پری نہ آئی کبھی سامنے حقیقت میں
اڑن کھٹولا ہمیشہ ہی خواب میں اترا
اڑان بھر لی مگر یہ بھی سوچ کیا ہوگا
ترا جہاز اگر آفتاب میں اترا
خدا کو ماننے والا تھا منکرِ آدم
ثواب جاتے رہے سب، عتاب میں اترا
بنا کشید کے دوآتشہ بنا مسلم
کسی کا عکس جو اک روز آب میں اترا
تہ بہ تہ آواز در آواز ہے
میری خاموشی وہ گہرا راز ہے
پست اس کے سامنے آواز ہے
کیا کروں میں وہ مرا ہمراز ہے
اُس بلندی سے میں بھرتا ہوں اڑان
غیر کی جتنی حدِ پرواز ہے
ایک جیسے ہو نہیں سکتے ہیں سب
حسنِ قدرت کا یہ اک انداز ہے
تان اور لے صفحہ قرطاس پر
دل میں جو اترے غزل وہ ساز
اس کو لوگوں کی حمایت مل گئی
کل تلک جو زاغ تھا اب باز ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوابی حملے کے خنجر سنبھال کر رکھنا
جو گھر میںآئیں وہ پتھر سنبھال کر رکھنا
جو دلنشیں ہیں وہ منظر سنبھال کر رکھنا
کہاں نصیب مقدر سنبھال کر رکھنا
بھرا جو زخم توپھر زخم کھانے آئیں گے
جو سب سے تیز ہو نشترسنبھال کر رکھنا
کوئی بتائے کہ یہ کوئی ہوشیاری ہے؟
بہانا مے کو پہ ساغر سنبھال کر رکھنا
نہ رکھناکھول کے دل کو یوں ہر جگہ مسلم
اسے تو سینے کے اندر سنبھال کر رکھنا
اک چھلکتا ہوا ساغر مری آنکھوں میں رہا
عمر بھر بس ترا منظر مری آنکھوں میں رہا
تھا کوئی ایسا جسے بھولنا ممکن ہی نہ تھا
ہو کے اوجھل بھی برابر مری آنکھوں میں رہا
ضبطِ غم ایسا کہ اک بوند بھی چھلکی نہ کبھی
یوں تو کہنے کو سمندر مری آنکھوں میں رہا
جاگنے سونے میں کچھ فرق ہی باقی نہ بچا
رات دن خواب کا پیکرمری آنکھوں میں رہا
جتنے وقفے وہ رہا سامنے میرے مسلم
اتنے وقفے دلِ مضطرمری آنکھوں میں رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصیب تو سارا آسماں ہے
زمیں کا اس میں گذر کہاں ہے
دلیری دل، حوصلہ زبان ہے
ہو عمر کچھ بھی وہی جواں ہے
ہے ذکر اس کا مرا بیاںہے
تبھی تو مقبول داستاں ہے
قدم جنوں کے اگر اٹھے تو
بہت ہی محدود یہ جہاں ہے
خدا کرے آئیں ڈھونڈتے خود
کہ مسلمِ خستہ جاں کہاں ہے
کتنی موجیں کتنا ساحل طے کر لو
قسمت پر مت بیٹھو منزل طے کر لو
چل کر دیکھو پیار کا رستہ کیسا ہے
کتنا آساں کتنا مشکل طے کر لو
ڈیموکریسی کا مطلب یہ ہوتا ہے
مرضی سے خود اپنا قاتل طے کر لو
دشتِ جنوں کی سیر پہ جب تم نکلو گے
عقل بنے گی رہبر یا دل طے کر لو
ننھے مُنّوں سے اب دنیا کہتی ہے
بچپن ہی سے اپنا حاصل طے کر لو
دنیا والو سن لو مسلم جیتے گا
اس کے لےے تم کوئی بھی مشکل طے کر لو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلام و شاہ و بیگم اور اکّے کھول دیتے ہیں
بہت نادان ہیں جو سا رے پتّے کھول دیتے ہیں
ہوئے ہوں گھر کے اندر جو تماشے کھول دیتے ہیں
گلی میں جا کے سب کچھ گھر کے بچّے کھول دیتے ہیں
حساب ان سے اگر مانگو، بہت چالاک ہیں حاکم
ترقّی کو بھلا دیتے ہیں، دنگے کھول دیتے ہیں
اُدھر بھی آگ الفت کی لگی ہے ورنہ کیوں آخر
گلی سے جب بھی ہم گذریں جھروکے کھول دیتے ہیں
چھپا کچھ بھی نہیں مسلم زمانہ آگیا ایسا
حسیں اپنے بدن کے سارے جلوے کھول دیتے ہیں
یہ جینے کی گذرگاہیں بہت ہیں
محبت بس تری باہیں بہت ہیں
اگر ناقص ہو قوّت فیصلے کی
بھٹکنے کے لےے راہیں بہت ہیں
مری عظمت کے قصّوں پر نہ جانا
مرے بارے میں افواہیں بہت ہیں
محبت میں یہ حالت ہے دہن کی
سکوں کی سانس کم آہیں بہت ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورق ماضی کے الٹوں گا میں ڈھوندوں گا گلی تیری
بہت دیکھی ہوئی سی شکل ہے اے اجنبی تیری
ہزاروں دشمنوں کی دشمنی ہے دوستی تیری
ہے سب منظور جس کے منہ لگی ہو چاشنی تیری
کلی نوخیز ہو جاناں کہ کوئی نوشگفتہ گل
نہ پائی تیری صورت اور نہ پائی تازگی تیری
خدا کے بعد پیچیدہ تریں ادراک ہے تیرا
کسی پر کب حقیقت صنفِ نازک کھل سکی تیری
بھنور میں پھنس گیا مسلم تو اب تو ہی سنبھال اسکو
بہت ہی تند اور گہری ہے الفت کی ندی تیری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضرور کرنا، کہا کب کہ پیار مت کرنا
مگر ہماری طرح بے شمار مت کرنا
بنے ہو دوست سے دشمن چلو مبارک ہو
کھلاہے کھیل تو اب چھپ کے وار مت کرنا
تمھارے فن کویہ دیمک سی چاٹ جائیںگی
یہ شہرتیں ، انھیںخود پر سوار مت کرنا
ہے زخم کافی بس اک نامراد الفت کا
جو بھول کی ہے اسے بار بارمت کرنا
خدا کے نام سے تم ہوگے سرخرو مسلم
کسی مدد کے لےے انتظار مت کرنا
ذہنِ دشمن اس کا مقتل ہو گیا
وہ مری شہرت سے پاگل ہو گیا
اس سے بڑھ کر اور اجلا کون ہے
جو تری آنکھوں کا کاجل ہو گیا
یار کے کوچے میں اب برسے گا وہ
تھا غبارِ دل جو بادل ہوگیا
جو غزل لکّھی ہے تیرے نام کی
اس کا اک اک لفظ صندل ہو گیا
مسلماس کا حسنِ کامل دیکھ کر
دل توآخر دل ہے بیکل ہو گیا
پارکھی نگاہوں کے سامنے یہ منظر ہے
ذرّے میں زمانہ ہے بوند میںسمندر ہے
ہیں تراش کے جلوے کون کس سے بہتر ہے
جسکو کہتے ہیں ہیرا وہ بھی ایک پتھر ہے
لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، ساتھ میں پرنٹر ہے
خواب گاہ بھی میری جیسے کوئی دفتر ہے
چھاو ¿ںہے درودوںکی،آگ ہے گناہوں کی
یہ ہمارامحشر ہے، وہ تمھارا محشر ہے
کہتا ہے زمانہ بھی، لکھتی ہیں کتابیں بھی
شعرِ فکروحکمت کامسلم آج محور ہے
پرانے بام و در ڈھونڈا کےے ہم
نئے گھر میں وہ گھر ڈھونڈا کےے ہم
ہزاروں ساتھ رہ میں چل رہے تھے
تو پھر کیوں ہمسفر ڈھونڈا کےے ہم
فقط دیکھے نہیں، پہچانتی ہو
نظاروں میں نظر ڈھونڈا کےے ہم
عمل کو طاقِ نسیاں میں چھپا کر
دعاو ¿ں میں اثر ڈھونڈا کےے ہم
فروکش تھا دلِ مسلم میں وہ تو
سماءو بحر و بر ڈھونڈا کےے ہم
جہاں نے ساری توانائی خرچ کر ڈالی
ہمیں مٹانے میں دارائی خرچ کر ڈالی
منائیں گے غمِ جانانہ بھیڑ میں جاکر
کہ اب تو ساری ہی تنہائی خرچ کر ڈالی
پھر آنکھ میچ کے ایمان لے ہی آئے ہم
نہ پایا آپ سا، بینائی خرچ کر ڈالی
لبھا نہ پائی یہ دنیا، حسینہ ¿ِ عیّار
ہراک ادا،ہر اک انگڑائی خرچ کر ڈالی
یقین اٹھ گیا مسلم کا اب تو رہبر سے
کہ اس نے جھوٹ پہ سچائی خرچ کر ڈالی
دولت نہ تخت وتاج نہ شہزادی چاہئے
ہم کو تو صرف خوف سے آزادی چاہئے
بدلے ہزاروں سال کے لیتے نہ ہوں جہاں
سلجھی ہوئی عوام کی آبادی چاہئے
منزل کی جستجو میں ہے گر عزمِ آہنی
خطرے ہیں ہر قدم ، دلِ فولادی چاہئے
منصف کو ہیں پسند مری گڑگڑاہٹیں
ظالم کو استغاثہ ¿ِ فریادی چاہئے
مسلم یہ پوچھتا ہے فسادی ۔مزاج سے
کیا تجھکو اپنے ملک کی بربادی چاہئے
تا حدِّ نظر عشق کے زندان میں اترے
اللہ یہ ہم کیسے بیابان میں اترے
دلدارتھے،اس شان سے میدان میں اترے
طوفان نہیں، ہم دلِ طوفان میں اترے
اوروںپہ اچھالا نہ کرے سنگِ ملامت
کچھ شرم اگراس کے گریبان میں اترے
جب بزم میںانسان کی عظمت کی چلی بات
کیا کیا نہ بہانے دلِ شیطان میں اترے
ہرایک کوجاں کہنے کے قائل نہیں مسلم
وہ جان ہے جو جان مری جان میں اترے
سائے آتے ہیں سائے جاتے ہیں
آدمی کم ہی پائے جاتے ہیں
ہم اِدھر زخم کھائے جاتے ہیں
وہ اُدھر مسکرائے جاتے ہیں
قتل و غارت ، فریب کے قصے
شان سے اب سنائے جاتے ہیں
رہنما کی قبا پہ داغِ لہو
جیسے تمغے سجائے جاتے ہیں
کیونکہ مسلم ہیں ہم اسی کے سبب
سارے فتنے اٹھائے جاتے ہیں
قسمیں وعدے پیار وفائیں
کہئے تو کچھ یاد دلائیں
دشمن چیخیں اور چلائیں
منزل تک ہم چلتے جائیں
دِل میں خود کو دہراتے ہیں
وہ بھولا، ہم بھول نہ جائیں
کب اور کس کو وہ پھل دے گا
یہ مت سوچیں، پیڑ لگائیں
مسلم کا کردار نہیں یہ
پشت میں خنجر، لب پہ دعائیں
میسر یاد کا ہے شامیانہ
مجھے لگتا ہے ہر موسم سہانا
گنوا کر دل دلوں کو جیت پانا
مرا سب سے بڑا ہے کارنامہ
اسے کب یاد آیا یاد کرنا
مجھے کب یاد آیا بھول جانا
وہ مجرم ہم کو ٹھہرا کر رہیں گے
انھیں بس چاہئے کوئی بہانہ
یہی بس مشغلہ ہے اب تو مسلم
لکیریں کھینچنا اور پھر مٹانا
اس ادا سے وہ راستوں میں چلی
پیار کی بات پتھروں میں چلی
جس ڈگر اور جس گلی میں چلی
ہر طرف سرسری سروں میں چلی
دیکھ کر نبض جان لے اے طبیب
دل میں اتری ہے دھڑکنوں میں چلی
بتِ ساحر بتوں میں کیا پہنچا
بات اس کی بس بتوں میں چلی
ذکر نکلا بہادری کا جب
فخر کی بات بزدلوں میں چل
رنگِ مسلم کا فیض تو دیکھو
اب قدامت بھی جدّتوں میں چلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعد مدت کے جب سامنا ہوگیا
میں تو بندہ رہا وہ خدا ہوگیا
اس سے ٹکرانا ہے یاد اب بھی ہمیں
گو کہ قصہ بہت سال کا ہوگیا
محوِ حیرت تھا میں وقت بدلا تو پھر
ایک ہی شخص تھا دوسرا ہوگیا
توڑتے رہتے ہیں وہ کھلونے بہت
دل ہمارا جو ٹوٹا تو کیا ہوگیا
رنگ کس کا چڑھا آئے مسلم میاں
کچھ ہی دن میں یہ کیا ماجرا ہوگیا
غزل
وقت کومیں نے باندھ رکھا ہے یادوں کی زنجیروں سے
اکثر باتیں کرتا ہوںمیںالبم کی تصویروں سے
باکس میں رکھّے کاغذ کے ہر پرزے کویوں پڑھتا ہوں
شاید کوئی بچھڑا ساتھی مل جائے تحریروں سے
نئے دور کے ہتھیاروں میں کوئی شعری حسن نہیں
اب بھی تشبیہیں دی جاتی ہیں تلواروں سے تیروں سے
میں تھا بھنور میںتب تو میرے پاس اور دورنہ تھا کوئی
کس نے پار لگایا جب میں ہار گیا تدبیروں سے
مسلم کو مسلم رہنے دو اے میرے مداحو سنو
اس کا تقابل مت کرنا تم غالبوں، مومنوں ، میروں سے
قوم شامل ہوئی بیماروں میں
زنگ جب لگ گیا تلواروں میں
یوں زوال آگیا سرداروں میں
گھِر گئے حاشیہ برداروں میں
سب سے مقبول کہانی ٹھہری
جس کو چنوادیا دیواروں میں
سب ہی بازاری نہیں ہوتے ہیں
یوں تو سب چلتے ہیں بازاروں میں
سادہ لوحی ہے اگر جرم یہاں
ہم بھی شامل ہیں گنہگاروں میں
بادشاہی ہے فقیری مسلم
ہم نہیں جاتے ہیں درباروں میں
ہر ادا سے ہمیں وہ ستانے لگے
کچھ نہ سوجھا تو بس مسکرانے لگے
ہجر میں یاد کے یوں نشانے لگے
غم کو ہم اور غم ہم کو کھانے لگے
سب سے ملتے رہے اک زمانے تلک
خود سے ملنے میں ہم کو زمانے لگے
جب وفاو ¿ں میں ناکام وہ ہوگئے
بے وفا خود ہمیں ہی بتانے لگے
دل نے ہم کو سنبھالا ہے مسلم وہاں
عقل کے ہوش جس جا ٹھکانے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلنشیں اور جہانگیر بنا دی ہم نے
بات یوں قابلِ تحریر بنا دی ہم نے
اپنے چہرے کو بھلا دیکھتے رہتے کب تک
آئینے پر تری تصویر بنا دی ہم نے
مستقل کوئی ٹھکانہ تجھے ملتا ہی کہاں
غمِ جاناں تری تقدیر بنا دی ہم نے
ہم گرفتار ہوئے تب ملی شہرت اس کو
زلف تھی یار کی زنجیر بنا دی ہم نے
وار مسلم پہ جو ہونا تھا، مخالف پہ ہوا
چال دشمن کی تھی تدبیر بنا دی ہم نے
جب تو نہیں تو دل میں ارمان کچھ نہیں ہے
خالی پڑاہے کمرہ سامان کچھ نہیں ہے
مطلب کے اس جہاں میںانسان کچھ نہیں ہے
اس سے زیادہ بڑھ کر بحران کچھ نہیں ہے
سچ ہی تو کہہ رہے ہیں ایمان بیچ کر وہ
جو لوگ کہہ رہے ہیں ایمان کچھ نہیں ہے
ڈرتا ہے دیکھنے سے آئینہ پشت اپنی
اس میں چمک نہ چہرہ امکان کچھ نہیں ہے
اپنی مثال خودہے ،مسلم کی شاعری کو
تولے گی کیسے دنیا میزان کچھ نہیں ہے
پیچھے جو چھٹ گیا ہے وہ منظر نہ دیکھنا
پتھر کے ہو نہ جاو ¿ پلٹ کر نہ دیکھنا
بے حس جہاں کے ہاتھ میں پتھر نہ دیکھنا
جب عشق میں پڑے ہو توپھر سر نہ دیکھنا
کتنا بھرا ہے جام بس اس پر رہے نظر
ہر گز بھی کتنا خالی ہے ساغر نہ دیکھنا
تعبیر اس کی خار ہیں رسوائیوں بھرے
خوابوں کے اس گلاب کو چھوکر نہ دیکھنا
شائق مرے سخن کے کبھی مجھ پہ کرنظر
کیوں دائروں کو دیکھنا، محور نہ دیکھنا
ہم نے جو کی ہے حرکت ظالم تڑپ رہا ہے
ہے اک سزا معافی بدلے میںکیا مز اہے
اس بے وفا سے ہم نے یہ سوچ کر وفا کی
تاکہ نہ کوئی سمجھے ہر شخص بے وفا ہے
آگے بڑھے تو پائے امکان کے تراہے
ہم یہ سمجھ رہے تھے محدود راستہ ہے
جامد خیال تھا وہ نظروں میں اس جہاں کی
ہم نے اسے تراشا وہ جگمگا اٹھا ہے
الجھے ہوئے مضامیں لگتے ہیں سہل بالکل
زلفیں غزل کی مسلم ایسے سنوارتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنی تہیںہیں، رنگ ہیںکتنے حجاب کے
ہم نے بدلتے دیکھے ہیں چہرے نقاب کے
ڈر کر دبی زبان سے کچھ کہہ رہے ہیں سب
چرچے بہت جہاں میں ہیں عزت مآب کے
پنہاںہے لفظ لفظ میں کرب و بلا مگر
گنتے ہیں لوگ صفحے محبت کے باب کے
کم ظرف خودکو رندِ محبت نہ مان لے
چھینٹے ہی کچھ پڑے ہیں قبا پر شراب کے
کرنیں ہمارے خانہ ¿ِ دل تک نہ آسکیں
ہم کیوں پڑھیں قصیدے تری آب و تاب کے
کہوں کیا یار جب پہلو میں آیا
بڑی مشکل سے دل قابو میں آیا
نہا کر ہر بیاں خوشبو میں آیا
مزہ مجھ کو بہت اردو میں آیا
وہی ظالم رلایا خون جس نے
اسی کا عکس ہر آنسو میں آیا
بنی قندیل کیوں ننھی سی جاں یہ
شرارہ کس طرح جگنو میں آیا
سحر انگیز تیری ہر ادا ہے
جسے دیکھو ترے جادو میں آیا
خیال اپنا بھلا ہے ہم سے مسلم
کہ آخر وہ دلِ گلرو میں آیا
سبق ہم کو ملا یہ زندگی سے
پریشانی میں مت ملنا کسی سے
اندھیرے ہوگئے بیباک اتنے
اجالا چھینتے ہیں روشنی سے
بجاہے سنگ لیکن التجاہے
کبھی گذرو تمنا کی گلی سے
بھلابے وجہ کیوں شرمندہ ہوتے
ہوئے شرمندہ ہم شرمندگی سے
چھپا کرتن کو کپڑوں کی تہوں میں
نہ مارو آنکھ کی بے پردگی سے
چکا کر دوستی کے دام مسلم
ہر اک غم جھیلتے ہیں ہم خوشی سے
ہماری سمت چلا جوبھی دل جلاپتھر
پگھل کے موم ہوا شمع بن گیا پتھر
صنم بنائے جو گونگے ہیں اور بہرے ہیں
شبیہ اسکی بناتے تو بولتا پتھر
مرے ہی گھر کی طرف بار بار آتا ہے
پتہ عدو کابھی اے کاش جانتا پتھر
بات یہ حقیقت ہے جس سے پیار کرتے ہیں
اسکا ہی لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں
ہم تو وہ بہادر ہیںجس پہ وار کرتے ہیں
پہلے اس ستمگر کو ہوشیار کرتے ہیں
وہ بدل گئے لیکن ہم ذرا نہیں بدلے
انتظار کرتے تھے انتظار کرتے ہیں
آپ بھی نہیں رکھتے کچھ حساب تیروں کا
ہم بھی دل کے زخموںکو کب شمار کرتے ہیں
ہم سے لوگ کٹتے ہیں، حق پرست ہیں مسلم
جو بھی بات کرتے ہیں دھاردار کرتے ہیں
یوں دشمنوں کے ہاتھوں خدا نے بچا لیا
خود ہی مرا چراغ ہوا نے بچا لیا
در اصل مجھ کو ماں کی دعانے بچا لیا
سب یہ سمجھ رہے ہیں دوا نے بچا لیا
نقلِ خرامِ یار مسیحائی کر گئی
آخر وجود اپنا صبا نے بچا لیا
باطل کو سجدہ کرنے کی غفلت سے بچ گیا
بر وقت مجھ کو میری انانے بچا لیا
ملوایا دو دلوں کو مرے ایک جھوٹ نے
کارِ ثواب بن کے خطا نے بچا لیا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اس لےے المدد پکارا نہیں
زندگی بحر ہے کنارا نہیں
میری ہستی کو غور سے پڑھنا
خاص نمبر ہے گوشوارہ نہیں
بے کسی اس کی سب سے بڑھ کرہے
جس کو یادوں کا بھی سہارا نہیں
جو کسی کا ہے اس کا ذکرہی کیا
جب ہمارا ہی خود ہمارا نہیں
ہو گئے قتل سب کے سب مسلم
اور کسی کو کسی نے مارا نہیں
گلشنِ یاد کو تازہ رکھّا
خوشبوو ¿ں نے ہمیں زندہ رکھّا
سامنے جب ترا چہرہ رکھّا
رات نے لا کے سویرا رکھّا
گو نہ ہو پائی عمل کی توفیق
مستقل ہم نے ارادہ رکھّا
ایسے معمار کے صدقے جاو ¿ں
جس نے اس گھر میں دریچہ رکھّا
کوئی کمتر نہ سمجھ لے خود کو
ہم نے درویش کاحلیہ رکھّا
ہیں وہ سفّاک جو الفت کے منظر بھول جاتے ہیں
کسی کی آنکھ میں رکھ کرسمندر بھول جاتے ہیں
نہیں یہ تونہیں اپنے نہیں ہیں ہم مگر پھر بھی
حسابِ دوستاں میں خود کو اکثر بھول جاتے ہیں
ترقّی کی رہِ پُرپیچ کے رہرو یہ کیسے ہیں؟
جہاں گردی میں سرگرداںہیںاورگھر بھول جاتے ہیں
پتہ ہے شرمساری بزم میں ہم کو ستائے گی
توقصداً اپنے گھر میں اپنا ہی سربھول جاتے ہیں
محبت میں مقام ایسا بھی آجاتا ہے اے مسلم
کہ راحت دن میں اورراتوں میں بستربھول جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات پھیل جائے گی ہر طرف زمانے میں
کوئی راز رکھ دیجے اپنے مسکرانے میں
اک سوا خلوصِ دل، اک وصال کا تحفہ
کچھ نہیں ترے شایاں اس غریب خانے میں
وہ امیر ہے یارو، سکھ کی نیند سوتا ہے
جس کو کچھ بھی کھونے کا غم نہیں زمانے میں
روشنی کے مالک ہیںپر غریب کی رہ میں
ان کو شرم آتی ہے اک دیا جلانے میں
ترکِ وصل کی دھمکی جھوٹ تھی تو اے ہمدم
کیا مزہ ملا تم کو اس طرح ڈرانے میں
مقام ایسا کہ امکانِ حادثات نہیں
جگہ بتاو ¿ کچھ ایسی جہاں پہ گھات نہیں
فتور ذہن میں زن ،زر،زمین کا ہر دم
فقیر کہتا ہے دنیا سے التفات نہیں
ابھی تو اور بھی دریافت ہونگے سیّارے
سخن یہ میرا مری سار ی کائنات نہیں
جگر سے کام چلا لیں گے دل نہیں ہے اگر
یہ شیشہ توڑ دیا تم نے کوئی بات نہیں
خدا تو دیکھ رہا ہے مرا عمل مسلم
زمانہ چیخ رہا ہے تو کوئی بات نہیں
ہرسمت جی رہی ہے وبالوں میں زندگی
اس دور میںگھری ہے سوالوں میں زندگی
ہر چند تپ رہے ہیں حقیقت کی دھوپ میں
اچھی گذر رہی ہے خیالوں میں زندگی
جسمانی اور ذہنی فنا کے ہیں مدعی
جو لوگ ڈھوندھتے ہیں پیالوں میں زندگی
ہم انتظارِ وصل کی گھڑیوں کو یوں گِنیں
جیسے گِنے غریب نوالوں میں زندگی
ہوعمرکچھ بھی، ہوتے ہیں رخسار اسکے سرخ
زندہ ہے وہ کہ جس کے ہے گالوں میں زندگی
اُس سے آگے کیونکہ کوئی اور راہِ دل نہ ہوگی
تم جسے منزل کہوگے وہ مری منزل نہ ہوگی
کیوں تغافل، روح ِعاشق آج کیابسمل نہ ہوگی
کیا ادا ظالم نہ ہوگی کیا نظر قاتل نہ ہوگی
توڑنا ہے دل تو توڑو ہچکچانا کس لےے
مشغلہ ہے روز کا تم کو کوئی مشکل نہ ہوگی
ڈوبنے والوں کو کیوں خدشہ ہوسطحِ آب کا
موجِ طوفاں تیرے میرے بیچ میں حائل نہ ہوگی
روح کی مانند یہ جذبہ ہے مسلم لازوال
عمرزائل ہو تو ہو الفت کبھی زائل نہ ہوگی
© ©”سمجھداری”
گھرمیں دولت کے انبار ہوتے
کاش ہم بھی ’سمجھدار‘ ہوتے
بے سری میں بھی سردار ہوتے
بے زمیں کے زمیندار ہوتے
تھوڑا رکھ لیتے خود کو بچا کر
تھوڑا بکنے کو تیار ہوتے
چلتے سودے کی قالین پرہم
پاو ¿ں کے نیچے کیوں خار ہوتے
پھر خیال آیا ہم تو ہیں مسلم
دھت ترے کی جو یوں خوار ہوتے
وفورِ تشنگی کا سامنا ہے
سمندر خالی خالی لگ رہا ہے
کبھی رک جائے تو دل کانپتا ہے
کہ جیسے درد ہی اب تو دوا ہے
لبادہ جھوٹ کا کیوں اوڑھتا ہے
تو سچ کہہ دے اگر سچ جانتا ہے
بصیرت کر نظر سینے کے اندر
یہاں دیکھے یہاں طوفاں اٹھا ہے
سنا ہے کفر مایوسی ہے مسلم
لبوں پر پھر دعائے نارسا ہے
چاندنی میں نہیں، روشنی میں نہیں
اس میں کچھ خاص ہے جو کسی میں نہیں
پھر بھی منسوب اس سے ہی کرتے ہیں سب
ذکر جس کا مری شاعری میں نہیں
کچھ خفا، کچھ حیا،خامشی ہی صدا
کیسی کیسی ادا بے رخی میں نہیں
لب پہ آیا ہے اس کے جو حرف ِ وفا
ایسی شیرینی تو چاشنی میں نہیں
سانس سازندے کی کھیل کرتی ہے سب
ورنہ کوئی ہنر بانسری میں نہیں
ہم نے کبھی وفاو ¿ں کا چرچا نہیں کیا
وہ بھی نبھا دیا ہے جو وعدہ نہیں کیا
پوشیدہ آرزوو ¿ں کو رسوا نہیں کیا
دل خوں کیا ہے آنکھ کو دریا نہیں کیا
محفل میں جاہلوں کی رہے پر وقار ہم
چپ چاپ لوٹ آئے تماشہ نہیں کیا
چڑیا کو کیا اڑا کے کوئی باز لے گیا
وا آج اس حسیں نے دریچہ نہیں کیا
مولا کا یہ کرم ہے کہ مسلم ہر ایک کام
یوں کر لیا ہے ہم نے کہ گویا نہیں کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کہاں سے زندگی میں آگئے
ہم اچانک روشنی میں آگئے
ہم نہیں تھے وہ جو ہم دِکھنے لگے
دہر کی شیشہ گری میں آگئے
دیکھ لیجے ہم ہوئے کیا کامیاب
کتنے چہرے ہمسری میں آگئے
رسمِ بندہ پروری کر دو ادا
ہم تمھاری بندگی میں آگئے
کانپتے انجام سے ہوتا جو ہوش
ہم یہاں دیوانگی میں آگئے
ایک لڑکی
ایک لڑکی ہے ہواو ¿ں جیسی
مہکی مہکی سی فضاو ¿ں جیسی
ایک گایک کی صداو ¿ں جیسی
اک مصور کی دعاو ¿ں جیسی
حسن ہے شہری حسینہ جیسا
سادگی اس کی ہے گاو ¿ں جیسی
چہرہ جیسے ہو دمکتا سورج
زلف لہرائے گھٹاو ¿ں جیسی
سیکھ لے بادِ صبا بھی اب تو
کچھ ادا اس کی اداو ¿ں جیسی
غزل
نہ جفاو ¿ں نہ وفاو ¿ں جیسی
پیار اک چیز ہے داو ¿ں جیسی
جن کی تاثیر ہو ماو ¿ں جیسی
وہ دعائیں ہیں دواو ¿ں جیسی
جب حکومت نہ ہو، دُکھ دیتی ہیں
عادتیں فرماں رواو ¿ں جیسی
دور کیسا ہے، وطن میں نفرت
آج پھیلی ہے وباو ¿ں جیسی
محفلِ حسن ہے اب بزمِ سخن
اندر راجا کی سبھاو ¿ں جیسی
بیعانے کی شکل بنا دی ہے ہم نے
دل پر تیری مہر لگادی ہے ہم نے
اس کی انا کچھ ایسے بڑھادی ہے ہم نے
اپنی انا ہر طرح گھٹادی ہے ہم نے
بے قدری کی دھوپ نہ تجھ کو جھلسائے
شعروں کی بوچھار لگادی ہے ہم نے
چار آنکھوں سے گپ چپ باتیں کر کرکے
لفظوں کی دیوار گرادی ہے ہم نے
اس میں چمکتا رنگِ لہو سندوری ہے
آج غزل کی مانگ سجادی ہے ہم نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشکوں سے بیتے وقت کے منظر بھگو لئے
جو کوئی یاد آگیا اس کو ہی رو لئے
ہم کو یقین کرنا تھا ہم ہیں بھی یا نہیں
اعصاب سو نہ جائیں تو نشتر چبھو لئے
برسوں کی خامشی پہ یوں شب خون مارئیے
کچھ ہم سنائیں حال تو کچھ آپ بولئے
آخر کو کہہ دیا کہ جو کہنا نہ تھا کبھی
اتنا کہاں تھا صبر کہ ہر بات تولئے
اقبال ، میر۔ غالب و مسلم ہیں بے مثال
قطرے ہیں کچھ جنھوں نے سمندر سمو لئے
سنگیت کے سریلے زمانے میں جی کے دیکھ
انیس سو پچاس کے عشرے میں جی کے دیکھ
گر جاننا ہے کیسی ہے جکڑن نباہ کی
تو بھی بندھے ٹکے ہوئے رشتے میں جی کے دیکھ
اس کے لبوں پہ پھیلی ہے زہریلی سی ہنسی
مہنگائی کہہ رہی ہے کہ سستے میں جی کے دیکھ
لیتا ہے دور دور سے ناٹک کا کیوں مزہ
کردار بن کے خود ہی تماشے میں جی کے دیکھ
تو روشنی کے دم پہ ہے زندہ، مری طرح
تنہائی کے عمیق اندھیرے میں جی کے دیکھ
نذرِ احد پرکاش :
ادب کا جو کرے پُرنور سینہ
احد پرکاش ہے ایسا نگینہ
وہ ماہر ہے ہر اک صنف ِادب میں
ادب دریا، قلم اُس کا سفینہ
ہو افسانہ کہ بچوں کا ادب ہو
مچائے دھوم یہ دانا و بینا
وہ ایسا مردِ میداں شاعری کا
سخن کی سادگی جس کا قرینہ
جو چاہے اس سے مل کر فیض اٹھالے
وہ ہے بامِ ادب کا ایک زینہ
سدا ہم کو نہ بلوایا کرو تم
کبھی خود بھی تو آجایا کرو تم
ہماری بات یہ سنتا نہیں ہے
دلِ ناداں کو سمجھایا کرو تم
تمھاری جاں ہے میری جاں سے بڑھ کر
قسم جاں کی نہیں کھایا کرو تم
کبھی وعدہ کوئی پورا بھی کردو
بہانوں سے نہ بہلایا کرو تم
جھلستا ہوں محبت کی تپش میں
سحابِ دید کا سایہ کرو تم
نذرِامامؑ
کردار میں گُھلے کی شباہت حسین ؑکی
دل میں بسا کے دیکھ محبت حسین ؑکی
ایمان کی بقا ہے شہادت حسین ؑکی
رکھّیں گے ہم بچا کے یہ دولت حسین ؑکی
دھندلی نہیں پڑے گی عقیدت حسین ؑکی
اسلام پر چڑھی ہے وہ رنگت حسین ؑکی
مائل بہ حکمِ رب تھی طبیعت حسین ؑکی
سجدے میں سر کٹانا تھی راحت حسین ؑکی
حق گوئی، حق پرستی تھی فطرت حسین ؑکی
مسلم تجھے ملی ہے قرابت حسین ؑکی
ہندوستان کی ویران مساجد کود یکھ کر ایک تاثر
کر کے کتنی مساجد کو ویران گئے
ہندوستان کو چھوڑ کے پاکستان گئے
مسند ، دولت اور جانوںکی قیمت پر
ٹین کے شیڈوں میں بن کر مہمان گئے
قوم علاقہ سے ہوتی ہے دیں سے نہیں
بن کے مہاجر قوموں کو پہچان گئے
مالک نے تو بخشا تھا کُل ملک ہمیں
کس کے ڈر سے شیخ اور مغل پٹھان گئے
آج بھی ہندوستان میں مسلم زندہ ہے
تم گھبرا کر دل میں لئے ہیجان گئے
سائنس سے حقیقتِ بسمل کو دیکھ لے
پوشیدہ کیمرے سے مرے دل کو دیکھ لے
انصاف و عدل کرنا دلیروں کا کام ہے
ظالم کو دیکھنا ہے تو بزدل کو دیکھ لے
راہوں میں جس نے خار بچھائے قدم قدم
اب خود شکست خوردہ ہے، منزل کو دیکھ لے
اظہارِ حق ہے ایک بڑا جرم آج کل
منہ کھولنے سے پہلے سلاسل کو دیکھ لے
کیوں اور کیسے ہوگا قیامت کے بعد حشر؟
گر دیکھنا ہے، یار کی محفل کو دیکھ لے
رہزنی راہبر ہو گئی ہے
یہ پرانی خبر ہو گئی ہے
جب سے ان کی نظر ہو گئی ہے
ہر دوا کارگر ہو گئی ہے
بے بسی پُر اثر ہو گئی ہے
بے کسی چارہ گر ہو گئی ہے
جب سے بدلی ہے عادل کی نیّت
ہر خطا معتبر ہو گئی ہے
آگے آنی ہے وعدوں کی دلدل
راہ اب پُرخطر ہو گئی ہے
آپ کا ساتھ پایا تو جیسے
روشنی ہم سفر ہو گئی ہے
جب اندھیرے میںوہ چھت پہ آتی نہیں
چاندنی بھی کہیں مسکراتی نہیں
اس کے رخ سے پلٹ کر جو جاتی نہیں
آسماں پر دھنک رنگ پاتی نہیں
کوئی آیا ہے صحنِ گلستان میں
ورنہ بادِ صبا گنگناتی نہیں
مطلع خیریت سے جو کر دیتے تم
غم گھلاتا نہیں فکر کھاتی نہیں
شامیانہ ستاروں کا بے نور ہے
بن ترے یہ فضا جگمگاتی نہیں
ہم نے مسلم جو دیکھا بیان کر دیا
سچ کہیں شاعری ہم کو آتی نہیں
کیا سوچتے ہیں لوگ یہ اندازہ کر کے دیکھ
جس تخت پر چڑھا ہے وہاں سے اتر کے دیکھ
پلکوں کو بند کرکے تماشے نظر کے دیکھ
تاریکیوں میں خواب نویدِسحر کے دیکھ
جانکاہ ایک جذبہ ہے الفت ہے جسکا نام
کچھ پل دہکتی آگ میں تو بھی ٹھہر کے دیکھ
پتھر پگھل کے موم بنے گا یقین ہے
سچا اگر ہے عشق تو اک آہ بھر کے دیکھ
کرنی سے شعر گوئی تو مسلم کا پڑھ کلام
ہراک ورق پہ کوندتے جلوے ہنر کے دیکھ
اک کیف طلسماتی دروبام پہ اترے
گر عکسِ پری چہرہ مرے جام پہ اترے
سورج تو ڈھلا اب ہے فقط تیرا سہارا
آجا کہ اجالوں کی کرن شام پہ اترے
ہے ذہن کی سرحد پہ تری یاد محافظ
کیوں قافلہ ¿ِ غم دلِ ناکام پہ اترے
کچھ تم بھی گریباں میں ذرا جھانک کے دیکھو
کیا ہو گیا ایسا کہ ہم الزام پہ اترے
جب مجھ سا گنہ گار ہوا عازمِ طیبہ
رحمت کو فرشتے لےے ہر گام پہ اترے
زردار ہُوا جب سے، وہ زر ڈھونڈرہی ہے
دنیا مرے عیبوں میں ہنر ڈھونڈرہی ہے
جن میں ہوں محبت کے بھڑکتے ہوئے شعلے
بیتاب نگاہوں کو نظر ڈھونڈرہی ہے
ہے نسل نئی، صبح کو اک پیڑ لگایا
اور شام کو شاخوں پر ثمر ڈھونڈرہی ہے
اخبار ہیں چپ، ٹی۔وی۔ ہے خاموش، یہ جنتا
جو سب کو پتا ہے وہ خبر ڈھونڈرہی ہے
گمنام سا شاعر ہے جسے کہتے ہیں مسلم
کیا کہئے اسے آج خبر ڈھونڈرہی ہے
مانا کہ ستاروں سے ملاقات نہیں ہے
میں چاند سے ملتا ہوں، کوئی بات نہیں ہے
ٹھکرادوں محبت کا اگر ساتھ نہیں ہے
ہے پیارمِرا حق، کوئی خیرات نہیں ہے
ایماں کا نگر وادی ¿ِ ظلمات نہیں ہے
سچ دن کی وہ بستی ہے جہاں رات نہیںہے
مت جان کہ اب بازی مرے ہاتھ نہیں ہے
شہ دی ہے ابھی اس نے کوئی مات نہیں ہے
مطلب کے جوانی سے جوانی کے ہیں رشتے
ہے گرمی ¿ِ خوں گرمی ¿ِ جذبات نہیںہے
ہمارے پاس بھی اوراق ہیں کچھ
الم یہ ہے کہ نذرِ طاق ہیں کچھ
عبادت کرنے والے ہیں ہزاروں
مگر ہاں عارفِ خلاّق ہیں کچھ
نئی نسلو! سنو میرے سخن میں
تمھارے واسطے اسباق ہیں کچھ
گراں ہیں قرض ہائے زندگانی
ابھی باقی ہیں کچھ بیباق ہیں کچھ
نہیں ہیں مال و زر لیکن ہمارے
مہک دیتے ہوئے اخلاق ہیں کچھ
کریں گے حسن کی بھی مدح خوانی
ابھی ہم صرفِ استغراق ہیں کچھ
سماجی زہر کو کیسے اتاریں
ترے نسخوں میں کیا تریاق ہیں کچھ
بڑھاتے ہیں جو فرقہ واریت کو
جرائد لائقِ احراق ہیں کچھ
جو مسلم مسکرا کر لوٹتے ہیں
جہاں میں ایسے بھی قزاق ہیں کچھ
تیری تائید سے خدا !ہم نے
وہ جو ممکن نہ کہ تھا کیا ہم نے
عرش سے پائی جب شفا ہم نے
فرش پرپھینک دی دوا ہم نے
بات کرتی تھی اشکبار آنکھیں
یوں کیا عرض مدّعا ہم نے
ہر قدم پر شکست کھانے کا
رکھ دیا نام حوصلہ ہم نے
وہ جفا ہے جو اس نے کی ہے جفا
وہ وفا ہے جو کی وفاہم نے
یہ اور کچھ نہیں خوش صحبتی کا جادو ہے
بدن میں خار کے پیوست گل کی خوشبو ہے
نظامِ عدل کا ظالم سے واسطہ ہے کوئی
جھکی ہوئی اسی جانب ہی کیوں ترازو ہے
قبا ہے جس کی سنی خونِ آدمیّت سے
نہیں ہے بھکشو، میانمار کا ہلاکو ہے
سنبھل کے رہنا اگر دوستی ہی کر لی ہے
وہ ڈنک مارے گا اک روز کیونکہ بچھو ہے
کرشمہ سازی سیاست کی ہے یہ اے مسلم
کہ بائیں بازو کے ہمراہ دایاں بازو ہے
ادھربولی اُدھربولی یہاں بولی وہاں بولی
کھلی اک بار تو ایسے زبانِ بے زباں بولی
گلا جب گھُٹ کیا تو پھر تہہِ نوکِ سناں بولی
ہزاروں حسرتوں کے ساتھ چشمِ نیم جاں بولی
سرِ مقتل بھی سچائی کی ایسی سربلندی تھی
حقیقت آشنا تھی وہ حقیقت کا بیاں بولی
خرد والو! جنونِ عشق کے نقشِ قدم چومو
ہماری پشت پر استادہ گردِ کارواں بولی
کےے وہ وار ہیبت خیز کہ شمشیر دشمن کی
ہمارے سامنے سر کو جھکا کر االاماں بولی
زمانہ چھوڑ دے لیکن میں تیرے ساتھ ہوں مسلم
ہوئے تنہا تو یوں ہم سے ہماری داستاں بولی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج کے ساتھ ساتھ وہ رہتا سفر میں ہے
دیوار ہے تھمی ہوئی سایہ سفر میں ہے
ملتا ہے کوئی گر تو بچھڑتا بھی ہے کوئی
رشتوں کا اک عجیب تماشا سفر میں ہے
کھڑکی سے بس کی دِکھتی ہے ہر شئے رواں دواں
بچہ سمجھ رہا ہے کہ دنیا سفر میں ہے
منزل کب آگئی نہیں چلتا ہے کچھ پتہ
ساتھی کوئی حسین جو ملتا سفر میں ہے
دنیا ہے تیرے قدموں میں گھر سے نکل کے دیکھ
پل پل ترقیوں کا اشارا سفر میں ہے
تو رک گیا تو کیا ہوا مسلم ذرا یہ دیکھ
گردش میں ہے زمین زمانہ سفر میں ہے
اس لیے تھوڑی بھی دلچسپی نہیں تعبیر میں
ہم ہی ہم بس حکمراں ہیں خواب کی جاگیر میں
کچھ عمل میں منہمک ہیں اور کچھ تدبیر میں
اس سے سب انجان ہیں لکھّا ہے کیا تقدیر میں
چاشنی لفظوں کی بھی ہوگفتگو کے شیر میں
صورتیں اچھی سہی، اچھی بھی ہوں تاثیر میں
روشنی کے وہ خزانے ہیں تری تصویر میں
ہم اندھیرے سے نکل کر آگئے تنویر میں
منزلیں تولیں گے اس کو عزت و توقیر میں
شرط ہے جوشِ جنوں بس سینہ رہگیر میں
جانے کس کے پھول جیسے ہاتھ نے لکھی ہے یہ
بھینی بھینی مست سی خوشبو ہے اس تحریر میں
آہنی کڑیوں کو بیشک توڑ سکتا تھا مگر
باندھ کر رکھّا ہے اس نے پیار کی زنجیر میں
عشق سچا ہے ہمارا دیکھ لینا ایک دن
آگ الفت کی لگا دیں دے دلِ بے پیر میں
چند تنکے پیار کے جڑ جائیں تواے دوستو!
ان کو پھر بکھرادے یہ طاقت نہیں شہتیرمیں
جذبہ ¿ِ مسلم ہے لا فانی، بقا کو مات دے
کاٹ کچھ ایسی نہیں دنیا تری شمشیر میں
خواب کی سر زمیں
تھوڑی کانٹوں بھری اور کچھ مخملیں
ایسی جادوئی دنیا کہیں بھی نہیں
رہ کے دنیا میں پہنچا دے عرشِ بریں
خواب کی سرزمیں، خواب کی سر زمیں
آفتِ جاںکبھی ہے تو راحت کبھی
وصلِ محبوب اور اس سے فرقت کبھی
لمس سے بے رخی اور اجازت کبھی
خواب کی سرزمیں، خواب کی سر زمیں
جاگتا سو کے بھی دل کا ارمان ہے
ہاتھ میں اس کی زلفِ پریشان ہے
کچھ بھی ہو دل بہلنے کا سامان ہے
خواب کی سرزمیں، خواب کی سر زمیں
بھول جا رنج و غم، مت پریشان ہو
جسکی آغوش میں راحتِ جان ہو
چلئے ایسی جگہ جس میں امکان ہو
خواب کی سرزمیں، خواب کی سر زمیں
چند ساعت سہی دفعِ آلام ہے
بے کسوں کے لےے ایک انعام ہے
فیضیاب اس سے ہر خاص اور عام ہے
خواب کی سرزمیں، خواب کی سر زمیں
اس میں ملتے تو ہیں ماہ رخ مہ جبیں
یہ تماشا مگر ہم کو بھاتا نہیں
صبح ہوتے ہی چھَٹ جائیں منظر حسیں
خواب کی سرزمیں، خواب کی سر زمیں
اپنی خوبی نہیں اسکی خوبی تھی سب، ہاں مگر ہم تھے راہیِ راہِ غزل
ملکہ ¿ِ حسن کی ایسی تعریف کی سب نے ہم کو کہا بادشاہِ غزل
کام آیا سخن کا ہنر بزم میں ہم بھی تھے وہ بھی تھے اور کئی لوگ تھے
غیر پر رازِ الفت نہیں کھل سکا دل سے دل نے کہا سب براہِ غزل
روزگارِ جہاں کے ہزاروں الم چھین سکتے نہیں مجھ سے میرا سکوں
جنّتِ نغمہ ¿ و طرب کہئے جسے ہے مرے پاس وہ عیش گاہِ غزل
راگ میں رنگ میں عشق کی جنگ میں زندگانی کا کوئی بھی میدان ہو
پست کردیں حریفوں کے لشکر کو جو، میرے الفاظ ہیں وہ سپاہِ غزل
ایسے ڈوبے خیالوں کی گہرائی میں، تہہ سے لے آئے گوہر چمکتے ہوئے
اس خرابی میں اک سرفرازی بھی ہے یوں تو ہر چند ہم ہیں تباہِ غزل
جب بے حجاب وہ سرِ محفل نکل پڑے
آنکھوں کے راستے سے کئی دل نکل پڑے
اتنا سکوتِ بحرِ محبت ہوا طویل
موجوں کو ڈھونڈھتے ہوئے ساحل نکل پڑے
راہوں سے بے خبر تھے مگر پوچھ پوچھ کر
بے کارواں ہی جانبِ منزل نکل پڑے
ماضی میں جن کے سر تھے زمیں سے لگے ہوئے
ہمت دکھانے آج وہ بزدل نکل پڑے
پھیلایا ’واٹس ۔اپ ©‘ نے کچھ اس طرح ”علم و فن“
سمجھانے ماہرین کو جاہل نکل پڑے
اگر ہو عزم،شعلوں کو بجھا سکتی ہے شبنم بھی
قناعت ساتھ تھی تو کچھ زیادہ ہی لگا کم بھی
امیدیں بانہیں پھیلائے کھڑی تھیں دیدِ جنت تھی
اُدھر پردے کے پیچھے منتظر تھا اک جہنم بھی
گئی فصلِ بہاراں اور آیا پل جدائی کا
خبر کیا تھی کہ ان آنکھوں میں ہے ساون کا موسم بھی
تڑپتا دیکھنا مقصد ہے جاں لینا نہیں اس کا
بچانے جان زخمی کی لگاتا ہے وہ مرہم بھی
ہیں اپنے اپنے خدشے اپنے اپنے خوف اے مسلم
پریشاں دورِ حاضر میںمیاں ہیں آپ بھی ہم بھی
غالب میر اقبال اور سودا لے آئے
ردی کی دکّان سے کیا کیا لے آئے
منٹو بیدی عصمت کے افسانے لئے
شمع بھی اور جاسوسی دنیا لے آئے
ملے حمید فریدی اور عمران سے بھی
ایکس۔,2 جولیا اور تھریسیا لے آئے
جو کچھ ردی سمجھا آج کی نسلوں نے
اس کو کر کے سر سے اونچا لے آئے
مسلم اپنے دور سے ہم کو الفت ہے
لے کے کتابیں اپنا زمانہ لے آئے
ََََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جذبات میں معماری کی تاریخ بنادی
صدموں پہ تبسم کی پرت ہم نے سجا دی
وہ حسن دیا رب نے اسے ایسی ادا دی
قلاش تھے ہم داو ¿ پہ تقدیر لگا دی
گردن کو جھکانے کی ہر اک رسم اٹھادی
ہم نے اے زمانے تری اوقات بتا دی
اے دردِ محبت کوئی انصاف نہیں ہے
آنکھوں نے خطا کی تھی تو کیوں دل کو سزا دی
محبوب نے اس طرح مرے دل کو جلایا
میری ہی مرے سامنے تحریر جلا دی
مانا کہ زرومال میسر نہ کرایا
غزلوں نے مرے ہاتھ میں شہرت تو تھما دی
لفظوں کا مصور ہے جسے کہتے ہیں مسلم
اشعار میں جذبات کی تصویر بنا دی
تنہائی میں شور نہ یوں دن رات کرے
خاموشی سے کہہ دو دھیرے بات کرے
یار ہے جو بھی چاہے میرے ساتھ کرے
چاہے ساتھ نبھائے چاہے گھات کرے
ہم ہیں چراغِ راہ گذر اللہ قسم
ہم سے آخر آندھی دو دو ہاتھ کرے
بے آہٹ پھولوں پہ اترتی ہے شبنم
رب ہم پر یوں رحمت کی برسات کرے
دل ہے دوانہ کیوں امّید لگاتے ہو
جو بھی کرے وہ سب حسبِ حالات کرے
تو جیت نہ پائے گا چالاکی کے پھیروں سے
دشمن سے ذرا کہہ دو لڑتے نہیںشیروں سے
یہ رات کے رسیا ہیں الفت ہے اندھیروں سے
شب باش کھلنڈروں کو شکوہ ہے سویروں سے
اشعار کی دولت کو مشکل ہے بچا پانا
محفوظ نہیں کوئی شہرت کے لٹیروں سے
تدبیریں بہت کر لیں کچھ کام نہیں آیا
نکلا ہے بھلا کوئی تقدیر کے گھیروں سے
اس سانپوں کی بستی میں زندہ بھی تو رہنا ہے
کر رکھّا ہے یارانہ ہم نے بھی سپیروں سے
وق ±عت نہیں سمجھیں تو اخبار، کتابیں کیا
دیوان بھی ردی میں تُل جاتے ہیں سیروں سے
رکھتے ہیں شمع روشن یہ سوچ کے اس دل میں
اک روز تو ہم مسلم نکلیں گے اندھیروں سے
جب رات ہوئی دنیا تاروں سے بھی کھیلی ہے
اب دن کے اجالے میں سورج کی سہیلی ہے
محبوب کی ہستی تو خوشبو کی حویلی ہے
ہے موگرا مہکا سا بھینی سی چمیلی ہے
ہے سب پہ عیاں پھر بھی ان سلجھی پہیلی ہے
اس ذات سے سب کچھ ہے جو ذات اکیلی ہے
بولا یہ نجومی نے غا ئب ہیں لکیریں ہی
کچھ اس میں نہیں دکھتا مفلس کی ہتھیلی ہے
شاطر ہے بہت دنیا ، اس کا یہ وطیرہ ہے
معصوم ارادوں اور جذبات سے کھیلی ہے
رسوائی کے موسم میں بے مہری زمانے کی
یخ بستہ ہوا یہ بھی جی داری سے جھیلی ہے
اب تو ہی بچا مولا مسلم کو زمانے میں
حالات نے اس پر اک چٹان ڈھکیلی ہے
مجھے ایسے قتل کیا نہ کر
یا جدا نہ ہو یا ملا نہ کر
کئی اس میں تیرے بھی راز ہیں
مری خامشی پہ ہنسا نہ کر
غم و درد سہہ لے خوشی خوشی
تو خوشی کے غم میں گھُلا نہ کر
ہے یہ ضرب عشق کی آن پر
میں بڑھوں تو مجھ سے بچا نہ کر
ابھی آندھیوں میں گھرا ہوں میں
ابھی مجھ سے ذکرِ صبا نہ کر
میں تجھی میں گم ہوں تو اے صنم
مرا حال چال پتا نہ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اچھے شاعر ہیں دل ذرا بڑاکیجے
دوسروں کے شعروں پر داد بھی دیا کیجے
ہم کو دید کافی ہے سامنے رہا کیجے
پاس گر نہیں آتے دور سے ملا کیجے
یاد جوش و مستی میں یہ محاورہ کیجے
لیجے عقل کے ناخن ہوش کی دوا کیجے
یہ ہے وجہِ ناکامی ہم سمجھ نہیں پائے
کس سے دوستی رکھئے اور کسے خفا کیجے
فرق کچھ نہیں پڑتا آپ دل میں رہتے ہیں
چاہے رکھئے نزدیکی چاہے فاصلہ کیجے
کیوں ڈریں زمانے سے جبکہ آپ مسلم ہیں
لشکرِ شیاطیں کا ڈٹ کے سامنا کیجے
دو رنگی دو غزلہ
جب دیکھتے ہیں رخ کسی تازہ گلاب کا
ہر اک ورق پلٹتے ہیں دل کی کتاب کا
ہر شخص اپنی فکر کے باعث ہے مضطرب
عالم کسے بتائےے اب اضطراب کا
وہ ہاتھ چاہے آئے نہ آئے یہ کم نہیں
مانیں گے لوہا لوگ مرے انتخاب کا
ناکامیوں سے آپ کو مل جائے گی نجات
دامن پکڑ کے چلئے کسی کامیاب کا
کڑوی حقیقتیں ہیں مگر زندگی تو ہے
کب ٹوٹ جائے کوئی بھروسہ ہے خواب کا
دیدار کر لیا ہے کسی ماہتاب کا؟
کیوں رنگ پھیکا پھیکا ہے آج آفتاب کا
مسجد میں گونجنے لگی رنگ ٹون فون کی
کارِثواب بن گیا موجب عذاب کا
ابلیس نے چرا لیں مری سب عبادتیں
سجدے میں نقشہ رکھ دیا حوروثواب کا
اچھی رہے گی آپ سے کیمسٹری مری
جغرافیہ حسین بہت ہے جناب کا
حدِّ ادب نہیں کوئی بعدِمشاعرہ
چلتا ہے خوب دور شراب و شباب کا
یہ بات سچ کہ چبھتے سوال پوچھتا ہے
مگر وہی ہے کہ جو حال چال پوچھتا ہے
کہاں گیا ترا اوجِ کمال پوچھتا ہے
عروجِ ماضی سے طنزاً زوال پوچھتا ہے
ستم ظریفی مرے بھُولے بے وفا کی ہے
وہ وجہِ حزن ہی وجہِ ملال پوچھتا ہے
ہم اپنی مرضی کے مالک نہیں تو کیوں یارب
حسابِ زیروبمِ ماہ و سال پوچھتا ہے
کیا تھا عشق تو اظہار کیوں نہ کر پائے
یہ بات ہم سے کسی کا خیال پوچھتا ہے
کِبَر سنی میں سوالی ستا نہ مسلم کو
گئے زمانے کے سب قیل و قال پوچھتا ہے
دن پھر سے پلٹ آئیں اپنے وہ سکوں والے
تو ہم پہ کرم کردے اے کن فیکوں والے
کہتے ہیں جنوں والے سنتے ہیں جنوں والے
جی داری کی باتیںہیں قصّے ہیں یہ خوں والے
©”نا © ©“ کہہ کے جو دکھ جھیلیں وہ لوگ بہت کم ہیں
”ہاں“ والے ہزاروں ہیںاور لاکھوں ہیں ”ہوں“ والے
سن کر انھیں ذہنوں میں شعلے سے بھڑکتے ہیں
اشعار ہمارے ہیں یہ سوزِدروں والے
ایماںپہ اٹل ہیں جو ہر حال میں اے مسلم
انسان وہ لگتے ہیں کردار فسوں والے
یہ مرے دور کی حقیقت ہے سچ سے کانٹوں کا ہار ملتاہے
رہنما سب یہ مان بیٹھے ہیں جھوٹ سے اقتدار ملتا ہے
سچے عاشق کا ہر زمانے میں بس یہی حالِ زار ملتا ہے
قیس فرہاد ہو کہ رانجھا ہو پیرہن تار تار ملتا ہے
چھوڑ دے مے کشی محبت کر دیکھ کیا تجھ کو یار ملتا ہے
ایسی مستی کہاں ہے بوتل میں عشق میں جو خمار ملتا ہے
منزلوں کی طویل راہوں میں صبر کا خارزار ملتا ہے
ٹوٹتی ہیں خزاں کی زنجیریں تب پیامِ بہار ملتا ہے
سرحدِ عشق سے ذرا آگے ایک آبی مزار ملتا ہے
جسکو کوئی عبور کر نہ سکے بحر اک بے کنار ملتا ہے
بے سبب ایک دوسرے کی لےے اب دلوں میںغبار ملتا ہے
شہرِالفت جہاں پہ بستا تھا نفرتوں کا دیار ملتا ہے
نفرتوں کی کٹیلی جھاڑی پر زہر پھل بے شمار ملتاہے
روز افزوں فروغ پر مسلم ظلم کا کاروبار ملتا ہے
لکھا پھر مٹایا، مٹایا کر لکھا پھر
ترا نام ہی ہو گیا مشغلہ پھر
دعا سے ملی شادمانی میں غافل
بھگتتے ہیں جب، مانگتے ہیں دعا پھر
ہیں صیاد سب بوکھلائے ہوئے سے
چمن میں محبت کا غنچہ کھلا پھر
محبت کے اظہار پر اس کا چہرہ
بنا پھول انگارہ ایسا ہوا پھر
یہ”پھر“ کتنی مدّت کا ہوتا ہے مسلم
کہا ہم نے ملنے کو، اس نے کہا پھر
بزرگ، ویڈیو اور ائرفون
شیوہ ہے بزرگوں کا کہ بچوں سے چھپا کر
وہ ویڈیو سنتے ہیں ائرفون لگا کر
کچھ اور نہیں دیکھتے ہیں فلم پرانی
ماضی کی جوانی کے حسیں خواب سجا کر
بچے تو بڑے ہوتے ہی بیگانے ہوئے ہیں
یو ٹیوب سے اب دوستی کرلی ہے دباکر
نوشاد و روی، نیّرو ایس۔جے بھی ہیں حاضر
طلعت و رفیع ،آشا ، لتا ملتے ہیں آخر
وہ دور سنہری تھا نئی نسل یہ سن لے
فنکار تھے وہ ایسے جو آتے نہیں جا کر
یوسف ہوں گرودت ہوں ، وہ مینا کہ مدھو ہوں
لے جاتے ہیں جذبات کی لہروں میں بہا کر
اب جانی و محمود کا ملتا نہیں ثانی
غمگیں ہوں اگر ہم تو یہ جاتے ہیں ہنساکر
فنکاروں کے مدّاحوں میں مسلم بھی ہے شامل
داتا ہیں وہ نغموں کے تو سامع ہے گداگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیّر۔ او۔پی نیّر، ایس۔جے۔شنکر جے کشن، یوسف۔دلیپ کمار، مینا۔مینا کماری، مدھو۔مدھوبالا، جانی۔ جانی واکر، گداگر۔بھکاری
سخن کے اعلیٰ معیاروں کو کچھ امداد کیا دے گا
سمجھ کم ہے تو میرے شعر کی وہ داد کیا دے گا
نہیں ہے اس کے وعدوں کی کوئی بنیاد کیا دے گا
وہ جھوٹا ہے کسی بھی کام کی میعاد کیا دے گا
اگر چُن لو گے اس کو رہنما، جلّاد کیا دے گا
بتاو ¿ پھر سوائے جبرواستبداد کیا دے گا
جہاں بے رہروی ہو راگ فحّاشی کے نغمے ہوں
سماج ایسا بڑے کردار کے افراد کیا دے گا
ہے موجد نت نئے فتنوں کا وہ ظالم تو اے مسلم
یہی ہر لمحہ ڈر ہے اب نئی ایجاد کیا دے گا
وہ خود ہی رحم کرے گا، مری دعا سے نہیں
میں مطمئن ہوں کہ پوشیدہ کچھ خدا سے نہیں
اتر کے روح میں وہ ہم کو کر گیا زندہ
ہوئے ہیں ٹھیک دعا سے نہیں دوا سے نہیں
خود اپنے عیبوں سے منسوب مت کرو ہم کو
جو تم نے سوچا ہے ویسے تو ہم زرا سے نہیں
ہے معتدل مری معصوم آرزو کا مزاج
کوئی بھی ربط جفا سے نہیں وفاسے نہیں
میں اُ س بلا کا ہوںدیوانہ بس یہی ہے بہت
نہیں ہے اس کو محبت مری بلا سے نہیں
جسے خبر نہیں کچھ بھی ہے وہ خبر والا
ہمارے دور میں اندھا بھی نظر والا
وہ اُڑ رہا ہے کہ بے پر کی جو اُڑاتا ہے
اُڑان بھول کے بیٹھا ہوا ہے پر والا
محل چمکتا ہوا ہے حدوں کے پار جدھر
اُدھر ہی دیکھتا رہتا ہے ہر اِدھر والا
کٹے جو شاخ نئی شاخ پھوٹ آتی ہے
ہنر یہ کیوں نہیں انسان میں شجر والا
نہ اپنا فن ہے تجارت، نہ ساتھ امیروں کا
ہے مال پاس بس اپنے گذربسر والا
بس اتنی بات پہ دنیا اثر نہیں لیتی
اثر کی بات ہے لہجہ نہیں اثر والا
عجب ہیں لوگ کہ جو ساتھ میں نہ جائے گا
جٹا کے بیٹھے ہیں سامان وہ سفر والا
چھت آسمان کی دیوار و در ہواو¿ں کے
بنا ہے صحرا میں دیوانہ کوئی گھر والا
ہوئے ہیں سرخرو کروا کے سرخ اپنے قدم
چُنا تھا راستہ کانٹوں بھری ڈگر والا
وہ دو سطر کا ہے ساحر کہیں جسے مسلم
ہے داستان بیاں اس کا مختصر والا
یوں بھی گذر رہی ہے جو ملتے تو ٹھیک تھا
کچھ پَل کسی کے ساتھ گذرتے تو ٹھیک تھا
دل میں اتر کے جلووں نے طوفاں اٹھا دیا
نظروں کی سرحدوں پہ ٹھہرتے تو ٹھیک تھا
رسوائیاں اٹھا کے بھی جی لیں گے ہم مگر
بنتے نہ آرزو کے تماشے تو ٹھیک تھا
کہتی ہیں حال دل کا نگاہیں جناب کی
کچھ آپ اپنے منہ سے بھی کہتے تو ٹھیک تھا
مسلم کے حال ِ زار پہ محفل نے یوں کہا
یہ شخص ان کے آنے سے پہلے تو ٹھیک تھا
جب بھی دیکھو نئی سی لگتی ہے
وہ مجھے زندگی سی لگتی ہے
اس کے غصے پہ پیار آتا ہے
اس کی گالی بھلی سی لگتی ہے
آنکھ وہ کھل کے کہہ رہی ہے جو
بات لب پر دبی سی لگتی ہے
روپ کی دیوی موہنی کایا
روشنی میں ڈھلی سی لگتی ہے
تم مرا جسم چھو کے دیکھو تو
آگ دہکی ہوئی سی لگتی ہے
اس سے بچھڑے تو آج کل مسلم
زندگی اجنبی سی لگتی ہے
شکار کو وہ کچھ ایسے ہلا کے رکھتا ہے
جو تیر چھوڑنا ہو وہ چھپاکے رکھتا ہے
وہ ایک بارِ گراں کو بُلا کے رکھتا ہے
جو کام آج کا کل پہ اٹھاکے رکھتا ہے
بلائے جان ہے دشمن کی یہ خوش اخلاقی
کہ ہم پہ دوش وہ سب مسکرا کے رکھتا ہے
کھلیں جو گل تو جتاتا ہے ان پہ حق اپنا
چمن کی نیو مرا خوں پلا کے رکھتا ہے
ہم اس کو دوست بناتے نہیں کبھی مسلم
ذرا سی بات جو دل میں دبا کے رکھتا ہے
ٹھکراو تو دنیا جھکتی ہے یہ بات اثر تک آ پہنچی
جب میں نہ بڑھا اس کی جانب شہرت مرے درتک آ پہنچی
کہتے تھے جو خود کو اہلِ جنوں صحرائی دشتِ عشق و وفا
چلنے پہ کوئی راضی نہ ہوا جب بات سفرتک آ پہنچی
تھی سیپ کی ساری فنکاری اس کی تو کوئی اوقات نہ تھی
اک کنکری بے وقعت سی تھی جو وہ آج گہرتک آ پہنچی
تھا کس کو پتا یہ کیسے ہوا ، اب خیر مناو¿ الفت کی
جو کرتے تھے ہم چپکے چپکے وہ بات خبرتک آ پہنچی
تقلید کوئی آسان نہیں اور وہ بھی مسلم جیسے کی
دنیا مرے پیچھے چلتے ہوئے بس گرد سفر تک آ پہنچی
نذرِ امام حسینؑ
یاد کرواتے ہیں قربانئیِ اعظم آنسو
ساری دنیا بھی جو روئے تو پڑیں کم آنسو
خشک آنکھوں میں بھی آجاتی ہے طغیانی سی
خود ہی آجاتے ہیں دورانِ محرم آنسو
نذرِ نقشبند قمر نقوی
ترے افکار سے ظاہر حقیقت ہوتی رہتی ہے
قمر روشن ہے، ظلمت کی ہزیمت ہوتی رہتی ہے
سفیر نور ہے تو علم و فن کے شہر میں بےشک
ترے ہر لفظ سے پیدا حرارت ہوتی رہتی ہے
گلوکار یعقوب ملک خاںکی نذر
دل میں ہر ایک کے جو رہتے ہیں
ان کو یعقوب ملک کہتے ہیں
تان سینی ہے ہر اک تان ان کی
نغمے جھرنوں کی طرح بہتے ہیں
نذرِ ثروت زیدی بھوپالی
اہل ِ ثروت ہیں علم و فن میں ثروت
مہکے ہیں ادب کے چمن میں ثروت
افکار کا سیلاب سا لے آتے ہیں وہ
احساس کے بھوپال وطن میں ثروت
خالی پن کا درد
نا دفتر نا میز اور نام کی تختی ہے
میں ہوں رٹائر اب یہ میری ہستی ہے
لوگوں کو اب مجھ سے کوئی کام نہیں
میرے فون کی گھنٹی کم ہی بجتی ہے
دو اشعار
کب تب ہمیں جہاں سے چھپاو ¿گے دوستو
سورج پہ پردہ ڈال نہ پاو ¿گے دوستو
ہم نے تو خوب اپنی نبھائی ہے دوستی
اب یہ سنا ہے تم بھی نبھاو ¿گے دوستو
قطعہ
مل نہ پائے گا تجھے بات بڑھاتا کیوںہے
چاند کی سمت یہ تو ہاتھ بڑھاتا کیوںہے
وہ مسافر کسی منزل پہ اتر جائے گا
بے سبب اس سے ملاقات بڑھاتا کیوں ہے
قطعہ
بہت دشوار ہے مانا بلندی پر پہنچ جانا
مگر اس سے بھی مشکل ہے بلندی پر ٹھہر پانا
تقاضہ کرتی رہتی ہے یہی مے کامیابی کی
مسلسل پی کے بھی ہر دم بھرا رکھنا ہے پیمانہ
کہی کہنے والے نے ہر بات سچی
مگر سچ کی تشریح سب نے الگ کی
میں سچ میں سے سچ ڈھونڈتا پھر رہا ہوں
مری جستجو یوں ۳۷ میں بھٹکی
جو مدت بعد پیشِ آئنہ ہوں
میں اپنے آپ سے کافی جدا ہوں
میں شیشے کا بیاں جھٹلاو ¿ں کیسے
اِدھر میں ہوں، اُدھر سایہ دِکھا ہوں
حمدکا ایک شعر
تم آنکھ موند لو گے، وہ دیکھتا رہے گا
مانو اسے نہ مانو وہ تو خدا رہے گا
ایک پل دوری کا احساس نہیں ہوتا ہے
کیا کہوں کب وہ مرے پاس نہیں ہوتا ہے
ہائے کمبخت محبت کے گنہگار ہیں ہم
پھر کوئی زخم نیا کھانے کو تیار ہیں ہم
زندگی کا ثبوت دو یارو
کیوں ہے سنّاٹا کچھ کہو یارو
آج پھر اس کے کوچے کو نکلے جس کے جیسا کوئی بھی نہیں ہے
مدتیں ہو گئیں اس کو دیکھے یار کیا اب بھی اتنا حسیں ہے
نفرت کی آندھیوں نے دئےے جب بجھا دئے
الفت نے راستے میں ستارے بچھا دئے
مطلع جو ۲۲اپریل کو خواب میں وارد ہوا
کام کوئی اگر نہ کر پاو ¿
اچھی باتیں ہی بولتے جاو ¿
اس سے قبل ایک دو غزلہ، قطع اور اشعار بھی خواب میں
وارد ہو چکے ہیں جنھیں فیس بک پر شیئر کرچکا ہوں
دسترس میں سب کچھ ہے پھر یہ شعبدہ کیوں ہے
ہاتھ کی لکیروں میں خود کو ڈھنڈتا کیوں ہے
عاصی ہوں مگر پھر بھی خدا کا ہے سہارا
بھٹکا جو کبھی تو مجھے منزل نے پکارا
دو اشعار
ہم کو سوا ضمیر کوئی محترم نہیں
خود کو جواب دہ ہیں زمانے کو ہم نہیں
مطلوب اس زمانے کا جود و کرم نہیں
ہم کو یہی بہت ہے کہ سر اپنا خم نہیں
خودنوشت
مسلم سلیم۔کیا بودوباش پوچھو ہو
اصل نام اور تخلص مسلم سلیم ہے۔والدین:والدمحترم ڈاکٹر سلیم واحد سلیم اپنے وقت کے خوش گو شاعر تھے اور نقوش، ادبِ لطیف و دیگر معتبر جرائد میں۲۴۹۱ سے ۰۷۹۱ تک بکثرت اور باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔ ابھی چند برس پہلے لاہور یونی ورسٹی میں ان پر تحقیق بھی ہوئی۔ آپ مشہور اردو نقاّد اور ماہر اقبالیات و غالب خلیفہ عبدالحکیم کے بھتیجے تھے۔ علی گڑھ طبّیہ کالج کے تاسیسی پرنسپل عطاءاﷲ بٹ والدصاحب کے پھوپھا تھے۔ والدہ محترمہ امِّ حبیبہ صاحبہ سےّد عبدالباقی صاحب کی پوتی تھیں جو محمدن انگلو اورئینٹل کالج (اب علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی) کے پہلے پانچ طلبہ مین شامل تھے اور فارغ
التحص یل ہو کر وہیں برسر ( bursar) کے عہدے پر تا عمر فائز رہے۔میرے جدامجدجناب رمضان ڈار صاحب ۰۰۲200 برس قبل سری نگر، کشمیر سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم تقسیم کے بعد لاہور چلے گئے اور وہیں انتقال ہوا۔
پیدائش و تعلیم :ضلع ہردوئی کے قصبہ شاہ آباد میں تولد ہوا۔ نومبر کی پہلی تاریخ تھی اور سن تھا 1950۔ لیکن بچپن سے لیکر بی اے آنرز کی تعلیم تک کا عرصہ علی گڑھ ہی میں گذرا۔ پانچو یں تک تعلیم علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سٹی برانچ اسکول، دسو یں تک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سٹی ہائی اسکول اور پھرعلی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہی سے بی آنرز (سیاسیات) کرنے کے بعد الہٰ آباد یونی ورسٹی سے ایم اے (عربی) پاس کیا۔
کیرئر: 1979 میں بھاسکر گروپ آف نیوز پیپرز کے اردو اخبار آفتاب جدید ©بھوپال سے کیرئر کا آغاز کیا۔ ۶۸۹۱ میں اسی گروپ کے انگر یزی اخبار نیشنل میل سے منسلک ہوا۔ 2000ءمیں بھاسکر ہندی میں نیوز کوآرڈینیٹر بنا۔ 2003ءمیں انگر یزی اخبار نیوز ایکسپریس میں چیف سب ایڈےٹر کا عہدہ سنبھالا۔2004 سے2008 تک انگر یزی اخبار سینٹرل کرونیکل میں بیورو چیف ،2012 تک ہندوستان ٹائمس میںور 2014 تک نظامتِ رابطہ ¿ِ عامہ، حکومتِ مدھیہ پردیش میں مصروفِ کار رہا۔ اس طرح میں نے کث یر لسانی صحافی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
پہلی تخلیق: پہلی تخلیق ایک غزل تھی۔ یہ غزل میں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی آرٹس فیکلٹی ہال میں منعقدہ ایک مشاعرے میں
1971 ءمیں پڑھی جس پر خلیل الرّحمٰن اعظمی و دیگر سامعین نے بے ساختہ اور بھرپور داد دی تھی۔اگست 2010 ءمیں آخری بار جب میں علی گڑھ گیا تھا تو دیرینہ احباب نے مجھے دیکھتے ہی یہ اشعار مجھے سنائے۔ ان میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی بھی شامل ہیں۔ غزل کچھ اس طرح تھی ۔
ہر خواہش کب کس کی پوری ہوتی ہے ۔۔۔ ہوتی ہے پر تھوڑی تھوڑی ہوتی ہے
ان کے میل کو ان کے گھر جاکر دیکھو ۔۔۔ باہر جن کی چادر اجلی ہوتی ہے
میں بازار سے کافی پردے لایا ہوں ۔۔۔ اب دیکھوں کیسے رسوائی ہوتی ہے
آخر الذکر شعر حاصلِ مشاعرہ ثابت ہوا۔ پہلی غزل ماہنامہ شاعر، بمبئی کے جون۔جولائی 1979 ء کے شمارے میں شائع ہوئی جسکے دو اشعار پیش ہیں
جب ہم نے زندگی کی گنیں راحتیں تمام ۔۔۔ لمحات میں سمٹ سی گئیں مدّتیں تمام
وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے ۔۔۔۔ حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑ یں تمام
پہلا افسانہ: ۱۷۹۱ ءمیں پہلا افسانہ ’ننگی سڑک پر‘ قلمبند کیا۔ اسی سال اس افسانے کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شارٹ اسٹوری کمپٹیشن میں انعام سے نوازا گیا۔ انعامات کی تقسیم عصمت چغتائی کے دستِ مبارک سے عمل میں آئی تھی۔بعد میں یہی افسانہ ’روشن‘ (بدایوں) کے جولائی۔اگست ۱۷۹۱ءکے شمارہ میں شائع ہوا۔
تصنیفات و تالیفات: میرا مجموعہ کلام ”آمد آمد“ مدھیہ پvش اردو اکادیمی نے نومبر 2010 کو شائع کیا ہے۔ تخلیقات ہندوپاک رسائل میں شائع ہو چکی ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی پڑھا ہے۔آل انڈیا ریڈیو کی اردو مجلس نے میرا افسانہ ’سُکھ کی نیند‘ ۴۱ جولائی ۹۷۹۱ ءکو ’کرن‘ پروگرام کے تحت نشر کیا۔ میری تخلیقات متعدد رسائل اور اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں جن میں مندرجہ ذ یل خاص ہیں۔
۱۔ شاعر (بمبئی)، ۲۔ نیا دور (لکھنﺅ)،۳۔ ہماری زبان (دہلی)،۴۔ روشن (بدایوں)،۵۔ روشی (میرٹھ)، ۶۔آفتاب جدید (بھوپال)، ۷۔ ایاز (بھوپال)، ۸۔ کاوش جدید ( کانپور)، ۹۔اندازے (الہٰ آباد)، ۰۱۔ اردو ایکشن(بھوپال)، ۱۱۔ندیم، ۲۱۔عصری ادب (دہلی)، ۳۱۔ شگوفہ (حیدرآباد)، ۴۱۔ مادری زبان (الٰہ آباد)، ۵۱۔ آغاز (کراچی)، ۶۱ آہنگ (گیا)۔
غزل یونیورسٹی نصاب میں شامل
۶۱۰۲ءسے مسلم سلیم کی ایک کی غزل پاکستان کی گجرات یونیورسٹی کے بی۔اے۔سکنڈ سیمسٹر کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ اس سٹدی سیگمنٹ میں 14 شعرا ءشامل ہیں جن میں ولی دکنی، خواجہ میر درد، میر تقی میر، آتش، غالب، حالی، علامہ اقبال ، حسرت موہانی، ناصر کاظمی، فیض احمد فیض، منیر نیازی، احمد فراز ، مرزا داغ اور مسلم سلیم کا کلام شامل کیا گیا ہے۔دیکھیں
http://khojkhabarnews.com/
2017/02/12/muslim-s
aleems-ghazal-included-in-syllabus-of-gujrat-university/
فکرِ نو ، لاہور میں گوشہ: فکرِ نو ، لاہور نے اپنے اپریل ۴۱۰۲ کے شمارے میں مسلم سلیم پر۹ صفحات کا گوشہ صفحہ۴۶ سے ۳۷ تک شایع کیا۔ جسے مندرجہ ذیل لنک
پر انٹر نیٹ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
http://masoodtanha.blogspot.in
fikr-e-nau-issue-april-2014lahorepak.html
تحقیقی مقالہ جی۔سی۔ یونی ورسٹی، لاہور
مسلم سلیم پر تحقیقی مقالہ جی۔سی۔ یونی ورسٹی، لاہور میں جنوری ۹۱۰۲ میںپیش کر دیا گیا ہے۔پروفیسر عائشہ سلیم کی زیرِ نگرانی ”مسلم سلیم کے محموعہ آمد آمد کاتجزیاتی مطالعہ“ عنوان سے یہ تخقیقی اور تجزیاتی مقالہ ریسرچ اسکالر محترمہ اقرا ریاست نے مرتب کیا ہے۔مقالہ کو۴ ابواب پر منقسم کیا گیا ہے جن میں ۱
حالاتِ زندگی۲۔۷۴۹۱ کے بعد شاعری کی روایت ۳ مسلم سلیم کے محموعہ آمد آمد کافکری مطالعہ اور ۴ مسلم سلیم کے محموعہ آمد آمد کافنّی مطالعہ شامل ہیں۔ پیش لفظ میں ریسرچ اسکالر اقرا ریاست نے بتایا کہ انھوں نے مسلم سلیم کا انتخاب انٹرنیٹ پر موجود انکے اعلی کلام اور کارناموں کے مدنظر کیا جبکہ وہ مسلم سلیم سےذاتی طور پر ناواقف تھیں۔اس میں نگراں پروفیسر عائشہ سلیم نے اہم رہمنائی فرمائی۔اسکالر نے لکھا ہے کہ © ©”مسلم سلیم انٹرنیٹ کے ذریعہ دنیا کے مختلف حصوں میں ایک باکمال شاعر کے طور پر پہچانے جا رہے ہیں۔جہاں تک مسلم سلیم کی فکری اپج کا تعلق ہے تو ان کے یہاں تمام تر شعبہ ہائے زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔محبت، غم، حسرت و امید، کائنات کے مسائل سے لیکر جدید دور اور اس میں ہونے والی سائنسی ایجادات اور جدید ٹیکنولوجی کا بڑی چابک دستی اور خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔اسی طرح فنی اعتبار سے بھی یہ مجموعہ اعلی شعری معیار کا حامل ہے۔ ریسرچ اسکالر کے مطابق مسلم کی شاعری میں مغربی مفکرین اور شعر و سخن کے مطالعہ کی جھلک نمایاں ہے۔ الفاظ و تراکیب، روزمرہ، محاورات، قافیہ اور دیف کا بر محل استعمال غزل میں شاعر کے اعلیٰ فنکار ہونے کی دلیل ہے۔ ان کے پاس سستی جذباتیت کے لےے کوئی جگہ نہیں ہے۔اسکالر کے مطابق اس تحقیقی مقالے کا مقصددنیا کے منفرد شاعر مسلم سلم کی کاوشوں کا منظرِ عام پر لانا ہے تاکہ مستقبل قریب میں ادب کے طالب علم اس سے استفادہ کر سکیں۔
کلیات سلیم واحد سلیم: میرے والد والدمحترم ڈاکٹر سلیم واحد سلیم اپنے وقت کے خوش گو شاعر تھے اور نقوش، ادبِ لطےف و دےگر معتبر جرائد میں1942 سے
1980تک بکثرت اور باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔ ابھی چند برس پہلے لاہور یونی ورسٹی میں ان پر تحقےق بھی ہوئی۔آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ”خیامِ نو“ ہے جو عمر خیام کی ۴۷۱ ربائیوں کا منظوم ترجمہ ہے جسے عمر خیام کے اردو تراجم میں بہترین تسلیم کیا گیا ہے میں نے ان کی تمامتر اردو اور فارسی تخلیقات کو کلیات سلیم واح سلیم “ کے عنوان سے مرتب کیا اور ۲۳۴ صفحات پر مرتب یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغِ اردو،دہلی نے 2014 میں شایع کی۔ اس کا پیش لفظ بھی میں نے ہی تحریر کیا ہے۔
ایمان ایف ایم، برطانیہ پر اورڈی ڈی اردوپر لائیو انٹرویو: ایمان ایف ایم ریڈیو برطانیہ (Iman FM, Shefied, Britain) پرایک گھنٹے کا لائیو انٹرویو نشر ہوا جو موبائل فون کے ذریعے انیکر محترمہ کوثر شاہ نے لیا۔ اسی طرح ڈی ڈی اردو پر مسلم سلیم کی شاعری، حیات اور خیالات پر آدھے گھنٹے کا پروگرام نشر ہوا۔یہ دونوںنشریے ”یو ٹیوب“ پر موجود ہیں۔
بی بی سی پر انٹرویو: یکم مارچ 1982ء کو جناب رضا علی عابدی لندن سے ؛بھوپال تشریف لائے۔ یہاں سیفیہ کالج میں انھوں نے میرے علاوہ پروفےسرعبدالقوی دسنوی، پروفےسر حامد جعفری، مرتضیٰ علی شاد ، محمد نعمان خاں اور جناب خالد عابدی کے انٹر ویو لئے جو بعد میں بی بی سی کی اردو سروس سے نشر کئے گئے۔
ریڈیوآزادہندبھوپال پرانٹرویو
۲نومبر ۷۱۰۲ کو ریڈیوآزادہندبھوپال پرجناب رئیس حسن نے مسلم سلیم کی حیات اور شاعری پر ۵۴منٹ کا انٹرویوریکارڈ کیا۔
پنج ریڈیو امریکہ سے کلام نشر کیا گیا
مسلم سلیم کا کلام۵۲ جنوری ۹۱۰۲ کو رات ساڑھے نو بجے سے پنج ریڈیو امریکہ سے نشر کیا گیا جسے ۶۲۱ ملکوں میں سنا گیا۔مسلم سلیم کے جن اشعار کو خصوصی توجہ کے ساتھ داد و تحسین سے نوازا گیا ان میں یہ دو اشعار شامل ہیں۔ ”دیو قامت وہ شجر جب تیز آندھی میں گرا۔۔۔پستہ قد جتنے تھے پودے سب قدآور ہو گئے “ اور وہ دیکھنے میں ا ب بھی تناور درخت ہے ۔۔۔حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام“۔ پیش کش اور نظامت محترمہ ڈی۔جے۔الماس شبی نے فرمائی۔مشاعرے میں جناب افتخار عارف، اسلام آباد ، محترمہ حمیدہ شاہین ۔لاہور، محبوب ظفر۔اسلام آباد، ایوب خاور۔لاہور، اقبال طارق۔بحرین، فہیم شناس۔لاہور، جاوید مشیری۔دہلی، حکیم ارشد شہزاد۔ شکرگڑھ، حنا رضوی حیدر۔لکھنو ¿، عرفان اعظمی۔دہلی، انس فیضی۔دہلی، فرح کامران۔نیو جرسی، فرحت ندیم۔نیو یارک، شاہین کاظمی۔سوئٹزرلینڈ، سلمان باسط،مشی گن ، یو ایس اے، شاہدہ معصوم۔کناڈا وغیرہم نے بھی ریڈیو سامعین کو اپنے بہترین کلام سے نوازا۔
مسلم سلیم پر فلم
مسلم سلیم کی حیات اور فن دو ڈاکیومنٹری فلمیںیوٹیوب پر اپلوڈ کی گئی ہیں۔آدھے آدھے گھنٹے کی یہ ڈاکیومینٹری فلمیں ”تاب ؛پروڈکشنز،ممبئی “ کے پرچم تلے ناگپور کے شاعر، ادیب، عالمی ڈائکٹری ”نکھار“ کے خالق جناب اظہر بخش اظہرنے کی ہدایت کاری میں شوٹ کی گئی ہیں۔
انڈین مسلم لیجنڈس : علادہ ازیں ویب سائٹ ((Indian Muslim Legends نے بھی مسلم سلیم کو صفحہ ۶34 پر شامل کیا ہے۔ اس ڈائرکٹری میں ہر میدان کی عظیم مسلم شخضیات کو شامل کی گیا ہے۔
دنیا کے 35 شعراءکے مسلم سلیم کو59 شعری نذرانے: فیس بک پر دنیا کے کونے کونے سے شعراءنے مسلم سلیم کی شاعری اور خدمات پر ۷۲ شعراءنے ۰۵ سے زیادہ شعری نذرانے پیش کیے ہیں جن میں جناب تنویر پھول (نیویارک)، اوےس جفری، واشنگٹن، فیصل نواز (لندن)، ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، دہلی ، ندیم اختر ندیم مانگناوی، لندن، انگلینڈ، احمد علی خاں (ریاض، سعودی عربیہ)ِ طارق محی الدین، پٹنہ، بہار، انڈیا، محمدصبغت اﷲعارفی(ممبئی۔انڈیا)، سلمان صدےق، سیالکوٹ
پاکستان، ضیا شہزاد (کراچی)، کامل جنیٹوی، چندوسی انڈیا، ناصر فیروزآبادی، ضیاءشادانی، مرادآباد، اسماعیل عثمانی نظرالٰہ آباد یونیورسٹی الٰہ آباد، شوق انصاری، پاکستان، زرینہ خاں، رامپور، ذہینہ صدیقی ، دہلی، حارث بلال ، سرگودھا، پاکستان، مجید تاج بلوچ، بلوچستان، پاکستان، اوّل سنگرام پوری، جدہ، سعودی عربیہ، اقبال قریشی، ہزرو ، پنجاب ، پاکستان ، بابر شاہ رحمٰن، میانوالی، پاکستان، بابر امام، پھلیا، پاکستان، خورشید الحسن نیر (سعودی عربیہ)، ) محمد علیم اﷲ خاں وقار صاحب
(سہارنپور، اتر پردیش، انڈیا) سعود صدیقی، کراچی،نثار احمد خاں، اوکارا، پاکستان پروفیسر ضیاءرومانی، کرناٹک ، بھارت وغیرہم شامل ہیں۔ یہ سب منظوم نذرانے فیس بک پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
انڈو-کویت فرینڈشپ سوسائٹی نے مسلم سلیم کو سرپرست مقرر کیا : انھیں خدمات اور خصوصیات کے نتیجے میں انڈو-کویت فرینڈشپ سوسائٹی نے مسلم سلیم کو سرپرست مقرر کیا ہے جس کے دیگر سرپرستوں محترمہ کرن بیدی، گجرات کے سابق پولیس ڈائریکٹر جنرل مسٹر شری کمار، کیرل کے سابقوزیر مسٹر ایم کے منیر، شہرہ آفاق طبلہ-نواز رمپا شیوا اور دیگر نامور شخص بھی شامل ہیں
اعزاز: 1971 میں افسانہ ’ننگی سڑک پر‘ پر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میںعصمت چغتائی کے ہاتھوں انعام واعزاز۔۔1983 ءمیں یاد باسط طرحی مشاعرے میں اوّل انعام اور اعزاز۔ 2012 عالمی امن ایوارڈ۔ رائٹرس ویلفیر سوسائیٹی، بھوپال
جشنِ مسلم سلیم: مسلم سلیم کی خدمات کے اعتراف میں اردو یوتھ فورم بھوپال کی جانب سے عظیم الشان جلسہ بنام جشنِ مسلم سلیم اردو اکادیمی بھوپال میں اتوار 30 دسمبر 2012 کو منعقد ہوا۔ جشن کی صدارت مشہور شاعر جناب احمد علی برقی اعظمی، دہلی نے فرمائی جبکہ پروفےسر آفاق احمدمہمانِ خصوصی تھے۔ اس موقعہ پر مدھیہ پردےش ار دو اکادیمی کے صدر جناب سلیم قرےشی پر بھی ڈائس پر موجود تھے۔ جشن میں بزرگ اور محترم شاعروں اور نقادوں ڈاکٹر قاسمنیازی اورجناب ظفر نسیمی نے مسلم سلیم کی حیات و فن پر س یر حاصل مقالات پڑھے ۔ اپنے مقالے میں ڈاکٹر قاسم نیازی نے مسلم سلیم کو اردو کے بڑے شاعروں میں شمار کیا۔ قابلِ احترام شاعر اور نقاد جناب ظفر نسیمی نے مسلم سلیم کے متعدد اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے انھیں عصرِ حاضر کا ایک بے حد منفرد اور نایاب شاعر قرار دیا۔ جناب ظفر نسیمی نے کہا کہ مسلم سلیم کے شعری مجموعہ ’آمد آمد‘ کے زیادہ تر اشعار اردو شاعری میں اضافہ ہیں۔
مسلم سلیم کا کمال یہ ہے یہ وہ صرف دو مصرعوں میں گویا ایک داستان بیان کردیتے ہیں۔ پروفےسر آفاق احمد نے بھی مسلم سلیم کو دور حاضر کا ایک منفرد اور صاحبِ طرز شاعر قرار دیا۔ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے کہا کہ مسلم سلیم ایک اعلی شاعر اور ادیب ہی نہیں ، ایک عظیم خادم ِ اردو بھی ہیں جنھوں نے اپنی ویب ساےٹس کے ذریعے متعدد شاعروں اور ادیبوں کو گوشہ ¾ِ گمنامی سے نکال کر شہرت کی راہ پر گامزن کیا ہے جنمیں وہ خود بھی شامل ہیں۔
عظیم شعراءکی بین الاقوامی ڈائریکٹری میں مسلم سلیم کی شمولیت : ہم سخن ادبی تنظیم نے عظیم شعراءکی بین الاقوامی ڈائریکٹری © ©”نکھار“ میں مسلم سلیم کی شمولیت ایک اہم امر ہے۔ مسلم سلیم کے علاوہ جن شعراءاور ادبا کو ڈائریکٹری میں جگہ دی گئی ہے ان میں حضرت امیر خسرو، قلی قطب شاہ، ولی دکنی، میر تقی میر، غالب، نظیر اکبر آبادی، ذوق، بہادر شاہ ظفر، مومن، داغ، اکبر الہ آبادی، مرزا دبیر، میر انیس، اقبال، فراق، جگر، فیض، سردار جعفری، جاں نثار اختر، شکیل بدایونی، کیفی اعظمی، مجروح، خمار، ساحر لدھیانوی، احمد فراز، ابنِ انشا، گلزار، بشیر بدر، ندا فاضلی، محبوب راہی، مظفرققق حنفی، جاوید اختر، مدحت الا ختر، راحت اندوری، منور رانا، اظہر بخش اظہر، پروین شاکر اور مجتبیٰ حسین کے اسماءگرامی شامل ہیں۔ مسلم سلیم کا تذکرہ صفحہ ۴۸ پر ہے جس میں انگریزی میں انکا تعارف اور کلام دیوناگری میں دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی ڈائریکٹری © ©”نکھار“ ناگپور کے معروف
قلمکار اظہر بخش اظہر کی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ بین الاقوامی ڈائریکٹر کے ساتھ ساتھ یہ اردو۔ہندی کی آسان لغت بھی ہے جس میں ایک طویل گوشہ میں آل ۔ٹائم عظیم شعراءاور ادباءکا تعارف اور تخلیقات بھی پیش کی گئی ہیں۔
ماہنامہ شاعرممبئی کا مسلم سلیم گوشہ: ہندوستان کے موقرادبی رسالہ شاعر نے اپنے جولائی 2017 کے شمارہ میں مسلم سلیم پر 35 صفحات کا گوشہ شایع کیا ہے۔ اس میں مسلم سلیم کے تعارف کے علاوہ رسالے کے مدیر جناب افتخار امام صدیقی سے مکالماتی انٹروو اور دس قلمکاروں کے مسلم سلیم کی زندگی اورفن پر مضامیں ہیں۔ساتھ ہی دنیا کے35 شاعروں کے مسلم سلیم کو پیش کردہ منظوم نذرانے(منتخب) اور مسلم سلیم کی دو غزلوںپر منظوم اور منثور تبصرے بھی شامل کےے گئے ہیں۔ مسلم سلیم کی خود نوشت سوانح حیات نے گوشہ کے حسن میں چار چاند لگا دےے ہیں۔
رسالہ ادبی کرن کا مسلم سلم نمبر: بھوپال کے رسالے ادبی کرن نے مسلم سلیم کی زندگی اور فن پر خصوصی شمارہ 2011 ءمیں شایع کیا۔ اسکا اجراءمدھیہ پردےش کے وزےرِثقافت جناب لکشمی کانت شرما نے کیا۔ پروفےسر آفاق احمد، رسالہ کے م دیر جناب یونس مخمور، کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام کے م دیر عطاءاﷲ فیضان و دےگر حضرات اس موقع پر موجود تھے۔
۔
ڈاکٹر شہزاد رضوی، واشنگٹن نے مسلم سلیم کی7 غزلوں کا ترجمہ کیا: ڈاکٹر شہزاد رضوی، واشنگٹن کا تعلق مدھیہ پردیش سے ہے جو بھوپال کے ہے.حمیدیہ کالج اور سیہور میں لیکچرر تھے اور اب واشنگٹن میں ہیں. وہ انگریزی اور اردو کے نامور مصنف ہیں. ڈاکٹر شہزاد رضوی، واشنگٹن نے مسلم سلیمکی۷ غزلوں کا ترجمہ انگریزی میں کیا ہے۔
ویب سائٹس اور اردو شعراءا داباءکی ”آن لائن “ ڈائریکٹریز: میں نے جنوری 2010 میں ویب سائٹ کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام
(khojkhabarnews.com) کا آغاز کیا۔اسکے بعد میں نے ۶۱ دےگر بلاگس پر اردو شعراءو ادبائسے متعلق 30 شہروں ، صوبوں اور ملکوں کی وئب دائریکٹرےز بنائی ہیں ۔ ان ڈائریکٹریز میں اردو شعرا و ادبا کا با تصو یر تعارف اردو اور انگر یزی میں پیش کیا گیا ہے۔ ۔
1. Urdu poets and writers of India
2. Urdu poets and writers of World
3. Urdu poets and writers of Madhya Pradesh
4. Urdu poets and writers of Pakistan
5. Urdu poets and writers of Allahabad
. Urdu poets and writers of Agra
. Urdu poets and writers of Shahjahanpur
8. Urdu poets and writers of UP by Muslim Saleem
9. Urdu poets and writers of Canada
10. Urdu poets and writers of Jammu-Kashmir
11. Urdu poets and writers of Gujarat
12. Urdu poets and writers of Hyderabad
13. Urdu poets and writers of Karnataka
14. Urdu poets and writers of Maharasthra
15.. Urdu poets and writers of Rajasthan
16.. Urdu poets and writers of Tamil Nadu
17. Urdu poets and writers of Aurangabad
18. Urdu poets and writers of West Bengal
19. Urdu poets and writers of India Part-1I
20. Urdu poets and writers of World Part II
21. Female Urdu Poets and Writers
22. Hindu Naatgo Shuara
23. Urdu poets and wrirters of Pakistan
24. Urdu Poets and writers of Bihar
25. Urdu Poets and writers of Burhanpur
یہ آن اردو ڈائریکٹرےز میں مندرجہ ذ یل بلاگس میں موجودہیں۔
www.khojkhabarnews.com
www.muslimsaleem.wordpress.com
www.urdunewsblog.wordpress.com
www.muslimsaleem.blogspot.in
www.poetswritersofurdu.blogspot.in
www.urduyouthforum.wordpress.com
www.khojkhabarnews.wordpress.com
www.muslimspoety.blogspot.in
www.ataullahfaizan.blogspot.in
www.abdulahadfarhan.blogspot.in
www.hamaramp.blogspot.in
www.madhyanews.blogspot.in
www.urdupoetswriters.blogspot.in/
www.cimirror.blogspot.in
www.saleemwahid.blogspot.in
مجلّہِ بھوپال ©: محترم افتخار جل یل شوق بھوپال سے پاکستان جا بسے ہیں۔ 92ءمیں بھوپال تشرےف لائے اور یہاں کے تمام مشہور شعرائ، ادباءاور نامور ہستیوں کی تخلیقات و تصاویر پر مبنی یہ مجلّہ کراچی سے شائع کیا۔ اس میں میری دو تصاویر کے ساتھ ساتھ صفحات 150 اور 151 پر غزل یں، صفحات 185 ۔184۔183 پر تعارف اور صفحہ 187 پر یادِباسط طرحی مشاعرے میں اوّل انعام کا مستحق قرار پانے والی غزل سے متعلق اخبار کا تراشہ بھی شائع کیا۔ عربی زبان وادب کا کل ہند سے مینار: مارچ ۲۸۹۱ءکو سےفیہ کالج میں عربی زبان و ادب کا کل ہند سے مینار منعقد ہوا جس کا میں کنوینر تھا۔ اس سے مینار میں احمد سعید ندوی، پرنسپل شکور خاں، پروفیسر عبدالحلیم ندوی (حیدرآباد)، ڈاکٹرامجد علی (علی گڑھ) اور پرفیسر محمد عق یل (بھوپال ) نے شرکت فرمائی۔
قتیل شفائی کے ساتھ مشاعرہ میں شرکت: ۳۸۹۱ءمیں ہفتہ وار ’ایاز‘ کے دس برس مکمل ہونے پر ایک ہندوپاک مشاعرے کاانعقاد اقبال میدان پر کیا گیا۔ اس مشاعرے میں جنا ب اٹل بہاری واجپئی اور قتیل شفائی کے ساتھ میں نے بھی کلام پڑھا۔ بعد میں عصرانہ پر واجپئی صاحب میرے بالکل سامنے والی کرسی پر اور قت یل شفائی ساتھ والی کرسی پر تشرےف فرما تھے۔ قتیل شفائی صاحب کو جب یہ پتہ چلا کہ میں ان کے دوست ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کافرزند ہوں توبھوپال کے قیام کے دوران انھوں نے مجھے ساتھ ساتھ رکھا اور بہت شفقت سے پیش آئے۔
ایاز ڈائری : ۳۸۹۱ءہی میں ایاز ڈائری کا اجراءعمل میں آیا جسکی ترتیب اور اشاعت میں میرا اہم کردار رہا۔ اس ڈائری کے ہر صفحہ پر اردو اور ہندی کے کسی نہ کسی مشہور شاعر کاشعر درج ہے۔ میرے اشعار بھی ہیں۔ اردو اشعار کا ہندی ٹرانس لٹرےشن میں نے ہی کیا تھا۔
اختر سیعد خاں سے ٹی وی انٹرویو: مجھے بھوپال دور درشن کے اردو پروگرام میں شانِ بھوپال اختر سعید خاں صاحب سے انٹردیو لینے کا بھی شرف حاصل ہوا۔
مجروح سلطان پوری سے انٹرویو: مجروح سلطان پوری کے۱۸۹۱ میں قیام بھوپال کے دوران تفصیلی گفتگو ہوئی جسے انٹرویو کی شکل میں روزنامہ آفتاب جدید میں شائع کیا۔انٹرویو پر اخبار میں کئی دنوں بحث چلی جو میرے ہی مضمون کے ساتھ اختتام پر پہنچی۔
یادِ باسط طرحی مشاعرے میں اوّل: یادِ باسط طرحی مشاعرے کا انعقاد ۲۸۹۱ میں آچاریہ نریندر دیو ہال بھوپال میں کیا گیا تھا جس میں اس وقت کےسبھی نامور شعراءنے شرکت کی تھی۔اس میں ایک ۵ اشعار کی غزل میں نے بھی پڑھی تھی۔ اس وقت تک میری شعری صلاح یت سے کم ہی لوگ واقف تھے۔ بہر حال جب میں نے یہ شعر پڑھا
کر دی میراث وارثوں کے سپرد ….۔۔۔ زندگی کس کے نام کر جائیں
تو سارا ہال نعرہ ہائے تحسین سے گونج اٹھا۔ اختر سعید خاںصاحب کی آواز سب سے بلند رہی۔یہی نہیں بلکہ ہر مرتبہ داد دینے پر وہ اپنی جگہ سے آگے کھسکتے جاتے تھے۔ اب جب کسی شعر پر اختر سعید خاں جیسی قد آور شخصیت جھوم جائے تو اس تخلیق کو اوّل تو ٹھہرنا ہی تھا، اور ہوا بھی یہی۔
اردو لکھنا خود سیکھئے: میں نے یہ کالم آفتاب جدید میں شروع کیا تھا جسکی کتابت بھی میں خود ہی کرتا تھا۔ یہ کافی افادی ثابت ہوا۔ بعد میں کچھ حضرات نے اسی طریقے کی بنیاد پر کتاب یں بھی لکھ ڈالیں اور نام اور پیسہ کمایا۔
مسلم سلیم, ۰۸۲، خانوں گاو ¿ں، وی آئی پی روڈ، بھوپال۔ ۱۰۰۲۶۴
موبائل : 9009217456, 9893611323
ای میل: : saleemmuslim@gmail.com
دہشت گردی کے خلاف نمایاں شعری آواز: مسلم سلیم
تحریر احد پرکاش، بھوپال
شاعر کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے۔ وہ اپنے ملک سے، اپنی قوم سے سچا پیار کرتا ہے۔ آج جس طرح کی دہشت گردی اور لا قانونیت ہم ملک ہی نہیں بلکہ تمام دنیا میں دیکھ رہے ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں اور اسے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے، یہ سوالات شاعر کے دماغ میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ مسلم سلیم ایسے ہی روشن دماغ، دانشور اور بیباک شاعر ہیں ۔ ان کا قلم صرف روشنائی نہیں چھوڑتا بلکہ وہ اپنے افکار سے تمام دنیا کو جگمانے کی قوت بھی رکھتا ہے ۔ ان کی یہی کوشش رہتی ہے کہ قاری
ور سامع کے دماغ کو اعلی افکار کی روشنی دو اور اندھیرے کی چادر کو چیر دو۔آج کی دنیا میں جو دہشت گردی کی سوچ بنی ہے اسے ہم دانش ور کس طرح ختم کری، اس کے مشورے بھی ان کے اشعار میں ہمیں مل جاتے ہیں۔ان کی شاعری میں جگہ جگہ انسانیت اور محبت کا درس ملتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جو اشعار وہ لکھتے ہیں ان میں وہ اس کو نیز لاقانونیت کو اس ملک کے لےے زبردست خطرہ سے تعبیر کرتے ہوئے نہایت نقصان دہ بتاتے ہیں۔ وہ صاف صاف الفاظ میں سارے ایشیا کے مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہیں ©۔
جہادِ زندگی لازم ہے مسلم جان لو لیکن……….۔۔ملے گی کامیابی صرف آقا کے قرینے سے
اسلام کو انھوں نے امن اورآشتی کا مذہب بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔
ہر طرف یہ پیام دینا ہے ……۔۔ امن کا اذنِ عام دینا ہے
میرے نزدیک مقصدِ اسلام ………۔۔ رحمتوں کا نظام دینا ہے
پیغام یہ ہے کہ شاعر دنیا کے تمام مسلمان نوجوانوں کو دہشت گردی اور تشدد کی راہ چھوڑ کر امن و آشتی کی طرف بلا رہا ہے۔یہاں تک کہ انھوں نے نعت اور حمد کےاشعار میں بھی امن و آشتی کا پیغام دیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جذبات کا اظہار کیا ہے۔
ہاں جنگ کے میدان میں اترا تو ہے مسلم………….. مقصود مگر امن کا پیغام رہا ہے
مغربی ممالک میں جس طرح سے اسلام مخالف لآبی ( lobby ) کا رفرما ہے اور معصوم نیزبے گناہوںظلم و استبداد کررہی ہے اس کو مسلم سلیم نے ان پردر د اور پر سوز الفاظ میں اپنی نظم ”برما نظر نہیںآتا“ میں شعری پیکر دیا ہے۔
عجیب روگ لگا مغربی ممالک کو………… جو دیکھتے ہیں وہ پورا نظر نہیں آتا
دکھائی د یتا ہے سب کچھ انھیں زمانے میں………… بس ایک خطّہ ¿ِ برما نظر نہیں آتا
جہاں پہ راج ہے چنگیزی بربرےّت کا………. کسی کے دل میں بھی بدھّا نظر نہیں آتا
جہاں میں فوج کشی کے لئے انھیں لیکن…………… سوائے مسلمِ خستہ نظر نہیں آتا
دنیا کے تمام دہشت گردوں کو و ہ للکارتے ہیں اور پوری شدت کے ساتھ تشددکی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔۔
جان لیتے ہو بے گناہوں کی …………..قتل کرتے ہو آدمیت کا
ہر طرف خون، ہر طرف لاشیں ………..کیا یہی راستہ ہے جنت کا
صاف سن لو کہ یہ نہیں ہے جہاد …….یہ تو ہے کاروبار دہشت کا
پیشاور کے ایک اسکول میں جس طرح دہشت گردوں نے جس طرح چھوٹے چھوٹے بچوں کو گولیوں اور بموں سے چھلنی کر دیا تھا اس سانحہ پر بھی ان کے قلم نے اس طرح آنسو بہائے تھے اور اس کا اسلام کو شرمسار کرنے والا عمل بتا یا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں کے تارے سو گئے …………آنے والے دور کے محکم سہارے سو گئے
ان کے سر پر تھا فقط اک بے گناہی کا گناہ………… پل میں وہ معصومیت کے استعارے سو گئے
اے درندو! نام پر اسلام کے یہ کیا کیا………… سر ندامت اور غم سے ہر بشر کا جھک گیا
یہی نہیںبلکہ مسلم سلیم نے امریکہ، اسرائیل اور جہاں جہاں دہشت گردی کی فصل لہلہا رہی ہے ان کے حکمرانوں کو جبرو تشدد سے با ز رہنے کے لےے کہا ہے۔۔
برسا رہا ہے ظالم شعلوں کو آسماں سے………….. ناحق جھلس رہے ہیں شام و عراق والے
عراق اور ایران میں شیعہ۔سنی تصادم سے بھی وہ رنجیدہ ہیں اور اس بابت اپنے اشعار میں سخت فکرمند نظر آتے ہیں۔۔
کیوں پیاس بجھاتا ہے تو اپنوں کے لہو سے……………. ۔کہتا ہے مسلماں سے مسلمان زدہ دل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہشت ملتی ہے دہشت سے اور تشددسے…………. ۔۔نکال ڈالے دماغوں سے یہ سنک کوئی
ہے حق کا معرکہ کوئی بلاو ¿ مسلم کو ۔ ……….۔ کہ صاف گوئی میں اس کو نہیں جھجھک کوئی
پاکستان، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک جس طرح خانہ جنگی اور باہمی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں ان پر حساس اور قوم پرست شاعر کا دل بہت بے چین اور فکرمند نظر آتا ہے۔ یہ فکر ان کی شاعری میں نمایاں نظر آتی ہے۔وہ بنیادی طور پر امن و آشتی کے علمبردار ہیں۔ وہ کسی ”ازم“ سے وابستگی کو اچھی علامت نہیں مانتے۔ عالمِ انسانیت کو فروغ دینا اور ایک خوبصورت دنیا کا خواب دیکھنا انھیں اچھا لگتا ہے۔وہ کہتے ہیں
ابر الفت کا جب بھی نمودار ہو۔……………۔ ۔بوندا باندی نہیں موسلا دھار ہو
ساری دنیا پہ پھولوں کی بوچھار ہو ۔۔۔…………..جس طرف دیکھئے پیار ہی پیار ہو
مسلم سلیم کا سب سے بڑا وصف یہ ہے انھوں نے غزلوں میں دہشت گردی جیسے سنگلاخ موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے جو اردو شاعری میں نایاب ہے۔مثلاً
آخر حیات پائی جہنم کی آگ میں ۔………۔۔ خود کُش نے لاکھ چاہا ۔ شہادت نہیں ملی
نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت ۔….۔ دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
۔اسی کی بہترین مثال ان کی یہ نظم نما غزل ہے۔
ہو اگر عاجز تو پھر حاجت روا بنتے ہوکیوں………… کام ہے یہ تو خدا کا تم خدا بنتے ہوکیوں
درسِ رحمت بھول کر کیوں بن گئے بیدادگر……. سب کے حق میں پیکرِ جوروجفا بنتے ہوکیوں
ہر قدم کج فہمیاں ہیں، ہر قدم گمراہیاں……….. حق شناس و حق نگر اور حق نما بنتے ہو کیوں
ہو اگر مقدور رکھّو ساتھ کوئی راہبر …………را ہ گم گشتہ عزیزو! رہمنا بنتے ہوکیوں
فرض مسلم پر قیامِ امن ہے یہ جان لو………….. یوں کھلونا بے جہت جذبات کا بنتے ہوکیوں
مسلم سلیم نے اپنی شاعری کے اس رخ سے یقینا شعری برادری کے ساتھ ساتھ تمامتر قارئین اور سامعین کو جو دعوتِ فکر و عمل دی ہے وہ عدیم المثال ہی نہیں لائقِ صد ستائش بھی ہے۔
جدیدکمپیوٹر عہدکاشاعر:مسلم سلیم
تحریر۔احد پرکاش
مسلم سلیم ہمارے عہد کے اہم شاعر ہیں۔وہ جدید بھی ہیں اور کلاسک بھی۔صحافت، ادب اور آرٹ سبھی میںمسلم سلیم نمایاں ہیں۔یہ طے کرناکہ در اصل وہ ہیں کیا؟چہرہ شناس، سخن شناس، قلم کے جادوگر،صحافی، شاعر، دوست جن کی آنکھیں بولتی ہیں، خوش کلام، خوش لباس، خوش مزاج۔ ان کے بارہ میں ثروت زیدی بھوپالی کہتے ہیں۔ شعروادب کے تاج ہیں دل کے امیر ہیں…... لفظوں کی انجمن میں انیس و دبیر ہیں …….غالب نواز قوم نے اعلان کر دیا…… مسلم سلیم اردو گھرانے کے میرہیں
اردو شاعری کے ذوق و شوق کا یہ عالم ہے کہ ”نیند بھی میرے لےے عالمِ بیداری ہے“۔ عالمِ خواب میں بھی شعر کہا کرتا ہوں“۔جوشخص سوتے جاگتے شاعری میں غرق رہے اسے آپ کیا کہیں گے؟ © ©”کہیں سے دیکھو بدلتی نہیں جہاتِ وجود۔۔ہزار آئینے ہیں اورایک ذاتِ وجود“۔ آپ جب بھی ان سے ملیں گے ایک تازگی کا احساس ہوگا اور آپ کولگے گا کہ
وہ شخص دور تلک ہے سمندروں جیسا عجیب حال میں ملتا ہے دلبروں جیسا
ہیں سات رنگ مگر رکھ دئے کتابوں میں ہمارا حال ہے بالکل انھیں پروں جیسا
اور میں نے جب ان سے پوچھا۔۔۔آپ شاعری کیسے کرتے ہیں؟ تو کسی معصوم بچے کی طرح ان کا جواب تھا ”شعر ہم نہیں کہتے تتلیاں پکڑتے ہیں“۔یہ پھولوں کادیوانہ اور تتلیاں پکڑنے والا شاعربھوپال کے لےے باعثِ افتخار اور فخرکی علامت ہے کہ اس کی لکھی ہوئی غزلیں گجرات یونی ورسٹی کے نصاب میں شا مل کی گئیں ہیں۔ان کے ساتھ جن شاعروں کا پڑھایا جا رہا ہے ان میں ولیدکنی،خواجہ میر درد، میر تقی میر، آتش، غالب، علامہ اقبال، حالی، فیض احمد فیض، ناصرکاظمی، منیر نیازی، احمد فراز وغیرہ شامل ہیں۔یہ مدھیہ پردیش اور بھوپال کے لےے نہایت خوشی کی بات ہے کہ مسلم سلیم صاحب کی ادبی خدمات اور زندگی کا احاطہ کرتی ہوئی دستاویزی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں جنھیں ساری دنیا نے دیکھا اور سراہا ہے۔
مسلم سلیم آج کی ٹیکنولوجی اور انٹرنیٹ کے شاعر ہیں۔ ان کی اپنی خود کی ویب سائٹس ہیں جن کے ذریعہ وہ سمندرپار تک کے ہزاروں محبانِ اردو سے رابطہ کرتے اور اردو کی خدمت انجام دیتے ہیں۔وہ مانتے ہیں کہ اردو زبان کے توسط سے وہ ہندوستانی تہذیب اور ادب کوساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔اقصائے عالم میںجہاںجہاں اردو کی بستیاں ہیں وہاں وہیں مسلم سلیم کی ویب سائٹ کھوج خبرنیوزڈاٹ کام پر”اردو پوئٹس اینڈ رائٹرس ©“ کی ڈائرکٹریز کو دیکھا جا سکتا ہے۔آپ کی تقریباً۶۲ویب سائٹس ہیں
جن میں یہ دن رات لگے رہتے ہیں۔ پوری دنیاکے ہر چھوٹے بڑے اردو کے شاعر اورادیب سے آپ جڑے ہیں اوربے لوث خدمت گار کی طرح مصروفِ عمل ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ آپکے چاہنے اور پیار کرنے والے ساری دنیا میںپھیلے ہوئے ہیں۔ان کی زندگی اور فن پر مشہورِعالم ادبی جریدہ ”شاعر“، ممبئی نے جو خاص نمبر شائع کیا ہے وہ انتہائی شاندار، قابلِ تعریف اور شیلف میں سجانے کے لائق مانا گیا ہے۔
نئی نسل کے ہردل عزیز شاعربدر واسطی نے اپنے مضمون میںانھیں البیلے خیال کا شاعر کہا ہے۔وہ لکھتے ہیں ©”مسلم سلیم البیلے خیال کے شاعر ہیں۔ان کے لہجے کی کھنک ان کی اپنی ہے جس میں ان کے مزاج اور اندازِفکر کی جھلک نمایاں ہونے کے
باوجود ان کی آواز نامانوس معلوم نہیں ہوتی ہے۔وہ اپنے پڑھنے اور سننے والے اپنا گِرویدہ بنا لیتے ہیں۔ان کے یہاں ایسے شعر کافی تعداد میں ہیں جنھیں وہ زندگی کے بہت قریب جا کر لائے ہیں۔ دراصل وہ ایک ایسے شاعر ہیں جو نئی پرانی دونو ں نسلوں میں اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔نئی ٹیکنولوجی اور جدیدکمپیوٹرسے آراستہ ان کا دماغ ہمیشہ ایک نئی تعمیرمیں مصروف اور فعّال رہتا ہے۔ ہندوستانی ادبِ اردوشاعر، ادیب، صحافی اور خدمت گار کے روپ میں مسلم سلیم ہمیشہ صفِ اوّل میں رہیں گے ۔ ان کا موبائل نمبر
9893611323 اور ای۔میل پتہ saleemmuslim@gmail.com ہے جن پر ان سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
**********************************************************************
یادیں علی گڑھ کی از مسلم سلیم
علی گڑھ میری سانسوں میں بسا ہے
علی گڑھ میرے منہ سے بولتا ہے
جہاں جسکے سبب محوِ ثنا ہے
مجھے وہ سب علی گڑھ سے ملا ہے
دل اپنا چھوڑ آ یا ہوں وہاں میں
وطن بھوپال بے شک ہو گیا ہے
وہ میرس روڈ ہو یا قاضی پاڑہ
یہ دل اب بھی انھیں کو ڈھونڈتا ہے
گلی کوچوں میں اسکے آنا جانا
وہاں چوبیس برسوں تک رہا ہے
جو ایم۔اے۔او سے اے۔ایم۔ یو ہوا ہے
وہ سیّد کاثوابِ جاریہ ہے
اسے کہتے ہیں مسلم یونی ورسٹی
یہاں سے علم کا دریابہا ہے
سٹی اسکول کا بھی ذکر کردوں
کہ جواک درسگاہِ بے بہا ہے
یہیں پہلی غزل میں نے کہی تھی
یہیں سے میرے فن کی ابتدا ہے
اک ایم۔اے۔یو برانچ اسکول بھی تھا
جو اب تعلیمِ ِ نسواں دے رہا ہے
مرے استاد تھے قیوم صاحب
انھیں سے علم کا تحفہ ملا ہے
چلو اب بات کرلیں کیمپس کی
علاقہ یہ بہت ہی پر فضا ہے
بہاریں آرٹس فیکلٹی کی مسلم
انھیں سے باغِ جاں اب تک ہرا ہے
علی گڑھ سے ہمارے خانوادے کا رشتہ میرے پرنانا سید عبدالباقی سے شروع ہوا۔ وہ محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج کے ابتدائی ۵ طلبہ میں تھے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہیں برسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔میری والدہ بیگم امِّ حبیبہ سید عبدالباقی کے منجھلے صاحبز ادے سید عبدالاحد کی نورِ نظر تھیں۔ میرے والد ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے اپنے پھوپھا ڈاکٹر عطا اﷲ بٹ کے دولتخانہ ”بٹ کدہ © ©“ میں پرورش پاتے ہوئے طبیہ کالج سے تعلیم مکمل کی۔اسی دوران انکی شادی والدہ صاحبہ سے ہوئی۔ میری پیدائش کے وقت والدہ صاحبہ اپنے آبائی قصبہ شاہ آباد [ضلع ہردوئی۔اتر پردیش] گئی ہوئی تھ یں جہاں میں تولد ہوا۔ پیدائش سے ۴۲ برس تک میں علی گڑھ ہی میں رہا۔ میں ان خوش نصیب لوگوں میں ہوں جنہوں نے درجہ اوّل سے ہی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اسکولوں اے۔ ایم ۔ یو سٹی برانچ اسکول اور پھر سٹی ہائی اسکول میں تعلیم پائی۔ اے ایم یو برانچ اسکول قاضی پاڑہ میں بالکل گھر کے سامنے تھا۔
۳برس کی عمر میں والدہ نے وہاں کے اساتذہ خاص طور پر قیوم صاحب سے یہ کہہ کر داخلہ دلا دیا کہ” کھال آ پکی، ہڈیاں ہماری“۔ چنانچہ قیوم صاحب، خلیل صاحب وغیرہم نے علم کو مولیٰ بخش کے ذریعہ کھال کے اندر تک اتارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔کئی بار تو خلیل صاحب کے موٹے ڈنڈے نے میری ہتھیلی پر دم توڑ دیا اور شرم سے دو ٹکڑے ہو گیا۔قیوم صاحب جو قریب کے محلے کلاں محل(جو عرف عام میں کالا محل کہلاتا ہے)قیام کرتے تھے۔اسکول کے بعد گھر ٹیوشن پڑھانے آجاتے تھے۔مارتے تھے لیکن کم، پڑھاتے تھے لیکن اچھا۔انھیں کی رہنمائی میں ۵ و یں پاس کر لی۔
چھٹے درجے میں داخلہ ایم اے یو سٹی اسکول میں ہوا جو نمائش میدان کے نزدیک واقع ہے۔یہاں بھی والدہ نے ہڈی اور کھال کے مکالمہ کے ساتھ میرا داخلہ کرایا۔جسکے سبب کئی برسوں تک میری ہڈیاں کڑ کڑاتی رہیں۔یہاں کے اساتذہ نے تدریس کے ساتھ تادیب یعنی پٹائی کے منفرد طریقے ایجاد کر رکھے تھے۔ لیکن سبھی اساتذہ مخلص اور صلاح یت شناس تھے۔یہی وجہ ہے کہ رسمی تعلیم میں پھسڈی رہنے کے باوجودان اساتذہ نے میری قدرافزائی کی اور آٹھویں درجہ تک پہنچتے پہنچتے مجھے بیک وقت اسکول کرکٹ ٹیم کا کپتان اور ڈرامہ کلب کا سیکرےٹری بھی بنا دیا۔ مجھے بھی رسمی تعلیم کے سوا ہر چیز میں دلچسپی تھی۔
۸۶۹۱ کی بات ہے، ایک روز کسی سبب کرکٹ کی پریکٹس منسوخ ہو گئی۔میں ٹہلتا ہوا اسکول کے سامنے کی جانب آیا۔لائبر یری کے سامنے کافی بھیڑ تھی۔بتایا گیا کہ ڈبےٹ ہونے والی ہے۔میں نے کہا، ہم بھی حصہ لیں گے۔نام لکھوادیا۔موضوع تھا بہار میں قحط سالی ۔ ظاہر ہے میری پہلے سے کوئی تیاری نہیں تھی اور میں نے اس کے قبل کسی ڈبےٹ میں حصہ بھی نہیں لیا تھا۔پھر بھی مجھے دوسرا نعام ملا۔پہلا انعام راحت بن ح یرت نام کے ایک لڑکے کو ملا جسے اب لوگ اخترالواسع کے نام سے جانتے ہیں۔ہم بچوں کو ان کے نام پر بہت ح یرت ہوتی تھی کیوںکہ انکانام راحت بن حیرت اور والد کا نام حیرت بن واحد تھا۔
جب میں نے سٹی اسکول میں داخلہ لیا تھا تب اکرم صاحب ہیڈماسٹر تھے۔بے حد وجیہ اور اسمارٹ شخص تھے، سوٹ میں تو غضب کے لگتے تھے۔کینسر میں مبتلاءہوئے اور امریکہ میں ز یر علاج رہ کر اس موذی مرض پر بہادری سے فتح پائی۔آٹھو یں تک پہنچے پہنچتے عظیم الحق جنیدی صاحب ہیڈ ماسٹر بنے۔میں کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا۔کھلاڑیوں نے ورغلا دیا کہ لنچ پیکٹ کی رقم میں خرد برد ہوئی ہے۔میں ٹیم کو اسکول واپس لے کر آگیا۔ خوب نعرے بازی اور بحث ومباحثہ کیا۔جنیدی صاحب نے بات کو دل میں رکھ لیا۔کسی بہانے سے انھوں نے مجھے امتحان سے محروم کر دیا اور اس طرح اگلے برس بھی آٹھویں میں ہی پڑھنا پڑا۔وہ بھی اچھے انسان تھے۔مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں۔بہت ممکن ہے کہ میں نے اس معاملہ میں ضرورت سے زیادہ رد عمل کیا ہو۔ظاہر ہےکہ اس پھوہڑ حق گوئی کی کچھ قیمت تو مجھے ادا کرنی تھی۔
۰۷۹۱ ءمیں پری یونی ورسٹی میں داخلے لیا تو لگا ہی نہیں کہ کسی نئی جگہ آ گئے ہیں۔ کرکٹ اور مباحثوں کے سبب میں کیمپس میں ایک جانا پہجانا چہرہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے روا یتی انٹروڈکشن کے مرحلے سے بھی نہیں گذرنا پڑا۔ اس دوران کرکٹ اور شاعری کا دور تو جاری ہی رہا ساتھ ہی این آر ایس سی کلب رسل گنج اور مختلف ہاسٹلس کے کامن رومس میں رسائی کے سبب ٹیبل ٹینس اور شطرنج بھی ہابےز میں شامل ہوگئے اور کئی انعامات بھی دلوا گئے۔
بی اے میں داخلے کے بعد مزاج میں کچھ تبد یلی آئی۔ کرکٹ کھ یلنا کم ہو گیا۔ شاعری اور ادب کا جنون بڑھ گیا۔ بی اے میں سیاسیات میں آنرس اور اردو میں ۲۱ کرےڈٹ، فارسی میں آٹھ اور باقی کرےڈٹ معاشیات اور نفسیات میں تھے۔ اردو کی کلاس یں اٹینڈ کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کی طرف رجحان بڑھتا چلا گیا۔ اردو کے اساتذہ میں خلیل الرحمٰن اعظمی صاحب، نادِر علی صاحب، پروفیسر خورشید الاسلام صاحب، قاضی عبدالاستار صاحب اور شمیم حنفی صاحب خاص تھے۔ نادِر علی صاحب کا ایک جداگانہ انداز تھا۔ سفید چغعہ پرلمبی سیاہ ریش۔ ہماری کلاس میں لڑکیوں کی اکثر یت تھی۔ لڑکے کل چار تھے۔ انتہائی متشرع ہونے کے سبب نادِرعلی صاحب کلاس میں سارے وقت آنکھیں بند کئے رہتے تھے۔ درس کے دوران رک کر پوچھتے تھے”آپ لوگ سمجھ گئیں نا؟“ گویا کہ کلاس میں لڑکے ہوںہی نہیں۔ اسی دور میں اردو کے انٹرنل ٹےسٹ میں موضوع دیا گیا تھا ”سر سید بحیث یت نثر نگار“۔ میں نے سر سید کی نثر پر زبردست تنقید کرڈالی۔ پرچہ گرلز کالج کی کسی لکچرر نے جانچا تھا۔ ۰۱ میں سے چھ نمبر تو دئے لیکن نوٹ بھی لگا دیا کہ ” برائے مہربانی خیالات میں تبد یلی لائیں“۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر خیالات غلط تھے تو فرسٹ کلاس نمبر کس بات کے؟ اس مرحلے پر جناب بشیر بدرصاحب نے رہنمائی کی۔ انھوں نے کہا تمھیں اچھے نمبر اس لئے ملے ہیں کہ تم نے جو کچھ لکھا اس کی توقع بھی اس سطح کے طالبِ علم سے نہیں کی جاسکتی۔ جوابمیں تم نے اپنے ذاتی فہم و ادراک سے وہ باتیں لکھیں جو کتابوں میں درج نہیں ہیں۔ بش یر بدرصاحب ان دنوں ایم فل کر رہے تھے اور کچھ کلاس یں بھی ان کے ذمّے کی گئی تھیں۔
۲۷۹۱ ءمیں آرٹس فیکلٹی میں ایک مشاعرہ ہوا۔ وہاں میں نے اپنی ابتدائی غزل سنائی۔ جب میں اس شعر پر پہنچا ” میں بازار سے کافی پردے لایاہوں۔۔۔اب دیکھوں کیسے رسوائی ہوتی ہے“ تو خل یل الرحمٰن اعظمی صاحب اچھل پڑے اور اس وارفتگی سے داد دی کہ شرکائِ بزم کو بھی ان کی آواز سے آوازملانی پڑی (تب مجھے پتہ نہیں تھا کہ خل یل الرحمٰن اعظمی صاحب شعر و ادب کے کس اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ آج ان کی داد میرے لئے کسی بڑے ایوارڈ سےکم نہیں ہے) ۔ آرٹس فیکلٹی کے مشاعرے سے پہلے بشیر بدر صاحب کلا س میں مجھ سے کافی پریشان رہتے تھے کیوں کہ میں اکثر آو ¿ٹ آف سبجیکٹ سوال پوچھ لیا کرتا تھے جنکی تیار ی وہ کرکے نہیں آتے تھے۔ لیکن اس کے بعد سے وہ مجھے کافی چاہنے لگے تھے۔کلاس میں سب لڑکوں سے کہتے ”دیکھو مسلم سلیم بہترین شاعر ہے۔ آگے چل کر بہت نام کمائے گا“۔ اس کے بعد میں نے بشیر بدر صاحب کے ساتھ بالائے قلعہ (اوپر کوٹ) اور انونا ہاو ¿س جسے مقامات پر کئی شعری نشستوں میں حصہ لیا۔ اوپر کوٹ والے مشاعرے میں تو انھوں نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ اتفاقاً اس زمانے میں میرا قیام دددھ پور کی پان والی کوٹھی میں تھا۔ سامنے مزمل منزل کے کوارٹرس میں بش یر بدر صاحب بھی قیام پذ یر تھے۔ ان کے کمرے میں میں ، فرحت احساس، صلاح الدین پرویز، آشفتہ چنگیزی وغیرہ اکثر شام کے وقت جمع ہو جاتے تھے۔ ان کی مشہور غزل یں ”پتھر کے جگر والو“ اور ”خدا مجھکو ایسی خدائی نہ دے“ اسی دور کی تخلیقات ہیں۔ مجھ فخر ہے کہ میں ان لوگوں میں ہوں جنھوں نے بش یر بدر صاحب کی ان تخلیقات کو انکے ابتدائی مراحل میں نجی ملاقاتوںکے دوران سنا اور داد دی۔
بی اے سالِ دوم کے دوران قاضی پاڑے والے گھر پر ایک رات سخت بخار کے سبب نیند نہیں آرہی تھی۔قلم اٹھایا اور منتشر خیالات کو مجتمع کر کے لکھنا شروع کردیا جس سے ایک افسانہ وجود میں آیا ۔یہ قلم برداشتہ تحر یر بہت ہی مربوط تھی۔ میں نے افسانے کا عنوان رکھا ”ننگی سڑک پر“ رکھا۔ اتفاقاً انھیں دنوں یونی ورسٹی میں افسانوں کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ ساتھی طلبہ کے اسرار پر میں نے یہ افسانہ مقابلہ میں دے دیا۔ پہلا انعام شارق ادیب کو ملا اور مجھکو تیسرا۔ میرے لئے یہ بہت بڑا اعزاز تھا کیونکہ اس سے پہلے میں نے کوئی افسانہ نہیں لکھا تھا (بعد میں جب میں نے یہ افسانہ الہٰ آباد یونی ورسٹی میں پڑھا تو پروفیسر سید محمد عقیل رضوی نے اسے موپاساں کے ہم پلہ قرار دیا)۔ تقسیم اسناد عصمت چغتائی کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ افسوس کہ کسی سبب میں اس تقریب میں شامل نہ ہو سکا اور عصمت چغتائی سے بالمشافہ ملاقات سے محروم رہ گیا۔
گھر سے یونی ورسٹی ۶ یا ۷ کلو میٹر دور تھی۔ پیدل جاتا تھا۔ دن بھر وہیں گذرتا تھا۔ صبح کلاسوں ، دوپہر مولانا آزاد لایبر یری اور شام دوستوں کے باسٹلز یا پھر این آر اےس سی کلب میں۔ موسم گرما میں مولانا آزاد لایبری کا الگ ہی مزہ تھا کیونکہ وہ ان معدودے چند عمارتوں میں تھی جہاں جا بہ جا کولر لگے ہوئے تھے۔ لائبر یری میں داخل ہونے کا بعد بائیں ہاتھ پر سیڑھیاں ہیں۔پہلی منزل پر ایک سیکشن تھا جہاں طلبہ خود کتاب پسند کرکے نکال اور پڑھ سکتے تھے۔ میرا زیاد ہ تر وقت وہیں گذرتا تھا۔اسی سیکشن میں ایک روز ٹیچ یورسیلف بُک سیریز میں عربی سکھانے کی کتاب میرے ہاتھ لگی جس سے میں نے عربی الفاظ میں حروف کی بدلتی ہوئی ساخت پر دئے ہوئے چارٹ کو نقل کیا اور اس میں اردوکی مطابقت سے تبد یلیاں کیں۔ اس واقعہ سے کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ قاضی پاڑہ کے ایک ساکن ڈاکٹر غیور احد کا بیٹا عامر تےسری کلاس میں اردو میں دو سال سے فیل ہورہا تھا۔ انھوں نے نہ جانے مجھے کیا سمجھا کہ عامر کو ٹیوشن پڑھانے پر مامور کر دیا۔ اس چارٹ کے ذریعہ میں نے عامر کو پڑھایا تو وہ کلاس میں اول آیا۔ اب اس چارٹ کی افاد یت پرمیرا یقین پختہ ہو گیا۔اسی کی بنیاد پر بھوپال آکر میںنے روزنامہ آفتابِِ جدید میں اردو لکھنا خود سیکھئے عنوان سے روزانہ کالم لکھا۔ اس کی کتابت بھی میں خود کیا کرتا تھا۔ بعد میں میرٹھ اور جودھ پور کے دو لوگوں نے خط کے ذریعہ اسے کتابی شکل میں شایع کرنے کی اجازت طلب کی جسے میں نے منظوری دے دی۔ اس طرح میرا نام لئے بغیر ان لوگوں نے وہ اردو قاعدے شایع کئے۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے نام کو نہ سہی کام کو تو انھوں نے آّگے بڑھایا اور اردو کو اس کا فائدہ ملا۔
میں نے1893 میں سٹوڈینٹس یونین کا الیکشن بھی لڑا تھا۔ اس میں آج کے مشہور افسانہ نگارطارق چھتاری میرے پروموٹر تھے۔ میری لا پرواہی کے سبب چند ووٹوں شکست ہوگئی۔ پھر بھی اس سے فائدہ ہوا کیونکہ مقبول یت میں کافی اضافہ ہوا۔میرے نام کا پوسٹر جو آرٹس فیکلٹی کی انیکسی کی دیوار پر تقریباً دو منزل کی اونچائی تک لگایا گیا تھا، مسلم یونی ورسٹی کی تاریخ میں سب سے لمبا چوڑا پوسٹر تھا جو انتخابات کے کئی مہینوں بعد تک چسپاں رہا۔
۴۷۹میں میں نے ا یل ا یل بی میں داخلہ لیا۔ معاشی بحران کے سبب میں نے سر سید حال کینٹین میں منتظم کی ملازمت کر لی جو لا فیکلٹی سے متصل ہے۔ اس دور میں اردو کے کئی طلبہ جو بعد میں شعبہ ¿ اردو میں لکچرر بھی ہوئے کینٹین میں میرے اشعار پر داد کے بدلے مفت خوری کرکے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک صدرِشعبہ تک پہنچے ۔انھوں نے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔ میں نے غزل برائے اشاعت ارسال کی تو مشورہ دیا کہ موجودہ دور کے رجحان کے مطابق غزلیں کہوں اور غزل شائع نہیں کی۔کئی برس بعد ملاقات ہونے پر میں نے ان سے پوچھا کہ کینٹین کے زمانے میں تو ّآپ مجھ کو جدید یت کا بہترین شاعر بتاتے تھے ، اب کیا ہو گیا؟ تو مسکرا کر بولے ”وہ تو میں مذاق کرتا تھا“۔ غالباً ان کی تعریف آملیٹ، بریڈ، سوس اور چائے کے لئے تھی۔ اسی برس والدہ صاحبہ نے جو برادرِ کلاں کے پاس الہٰ آباد منتقل ہوگئی تھی، مجھے وہاں بلا بھیجا۔ کوئی بہن نہ ہونے کے باعث میں ہی والدہ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ اس لئے میں تعلیم نا مکمل چھوڑ کر الہٰ ّآباد منتقل ہوگیا اور وہاں سے عربی میں ایم اے کیا۔ جب والدہ اور بھائی بھوپال منتقل ہوئے تو میں بھی یہاں چلا آیا۔ اور یہیں کا ہو رہا۔
چلتے چلتے میں علی گڑھ کی ان دو عظیم شخصیات کا ذکر دوں جن کا مجھ پر گہرا اثر مرتب ہو ا ہے۔ ان میں ڈاکٹر عطاءا ﷲ بٹ اور جناب سید عبدالاحد شامل ہیں۔ ڈاکٹر عطاءا ﷲ بٹ صاحب امراضِ چشم کے معالج تھے اور جرمنی سے ایم۔ڈی کی سند حاصل کی تھی۔ مسلم یونی ورسٹی کے عمائدین ان کی قابلیت سے از حد متاثر تھے۔ اسی لئے انھیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی طبّیہ کا لج کا موسّس پرنسپل مقرر کیا۔ میرس روڈ چوراہے پر ڈاکٹر صاحب کو کئی ایکڑ کا رہائشی پلاٹ دیا گیا جس پر انھوں نے عالی شان کوٹھی ”بٹ کدہ“ تعمیر کی ۔ میری دادی محترمہ فخرالسادات ا یران کے قاجاری خاندان کی شاہزادی تھیں۔ دادا بینک آف تہران میں جنرل منیجر تھے۔ وہیں والد صاحب ڈاکٹر سلیم واحد سیلم اور پھوپھیاں اختر نذ یر صاحبہ اور شمسی بےگم تولد ہوئیں۔ ان لوگوں کی مادری زبان فارسی اور ثانوی تعلیم کی زبان فرانسےسی تھی۔والد صاحب ۱۱ برس کے تھے کہ محترمہ فخرالسادات انتقال فرما گئیں۔ تب ڈاکٹر عطاءا ﷲ بٹ صاحب والد صاحب کو تعلیم اور پرورش کے لئے علی گڑھ لے آئے جب کہ پھوپھیوں کی پرورش کی ذمہ داری لاہور میں ان کے چچا ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے اٹھائی۔ بے انتہا امیری کے با وصف ڈاکٹر عطاءا ﷲ بٹ صاحب کا مزاج قلندرانہ تھا اور وہ بالکل عام انسان کی طرح رہتے تھے۔ کار کے متحمل ہونے کے باوجود انھوں نے ہمیشہ سائیکل سواری کی۔ بنگلہ بھی انھوں نے خود نہیں بلکہ کسی معتقد نے بنواکر دیا تھا۔ غریب پرور اور سخی تھے۔ خوش مزاجی اور بذلہ سنجی ان کے جوہر تھے۔
جناب سید عبدالاحد نے علی گڑھ سے بی۔اے پاس کیا تھا اور علی گڑھ بک ڈپو میں منیجر ہو گئے تھے۔ بہترین کریکٹر تھے۔ سکسر مارنے میں تو ایکسپرٹ تھے۔ میچ کے دوارن تماشائی جدھر سے آواز لگاتے، ادھر سکسر ماردیتے تھے۔ ان کے سکسر بہت لمبے ہوتے تھے اور اکثر ویلنگڈن پویلین کی چھت کے اوپرسے ہوتے ہوئے باہر سڑک پر گرتے تھے۔دوارانِ تعلیم نواب کوروائی جناب سرور علی خان جناب سید عبدالاحد کے ہم درجہ تھے۔ کوروائی میں تاجپوشی کے بعد انھوں نے جناب عبدالاحد کو اپنا اے۔ڈی۔جی نامزد کیا۔ نانا محترم بین الریاستی کرکٹ میچوں میں بھی کوروائی کا پرچم بلند کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ علی گڑھ آگئے اور قاضی پاڑہ ہی میں مقیم رہے۔ مجھ میں شاعری کا شوق انھیں کی رہمنائی سے پروان چڑھا۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی وہ مجھے مشاہیر کے چیدہ اشعار مع تشریح سناتے اور میری تربیت فرماتے تھے۔ غالباً انھوں نے مجھ میں چھپے شاعر اور ادیب کو پہچان لیا تھا۔
ان دونوں عظیم شخصیات کو خراجِ عقیدت کے بطور میں نے اپنے بےٹوں کے نام عطا ءاﷲ فیضان اور عبدالاحد فرحان رکھے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ دونوں بچے بھی اپنے ہم نام اسلاف کا نام روشن کرنے کی راہ پر گامزن ہیں
No comments:
Post a Comment