Monday, October 28, 2013

Tarique Mohiuddin tribute to Muslim Saleem


NAZR-E-MUSLIM SALEEM SB TARIQUE MUHIUDDNTARIQUE MOHIUDDIN’S TRIBUTE TO MUSLIM SALEEM
YEH WAQT, YEH ZAMANA HAI MUSLIN SALEEM KA,
AB HAR TARAF FASAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
KHANJAR KI NOK PER BHI YEH KAHTE HAIN HAQ KI BAAT,
HAR SHER QAATILAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
SAUDA, ZAFAR KE, ZAUQ KE SAB MU’TARIF HOYE,
HAR SHAKHS AB DEEWAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
QAARI KE DIL MAIN SEEDHI UTARTI HAI UNKI BAAT
WO RANG SHAYERANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
TAKH’EEL UNKI AUJ-E-SURAYYA SE HAI BULAND,
IK RANG AARIFAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
SADQE SALEEM WAHID* O ABDUL HAKEEM* KAY
ILM-O-ADAB GHARAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
TARIQUE KO ISHTIYAAQ-E-MULAQAAT HAI BAHUT
MADDAH GHAIBAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
++++++++++++++
1. Saleem Wahid* = Dr. Saleem Wahid Saleem waalid-e-mohtaram Muslim Saleem sb aur Khayyam-e-nau ke khaliq
2.  Abdul Hakim* = Dr. Khalifa Abdul Hakim = Dr. Saleem Wahid Saleem kea mm jinhon nay Fikr-e-Iqbal sameet Urdu main darjanon kitaaben tasneef keen.

NAZR-E-MUSLIM SALEEM SAHEB: AHMAD ALI KHA, RIYAD, SAUDI ARABIA

NAZR-E-MUSLIM SALEEM SAHEB: AHMAD ALI KHA, RIYAD, SAUDI ARABIA

Ahmad Ali Khan Muslim Saleem 3 HAR KAS-O-NAA KAS KO KAB MILTA HAI SHUHRAT KAA MAQAAM,,

KHIDMAT-E-URDU SAY PAAYA HAI YEH AZMAT KAA MAQAAM,,

DIL MAIN GHAR KAR LETE HAI, AISA HAI IZZAT KA MAQAAM

IS KAY AAGE KUCHH NAHEEN HAI JAAH-O-HASHMAT KA MAQAAM

RAAJ KARTI HAI DILON PAR GO NAHEEN HAIN TAKHT-O-TAAJ

KAM NAHEEN SHAHI SAY KUCHH BE-LAUS KHIDMAT KA MAQAAM

FIKR-O-FUN INSAAN KE CHHOO SAKTI KAISE AASMAN

SOCHIYE TO FIL HAQEEQAT HAI YEH HAIRAT KA MAQAAM

MERI QISMAT DEKHIYE HAIN RAHNUMA MUSLIM SALEEM

MAIN JAHAAN HOON AAJ AHMED, HAI SAADAT KA MAQAAM

Tuesday, October 22, 2013

NAZRANA-E-AQEEDAT BA-KHIDMAT MOHTARAM MUSLIM SALEEM SB : Tarique Muhiuddin, Patna India


Ik meer-e-kaarwaaN hain, adab ke hainshahsawaar

Baagh-e-sukhan hai jin ke sabab aaj laalazaar

Har soo jahaan mein chalti hai unki higuftugoo

Phailee hi unke kaam ki shohrat bhi chaarsoo.

Posheeda jo adab main hai sab hoga be-naqaab

Aflak pay hua hai namoodaar Aaftaab.

Unke hi dar pe meri jabeeN jhuk rahi haikyooN

Qadmon pay unke jaa ke nazar ruk rahi haikyooN

Urdu zabaaN mein ek dhadakta hua hai dil

Gulhaay-e-rang-o-boo ka haishehkaar-e-mustaqil.

Thursday, October 17, 2013

‎YADEN ALIGARH KI @@ MUSLIM SALEEM

یادیں علی گڑھ کی از مسلم سلیم
  • علی گڑھ میری سانسوں میں بسا ہے/؍ علی گڑھ میرے منہ سے بولتا ہے ؍/ جہاں جسکے سبب محوِ ثنا ہے ؍/ مجھے وہ سب علی گڑھ سے ملا ہے/ ؍ دل اپنا چھوڑ آیا ہوں وہاں میں/ ؍ وطن بھوپال بے شک ہو گیا ہے/ ؍ وہ میرس روڈ ہو یا قاضی پاڑہ ؍/ یہ دل اب بھی انھیں کو ڈھونڈتا ہے/ ؍ گلی کوچوں میں اسکے آنا جانا وہاں چوبیس برسوں تک رہا ہے/ ؍ جو ایم۔اے۔او سے اے۔ایم۔یو ہوا ہے/ ؍ وہ سیّد کاثوابِ جاریہ ہے/ ؍ اسے کہتے ہیں مسلم یونی ورسٹی/ ؍ یہاں سے علم کادریا بہا ہے/ ؍ سٹی اسکول کا بھی ذکر کردوں/ ؍ کہ جواک درسگاہِ بے بہا ہے/ ؍ یہیں پہلی غزل میں نے کہی تھی/ ؍ یہیں سے میرے فن کی ابتدا ہے /؍ اک ایم۔اے۔یو برانچ اسکول بھی تھا/ ؍ جو اب تعلیمِ نسواں دے رہا ہے/ ؍ مرے استاد تھے قیّوم صاحب/ ؍ انھیں سے علم کا تحفہ ملا ہے/ ؍چلو اب بات کرلیں کیمپس کی/ ؍ علاقہ یہ بہت ہی پر فضا ہے/ ؍ بہاریں آرٹس فیکلٹی کی مسلمؔ/
    ؍ انھیں سے باغِ جاں اب تک ہرا ہے۔

    علی گڑھ سے ہمارے خانوادے کا رشتہ میرے پرنانا سید عبدالباقی سے شروع ہوا۔ وہ محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج کے ابتدائی ۵ طلبہ میں تھے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہیں برسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔میری والدہ

Saturday, October 12, 2013

SULMAN SADDIQUE’S TRIBUTE TO MUSLIM SALEEM


Sulman Saddique is an upcoming Urdu poet from Sialkot, Pakistan. He posted a qata on his facebook timeline recently. I came to know about it through another friend Anjum Bashrich sb several days later. Here is the qata:-

KHIDMAT-E-URDU HAI RAAH-E-MUSTAQEEM

ILM KA DARYA HAIN, LEHJA BHI HALEEM

SHAIRI AUR ZAAT DONON HAIN AZEEM

MOHTARAM WO DOST HAIN MUSLIM SALEEM


Friday, October 11, 2013

Muslim Saleem ki ghazal "qamat-o-qad" par sheri wa nasri tabsire


                                                           Muslim Saleem - ghazal

دریا ہے رواں خوں کا مرے قامت و قد میں
لے جانا لہو جب بھی کمی پاؤ رسد میں

کمرے میں ہوس کو تو چھپا سکتے ہو لیکن
یہ عشق ہے اور عشق ٹھہرتا نہیں حد میں

اک وہ ہی نہیں شہر میں مجرم تو بہت تھے
بس یہ ہے کہ وہ آگیا الزام کی زد میں

کیا اس نے چھپا رکھا ہے ہمدردی کے پیچھے
بو گل کی تو ہرگز نہیں گل پوش مدد میں

سرخی سے دمکنے لگا اشعار کا چہرہ
کچھ خون کیا صرف جو اظہار کی مد میں

تخلیق تو خود اپنی سند ہوتی ہے مسلم
نادان ہیں وہ لوگ جو الجھے ہیں سند میں
************ **************************************************
Facebook comments
**************************************************************
· 
· 
مسلم ہے بڑا پہلے ہی سے قامت و قد میں ۔ ۔ ۔ ۔
اب اور کیا ٹھہرائوں اسے منصب و حد میں ۔ ۔ ۔

۔میں بزم سخن میں اسے تسلیم کروں گا۔ ۔ ۔۔ ۔
آجائوں بلا سے کسی الزام کی زد میں ۔ ۔ ۔ ۔

Monday, October 7, 2013

Dr. Saleem Wahid Saleem Wahid Saleem sb ki ghazal par manzoom wa mansoor tabsire

  • ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی غزل پر اہلِ نظر کے منظوم و منثور تبصرے

    جناب مسلم سلیم صاحب ! والدِ محترم کی شاہکار غزل زیرِ نظر ہے ، اس قدر پائے کی اور خوبصورت غزل پر مجھ جیسے طفلِ مکتب کا کچھ کہنا چھٹا منہ اور بڑی بات کے مصداق ہوگا تاہم میں اسے پڑھ کر بہت متاثر ہوا اور جو میرے دلی جزبات و کیفیات تھے انہیں میں فی البیہہ منظوم کر رہا ہوں قبول فرمایئے گ
    ا
    ۔ ’’ نذر انہ۶ عقیدت بحضور ڈاکٹر سلیم واحد سلیم مرحوم و مغفور ‘

    ‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلیم واحد کی شاعری میں کمالِ فن بھی ہے زندگی بھی ۔ ۔ ۔ ۔
    نحسین خود تھے، سجی ہوئی ہے حسین رنگوں سے شاعری بھی ۔ ۔ ۔

Sunday, October 6, 2013

Dr Saleem Wahid Saleem - ghazal - Subh-e-shaam-e-alam

صبحِ شامِ الم
ڈاکٹر سلیمؔ واحد سلیم (والدِمحترم مسلمؔ سلیم)
کبھی ہیں گریاں کبھی ہیں خنداں کبھی ہے غم تو کبھی خوشی بھی
ہزار رنگوں میں رنگِ دنیا ہے زندگی کی ہما ہمی بھی
کچھ اس طرح سے گذر رہی ہے کچھ اس طرح سے گذر گئی بھی
کہ ہم نے رو رو کے شام کر دی جو صبحِ شامِ الم ہوئی بھی

وہ آج اس طرح یاد آئے کہ دل کو غم بھی ہے اور خوشی بھی
کرم بھی یاد آرہے ہیں ان کے نظر میں ہے ان کی برہمی بھی
ثبات غم کو نہیں میسر تو عارضی ہے شگفتگی بھی
ہمیشہ باقی نہیں رہیں گے مرا الم بھی تری خوشی بھی

ہیں جتنے خم سب کے سب پلادے شراب خانے میں مأ بہا دے
جب آج پینے پہ آگئے ہیں تو کیوں نہ پی لیں رہی سہی بھی
بچھڑ گئے جب تو یاد آیا بچھڑ ہی جانا تھا ہم کو اک دن
ہم اس طرح سے جدا بھی ہوں گے یہ دل نے سوچا نہ تھا کبھی بھی

وہی ہیں جانِ قرار و تسکیں جنھوں نے صبر و قرار لوٹا
غمِ محبت تری دہائی کہ رہزنی بھی ہے رہبری بھی
حدودِ منزل سے بڑھ گئے ہیں خیال ِ منزل میں بارہا ہم
سلیم ؔ منزل بکف رہی ہے ہماری ہر ایک گمرہی بھی


Friday, October 4, 2013

مسلم سلیم - ۲۱ویں صدی کا شاعر Muslim Saleem ----Ikkeesween Sadi ka Shair


مسلم سلیم - ۲۱ویں صدی کا شاعر
از ڈاکٹر شہزاد رضوی۔۔۔۔سابق پروفیسر ، واشنگٹن ، ڈی ۔سی ، یو۔ایس ۔اے
               ایک دن اچانک انٹرنیٹ سرفنگ کے دوران میری نگاہ ایک ویب سائٹ muslimsaleem.wordpress.com پر ٹھہر گئی ۔ یہ بھوپال میں مقیم شاعر ، افسانہ نگار اور صحافی مسلم سلیم کی ویب سائٹ تھی۔ میں کئی گھنٹوں تک اس بلاگ کی سرفنگ کرتا رہا۔ اس میں مسلم سلیم نے صرف اپنی شاعری اور شخصیت کے بارے میں ہی نہیں لکھا بلکہ اردو دنیا کے ہزار ہا شعراء و ادبا کی مختلف ڈائریکٹریز ترتیب دے کر تعارف و تصاویر پوسٹ کی ہیں۔ میرے نزدیک اردو دنیا میں اتنا بڑا کام پہلے کبھی نہیں ہوا۔ بعد میں پتہ چلا کہ مسلم سلیم نے khojkhabarnews.com, muslimsaleem.blogspot.com, poetswriters.blogspot.com, اور کئی دیگر ویب سائٹس کے ذریعہ بھی اردو کے اس بیش بہا اور مخلصانہ خدمت کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ بہر حال اس تحریر سے مسلم سلیم کی ویب سائیٹس کی تعریف مقصود نہیں بلکہ ان کی اس شاعری سے ہے جسکا بیشتر حصہ ۲۰ ویں صدی میں خلق ہوا لیکن جسے بجا طور پر ۲۱ویں صدی بلکہ اس سے بھی آگے کی شاعری کہا جا سکتا ہے۔
میں ان کی شاعری کے اس جدید لب و لہجہ سے اس قدر متاثر ہواکہ میں نے انٹرنیٹ پر انگریزی میں مسلم سلیم کی شاعری پر نہ صرف سیر حاصل مضامین تحریر کئے بلکہ ان کی کئی غزلوں کا انگریزی ترجمہ ء کل انٹر نیٹ پر پوسٹ کیا۔ میں نے اپنے ۲۴ اپریل، ۲۰۱۱ کے مضمون Muslim Saleem and revelation of his art میں لکھا تھا ’’ اگر بین الاقوامی اردو حلقہ مسلم سلیم کی شاعری کا حظ اٹھانے سے محروم رہ گیا تو یہ ایک از حد شرمناک بات ہوگی۔ مسلم سلیم شاعری برائے شاعری کے قائل نہیں۔ اور تبھی قلم اٹھاتے ہیں جب ان کے سینے میں موجزن جذبات ان کو تحریک دیتے ہیں اور وہ گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کے بحرانات و تجربات کو اس تحریک کی کڑی میں خوبصورتی اورچابکدستی سے پروتے چلے جاتے ہیں۔مسلم سلیم کے اشعارکو سرسری طور پر لینے والا خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اس کے عمق سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ زندگی بھر اسٹڈی روم میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے والے جو سرد و گرم زمانہ چشیدہ نہ ہوں مسلم سلیم کی شاعری کی depth تک پہنچنے میں ہو سکتا ہے کہ ناکام ہو جائیں لیکن ہم جیسے لوگ جو زبردست جدو جہد کے بعد امریکہ، یوروپ، اور دیگر بیرونی ممالک میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں، مسلم سلیم کے فن اورتجربے کی گہرائی کو مسmiss نہیں کر سکتے۔‘‘
                اس سے قبل میں نے ۱۰ اپریل ،۲۰۱۱ کو تحریر کردہ اپنے مضمون Muslim Saleem:An Analysis میں مسلم سلیم کے بارے میں لکھا تھا۔
’’ مسلم سلیم کا تعلق اس نسل سے ہے جو آزادئ ہند کے فوراً بعد وجود میں آئی تھی ۔ تلاشِ ذات اس نسل کا سب سے اہم مسئلہ تھا اور اسکے لئے لمحہۂ فکریہ یہ تھا کہ برق رفتاری سے گزرتی جا رہی ۲۰ویں صدی میں وہ کیا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی وہ دور تھا جب مسلم سلیم پہلے علی گڑھ اور پھر الہٰ آباد یونیورسٹی میں اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور ہندی کی اپنی صلاحیتوں کو جلاِ دے رہے تھے۔ تحصیل علم کے دوران ہی مسلم سلیم نے معاشرہ کی انہی نئی لہروں کی اپنی شاعری اور افسانوں کا ایجنڈا بنا لیا تھا۔ گزشتہ ۳۰ برس کو دوران انگریزی، اردو اور ہندی میں صحافت سے ان کے قلم کی کاٹ اور بھی گہری ہو گئی ہے۔‘‘ ؂
میں اس مضمون میں مسلم سلیم کے اشعارصرف چند اشعار نقل کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی میرے خیالات سے متفق ہو جائیں گے۔ مسلم سلیم کو استعاروں اور علامتوں پر جو عبور حاصل ہے اس سے ان کی شاعری ازحد تہہ دار ہوگئی ہے۔ ایک ہی شعر سے معنیٰ و مفہوم کے سوتے پھوٹے پڑتے ہیں۔ ؂
دھوپ میں دیوار بھی تھی کسکو تھا اسکا خیال

 استفادہ ساےۂِ دیوار سے سب نے کیا
یہ اس شخص کے المیہ اور بے چارگی کا پر اثر بیان ہے جس سے ایک زمانہ مستفید ہوتا ہے لیکن یا تو اس ایثار سے بے خبر ہے یا دیدہ ؤ دانستہ اس کی داد نہیں دیتا کہ اس نے لوگوں کو آلام و مصائب سے محفوظ رکھنے کے لئے آفات و کرب کا کس قدر سامنا کیا ہے اور وہ بھی کوئی شکوہ زبان پر لائے بغیر۔احسان ناشناسی اور بے قدری ہمارے دور کا ایک بڑا المیہ ہے اور غزل کے دو مصرعوں میں اسے اتنی چابکدستی اور فنّی مہارت کے ساتھ نظم کرنے پر مسلم سلیم بے شک داد کے مستحق ہیں۔ ؂

بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کا
۔۔۔۔ نشو و نما نہ روکئے، سایہ نہ کیجئے
ایک بار پھر دھوپ اور سایہ کی علامتیں ایک بہترین شعر کی تخلیق میں ممد ہوئی ہیں۔ جدوجہد اور تجربات و حوادث زندگی میں آگے بڑھتے رہنے اور اسے سنوارنے کے لئے از حد ضروری ہیں۔ ضرورت سے زیادہ پدری یا مادری شفقت میں پلنے والے بچے زندگی میں ذہنی و شخصی ارتقاء کی کئی منازل طے کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس لئے تجربے ان کے لئے تریاق اور سایہ سنگِ راہ ہے۔ یہ مضمون غزل کے پیرائے میں مسلم سلیم سے پہلے کسی نے نہیں باندھا ہے۔ ؂
تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گے۔۔۔۔۔ میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
اس شعر میں دھوپ کا لفظ تو نہیں لیکن اس کا شدید احساس موجود ہے۔ سایہ اور دیوار مل کر پھر جادو جگاتے ہیں اور ایک المیہ اے حسین پیرائے میں بیان ہو جاتا ہے۔ شاعر ایک ایسے شخص کی کیفےئات کو بیان کرتا ہے جو مسلسل طور پر اخوت، شفقت، دوستی اور کرم سے محروم ہے۔ یہ احساسِ محرومی تب اور بھی بڑھ جاتا ہے جب وہ کسی ایسے شخص کی طرف بڑھنے کی سعی کرتا ہے جس میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس شخص سے کچھ استفادہ کر سکے وہ شخص کوچ کر جاتا ہے اور طالبِ فیض تشنہ کا تشنہ رہ جاتا ہے۔ ؂
سائباں ساتھ کس کے چلے ہیں ۔۔۔۔۔پھر وہی دھوپ تھی، قافلہ تھا
قافلۂِ ذات کو تجربات و حوادث کی تیز دھوپ میں چلتے ہی رہنا پڑتا ہے کیونکہ محافظت اور تسکین دینے والے ایک حد تک ہی ساتھ دے سکتے ہیں اور رہگزارِ زیست میں ان سے صرف اسی قدر مستفید ہوا جاسکتا ہے جس طرح راہ میں کوئی سائبان یا کوئی سایہ مل جائے اور انسان کچھ دیر وہاں رک کر آرام کر لے۔ آگے کا سفر تو اسے سائبان سے آگے بڑھکر صعوبتوں اور دشواریوں کو جھیل کر ہی طے کرنا پڑیگا۔
یہ اشعار میں نے مسلم سلیم کے گذشتہ مجموعہ آمد آمد سے لئے تھے۔ اب میں ان کے زیرِ نظر مجموعہ سے منتخب چند تاریخ ساز اشعار کی نشاندہی کر رہا ہوں۔
بہار لائے تھے یہ انکا احترام کرو۔۔۔۔خزاں رسیدہ درختوں کو بھی سلام کرو
پاس ہو کے بھی ہم سے وہ خفا خفا سا ہے ۔۔۔۔۔دوریاں ہیں میلوں کی فاصلہ ذرا سا ہے
رنگ آتے جاتے ہیں کتنے اسکے چہرے پر۔۔۔۔۔حسن اسکا اب دیکھو جب کہ وہ خفا سا ہے
اس لئے جیت کر ہر اک میداں بڑھ گئے رزم گاہ سے آگے۔۔۔۔ہم نے اپنی نگاہ رکھی تھی دشمنوں کی نگاہ سے آگے
پہلے تھا ملک میں بس اک ظالم سب جسے بادشاہ کہتے تھے۔۔۔۔اب تو اپنے ہیں سینکڑوں آقا ظلم میں عالی جاہ سے آگے
کس قدر پانی ہے پہلے اس کا اندازہ کیا۔۔۔۔۔بند پھر اپنی مدد کا اس نے دروازہ کیا
دہکتی ریت پر پھر میں نے دیکھا۔۔۔۔سمندر میری ٹھوکر سے نکلنا
قوم کی زبوں حالی پر بھی مسلمؔ سلیم نے بے حد چابک دستی سے روشنی ڈالی ہے:۔
یاد ہے سارا جہاں بھول گئے ہیں خود کو۔۔۔۔۔سوچتے ہیں کہ کہاں بھول گئے ہیں خود کو
جیت لے گا ہمیں دشمن بڑی آسانی سے۔۔۔۔۔ہو گیا سب پہ عیاں بھول گئے ہیں خود کو
زیرِ نظر مجموعے میں مسلمؔ سلیم نے دہشت گردی کے خلاف کافی موثر اشعار شامل کئے ہیں۔یہاں میں اس موضوع پر انکی ایک مکمل غزال نما نظم نقل کر رہا ہوں:
ہو اگر عاجز تو پھر حاجت روا بنتے ہو کیوں۔۔۔۔کام ہے یہ تو خدا کا تم خدا بنتے ہو کیوں
درسِ رحمت بھول کر کیوں بن گئے بیدادگر۔۔۔۔۔سب کے حق میں پیکرِ جوروجفا بنتے ہو کیوں
ہر قدم کج فہمیاں ہیں، ہر قدم گمراہیاں۔۔۔۔۔حق شناس و حق نگر اور حق نما بنتے ہو کیوں
ہو اگر مقدور رکھّو ساتھ کوئی راہبر۔۔۔۔۔راہ گم گشتہ عزیزو! رہمنا بنتے ہو کیوں
فرض مسلمؔ پر قیامِ امن ہے یہ جان لو ۔۔۔۔۔۔یوں کھلونا بے جہت جذبات کا بنتے ہو کیوں
اسی موضوع پر چند اور اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت۔۔۔۔دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
بھرے گا پیکرِ تصویر میںِ خوں ۔۔۔۔۔محبت کا وہ منظر سے نکلنا
بہشت ملتی ہے دہشت سے اور تشدّد سے ۔۔۔۔۔نکال ڈالے دماغوں سے یہ سنک کوئی
اڑا کے اوروں کو خود کو بھی مار لیتے ہیں۔۔۔۔۔وہ سوچتے ہیں کہ اس میں ثواب ہوتا ہے
اے کشت و خون کے داعی ذرا بتا تو سہی ۔۔۔۔۔کہ ان دھماکوں سے کیا انقلاب ہوتا ہے
اس مجموعہ میں رومانی شاعری اور قطعات کی شمولیت بھی معنی خیز ہے کیونکہ پہلے مجموعے میں ان کی تعداد برائے نام تھیْ وہ مجھ کو سمجھنے میں جو ناکام رہا ہے ۔ ۔۔۔ ۔ خود مجھ پہ ہی اس جرم کا الزام رہا ہے
یہ جسم کرتا ہے اکثر بہت سوال تر۱ ۔۔۔ ۔۔ رگوں میں دوڑنے لگتا ہے جب خیال ترا
قدم بچا کے رکھوں میں اگر تو کیسے رکھوں ۔ ۔۔۔ہر ایک سمت تو پھیلا ہوا ہے جال ترا
تب مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے مخمل یاد کا ۔۔ ۔۔۔ سر پہ جب سایہ فگن ہوتا ہے بادل یاد کا
جان و دل میں جب مہک اٹھتا ہے صندل یاد کا۔۔۔۔ سو غموں کو دور کر دیتا ہے اک پل یاد کا
آج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے ۔۔۔۔۔ڈائری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے
ایسے ماضی کی پھواروں میں شرابور ہوئے۔۔۔۔ جیسے بچہ کوئی بارش میں نہانے نکلے
رات بھر چنتے ہیں اکثر لعل و گوہر خواب کے۔۔۔صبحدم روتے ہیں ہم ٹکڑے اٹھا کر خواب کے
خواب کی جانب چلے پیغام لے کر خواب کے۔۔۔۔یوں اڑے دل کی منڈیروں سے کبوتر خواب کے
جان و دل اپنے ہیں صدقے اس منور خواب کے ۔۔۔۔۔جاگتی آنکھوں میں رہنے دو وہ منظر خواب کے
مسلم سلیم نے مغربی ممالک اور میڈیا کی فحاشی اور غلط بیانی کا راز بھی فاش کیا ہے:
مغربی بازاریت کی دین یہ ہیجان ہے۔۔۔۔۔حسنِ نسواں اب فقط تفریح کا سامان ہے
مکر آرائش ہے اسکی،جھوٹ اسکی شان ہے۔۔۔۔۔مت بہک جانا، یہ گورا میڈیا شیطان ہے
خود تو گویا قتل و غارت، ظلم سے انجان ہے۔۔۔۔۔ ہر برائی کے لئے اسلام پر بہتان ہے
اُس کی ہرزہ گوئیوں پر مہرِ استحسان ہے ۔۔۔۔۔۔ ہم نے گر کچھ کہہ دیا تو ہر طرف طوفان ہے
حق پہ جینا ، حق پہ مر مٹنا ہی اسکی شان ہے۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے دہر میں مسلم ہی بس انسان ہے
مسلم سلیم کا تقریباً ہر شعر ایسی ہی تہہ داریوں سے مملو ہے اس کے لئے ایک علیحدہ کتاب درکار ہے اور اس مضمون کی طوالت کے خوف سے میں اسے یہیں ختم کرتا ہوں لیکن چلتے چلتے ایک بار پھر میں مسلم سلیم کی اردو ویب سائٹس اور ویب ڈائریکٹریز کا ذکر کروں گا اور یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گا کہ اس کارنامہ کے سبب مسلم سلیم کو بابائے اردو مولوی عبدالحق کے پائے کی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔