کیجئے اب کچھ برائے دوستی
روح پرور ہے نوائے دوستی
ہے کوئی اس پر کہے لبیک جو
دے رہا ہوں میں صدائے دوستی
لوحِ دل پر نقش ہے اب وہ مری
زیبِ تن ہے جو قبائے دوستی
دشمنی ہو جائے بے نام و نشاں
کاش ہو ایسی فضائے دوستی
ہو میسر وہ چمن سب کو جہاں
چلتی ہو ہر سو ہوائے دوستی
امنِ عالم کے لئے ہو سازگار
ابتدا و انتہائے دوستی
خواہشِ دیرینہ برقی کی ہے یہ
سر پہ ہو سب کے ردائے دوستی
No comments:
Post a Comment